آیتہ اللہ سید علی خامنہ ای ۔۔۔ مبارزِ حقیقی
نوجوان دانشورمعلم احمد الیاس سوشل میڈیا پہ اپنی تحاریر کے حوالے سے معروف مقام رکھتے ہیں، سماجیات، تاریخ مذہب اور اسلام کے جہانبانی کے پہلو پہ خاص تخصص رکھتے ہیں، آپ مسلم مکاتبِ فکر کے درمیان اتحاد و اتفاق و ہم مشربی کو احیا امت کے لئے اہم جزو جانتے ہیں، رہبرِ معظم آیتہ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی شخصیت پہ ایک تحریر قارئین کی نذر
تحریر: احمد الیاس
ایرانِ کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کی شہرت عالمِ دین کے طور پر ہے۔ انہیں فی زمانہ عالمِ تشیع کے دو سب سے بڑے علماء میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، پوری دنیا میں کروڑوں امامی اثناعشری شیعہ دینی معاملات میں ان کے مقلد ہونے کے دعوے دار ہیں۔ لیکن ۔۔۔۔
1989 میں جب انہیں ایران کا سپریم لیڈر چنا گیا، اس وقت ان کی شہرت عالمِ دین کے طور پر نہیں بلکہ جنگی لیڈر اور سٹریٹجی میکر کے طور پر تھی۔ ظاہر ہے وہ تعلیم کے اعتبار سے سند یافتہ عالمِ دین ہی تھے لیکن ان سے زیادہ اثر و رثوخ اور علمی قد کاٹھ رکھنے والے علماء سے قم اور نجف کے ہوزہ ہائے علمیہ بھرے ہوئے تھے۔
1979 کا انقلاب مغرب کے لیے بڑا دھچکا تھا۔ اس انقلاب کی صورت ابھرنے والے خطرے سے نمٹنے کے لیے امریکہ نے عراق کے صدر صدام حسین کو استعمال کیا جو حال ہی میں برسراقتدار آئے تھے۔ (صدام امریکہ کے خلاف بعد میں ہوئے تھے)۔ عراق نے 1980 میں عراق پر حملہ کردیا اور یوں آٹھ سالہ ایران عراق جنگ کا آغاز ہوا۔
علی خامنہ ای نے انقلاب کے بعد کچھ عرصہ وزیر دفاع کے طور پر خدمات سرانجام دیں اور پھر پارلیمنٹ کے نمائندے کے طور پر محاذ کے دورے کرتے رہے۔ 1981 میں صدر محمد علی رجائی کے قتل کے بعد انہیں صدر بنایا گیا۔ وہ آٹھ سال تک روح اللہ خمینی کی رہبری میں ایران کے صدر رہے۔
گویا ایران عراق جنگ میں ایران کی کمان علی خامنہ ای کے ہاتھ میں تھی اور بطور صدر وہ اپنے وقت کا بڑا حصہ محاذ پر، مورچوں میں گزارنا پسند کرتے تھے۔ عالمی پابندیوں کے باوجود نوزائیدہ اسلامی جمہوریہ کو اسلحے کی سپلائی جاری رکھنا، معیشت کو بحال رکھنا، ایران کو مکمل عالمی تنہائی سے بچانا اور ایران عراق بارڈر پر تیل کے کنوؤں کی حفاظت، یہ سب بہت مشکل کام تھے لیکن علی خامنہ ای نے کامیابی سے کیے۔ ظاہر ہے اس عمل میں انہیں بہت علم اور تجربہ بھی حاصل ہوا۔
جلد وہ روح اللہ خمینی کے فیورٹ بن گئے۔ خمینی نے بڑے بڑے علماء کو سائیڈ لائن کرکے خمینی کو وسیع اختیارات دئیے۔ جب خمینی کے اپنے نائب حسین علی منتظری سے اختلافات ہوئے تو عملاً صدر خامنہ ای ہی خمینی کے نائب سمجھے جانے لگے۔ اسی لیے خمینی کی وفات کے بعد ایران کی انقلابی اسٹیبلشمنٹ نے بڑے بڑے علماء کی بجائے خامنہ ای کو سپریم لیڈر چنا، اگرچہ خامنہ ای خود یہ عہدہ لینے کے خواہشمند نہ تھے اور دوبار صدارتی الیکشن لڑ کر میدانِ عمل میں متحرک رہنا چاہتے تھے۔
اس وقت دنیا میں دو ایسے لیڈر ہیں جنہیں دفاع، انٹیلی جنس، جنگ اور سٹریٹجی جیسے معاملات میں سب سے زیادہ تجربہ حاصل ہے اور جو ان حوالوں سے بہت ذہانت بھی رکھتے ہیں : ایک روس کے صدر پیوٹن اور دوسرے ان سے بھی بڑھ کر علی خامنہ ای۔ وہ اپنے پیشرو امام خمینی یا دیگر کئی شیعہ علماء کی طرح دانشور تو نہیں ہیں لیکن سٹریٹجک جینئیس ہیں۔
داخلی پالیسیوں کے حوالے سے ان کی الٹرا کنزرویٹو اور اتھاریٹیرئین لائن نے ایران کے اندر اسلامی و انقلابی فکر کو خاصا نقصان پہنچایا ہے اور اس رویے کے ردعمل میں ایرانی نوجوانوں میں اسلام گریزی کافی بڑھی ہے لیکن جن حالات اور چیلنجز میں انہوں نے اسلامی رجیم کو قائم اور ایران کو مستحکم رکھا ہے، نیز علاقائی سطح پر ایک بڑی طاقت بنایا ہے، وہ بہرحال متاثر کن ہے۔ حالیہ تاریخ میں ایسی کامیابیاں شاید ہی کسی اور لیڈر نے حاصل کی ہوں۔