حلیف قرآن حضرت زید شہید ابن امام زین العابدینؑ
دوصفر 121 هجری وہ دن ہے کہ جس میں امام حسین(ع) کے پوتے، امام زین العابدین(ع) کے بیٹے، امام محمد باقر(ع) کے بھائی اور امام جعفر صادق(ع) کے چچا جناب زید کو شہید کیا گیا، کہ جن کا مزار کوفہ سے 30کلو میٹر کے فاصلے پہ “الكفل” نامی شہر میں ہے۔ جناب زید بن علی بن حسین 57 هجری میں پیدا ہوئے اور اپنے بابا امام زين العابدين(عليه السلام) کے زیر سایہ پرورش پائی اور زہد وتقوی اور علم ومعرفت کے ماحول میں پروان چڑھے۔ بعض روايات کے مطابق رسول الله صلّى الله عليه وآله وسلم نے خود آپ کی ولادت کی بشارت دی تھی اور آپ کے نام کا انتخاب کیا تھا۔ آپ کا مشہور لقب “حليف القرآن” ہے، أبو الجارود کہتا ہے: میں جب مدينہ آیا تو جب بھی میں زيد کے بارے پوچھتا تو مجھے کہا جاتا وہ ہے حليف القرآن(قرآن کا ساتھی)، وہ ہے أسطوانة المسجد(مسجد کا ستون)۔ جناب زید بن علی کو اپنے والد امام زين العابدين(عليه السلام) کے ساتھ پندرہ سال زندگی گزارنے کا موقع ملا اور 95هـجری میں اپنے بابا کی شہادت کے بعد اپنے بھائی امام باقر عليه السلام کے زیر سایہ زندگی گزارنے لگے۔ جناب زید مدینہ کے جید علماء اور ا کابرین میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے، مختلف علوم و فنون اسلامیہ کے ماہر تھے، قرأت ، علوم قرآنیہ، عقائد،مقالات اور علم کلام پہ انھیں مکمل عبورحاصل تھا، امام ابوحنیفہ کے استاد تھے، امام حنیفہ ان کے حلقہ درس میں دو سال رہے، امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ ’’میں نے زید بن علی سے زیادہ فقیہ اور فصیح و بلیغ کسی کو نہیں پایا، حقیقت یہ ہے کہ علم میں ان کی کوئی مثال نہیں تھی‘‘۔ شیخ مفید کہتے ہیں کہ جناب زید بن علی اپنے بھائيوں میں امام باقر علیہ السلام کے علاوہ سب سے برگزیدہ اور افضل تھے شجاعت، سخاوت، فقاہت، عبادت اور زہد وتقوی ان کی شخصیت کا جصہ تھا، انھوں نے اپنے دادا امام حسین(ع) کے خون کا بدلہ لینے اور امر بالمعروف و نهى عن المنكر کرنے کے لیے قیام کیا۔ ہشام بن عبدالملک کی حکومت کے زمانہ میں ملک میں سیاسی خلفشار بہت زیادہ ہو چکا تھا، مظالم بنی امیہ کے انتقام کا جذبہ تیز ہو رہا تھا اور بنی فاطمہ میں سے متعدد افراد حکومت کے مقابلے کے لیے تیار ہو گئے تھے ان میں نمایاں ہستی حضرت زید(رح) کی تھی کوفہ والے بھی حکومت کے خلاف قیام کے لیے کسی بلند ہستی کی تلاش میں تھے، لہذا انھوں نے جناب زید کی جوق در جوق بیعت کرنا شروع کر دی، اہل عراق کی ایک بڑی تعداد کے اقرار اطاعت و وفاداری نے جناب زید(رح) کے اندر کامیابی کی توقعات پیدا کر دیں۔ بدھ کی رات یکم صفر(121هـ) کو حالات کی تبدیلی کے باعث جناب زید نے جنگ کے لیے مقررہ وقت سے پہلے ہی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اموی حکومت کے خلاف اعلان جنگ کر دیا کوفہ پہ امویوں کے تعینات کردہ گورنر يوسف بن عمر کے لشکر کے ساتھ شدید جنگ ہوئی کہ جس میں تعداد کے کم ہونے باوجود جناب زید کو فتح حاصل ہوئی، کئی معرکوں میں یوسف بن عمر نے شکست کھانے کے بعد تیر اندازوں کے ایک بڑے لشکر کے ذریعے جناب زید کے فوجیوں پر رات کے وقت تیر برسانے شروع کر دیے، ان میں سے ایک تیر جناب زید کو لگا جس سے آپ شہید ہوئے. آپ کے ساتھیوں نے آپ کی میت کو ایک جگہ پوشیدہ طور پر دفن کر دیا لیکن کسی طریقہ سے دشمنوں کو قبر کی جگہ کا علم ہو گیا دشمن کا جذبہِ انتقام انھیں شہید کرنے سے ہی ختم نہ ہوا بلکہ اس نے ان کی لاش کو قبر سے نکالا اور سر کو جدا کر کے ہشام کے پاس بطور تحفہ بھیج دیا اور لاش کو کوفہ میں سولی پر لٹکا دیا ان کے لاشہ کو کئی برس تک اسی طرح سولی پر ہی آویزاں رکھا گیا۔ حافظ ابو بکر ابن ابی الدنیا اپنی کتاب المنامات میں لکھتے ہیں: جریر بن حازم کہتا ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس کھجور کے درخت سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں جس کے تنے پر زید بن علی کی لاش لٹکی ہوئی تھی اور آپ(ص) غم و الم اور دکھ کے ساتھ فرما رہے تھے کیا تم لوگ میری اولاد کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہو!!!۔