حزب اللہ مقاومت کی ناقابلِ شکست قوّت
تحریر: امداد علی گھلو
حزب اللہ لبنان کی مقاومت کی تاریخ کسی وضاحت کی محتاج نہیں ہے۔ یہ محض ایک عسکری تنظیم نہیں، بلکہ ایک فکر، نظریہ، معنوی جذبہ اور پاکیزہ سرفروشی کی مثال ہے، جو مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکی ہے۔ سید حسن نصر اللہ کی قیادت میں، حزب اللہ نے اپنی تنظیمی اور انتظامی صلاحیتوں کو ایسی ناقابل شکست قوت میں ڈھالا ہے جو ہر قسم کے دشمن سے مقابلہ کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔
حزب اللہ کے تنظیمی ڈھانچے کی مضبوطی اس کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ ایک منظم اور مربوط قیادت، جو اپنی جڑوں کو کافی حد تک پھیلا اور عمیق کر چکی ہے، اس مزاحمتی تنظیم کی بنیادوں میں مضمر ہے۔ اس ڈھانچے میں ہر رکن ایک خاص مقام رکھتا ہے، اور یہ سسٹم ایسے انداز میں کام کرتا ہے کہ کسی بھی رہنما یا فرد کا نقصان تنظیم کی کارکردگی پر کم سے کم اثر ڈالے۔
تنظیم کی صلاحیت اس کی متنوّع طاقتوں میں مضمر ہے: ایک طرف اس کی عسکری قوّت ہے، جو اپنے مخصوص ہتھیاروں اور جنگی حکمت عملیوں پر مشتمل ہے، تو دوسری طرف عوامی حمایت کا ایسا وسیع نیٹ ورک ہے جو حزب اللہ کو غیر معمولی طاقت بخشتا ہے۔ سیدِ مقاومت حسن نصر اللہ کی قیادت میں حزب اللہ نے ثابت کیا کہ کسی بھی بیرونی طاقت کے سامنے سر نہیں جھکایا جا سکتا، چاہے وہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔ 2006 کی جنگ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ اسرائیل جیسے طاقتور ناسور کو بھی حزب اللہ نے نہ صرف میدانِ جنگ میں روک دیا بلکہ اس کے منصوبے ناکام بنا دیے۔
حزب اللہ کا تنظیمی ڈھانچہ اس حد تک مضبوط ہے کہ ہر محاذ پر دشمن کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی حکمتِ عملی نے نہ صرف عسکری سطح پر کامیابیاں حاصل کیں بلکہ سیاسی میدان اور اجتماعی امور میں بھی حزب اللہ نے خود کو ایک طاقتور فورس کے طور پر منوایا۔ ان کی کامیابیاں محض میدان جنگ تک محدود نہیں رہیں، بلکہ لبنان کی سیاست میں بھی ایک اہم کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ سید حسن نصر اللہ کی مدبرانہ قیادت میں حزب اللہ نے اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے ثابت کیا کہ یہ تنظیم اپنے اصولوں پر قائم رہے گی اور اپنے مقصد سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔
حزب اللہ کی سب سے بڑی کامیابی یہ رہی ہے کہ اس نے اسرائیل کو کئی بار میدان جنگ میں پیچھے دھکیلا۔ ہر بار اسرائیل نے حزب اللہ کو ختم کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا؛ لیکن ہر بار یہ تنظیم پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر ابھری۔ ایمانی طاقت، نظام ولایت سے سچی وابستگی، تنظیمی ڈھانچے کی مضبوطی، داخلی وحدت و ہم آہنگی، جنگی حکمت عملیوں کی برتری اور عوامی حمایت نے حزب اللہ کو ناقابل شکست قوّت بنا دیا ہے۔ سید حسن نصر اللہ کی قیادت میں حزب اللہ نے مقاومت کی ایک سیسہ پلائی دیوار بنائی۔
مگر، اس عظیم مقاومتی تحریک کے پیروکاروں کے لیے افسوس اور دکھ کا لمحہ یہ ہے کہ جنگ کے آغاز میں ہی ان کے سپہ سالار شہید کر دیے گئے۔
یہ نقصان یقیناً بہت بڑا ہے اور اس کا صدمہ حزب اللہ کے ہر کارکن اور چاہنے والے کو ہے۔
البتہ حزب اللہ کی مزاحمت کی قوّت اور اس کے جذبے میں کوئی کمی نہیں آئے گی؛ لیکن یہ دکھ ہمیشہ ساتھ رہے گا کہ ایک عظیم سپہ سالار اور مدبر رہنما جنگ کے آغاز میں ہی ہم سے جدا ہو گیا۔ تنظیم کی قوّت اور اس کا عزم سید حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد بھی جاری ہے اور رہے گا نیز یہ مزاحمتی تحریک اپنے سپہ سالار کی یاد میں دشمن کے خلاف مزید عزم کے ساتھ لڑے گی۔
سید حسن نصر اللہ کی شہادت ایک عظیم نقصان ہے؛ لیکن حزب اللہ کا عزم، اس کا مضبوط تنظیمی ڈھانچہ اور مقاومت کی مسلسل قوّت اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ تحریک نہ صرف اسرائیل کا مقابلہ کرے گی، بلکہ اپنی تاریخ کے اگلے باب میں بھی اسی جرأت و استقلال سے کامیابیاں حاصل کرے گی۔
سید حسن نصراللہ نے استعمار و استکبار کے خطے میں نظام کی تبدیلی کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا، صیہونیوں کی دیرینہ آرزوؤں کو مٹی میں ملا دیا اور شہادت کا عظیم رتبہ پایا تاکہ حزب اللہ اسلامی مزاحمت کا روشن مینار بنا رہے۔
سید حسن نصر اللہ شہید ہو گئے تا کہ اپنی شہادت کے ذریعے آیاتِ قرآن کی عملی تفسیر کریں اور ساتھ یہ بھی ثابت کریں کہ دین کے دشمنوں میں کبھی بھائی چارے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ زہر آلود مسکراہٹوں اور جھوٹے و بے بنیاد وعدوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
اسماعیل ہنیہ اور سید حسن نصراللہ کی شہادت امت مسلمہ کے لیے ایک تربیتی درس ہے۔ بہر حال، سید حسن نصر اللہ کا راستہ جاری ہے اور رہے گا نیز جلد ہی ہم ان مظلومانہ شہادتوں کے اثرات اور برکتوں کو اسلام کی عزت اور کفار و منافقین کی رسوائی، شکست اور تباہی کی صورت میں دیکھیں گے۔