آئی ایس او کی تشکیل کے ابتدائی مرحلے
تحریر: انجینئر سید علی رضا نقوی
رکن مجلس ادارت ہفت روزہ رضا کار، لاہور جناب آغا سلمان باقر کی خواہش کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے چند الفاظ تحریر کر رہا ہوں اور یہ تحریر یادوں کے سہارے لکھ رہا ہوں۔ 1972ء کے اوائل میں انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں مجھے شیعہ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کا جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا۔ میں اس وقت سیکنڈ ایئر میں تھا۔ کہا جاتا تھا کہ ایسوسی ایشن کی شاخیں چند ایک شہروں کے کالجز اور یونیورسٹیوں میں موجود تھیں اور آہستہ آہستہ ممبران اور عدم وجود کا شکار ہوتی گئیں۔ گل محمد نقوی کو غالباً مرکز کا نمائندہ/جوائنٹ سیکرٹری منتخب کیا گیا۔ اس تنظیم کا باقاعدہ دستور تھا۔ ایک دو ماہ کے دوران دیکھا کہ حقیقتاً یا تو مرکز کا وجود نہیں یا تعلق نہیں۔
لہٰذا ساتھیوں کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ حقائق سے چشم پوشی نہیں کرنا چاہیئے۔ اپنی حیثیت اور حقیقت کو تسیلم کرکے آگے بڑھنا چاہیئے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اجلاس عام منعقد کرکے ایسوسی ایشن کی موجودہ حیثیت و وجود کا اعلان کیا گیا اور ایک دستور کا خاکہ منظوری کے لیے پیش کیا گیا اور اس عزم اور عہد کا اعلان کیا کہ دوسرے کالجز اور یونیورسٹیوں میں بھی طلباء کو منظم و مربوط کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ یونیورسٹی کے ایک ممبر نیاز حسین نقوی نے اس مقصد کے حصول کے لیے اگلے مہینے میں تعاون کی پیش کش کی۔ ماہ مئی 1972ء کے انتظار میں میرے ذہن میں کئی تصورات آتے اور جاتے تھے۔
نقوی بھائی! آخری پیریڈ کے بعد میرے کمرے میں تشریف لائے اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا رضا بھائی پھر آپ تیار ہیں؟ میں نے کہا ”یقینا” وہ کمرے میں بیٹھ گئے، میں نے چائے منگوائی۔ اگلے دن جانے کے لیے وقت کا تعین ہوا۔ جاتے جاتے نقوی صاحب نے فرمایا، رضا بھائی! میرا کام صرف آپ کو ہر کالج/یونیورسٹی کے شیعہ طلباء تک پہنچانا اور پہلے اجلاس کے منعقد ہونے تک ہوگا۔ پھر آپ جانیں اور آپ کا کام۔ میں بری الذ مہ ہوں گا۔ ان کے پاس ایک سائیکل تھی۔ ہم دونوں سائیکل پر بیٹھے اور کوآپریٹو اسٹور چوک میں آکر نایاب سائیکل سٹور سے ایک اور سائیکل کرائے پر لی۔ اس اسٹور کے مالک نایاب نقوی تھے، جو ہم سے شیعہ ہونے کے ناطے سے شفقت اور پیار کرتے تھے۔
گورنمنٹ کالج لاہور آگیا۔ اتوار کا دن تھا۔ تقریباً ساڑھے بارہ بجے کا وقت تھا۔ سامنے سے ایک باریش اور مسکراتا ہوا، بارعب، کشادہ پیشانی اور سانولے رنگ کا نوجوان نمودار ہوا۔ دور ہی سے بازو پھیلائے ہوئے بھاگا اور برادر نیاز نقوی کو گلے لگا لیا۔ دو چار منٹ تک حال احوال پوچھا گیا اور پھر نیاز نقوی نے پوچھا کہ آج اتنی جلدی درس ختم کر دیا۔ برادر نے فرمایا کہ آج مولانا درس دینے کے لیے نہیں آسکے۔ میں نے خود ہی مختصر درس دے کر طلباء کو فارغ کر دیا ہے۔ برادر نے ہمیں ہاسٹل چلنے کے لیے مجبور کیا۔ ہم ساتھ ساتھ ہوسٹل پہنچے۔ کمرے میں جا کر تعارف کا مرحلہ طے ہوا۔ یہ تھے جناب فیض بخش حیدری۔ جناب فیض بخش صاحب سرائیکی میں گفتگو کرتے رہے، جو اپنے دامن میں احساس اپنائیت اور شرینی کو بہت زیادہ سمیٹے ہوئے تھی۔
ان سے شیعہ طلباء کو منظم و مربوط کرنے، ان نوجوانوں کو ملی و قومی امور پر توجہ دینے، مذہب و ملت کو مایوسی اور انتشار و افتراق نیز خود ساختہ لیڈروں اور رہنماؤں سے بچانے پر گفتگو ہوئی۔ فیض بھائی نے شروع شروع میں عدم دلچسپی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ میں جو خدمت دین و مذہب کی کرسکتا ہوں، وہ اس درس کے ذریعے کر رہا ہوں۔ اس درس کو شروع کرنے اور جاری رکھنے کے لیے مجھے بہت زیادہ وقت صرف کرنا پڑتا ہے۔ میں مزید وقت دینے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ہم نے کہا کہ ایسے دروس کا اجراء ہر کالج یونیورسٹی میں ہونا چاہیئے۔ ہم آپ کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ آپ ہمارے ساتھ تھوڑا سا تعاون فرمائیں۔ ہمیں اپنے اردگرد کے کالجز اور یونیورسٹی کے شیعہ طلباء کے ایڈریس دیں یا ملاقات کروا دیں۔
انہوں نے بتایا کہ اورینٹل کالج اور لاء کالج اولڈ کیمپس میں اسدیہ فیدڑیشن ہے، ان کے ذمہ دار افراد اتوار کو درس پر آتے ہیں۔ اب تو وہ اپنے کمروں سے نکل چکے ہوں گے اور ان کو ڈھونڈنا مشکل ہے۔ اگلے دن اپنی کلاس چھوڑ کر کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں جانے کا پروگرام بنا۔ کیونکہ سنا تھا کہ بابر نقوی ایس ایس اے کے آخری جنرل سیکرٹری تھے، جن کو ریکارڈ منتقل کیا گیا تھا۔ وہاں پر ڈاکٹر ماجد نو روز عابدی مل گئے، جن سے ہم نے اپنے طویل سفر کا مقصد بیان کیا اور مدد و تعاون کی درخواست کی۔ انہوں نے بابر نقوی و دیگر کالجز کے بعض احباب کے پتے بتائے۔ چائے پلائی اور ایک لڑکا بھی فرماں برداری اور خاموشی سے باتیں سنتا رہا۔ ہم نے ڈاکٹر ماجد سے دوبارہ ملنے کے لیے دن اور وقت طے کیا، اپنے نئے دوست کو وہیں ملنے کی دعوت دی اور واپس یونیورسٹی چلے آئے۔
اگلے دن ہم ڈاکٹر بابر کو ڈھونڈنے کے لیے راوی روڈ پر لیڈیز ولنگٹن ہسپتال گئے، لیکن بسیار کوشش کے وہ نہ ملے۔ واپسی پر برادر فیض بخش سے ہاسٹل میں ملے اور یونیورسٹی واپس چلے آئے۔ اگلے روز ہم ایم اے او کالج گئے اور کلاس میں برادرز کو ملنے کی کوشش کی۔ یہاں پر شیعہ طلباء ایس ایس اے کے نام سے سال میں ایک دو بار کسی تقریب کے بہانے مل بیٹھتے تھے، پھر یہاں کے صدر/جنرل سیکرٹری کے گھر گئے (نام مجھے یاد نہیں) ان سے ملاقات ہوئی اور ہماری گفتگو تقریباً مندرجہ ذیل نکات پر ہوئی۔
* خود ساختہ اور آلہ کار رہنماؤں اور لیڈروں کی وجہ سے ملت کو قومی نقصان اور بدنامی کی وجہ سے آپس میں افتراق انتشار۔
* ملت میں کسی متحدہ پلیٹ فارم اور قیادت کے نہ ہونے کی وجہ سے مایوسی، بے بسی، زوال اور تنزلی۔
* مخلص اور باعمل دین دار علماء کی کنارہ کشی اور ان کی جگہ قول و فعل میں تضاد رکھنے والے ذاکر اور مجلسی علماء کا قوم پر مسلط ہونا۔
* ناصرف نوجوانوں، طلباء اور طالبات بلکہ پورے معاشرے کا اسلامی اقدار کو چھوڑ کر مغربی تہذیب کو اپنانے سے اپنی ترقی و خوشحالی سمجھنے کے نظریئے کا فروغ۔
* نماز کا پڑھنا اور روزے رکھنا ایک قدامت پسند اور غیر ترقی یافتہ فعل سمجھا جاتا تھا۔
* خاص طور پر طلباء اپنے آپ کو شیعہ ظاہر کرنے سے کتراتے تھے اور چھپاتے تھے۔ ان کے ہر فعل سے مغربی تہذیب کی جھلک نظر آتی تھی۔
* ان برائیوں کے خلاف جہاد کرنے کے لیے نوجوانوں اور طلباء کو ایک پلیٹ فارم پر متحد و مربوط کرنے کا طریق کار و لائحہ۔
ایک دن ہم نیو کیمپس گئے، کیونکہ یہاں پر جمیعت طلباء اثناء عشری تھی اور ہم اس جمیعت کے کسی فرد یا کسی کے نام سے واقف نہ تھے۔ لہٰذا ہم نے سوچا کسی اکیلے طالب علم کو روک کر اس سے کسی شیعہ برادر کا پوچھا جائے، پھر شیعہ فرد سے جمیعت کے صدر/جنرل سیکرٹری کا پوچھا جائے۔ برادر نیاز نے لڑکوں کے چہروں کا بطور جائزہ لینا شروع کیا۔ ایک لڑکا انہیں اپنے علاقے میانوالی/بھکر کا نظر آیا۔ اسے متوجہ کیا اور پوچھا کہ وہ کسی شیعہ لڑکے کو جانتا ہے۔ وہ ہمیں اپنے ساتھ ہاسٹل لے گیا اور ایک شیعہ لڑکے (نام مجھے یاد نہیں) سے ملاقات کرا دی۔ اس سے ہم نے جمیعت کے بارے میں بات کی تو اس نے ہمیں جنرل سیکرٹری تک پہنچا دیا۔ اس کا نام غالباً امتیاز تھا۔ جو آج کل راولپنڈی میں ہیں۔
واپسی پر ایف سی کالج گئے۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک شیعہ لڑکا ڈھونڈا اور اسے ہم نے اپنا مقصد اور پروگرام بتایا۔ اس نے کہا کہ وہ اپنے کالج میں اور بھی لڑکوں سے بات کرے گا اور پھر ہر طرح کے تعاون کے لیے حاضر ہے۔ ہم نے ایس ایس اے کی طرف سے باقاعدہ دعوت نامہ تیار کیا اور لاہور کے تمام کالجز اور یونیورسٹیوں کے شیعہ طلباء اور انجمنوں کے نمائندوں کو دعوت دے دی۔ 22 مئی 1972ء کو چار بجے دن کیفے ٹیریا، مین بلاک میں ایک منی کنونشن کے انتظامات کئے۔ یہ دعوت نامہ پہنچانے کے لیے میں ایک بار پھر نیاز نقوی کو ساتھ لے کر تمام برادران کے پاس گیا اور دعوت نامے کے ساتھ شرکت کی تاکید بھی کی۔
22 مئی 1972ء کو سخت گرمی تھی۔ جھلسا دینے والی گرم لو چل رہی تھی، تیز چبھنے والی دھوپ تھی۔ اتنی گرمی کو دیکھ کر میں سخت بے چین تھا، کیونکہ اتنی گرمی میں تمام طلباء اپنے اپنے کمروں میں گھسے ہوئے تھے۔کیفے ٹیریا کے ارد گرد گویا ہو کا عالم تھا، کیفے ٹیریا کے اندر لوہے کی کرسیاں تپی ہوئی تھیں، لیکن میری خوشی کی انتہاء نہ رہی، جب ساڑھے چار بجے تک سولہ تعلیمی اداروں میں سے چودہ تعلیمی اداروں کے نمائندے حاضر تھے۔ اجلاس شروع ہوا، غیر طلباء میں سے ڈاکٹر ماجد نوروز تھے، ایک اندازے کے مطابق تقریباً پینتیس طلباء شریک محفل تھے، جن میں سے مجھے یاد ہے، بابر نقوی، مرغوب زیدی، شیخ نوازش علی، فیض بخش، خیر محمد بدھ، شجر، اعجاز رسول نگری نقوی، امتیاز اور رشید تھے۔
صدارت کے فرائض ایس ایس اے کے انجینئرنگ یونیورسٹی کے صدر فضل عباس نے ادا کئے اور سیکرٹری کے طور میں نے اس تمام گفتگو کا خلاصہ پیش کیا، جو پچھلی تمام ملاقاتوں میں فرداً فرداً ہوئی تھیں، اس اجلاس میں نظریئے بھی زیر بحث آئے۔
* تمام طلباء تنظیموں کو متحد کرکے اور مدغم کرکے ایک پلیٹ فارم بنایا جائے اور ہر کالج و یونیورسٹی میں اس کا یونٹ ہو۔
* تمام کالجز اور یونیورسٹیز میں طلباء تنظیمیں، جو جس نام سے کام کر رہی ہوں اور ایک آدھ ماہ کے اندر اس انداز سے اجلاس ہوا اور ایک دوسرے کے تجربات سے آگے بڑھا جائے۔
دوسرا نظریہ ہماری ہی یونیورسٹی سے برادر گل محمد نقوی، فضل عباس اور میں نے پیش کیا تھا، کیونکہ ایس ایس اے کا تجزیہ اس کے سامنے تھا۔ بہرحال شرکاء نے پہلے نظریہ کو زیادہ واضح اور صحیح قرار دیا۔ تمام تنظیموں کو ایک کرکے متحدہ پلیٹ فارم تشکیل دینے کا اعلان کیا۔ اس کا نام ایس ایس اے تجویز ہوا اور ایک دستور ساز کمیٹی بنائی گئی، جس نے 11 جون 1972ء کو ڈاکٹر ماجد نوروز عابدی کے ہاں اجلاس میں دستور کا خاکہ پیش کرنے کے لئے کہا گہا۔ کے ای میڈیکل کالج کے جو برادر اس دستور ساز کمیٹی میں شریک تھے، وہ وہی تھے، جن سے ہماری ملاقات کے ای میں سر راہ ہوئی تھی۔ محمد علی نقوی جو فرسٹ ایئر کے طالب علم تھے۔ مجھے اب بھی یاد ہے، جس دن دستور کا خاکہ مجھے اجلاس میں پیش کرنا تھا، برادر محمد علی ساری رات مجھ سے بحث تمحیص کرتے رہے۔
ساڑھے چار بجے ڈاکٹر ماجد نورز عابدی کے ہاں پہنچے۔ اس میٹنگ میں دو تین علماء کرام بھی شریک تھے۔ قبل اس کے کہ میں دستور پیش کرتا، ایس ایس اے کے نام پر علماء و طلباء کے درمیان بحث چھڑ گئی۔ انہوں نے فرمایا کہ قانون کی رو سے ایک فیڈریشن ایک ایسوسی ایشن میں مدغم نہیں ہوسکتی، لہذا یہ صحیح نام نہیں ہے۔ آخر علماء کرام نے تین چار افراد سے مشورہ کرنے کے بعد نیا نام امامیہ اسٹونٹس آرگنائزیشن تجویز کر دیا، جسے تمام شرکاء نے پسند کیا۔ دستور کی منظوری کے بعد چھ ماہ کے لئے ایک عبوری کابینہ کا انتخاب ہوا، جس کے صدر ڈاکٹر مرغوب زیدی، جنرل سیکرٹری شیخ نوازش علی اور جوائنٹ سیکرٹری مجھے مقرر کیا گیا۔ اجلاس میں مولانا صادق علی نجفی، مولانا آغا علی الموسوی اور مولانا مرتضیٰ حسین صدر الافاضل شریک ہوئے تھے۔ مولانا صادق علی نجفی اتوار کے دن گورنمنٹ کالج میں درس دیا کرتے تھے۔
کھوج، سید نثار علی ترمذی
ہفت روزہ رضا کار 24 دسمبر 1985ء