ملت تشیع پاکستان کے ایک فراموش کردہ رہنما سید ابرارحسین شیرازی (مرحوم)
عجز و انکسار کا پیکر، محبت و مودت کی تصویر، شفقت و خدمت کی مثال، شیریں سخن اور سراپا اخلاق، سید ابرارحسین شیرازی بے شمار محاسن کا مجموعہ تھے۔ وہ بظاہر ایک انسان دکھائی دیتے تھے، مگر وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، ایک ادارہ تھے، علم وہنر کا چشمہ صافی تھے۔ آیئے ہم سب مل کر سید ابرار حسین شیرازی کی روشن زندگی کے اوراق پلٹتے ہیں، انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور ان کی خدمات کو آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں (سید انجم رضا)
تحریر: سید نثار علی ترمذی
3 جنوری 1931ء __ 30 نومبر 1994
یہ 1981 کی بات ہے. میں ملازمت کی تلاش میں تھا۔ پرانی انارکلی لاہور میں ایک کمرہ لیا ہوا تھا۔ ان دنوں پروفیسر علامہ ظفر حسن ظفر مرحوم بھی اسی ایریا میں رہائش پذیر تھے۔ وہ میرے محسن بھی ہیں کہ انہوں نے مجھے ملازمت تلاش کرنے میں مدد کی۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین ثم آمین
شام کو ان کے ساتھ مختلف جگہوں پر جاتے، نئی انارکلی لاہور میں پیام عمل کا دفتر تھا، اس کے تقریباً سامنے حق برادرز کا کتب خانہ تھا جہاں شام کو محفلیں جمتی اور دنیا جہاں کی باتیں ہوتیں۔ اسی طرح میو ہسپتال سے گزر کر نسبت روڈ پر ادارہ تحفظ حقوق شیعہ کا دفتر تھا۔ اسی طرف چوک برف کارخانہ میں خطیب آل محمد مولانا اظہر حسن زیدی مرحوم کی رہائشگاہ تھی۔ پرانی انارکلی سے متصل نابھہ روڈ پر ادارہ تعمیر ادب اور ماہنامہ المنتظر کا دفتر تھا۔ ہم نے باری باری ان جگہوں پر شام گزارنی ہوتی تھی۔
نابھہ روڈ کیونکہ بلکل قریب تھا اس لیے وہاں جانے میں آسانی رہتی۔ اس دفتر میں جناب ابرار حسین شیرازی اور مولانا ع غ کراروی تو موجود ہی ہوتے تھے مگر اکثر ملک بھر سے کوئی نہ کوئی شخصیت بھی آئی ہوتی۔ یہاں بھی جہاں بھر کی باتیں ہوتیں۔ پہلی منزل پر مناسب سا ہال تھا جس کے شروع میں ایک کاتب اپنا ڈیسک جمائے بیٹھا ہوتا، اس کے ساتھ دیواری سائز کے ریکس ہوتے، جن پر کتب برائے فروخت پڑی ہوتیں۔ تیسرے حصے میں ایک میز کرسی اور اس کے تین طرف پرانے سے صوفے اور سنٹر ٹیبل پڑی ہوتی تھی۔ کرسی پر سر جھکائے ابرار شیرازی صاحب لکھنے میں مصروف ہوتے۔ ایک کھڑکی جو سڑک کی جانب کھلتی تھی اس کے ساتھ کے صوفے پر مولانا ع غ کراروی بیٹھے کوئی مسودہ پڑھ رہے ہوتے۔ ہم لوگ سلام و مصافحہ کر کے بیٹھ جاتے۔
کراروی صاحب تو مسودہ رکھ دیتے اور بات چیت شروع کر دیتے مگر شیرازی صاحب لکھتے بھی رہتے اور باتوں کا جواب بھی دیتے رہتے۔ ان کی کیوں کہ بے تکلفی تھی اس لیے مولانا ظفر کہتے کراروی صاحب جب میں آ رہا تھا تو نیچے حلوائی گرم گرم جلیبیاں نکال رہا تھا۔ وہ کیا ذائقہ دار ہوتی ہیں گرم گرم جلیبیاں۔ اگر منگوا لیں تو مزہ آ جائے۔ کراروی صاحب ترت جواب دیتے آپ آتے ہوئے لیتے آتے تو اب ہم کھا رہے ہوتے۔ غرضیکہ کہ اسی فقرے بازی میں گرم گرم جلیبیاں ا جاتیں اور بعد میں چائے۔
اس جگہ کئی کام ہوتے تھے۔ کاتب کی سہولت، جس سے عمومی لوگ بھی فائدہ اٹھاتے۔ کتب کی اشاعت و ترسیل، المنتظر رسالہ کی تیاری و اشاعت، مختلف اخبار و رسائل کا جائزہ لیا جاتا، جہاں شیعہ مسلک کے خلاف کچھ مواد ہوتا اس کی نشاندھی کی جاتی اور اس کا جواب لکھا جاتا جسے متعلقہ جریدے کو بھیجا جاتا، ملی جرائد کو بھی ارسال کر دیا جاتا اور المنتظر میں تو شائع ہو ہی جاتا۔ حکومت سے مختلف معاملات پر خط وکتابت رہتی۔ اہم اور ضروری مسائل پر فوراً ٹیلیگرام کے ذریعہ حکومتی دفاتر کو متوجہ کیا جاتا۔ بعض مسائل پر اجلاس بلا کر حل نکالا جاتا۔ قراردادیں، پریس ریلیز، بیانات غرضیکہ سب کچھ ہوتا۔ علامہ مرزا یوسف حسین لکھنوی مرحوم، سابقہ ایم این اے عباس گردیزی مرحوم، سید سکندر حسین شاہ شہید اور شہر اور بیرون شہر کے علماء، زعماء سے یہیں ملاقات ہو جاتی۔ یہ اپنے لحاظ سے ایک مرکزی جگہ تھی کہ شام کو بیٹھک ہوتی تھی جہاں ہم جیسے کئی مستقل آنے والے تھے۔ میزبان فقط ابرار شیرازی اور ع غ کراروی ہوتے تھے۔ ایک دن گئے تو وہ چھوٹا سا ہال میزوں، کرسیوں اور ریکارڈ سے بھرا ہوا تھا، معلوم ہوا کہ شیرازی صاحب سیکرٹری واپسی قرض حسنہ، انجمن وظیفہ سادات و مومنین ہو گئے ہیں۔ یہ اسی شعبہ کا ریکارڈ ہے۔ اب جو جاتے تو شیرازی صاحب فائلوں ک ڈھیر سامنے رکھے دستخط کیے جارہے ہوتے۔ معروف وکیل سید محمد نقی نقوی بھی اکثر آئے ہوئے ہوتے تھے وہ لیگل ایڈوائزر تھے۔
سید ابرار حسین شیرازی مرحوم کی زندگی کا مختصر خاکہ پیش ہے۔
آپ کا تعلق خان پور سیداں، ضلع سیالکوٹ سے تھا۔ سلسلہ نسب حضرت محمد دیباج ابن امام جعفر صادق علیہ السلام سے ملتا ہے۔
دنیاوی تعلیم۔ میٹرک و فاضل فارسی
دینی تعلیم۔ مولانا شمس العباس ایوبی، علامہ مرزا احمد علی مرحوم، علامہ سید امداد حسین کاظمی مرحوم، علامہ سید محمد جعفر زیدی شہید، شیخ الجامعہ مولانا اختر عباس نجفی مرحوم، مولانا خواجہ محمد لطیف انصاری مرحوم، مولانا پروفیسر محمد صادق قریشی مرحوم، علامہ پروفیسر قمر الزمان مرحوم، پروفیسر سید اعجاز حسین نقوی، پروفیسر سید فقیر حسین بخاری مرحوم کی صحبت سے حاصل کی۔
تبلیغ دین – پندرہ سال مبلغ امامیہ مشن پاکستان کی حثیت سے ملک بھر میں بلا معاوضہ مجالس سے خطاب کیا۔
ایڈیٹر ماہنامہ پیام عمل – 1964ء تک دس سال آئی ایچ جعفری کے نام سے پیام عمل کے ادارتی فرائض انجام دئے۔
امامیہ مشن ٹرسٹ۔ دس برس تک ٹرسٹ میں سیکرٹری نشر واشاعت اور جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے کام کیا۔
جامعہ المنتظر۔ تاسیس سے اس کے ساتھ وابستہ رہے۔ پہلے جنرل سیکرٹری سید حسن علی شاہ مرحوم تھے دوسرے ابرار شیرازی مرحوم تھے۔
پندرہ روزہ المنتظر لاہور۔ تا حیات تقریباً چونتیس سال اس مجلہ کے ایڈیٹر رہے۔ یہ جامعہ المنتظر کا ترجمان تھا مگر شیخ الجامعہ علامہ اختر عباس مرحوم 1964ء میں نجف جانے کے بعد سے آپ کے پاس رہا۔ مگر رحلت کے بعد پھر جامعہ المنتظر لاہور سے شائع ہو رہا ہے۔
انجمن تعمیر مزارات جنت البقیع۔ 1979ء میں عمرہ کی سعادت کے دوران حضرت خاتونِ جنت سلام اللہ علیہا کی قبر مطہر پر وعدہ کر کے آئے کہ ہر سال یوم انہدام جنت البقیع پر احتجاجی اجتماع منعقد کریں گے۔ پہلا جلسہ 1970ء میں بیرون موچی دروازہ لاہور منعقد ہوا، جس میں شیعہ سنی علماء نے شرکت کی۔ ہر سال پہلے پریس کانفرنس، بھر جلسہ وجلوس 8, شوال کو کربلا گامے شاہ سے برآمد ہوتا رہا جو ان کی رحلت بعد بھی جاری وساری ہے۔
پاکستان شیعہ پولیٹیکل پارٹی۔ اس کی تاسیس کے بنیادی اراکین میں تھے۔ سرکاری ملازم ہونے کی وجہ عہدہ تو نہ لیا مگر متحرک رکن ہے۔ اس کے پہلے صدر مرزا غلام ربانی ایڈووکیٹ تھے۔
آل پاکستان شیعہ مطالبات کمیٹی۔ مجلس عمل علماء شیعہ پاکستان۔ قائد ملت جعفریہ علامہ سید محمد دہلوی مرحوم نے 1964ء میں تمام شیعہ علماء کا کراچی میں اجلاس بلایا۔ جس کے آغاز سے ہی آپ شامل رہے۔ قائد ملت کے معتمد ساتھی رہے۔
آل پارٹیز شیعہ فیڈریشن پاکستان۔ مختلف شیعہ تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے شیعہ مطالبات کے حق میں اور شریعت بل کے خلاف اواز اٹھائی۔ دیگر مسائل ملی پر بھی ردعمل دیتے تھے۔
انجمن امامیہ علامہ اقبال ٹاؤن لاہور۔ علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور میں ایک بڑی آبادی معرض وجود میں آئی۔ اس میں کوئی شیعہ مسجد موجود نہ تھی۔ چنانچہ انجمن امامیہ علامہ اقبال ٹاؤن رجسٹر کروائی گئی۔ جس کے پہلے صدر بھی شیرازی صاحب تھے۔ سب سے پہلے کالی کوٹھی مین روڈ پر عشرہ محرم شروع کر وایا اور شب عاشور جلوس برآمد کروایا جو امام بارگاہ قصر بتول جا کر ختم ہوتا تھا۔ اب بھی یہ جلوس جاری ہے مگر اب مسجد شاہ خراسان، نیلم بلاک علامہ اقبال ٹاؤن میں جا کر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ اسی طرح مسجد کے حصول کے لیے جہاں زیب بلاک میں پلاٹ حاصل کیا مگر اس پر اہل سنت نے قبضہ کر لیا اس کے بدلے میں متبادل پلاٹ نیلم بلاک میں حاصل ہوا۔ اس کے لیے ایجی ٹیشن کرنا پڑا، پانچ روز تک 65 کے لگ بھگ نوجوانوں نے جس میں آپ کے بیٹے، بھانجے،اور بھتیجے بھی شامل تھے گرفتاریاں دیں۔ آج مسجد شاہ خراسان کے نام سے مسجد آباد ہے۔
انجمن وظیفہ سادات و مومنین پاکستان
اس کے تاحیات رکن رہنے کے علاؤہ اس متعدد عہدوں پر فائز رہ کر خدمات انجام دیتے رہے، جن نگران اعلیٰ، جنرل سیکرٹری، سیکرٹری واپسی قرض حسنہ اور سیکرٹری نشرو اشاعت شامل ہیں۔ یہ سب اعزازی عہدے ہیں مگر خدمت ملت میں بڑا حصہ یے۔ ماہنامہ”۔ انجمن وظیفہ لاہور” کے ادارتی فرائض بھی انجام دیتے رہے۔
مکتبہ تعمیر ادب
1964ء میں یہ مکتبہ قائم کیا جس نے گراں قدر کتب شائع کیں۔
النص و الاجتہاد( حکومت نے پابندی لگا دی)
فدک فی تاریخ از آیت اللہ باقر الصدر شہید ( حکومت نے پابندی لگا دی )
ہمارے اقتصادیات از آیت اللہ باقر الصدر شہید
تذکرہ الخواص علامہ سبط ابن جوزی، ترجمہ مولانا صفدر حسین نجفی مرحوم
تاریخ ابوالفداء
تاریخ اعثم کوفی
نور العصر سوانح امام عصر عج
امام الصادق والمذاہب الاربعہ
اس کے علاؤہ اور بہت سی اہم کتب شائع کیں۔
انقلاب اسلامی ایران
آپ کا رابطہ آیت اللہ محمد کاظم شریعت مدار کے ادارے ” دارالتبلیغ اسلامی ” سے تھا۔ اس بنا پر انقلاب اسلامی ایران کے ابتدائی حمایت کرنے والوں میں آپ کا شمار بھی ہوتا ہے۔ آپ نے اپنے قلم سے سے اپنے پرچے میں متعدد مضامین لکھے۔ اس حوالے یہاں کے مختلف حلقوں میں متعارف کروایا۔ مگر بہت سے بعد میں آنے والے مسابقت میں آگے نکل گئے نیز آیت اللہ شریعت مدار کے مسائل کی وجہ سے یہ پیش رفت نہ کر سکے۔مگر انقلاب اسلامی کے ہمکار رہے۔
آپ ملت تشیع کے اس دھڑے کے ساتھ تھے جس میں علامہ مرزا یوسف حسین لکھنوی مرحوم، علامہ بشیر انصاری مرحوم، مولانا شبہیہ الحسنین محمدی مرحوم، آغا مرتضٰی پویا اور مولانا ع غ کراروی مرحوم وغیرہ شامل تھے۔ یہ گروپ اپنا علیحدہ موقف رکھتا تھا مگر عزت و احترام کے ساتھ۔ بہرحال ان کی اپنی خدمات ہیں جنہیں یاد کرنے اور سراہے جانے کی ضرورت ہے۔ اختلاف کا سلیقہ اگر سیکھنا ہو ایسے کرداروں سے سیکھا جا سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہر شخص نے اپنا حساب دینا ہے۔ یقیناً شیرازی صاحب سرخ رو ہوں گے کہ انہوں نے اپنی بساط کے مطابق دین کی خدمت کی ہے۔
میں نے ایک دن کسی کام کے لیے فون کیا تو خود فون اٹھایا اور بتایا کہ میرے سر میں مستقل در رہنے لگ گیا ہے۔ ابھی ہسپتال سے واپس آیا ہوں۔ میں نے معزرت کی کہ پھر فون کر لوں گا مگر کہنے لگے نہیں آپ بات کریں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ٹیومر تشخیص ہوا ہے۔ ہمارے دوست برادر مظہر حسین جعفری نے فون پر بتایا کہ ابرار حسین شیرازی صاحب انتقال کر گئے ہیں بعد از ظہر نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔ غم زدہ آنکھوں کے ساتھ جنازہ کو کندھا دیا اور آخری منزل تک چھوڑ آئے۔ اللہ تعالیٰ سید ابرار شیرازی مرحوم کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین ثم آمین۔
یوں ملت کا یہ خدمت گزار 30 نومبر 1994ء ابدی نیند سو گیا۔
آل محمد رزمی نے آپ کے چہلم پر جو منظوم خراج تحسین پیش کیا اس میں سے دو شعر :-
مصروف ہو جو قوم کی خدمت میں رات دن
دیکھا نہ ہم نے کوئی بھی ابرار کی طرح
اب دیکھنا یہ ہے کہ کفن سر سے باندھ کر
میداں میں کون آتا ہے ابرار کی طرح