آپ واقعی قوم کے محسن ہیں
تحریر: نثار علی ترمذی
شہید علامہ عارف حسین الحسینی راوی ہیں کہ پارا چنار میں دہشت گردی جاری تھی اور وہاں کے لوگ مردانہ وار مقابلہ کر رہے تھے مگر ہماری آواز نہ حکومتی ایوانوں تک پہنچ پائی، نہ ملت کے زعماء و قائدین کے کانوں تک۔ ایسے میں ان کا علامہ شیخ محسن علی نجفی صاحب سے رابطہ ہو گیا۔ انھوں نے اسلام آباد آنے کی دعوت دی، پریس کانفرنس کا انتظام کیا یوں پارا چنار کے مظلومین کی آواز پوری دنیا میں سنی گئی، جس سے ہمیں بہت حوصلہ ہوا۔
جب امام خمینی نے پہلی مرتبہ یوم القدس بروز جمعہ الوداع منانے کا اعلان کیا، اس بارے میں میرے ماموں زاد بھائی سید قمر عباس ترمذی نے اپنی یاداشت میں لکھا :
“1980ء کے ماہ رمضان کی بات ہے کہ میں بورے والا سے اسلام آباد آیا۔ امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے فرمان پر رمضان کے آخری جمعہ کو کمیٹی چوک راولپنڈی میں پہلی مرتبہ یوم القدس منانے کا اعلان کیا گیا۔ میں بھی اپنے بڑے بھائی سید کلب عباس ترمذی کے ساتھ یوم القدس کی احتجاجی ریلی میں شریک ہوا۔ علامہ سید ساجد علی نقوی اور علامہ شیخ محسن علی نجفی ریلی کی قیادت کر رہے تھے۔ ریلی کے اختتام پر امریکی، اسرائیلی جھنڈوں کو نذر آتش کیا گیا۔ احتجاج تقریباً ختم ہو چکا تھا لیکن زیادہ تر شرکاء ابھی منتشر نہیں ہوئے تھے کہ پولیس آ گئی اور انھوں نے مظاہرین پر شدید لاٹھی چارج شروع کر دیا۔
پولیس ایکشن کے نتیجہ میں بھگدڑ مچ گئی اور مظاہرین اقبال روڈ پر بھاگے اور اگلے چوک میں جا کر رک گئے اور وہاں سے پولیس پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ کچھ مظاہرین اور ایک دو پولیس والے بھی زخمی ہوئے۔ پولیس نے چھ یا سات مظاہرین کو گرفتار بھی کر لیا جس کے نتیجہ میں مظاہرین دھرنا دے کر بیٹھ گئے اور گرفتار مظاہرین کی رہائی تک منتشر ہونے سے انکار کر دیا۔
علامہ ساجد نقوی تو پولیس لاٹھی چارج شروع ہونے سے پہلے ہی اقبال روڈ پر چٹی ہٹیاں میں واقع اپنے مدرسہ میں چلے گئے تھے تاہم علامہ شیخ محسن علی نجفی مظاہرین کے ساتھ موجود تھے اور ان کی قیادت کر رہے تھے۔
پولیس سے مذاکرات شروع ہوئے تو کچھ جذباتی مظاہرین علامہ شیخ محسن علی نجفی کی موجودگی میں ہی پولیس کے ساتھ جذباتی انداز میں بات کرنے لگے جس کے نتیجہ میں مذاکرات ناکام ہو گئے اور شیخ محسن واپس دھرنا دیے ہوئے مظاہرین کے پاس آ گئے۔ دو تین مرتبہ ایسا ہوا کہ کچھ جذباتی مظاہرین نے مداخلت کی اور شیخ محسن کے پولیس کے ساتھ مذاکرات کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ شیخ محسن صاحب نے اس صورت حال پر ناراضگی کا اظہار بھی کیا تاہم وہ مظاہرین کے ساتھ ہی رہے اور آخرکار پولیس کے ساتھ کامیاب مذاکرات کر کے گرفتار ہونے والے مظاہرین کو اسی وقت چھڑوانے میں کامیاب ہو گئے۔ “
1980ء کی بات ہے کہ عراق میں آپ کے استاد فیلسوف مشرق آیت اللہ باقر الصدر کو ان کی ہمشیرہ آمنہ بنت الھدیٰ کے ہمراہ 9, اپریل ، 1980ء کو بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔ اس وقت شہید صدر رح کے دو شاگرد راولپنڈی اسلام آباد میں موجود تھے ، مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی اور علامہ ساجد علی نقوی، ان کے علاؤہ دیگر علماء کرام جن میں علامہ حامد علی موسوی مرحوم، مولانا احمد حسن نوری مرحوم، علامہ افتخار حسین نقوی بھی شامل تھے نے تنظیم ہئیت علمائے امامیہ بنائی ہوئی تھی۔ اس ہئیت نے طے کیا کہ شہید باقر الصدر کا چہلم سیکٹر جی سکس ٹو کی امام بارگاہ اسلام آباد میں منعقد ہو ۔ ممتاز رہنما اور مدرسہ آیت اللہ حکیم کے بانی و متولی آغا صابر علی مرحوم یہ تجویز لے کر جامعہ المنتظر لاہور میں علامہ صفدر حسین نجفی مرحوم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حمایت و تعاون کی درخواست کی۔ علامہ صفدر حسین نجفی مرحوم نے امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان اور امامیہ آرگنائزیشن پاکستان کے کارپردازان سے رابطہ کیا تو انھوں نے اپنے تنظیمی اداروں کے ہنگامی اجلاس بلا کر منظوری لینے کی حامی بھر لی۔ اسی دوران جنرل ضیاء الحق نے زکوٰۃ و عشر آرڈیننس جاری کردیا تو اسی اجتماع کو قومی کنونشن میں تبدیل کرنے کی قائد ملت علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم سے تحریری منظوری حاصل کی گئی۔ اس تحریری منظوری کو اشتہار کی صورت میں شائع کر کے پاکستان کے ہر دیوار پر چسپاں کر دیا گیا۔ اسلام آباد میں شیخ محسن علی نجفی مرحوم اور ان کا مدرسہ جامعہ اہل البیت ع ، مدرسین و طلاب میزبان کی حیثیت سے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے ہوئے تھے۔ کئی علماء کے بارے میں شرکاء نے بتایا کہ وہ میدان چھوڑ کر چلے گئے تھے مگر کسی نے بھی علامہ شیخ محسن علی نجفی مرحوم بارے میں منفی بات نہیں کی۔ آپ آخری وقت تک مظاہرین کے ساتھ میدان میں رہے۔ یوں عظیم الشان کامیابی میں آپ کا حصہ وافر ہے۔
1984ء کو بھکر میں علامہ عارف حسین الحسینی رح کے سر پر قیادت کا تاج رکھا گیا۔ آپ شہید کے ساتھ ان کی مرکزی سپریم کونسل کے رکن رہے۔ 1985ء تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا پہلا تنظیمی کنونشن ، رجوعہ سادات، ضلع چنیوٹ میں منعقد ہوا۔ اس کنونشن میں تحریک کا دستور منظور ہوا۔ علامہ شیخ محسن علی نجفی مرحوم نے شہید کی خواہش پر عہدے داران و کارکنان کے لیے” راہنما اصول برائے تنظیمی انقلاب و انقلابی تنظیم ” نامی کتابچہ تحریر کیا جس پر تحریک کا مونو گرام بھی چھپا ہوا ہے ۔
چھ جولائی 1985ء کوئٹہ میں ریاستی دہشت گردی کے شکار مظلومین کی دادرسی کے لیے شہید قائد کوئٹہ پہنچے تو علامہ حافظ ریاض حسین نجفی صرف جہاز سے باہر آ سکے جہاں آپ گرفتار ہوئے، تشدد کا شکار ہوئے۔ شہید حسینی کوئٹہ سے کراچی پہنچے تو وہاں بھی شہر میں جانے کی اجازت نہیں ملی۔ آپ وہاں سے اسلام آباد آئے تو یہاں نئے احکامات تھے کہ آپ کو پارا چنار تک محدود کر دیا جائے۔ آپ نے پارا چنار روانگی سے قبل ایک تحریر لکھی جس میں علامہ شیخ محسن علی نجفی کو قائم مقام قائد کے اختیارات تفویض کر دیے۔
1984ء یا 1985ء کی بات ہے امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے اپنی نظارت کے اختیار ” نمائندہ ولی فقیہ” علامہ عارف حسین الحسینی رح کے سپردِ کر دیے۔ شہید نے مجلس نظارت تشکیل دی تو اس میں علامہ شیخ محسن علی نجفی بھی شامل ہو گئے۔ آپ اس سے قبل امامیہ آرگنائزیشن پاکستان کی مجلس نظارت کے بھی رکن تھے۔ یعنی آپ تمام تنظیموں کی رہنمائی ، سرپرستی و معاونت کرتے رہے۔
6، جولائی 1987ء شہید حسینی رح نے مینار پاکستان لاہور کے میدان میں قرآن و سنت کانفرنس منعقد کی جس میں منشور ” ہمارا راستہ ” پیش کیا گیا ۔ اس منشور کی تیاری کے لیے جو کمیٹی 28،اپریل 1987ء کو مرکزی کابینہ نے تشکیل دی اس میں آپ کا نام نامی بھی شامل ہے۔ اس کمیٹی کے سربراہ علامہ ساجد علی نقوی تھے ۔ اس منشور کا کریڈٹ جہاں پوری کمیٹی کو جاتا ہے جس آپ بھی شامل ہیں ۔ اس منشور کا مسودہ سپریم کونسل نے اپنے بھکر کے اجلاس میں منظور کیا تھا۔
8, جولائی 1988ء تحریک کی مرکزی کونسل کا اجلاس جامعہ اہل بیت ع اسلام آباد میں منعقد ہوا ، یہ شہید رح کی ظاہری زندگی کا آخری اجلاس ثابت ہوا ۔ اس اجلاس میں سیاست پر اور آئندہ ہونے والے انتخابات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ شہید علامہ عارف حسین الحسینی رح نے پارا چنار میں اپنی آخری پریس کانفرنس میں جو تین اگست 1988ء کو منعقد ہوئی تھی میں اسی اجلاس کا حوالہ دیا تھا۔ بندہ ناچیز کو بھی شہید کی آخری بار زیارت و دست بوسی اور آواز سننے کا موقع اسی اجلاس میں ملا ۔
5, اگست 1988ء قائد ملت علامہ عارف حسین الحسینی رح کو پشاور میں شہید کر دیا گیا ۔ سینیئر نائب صدر علامہ ساجد علی نقوی قائم مقام سربراہ ہو گئے ۔ سپریم کونسل اور مرکزی کونسل نے آپ کو تحریک کے سربراہ و ملت کے قائد کے طور پر انتخاب کر لیا ۔ مرکزی دفتر پشاور سے مدرسہ آیت اللہ الحکیم ، ٹرنک بازار، راولپنڈی میں منتقل ہو گیا۔
علامہ شیخ محسن علی نجفی اور علامہ سید ساجد علی نقوی کی دوستی مثالی رہی ہے۔ قیادت کے ابتدائی دنوں شیخ صاحب غیر اعلانیہ مشیر خاص کا درجہ رکھتے تھے، علامہ ساجد علی نقوی اکثر فون یا براہ راست مشاورت و تبادلہ خیال کرتے رہتے تھے ۔ کسی مہمان نے ملاقات کے لیے آنا ہوتا تو اسے جامعہ اہل بیت ع میں ملاقات کا وقت دیا جاتا۔ شیخ صاحب بھی کبھی کبھی مدرسہ آیت اللہ حکیم میں قدم رنجہ فرماتے۔
وقت کے نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے بات قیادت کے قضیہ تک پہنچ گئی ۔ اولین ذمہ داری تحریک کے تنظیمی اداروں کی تھی کہ وہ اسے حل کرتے مگر ادارے اس سلسلے میں ناکام رہے۔ اداروں کی ناکامی کے بعد دیگر حل کے راستے اپنائے گئے۔ ایک تو تحریک کی سپریم کونسل کے سترہ میں سے بارہ افراد نے جامعہ المنتظر، لاہور میں اپنے خصوصی اجلاس میں اس مسئلہ کا حل پیش کیا دوسرے علامہ شیخ محسن علی نجفی مرحوم نے حل تجویز کیا ۔ دونوں طرف سے حل تقریباً ایک سے تھے۔
راشد عباس نقوی راوی ہیں کہ شیخ صاحب قبلہ نے جامعہ اہل بیت اسلام آباد میں ایک مخصوص علمائے کرام کا اجلاس بلایا اور اسے دعوت دی کہ ان کے سامنے پیش ہو کر اپنا مدعا بیان کریں۔ وہ بتاتے ہیں کہ علمائے کرام نصف دائرے میں بیٹھے تھے اور اور وہ ان کے سامنے بیٹھ گئے۔ وہ تمام ثبوت جو اکٹھے کیے تھے دکھائے اور سوالوں کے جوابات دیے ۔ یہ نشست تین گھنٹے سے زیادہ وقت تک جاری رہی۔ انھیں کہا کہ اب آپ جائیں۔ راشد عباس کہتے ہیں کہ میں نے علمائے کرام سے پوچھا کہ مجھ سے مکمل تفتیش کر لی ہے تو اس کا کیا فیصلہ ہوا ہے۔ شیخ صاحب نے کہ آپ نے اپنا مدعا پیش کر دیا ہے ۔ ہم مشاورت کر کے اس نتیجہ سے آگاہ کر دیں گے۔
اسی دن شام کو علماء کے وفد نے علامہ سید ساجد علی نقوی صاحب سے ملاقات کی اور انھیں کہا کہ وہ ملک سے باہر چلے جائیں اور وہاں سے اپنے منصب کا استعفیٰ بھیج دیں اور اپنے اختیارات سینئیر نائب صدر علامہ حیدر علی جوادی صاحب کے سپرد کر دیں۔ اس پر جزوی عمل ہوا۔ علامہ ساجد علی نقوی ملک سے باہر چلے گئے، علامہ حیدر علی جوادی صاحب قائم مقام قرار پائے۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ علامہ ساجد علی نقوی واپس آ گئے۔ علامہ حافظ ریاض حسین نجفی اور علامہ شیخ محسن علی نجفی نے ایک اور تجویز دی کہ قائد صاحب اعزازی طور پر تحریک کے سربراہ بن جائیں اور پانچ سال بعد اعتماد کا ووٹ لیں جب کہ مرکزی صدر کا ایک نیا عہدہ وجود میں لایا جائے جو دو سال کے لیے منتخب ہو اور تنظیمی اداروں کو جواب دہ ہو۔ علامہ سید ساجد علی نقوی صاحب نےاس تجویز کو مرکزی کونسل کے فیصلے سے مشروط کر دیا۔ مرکزی کونسل کا اجلاس جو جامعہ المنتظر لاہور میں منعقد ہوا، میں یہ تجویز علامہ حافظ ریاض حسین نجفی صاحب نے پیش کی اور اس موقع علامہ شیخ محسن علی نجفی بذات خود موجود تھے۔ مرکزی کونسل کے چند اراکین نے جذباتی تقاریر کر کے اس تجویز کو سازش قرار دے دیا ۔ شیخ صاحب قبلہ تو اجلاس سے اٹھ کر اسلام آباد چلے گئے اور اپنے علمی و فلاحی منصوبے پر عمل درآمد کے لیے کاربند ہو گئے۔ بعد ازاں متعدد اتحاد کی کوششوں سے اتفاق بھی کیا مگر عملی طور پر اپنے کاموں کو ہی آگے بڑھایا۔
آپ کیوں کہ فیلسوف مشرق علامہ باقر الصدر شہید کے شاگرد تھے ۔ ایک عرصے تک شہید صدر کے حوالے سے عظیم الشان سیمینار منعقد ہوتا رہا ہے۔ 9, اپریل 1989ء ہمدرد ہال، راولپنڈی میں باقر الصدر سیمینار منعقد ہوا تھا جس کی نقابت کرنے کے لیے ثاقب بھائی خصوصی طور پر لاہور سے تشریف لائے تھے۔ اس سیمینار سے مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی مرحوم نے خطاب کیا ۔ آپ نے شہید الصدر رح کے افکار کو بہت خوب صورت انداز میں پیش کیا کہ لفظ لفظ دل میں اترتا چلا گیا۔ آپ کی تقریر سے اور آواز سے اپنے استاد شہید صدر سے دلی محبت چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔ آپ نے شاید اسی حوالے سے کتب “محنت کا اسلامی تصور” اور” اسلام سوشلزم ” بھی لکھیں اور شائع کیں۔
جو کردار آپ کو دیگر علماء سے ممتاز کرتا ہے وہ کتب کی تصنیف وتالیف ہے۔ اس سر فہرست تفسیر الکوثر ہے۔ پاکستان میں ایک تسلسل کے ساتھ علماء کرام قرآن مجید کی تفسیر و ترجمہ کی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں جن میں مولانا امداد حسین کاظمی ، مولانا حسین بخش جاڑا ، مولانا ظفر حسن امروہوی، محمد حسن رضوی ، مولانا محمد حسین ڈھکو اور علامہ شیخ محسن علی نجفی شامل ہیں، اس سنہری فہرست میں مولانا مرتضی حسین صدر الافاضل، مولانا طالب حسین جوہری اور ثاقب اکبر کے نام نامی شامل ہیں، جنھوں نے نا مکمل تفاسیر لکھی ہیں۔ اس کار خیر میں آپ کے ساتھی اور ثاقب اکبر کے بچپن کے ساتھی اظہر علی رضوی کا ذکر کرنا اور انھیں خراج تحسین پیش کرنا بہت ضروری ہے۔ آپ نے پوری زندگی شیخ صاحب کی معیت و خدمت میں گزار دی۔
ثاقب اکبر مرحوم کی بھی آپ سے محبت چھپی ہوئی نہیں تھی۔ جامعہ کوثر کے اکثر پروگراموں میں آپ نے شرکت و نقابت فرمائی۔ آپ نے یہ وصیت بھی فرمائی تھی کہ ان کی نماز جنازہ مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی پڑھائیں۔ کم و بیش ایک سال کے اندر یہ تینوں مقرب بندے یہ دنیا چھوڑ کر ابدی دنیا میں جا بسے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے آمین ثم آمین ۔
ایک وہ کام جس کی جانب اب ہمارے علمائے کرام متوجہ ہو رہے ہیں وہ دنیاوی تعلیم کے مراکز قائم کرنا ہے۔ اس میں بھی شیخ صاحب سبقت لے چکے ہیں کہ اچھے معیاری اسکول، کالجز کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کے قیام کے لیے عملی اقدام کیے ہیں۔ مدارس کی ترویج تو منصب علما میں شامل ہے ہی وہیں ایک اچھی قابل استفادہ لایبریری کا قیام بھی ایک پیش رفت ہے۔
گو کہ اور بہت لکھا جا سکتا ہے راقم نے کوشش کی کہ آپ کی شخصیت کے ان پہلووں پر لکھا جائے جن پر کم توجہ دی گئی ہے۔ اتنی بڑی شخصیت کی مفصل سوانح عمری لکھا جانا محسن ملت کے وارثوں اور شاگردوں کی اولین ذمہ داری ہے۔
اللہ تعالیٰ علامہ شیخ محسن علی نجفی مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور اور ان کے چھوڑے ہوئے مشن کو مکمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے آمین ثم آمین ۔