مولانا محمد علی ترمذی مرحوم
مولانا محمد علی ترمذی مرحوم ایک جواں مرگ دانشور عالم دین کا شیخن ضلع جھنگ سے تعلق تھا، لاہور سے گریجوایشن کرنے کے بعد علمی زندگی میں قدم رکھتے ہی علم دین کے حصول کی لگن نے بے چین کیا اور سرزمینِ انقلاب اسلامی حوزہ علمیہ قم المقدسہ (ایران) تشریف لے گئے، وہاں مذہبی تعلیم کے اعلیٰ مدارج طے کرنے کے ساتھ ساتھ علم و عرفان کی وادیوں کے، ایسے مسافر بنے کے ترجمہ تحقیق کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا 2 جولائی 2017ء کو حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کرگئے تھے، 2 جولائی آپ کی برسی کے موقع پر برادرِ بزرگ نثار علی ترمذی کی درد بھری تحریر( سید انجم رضا)
تحریر: نثار علی ترمذی
لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دن اور
یہ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ مجھے اپنے چھوٹے بھائی محمد علی ترمذی پر تعزیتی تحریر لکھنی پڑے گی اس کے برعکس مجھے امید تھی کہ مرحوم میرے بارے میں ایسے تاثرات ضرور لکھیں گے۔ مگر اللہ کی مرضی ہے کہ جس کے سامنے سر تسلیمِ خم ہے۔ اللہ جس حال میں رکھے اس کا کرم ہے۔
ہم پانچ بھائی تھے۔ دو مجھ سے بڑے اور دو مجھ سے چھوٹے۔ آج سے تقریباً دو سال قبل سب سے بڑے بھائی سید غلام علی ترمذی ساتھ چھوڑ گئے اب 2 جولائی 2017ء کو سب سے چھوٹے بھائی محمد علی ترمذی بھی اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ رہے نام اللہ کا۔
ہم سب میں سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے یہ والدین کی آنکھ کا تارہ اور ہم سب کا پیارا تھا۔ شروع ہی سے شوخ چنچل اور ہنس مکھ تھا۔ ہم تینوں بھائی جن کی عمروں میں دو دو سال کا فرق تھا بہت ہی دوستی و ہم آہنگی تھی۔ میٹرک تک ایک سکول میں تعلیم حاصل کی۔ میں ایف ایس سی کرنے اپنے بڑے مرحوم بھائی کے پاس اسلام آباد چلا گیا جہاں وہ اس وقت فیڈرل سیکرٹریٹ میں ملازم تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہم تینوں بھائی گرمیوں کی چھٹیوں میں اسلام آباد گذارنے گئے۔ ہماری والدہ مرحومہ نے دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔ میں نے وہیں داخلہ لے لیا۔ جبکہ دونوں بھائی واپس آ گئے۔ برادر عزیز کی پوری زندگی کی فلم نظروں کے سامنے ہے۔ اس دنیا میں آنے سے لے کر دم آخر تک ایک ایک لمحہ تحریر کیا جا سکتا ہے۔
مرحوم نے گریجوایشن اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور سے کیا۔ مولانا سید نعیم الحسن نقوی کے کالج فیلو تھے۔ وہ ایم اے سوشل ورک کرنا چاہتے تھے کہ میں نے انہیں قائل کیا کہ وہ مدرسہ امام خمینی، ماڑی انڈس، میانوالی میں داخل ہو کر ایم اے عربی و ایم اے اسلامیات کریں۔ انہوں نے مشروط آمادگی ظاہر کی کہ وہ خود جا کر ماحول دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔ نیز وہ کرکٹ کی کمنٹری ترک نہیں کریں گے۔ اس طرح وہ مدرسہ امام خمینیؒ تک جا پہنچے۔ جہاں ان کو برادر محترم مولانا امتیاز رضوی، انیس عباس زیدی اور ناصر صفوی شہید کی صحبت میسر آئی۔ مدرسہ نے ان کے اندر بنیادی تبدیلیاں پیدا کیں۔ وہ جب آئے تو بدلے ہوئے تھے۔ امام خمینیؒ اور شہید حسینی ؒ کی تصاویر ساتھ لائے۔ انہوں نے جگہ جگہ ان تصاویر کو آویزاں کر دیا۔ ایک مرتبہ سید ہ عابدہ حسین تعزیت کے لئے ہمارے گھر آئیں تو تصاویر کو دیکھ کر کہا کہ یہ تو خمینی پرست گھرانہ لگتا ہے۔ اس کے علاوہ گاؤں کے نوجوانوں کو دینی تعلیم کے لئے قائل کیا۔ اس طرح کئی نوجوان مدرسہ امام خمینیؒ پہنچ گئے۔ جن میں سے کئی ایک اب بھی تبلیغ دین میں مشغول ہیں۔ جب آئی ایس او کے برادران دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے قم المقدس تشریف لے گئے۔ ان کے ہمراہیوں میں مولانا امتیاز رضوی، مولانا حسنین گردیزی، مولانا نعیم الحسن نقوی شامل ہیں۔
جب بھائی دینی تعلیم کے لئے قم المقدس تشریف لے گئے تو میں نے اپنے تایا جان سید ناصر حسین ترمذی مرحوم سے کہا کہ ہمیں اس دوران ایک مدرسہ قائم کر لینا چائیے۔ مرحوم نے ہماری آبائی زمین جو وقف تھی پر مدرسہ کی تعمیر کا آغاز کر دیا۔ جب بھائی واپس آئے تو مرحوم نے اعلان کیا کہ اب میرا بھتیجا اس مدرسہ کے متولی ہوں گے۔ اس مدرسہ کو فعال کرنے کے لئے کئی کوششیں کی گئیں مگربعض وجوہات کی بنا پر کامیاب نہ ہو سکیں جو کہ ناگفتہ بہ ہیں۔
بہرحال اس مدرسہ کے قیام کا سبب مولانا محمد علی ترمذی بنے۔
دورانِ تعلیم قم میںآپ نے تعلیم کے علاوہ آئی ایس او سے وابستہ افراد کو ایک لڑی میں پرونے کا کام جاری رکھا۔ ان کے غم و خوشی میں شرکت کے علاوہ ان کی ایک دوسرے کے مابین رنجش و غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ان کے اس عمل نے اپنے دوستوں میں مقبولیت میں کئی گنا اضافہ کر دیا۔ 1997ء میں آئی ایس او کے نظام تربیت کے لئے دو علماء برادر مولانا محمد علی ترمذی اور مولانا نعیم الحسن نقوی قم سے تشریف لائے۔ ابھی یہ ابتدائی کام کر ہی پائے تھے کہ تعطل کا شکار ہو گیا آخرکار انہوں نے’’ اخوت اکیڈمی‘‘ کے ساتھ کام کا فیصلہ کیا۔ مجھے یاد ہے کہ اخوت اکیڈمی میں برادر کے ذمہ استاد مرتضیٰ مطہری شہید کے قرآن مجید کے تفسیری اسلوب پر کام کا آغاز کیا تھا۔ لیکن بعدازاں آپ کو واپس اپنے آبائی گاؤں شیخن آنا پڑا۔
وہاں پر انہوں نے اپنے گھر میں ایک انگلش میڈیم سکول بنام ’’جناح کیڈٹ سکول‘‘ کا آغاز کیا جو علاقہ میں پہلا سکول تھا۔ اس سکول نے جہاں معیاری تعلیم کو عام کیا وہاں بالخصوص طالبات کے لئے جو پرائمری سے آگے تعلیم حاصل کر نہ پاتیں وہ اب میٹرک کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیمی مدارج طے کر رہی ہیں۔ مدرسہ کے طلباء مفت تعلیم حاصل کرتے۔ باحجاب طالبات کے علاوہ نماز ظہرین باجماعت ادا کی جاتی۔ اس دوران علاقے میں علماء کی معرفی کروائی وہیں آئی ایس او شیخن یونٹ کی سرپرستی فرمائی۔ دفتر کی تعمیر، لائبریری کی تشکیل، قیمتی کتب جیسے تفسیرِ نمونہ کی 27 جلدوں کا سیٹ دیا وہیں نظریاتی تربیت کے حوالے سے درس کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کے علاوہ فیصل آباد ڈویژن کی ذیلی نظارت کے رکن رہے تو اس حوالے سے پورے ڈویژن میں متحرک رہے۔ مرکزی کنونشن پر بھی اسٹڈی سرکل میں ذمہ داری ادا کی۔ اس کے علاوہ ’’افکارِ العارف‘‘ کی مجلس ادارت میں طویل عرصہ رہے اور اپنی قلمی کاوشوں سے معاونت فرمائی۔ جب اسلام آباد ہجرت کی تو وہاں بھی آئی ایس او کے احباب سے رابطہ و مشاورت میں رہے۔ غرضیکہ اپنے تعلیمی دورسے آئی ایس او سے وابستہ تھے اور آخر تک اس کو نبھایا۔
شیخن جو کہ ہمارا علاقائی و آبائی وطن ہے میں حالات خراب ہو گئے۔ کیونکہ وہاں کالعدم جماعت کا مضبوط یونٹ تشکیل پا چکا تھا اور قم، ایران سے تعلیم یافتہ عالم دین ان کی نظروں میں آگیا۔ کئی شواہد سامنے آئے تو میں نے انہیں شیخن چھوڑ دینے کا مشورہ دیا۔ یوں وہ خود عارضی طور پر لاہور شفٹ ہو گئے۔ یہاں باہمی مشاورت سے طے پایا کہ ایک اشاعتی ادارہ بنایا جا ئے اور اس میں معیاری علمی کتاب کی اشاعت کی جائے۔
انہوں نے پہلی کتاب استاد مرتضیٰ مطہری کی کتاب ’’حضرت علی ؑ بنظر ِ استاد مطہری ’’ کا ترجمہ کیا۔ ایک منفرد تجربہ تھا۔ جب کتاب چھپ کے سامنے آئی تو مرحوم کی خوشی دیدنی تھی۔ آپ فوراً سجدہ شکر میں چلے گئے۔ کتاب نے بہت حوصلہ دیا۔ پھر توقلم نے رکنے کا نام نہ لیا۔ ادارہ ’’البیان‘‘ نے جلد ہی ملک گیر شہرت حاصل کر لی۔ اس ادارہ کی کتب کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ بعض کتب کے سات سات ایڈیشن شائع ہوئے۔ معیاری رواں ترجمہ، اچھا کاغذ، منفرد سٹائل بہت پسند کیا گیا۔ سابقہ ایرانی صدراحمدی نژاد کی کتاب جو ان کے دورہ امریکہ پر مشتمل تھی کا ترجمہ ’’سامراج شکن‘‘ کے نام سے کیا۔ جس کی تقریب رونمائی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی جناب سابقہ سپیکر قومی اسمبلی اسلامی جمہوریہ ایران ڈاکٹر غلام علی حداد عادل تھے۔ اس کتاب نے کراچی میں منعقدہ کتاب میلہ میں شہرت پائی۔ یہ کام ان کی پہچان بن گیا۔
استاد آقائے محسن قرآئتی کی تفسیر کا سورہ با سورہ ترجمہ و اشاعت کا سلسلہ جاری تھا۔ کہ پھر انہیں جامعۃ الرضا بھارہ کہو، اسلام آباد میں ذمہ داری مل گئی۔ بعدازاںانہوں نے خانہ فرہنگ و کونسلیٹ میں تراجم کرنے شروع کر دئیے۔ اس کے علاوہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بھی منسلک رہے۔
غرضیکہ یہ سلسلہ جاری تھا کہ آپ عازم سفر ایران ہوئے۔ جہاں مفسر قرآن استاد محسن قرآئتی نے اپنی تفسیر نور پر تجدیدِ نظر کرتے ہوئے اسے دس جلدوں سے چھ جلدوں میں بدل دیا۔ آپ کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ ان چھ جلدوں کا ترجمہ ایران میں مکمل کیا۔ کوئی 27 ماہ ایران میں رہے۔ برادر مولانا نعیم نقوی کہتے ہیں کہ اس دوران بہت سی کتب کا مطالعہ کیا۔ انہوں نے خود بتایا کہ فرصت کی وجہ سے 9 سو سے زائد کتب کا مطالعہ کیا۔ متنوع کتب کا مطالعہ کرتے تھے۔ ہر اچھی کتاب پر خواہش کا اظہار کرتے کہ اس کا بھی ترجمہ ہو جائے تو بہتر ہوگا۔ اسی طرح ڈائیو کمپنی کے بانی کی خود نوشت سوانح کا اردو میں ترجمہ کیا جسے لاہور کے مشہور اشاعتی ادارے نے شائع کیا۔
ایران میں بہت سے علمی تحقیقی اداروںسے رابطہ کیا اور ان کی تخلیقات کو پاکستان میں شائع کرنے کی اجازت طلب کی۔ اس میں انسائیکلوپیڈیا کی اشاعت کا منصوبہ تھا جس کے لئے متعلقہ ادارے نے شرط لکھی کہ پہلے دس پی ایچ ڈی افراد کا تعارف کروائیں۔ ان کی وہ تربیت کریں گے پھر اس انسائیکلوپیڈیا کو اردو میں شائع کرنے کی اجازت دیں گے۔ وہ ہروقت اسی کام کے لئے تگ و دو کرتے تھے۔ اسی طرح اپنے دوست مولانا نعیم الحسن نقوی کو قائل کیا کہ وہ اب ایران نہ جائیں بلکہ عید کے بعد قرآن مجید پر تحقیقاتی ادارہ تشکیل دیں گے۔ غرضیکہ ہر وقت اپنی قوم کے لئے مفید کتب کی دستیابی کے لئے سوچتے تھے۔
ان کا اخلاق اعلیٰ تھا جو ان سے ایک مرتبہ مل لیتا تھا وہ ہمیشہ رابطے میں رہتا۔ صلہ رحمی پر بہت زور دیتے تھے۔ پرانی خاندانی جھگڑوں کو ختم کرکے صلح و صفائی سے رہنے کا راستہ دکھایا۔ سب سے ملتے تھے اور غلطیوں کو انسانی مجبوری کہتے تھے۔ دوستوں کے دکھ درد میں شریک ہوتے اور انہیں کارآمد مشوروں سے نوازتے تھے۔ مسجد میں جاتے تو نمازیوں سے مصافحہ کے بعد ان کے حالات بھی پوچھتے۔ وہ کہتے کہ نماز کے بعد ایک دوسرے کے حالات سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔ حالاتِ حاضرہ سے آگاہی کے تمام وسائل سے استفادہ کرتے تھے پھر اس کا تجربہ و تحلیل کرتے۔ ان کے احباب کا دائرہ کار دنیا بھر میں پھیلا ہوا تھا اور وہ ان سے رابطے میں رہتے۔ بعض دوستوں نے بتایا کہ
وفات سے ڈیڑھ گھنٹہ قبل بھی ان کے میسج آئے۔ انہیں کبھی مایوس نہیں دیکھا۔ ہمیشہ پرامید رہتے۔ جتنی پریشانی ہوحوصلہ دیتے کہ اللہ بہتر کرے گا۔ وہ بھائیوں کے لئے بہت کچھ کرناچاہتے تھے۔ وہ اپنے علاقے کے لوگوں کے لئے دینی و فلاحی منصوبے رکھتے تھے۔ ہمیشہ اچھا سوچتے تھے۔ وہ ہنس مکھ اور خوش مزاج تھے۔ ہر روز خواب دیکھتے تھے جو سراب میں بدل جاتا تھا۔ انہوں نے ایک عام سطح کی زندگی گزاری بلکہ کٹھن زندگی گزاری مگر اسے دوستوں پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔ بہت سی باتیں کرنی تھیں ان سے اور بہت سی باتیں ان سے کہیں بھی اور بہت سی باتیں وہ دل میں لے کے چلے گئے ،کئی طالبعلموں نے رابطہ کیا کہ ان کی تعلیم کے اخراجات شاہ صاحب نے ارینج کئے ہوئے تھے۔ جتنی باتیں کی جائیں کم ہیں۔ مگر ان کا بے وقت اچانک چلے جانا جہاں ان کے بیوی بچوں اور دوست احباب کے لئے دکھ والم کا باعث ہے وہیں میرے لئے کرب و اندوہ کا باعث ہے۔ واقعی امام حسین ؑ نے حضرت عباس علمدار کی شہادت پر جو فرمایا تھا کہ میری کمر ٹوٹ گئی ہے۔ میری حالت اس سے کم نہیں ہے۔
سنا ہے کہ عمل سے زیادہ نیت کا اجر ملتا ہے۔ گو کہ آپ نے بہت عمل کئے مگر جن نیک کاموں کی نیت کی ہوئی تھی وہ بہت زیادہ ہیں۔ اللہ ان کا اجر کثیر مرحوم برادر سید محمد علی ترمذی کی روح کو عطا فرمائے اور لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ آمین