ایران نے کیوں تحرک نہیں کیا؟
ایران نے کیوں تحرک نہیں کیا؟
اسرائیل جب لبنان میں حزب اللہ کو ختم کرنے میں ناکام ہوئے اس کے بعد حزب اللہ کی قدرت کو مکمل ختم کرنے کیلئے اسرائیل نے ایک خطرناک نقشہ بنایا کہ شام میں نیا محاذ کھولے۔
کیوںکہ اسرائیلی محاسبات کے مطابق جب شام میں محاذ کھل جائے تو حزب اللہ فورا وہاں منتقل ہوں گے۔
اس طرح سے حزب اللہ کی ایک بڑی تعداد شام کے گروہوں کے ساتھ جنگ کرنے نکلے گا اور حزب اللہ کی اصلی طاقت منقسم ہو جائیں گے۔
لہذا اس کمزوری سے فایدہ اٹھاکر اسرائیل وہاں سے لبنان پر حملہ کرے گا، پھر حزب اللہ چونکہ شام میں وارد ہوں گے۔ تو حزب اللہ کی اصلی قوت ختم ہو جائے گا۔
جبکہ دوسری طرف شام کی صورتحال یہ بنی تھی کہ بشار الاسد کی حکومت میں اب مقاومت میں دلچسپی ختم ہوگئی تھی۔
وہ مغرب اور عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کا قائل ہوچکا تھا۔
لہذا عملا شام کا محاذ ایران کے لئے زیادہ سود مند نہیں رہا تھا۔
مخصوصا 2023 کے اوائل میں شام نے سعودی عرب کے کہنے پر یمن کے سفارت خانے کو بھی بند کردیا تھا۔
یعنی مکمل طور پر عربوں کو خوش کرنے میں لگا تھا۔
جبکہ طوفان الاقصی کے دوران ایران شام محاذ یعنی جولان پر محاذ کھول کر اسرائیل پر فشار بڑھانا چاہ رہا تھا۔
کیوںکہ شام کے پاس جواز بھی تھا کیونکہ جولان شام کی پہاڑی ہے جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔
جولان پہاڑی پر محاذ کھولتے تو اسرائیل پر دباؤ زیادہ کریٹ ہوتا۔
شاید لبنان میں سید حسن نصر اللہ رضوان اللہ علیہ کو بھی شہید کرنے کی جرات پیدا نہ ہوتی۔
لیکن بشار الاسد نے اس کام سے کھل کر منع کردیا۔
لہذا 2021 سے عملا حزب اللہ تک اسلحہ پہنچانے میں دشواری ایجاد ہوگئی تھی۔
لہذا سوریہ کا محاذ محور مقاومت کیلئے زیادہ جاذبہ نہیں دے رہا تھا۔
محور مقاومت سے ناطہ توڑ دیا گیا تھا۔
لہذا دوبارہ قربانی دے کر اس حکومت کو بچانے کا فایدہ نہیں تھا۔
لہذا ایرانی مغز متفکر نے لبنانی محاذ کو سنبھالنے کا فیصلہ کیا، اسرائیل کے تمام محاسبات کو زیرو رو کردیا۔
اسرائیل کا نقشہ تھا کہ ایران کبھی بھی سوریہ کو ترک نہیں کرسکتا۔
لہذا حتما سوریہ کی خاطر حزب اللہ وہاں وارد ہوں گے۔
لیکن مغز متفکر نے امریکا سمیت اسرائیل کو انگشت بدنداں کردیا۔
اسرائیل کو لگتا تھا کہ حلب اتنے جلدی فتح نہیں۔ ہوں گے کیونکہ ایران پھر 1 لاکھ مجاہدین کے ساتھ وارد ہوں گے۔ لہذا تکفیریوں کے ساتھ درگیر ہوکر غزہ اور لبنان کو بھول جائیں گے۔
لہذا ہم اس فرصت سے فایدہ اٹھا کر حزب اللہ کو مکمل ختم کردیں گے۔
یہاں پر عقل کا تقاضہ یہ تھا کہ مہم اور کم مہم کے درمیان میں سے مہم کو انتخاب کرے۔
ایران کے سامنے مہم سو فیصد لبنان اور فلسطین تھا۔
کیوںکہ سوریہ ایک پل ہے جبکہ اس پل سے فقط حزب اللہ تک اسلحہ پہنچانا ہے۔
لہذا سوریہ کی حیثیت ایک اسٹرٹیجک پوزیشن کی ہے جو ارتباط کنندہ کی حیثیت ہے
جبکہ اصل لبنان ہے۔ یعنی سوریہ لبنان کے مقاومت کی خاطر مہم تھا۔
لہذا اگر سوریہ میں وارد ہوں تو سوریہ بھی ہاتھ سے جاتا اور م حزب اللہ بھی ہاتھ سے چلا جاتا ہے۔لہذا یہاں پر حکیم نے اسٹریٹیجیک عقب نشینی کی۔
سوریہ کو جو فقط روٹ کی حیثیت تھا کو ہاتھ سے جانے دیا۔
جبکہ اصل یعنی حزب اللہ کو محفوظ کرکے اسرائیل کے نقشے کو خنثی کردیا۔
سوریہ میں ایران نے فراست سے کام لیا اور کہا کہ چونکہ تحریر الشام کا اخوان المسلمین اور حماس کے ساتھ تعلقات ہیں،
لہذا اس محاذ کو بعد میں حماس کے ذریعے یا اخوان المسلمین کے ذریعے دوبارہ کھول سکتے ہیں۔
جبکہ اگر لبنان پر اسرائیل کا کنٹرول ہوگیا تو حزب اللہ کا مکمل خاتمہ ہوگا۔
لہذا شام محاذ میں مذاکرات کے ذریعے وقتی طور پر خالی کرے۔
تاکہ اسرائیل کا لبنان محاذ کو ناکام کرنے کا نقشہ نقش بر آب ہو۔
اگرچہ بظاہر شام سے عقب نشینی کی ہے۔
اگر شام مستقل چلے بھی گئے تو اتنا مشکل نہیں ہوگا۔
کیوںکہ حزب اللہ کی نسبت شام کی وہ حیثیت نہیں ہے۔
شام کی ضرورت حزب اللہ کے لئے ہے، جب حزب اللہ ہی ختم ہوں تو پھر شام کا کیا فائدہ۔
لہذا ایران نے یہاں پر ٹیکنکی عقب نشینی کی ہے۔
تاکہ ایک محاذ کو دے کر اصلی محاذ کو باقی رکھے۔
یہ وہ محاسبات تھا جو اسرائیل نے سوچا بھی نہیں تھا۔
انہی لگتا تھا کہ کم از کم پانچ چھ ماہ لگے گا تحریر الشام کو دمشق پہنچنے تک۔
اس دوران تحریر الشام بھی کمزور ہو جائے گا۔
جبکہ میں حزب اللہ کو لبنان سے مکمل طور پر مٹا دوں گا۔
لہذا لبنان کے بغیر سوریہ ایران کے کس کام کا؟
لیکن مغز متفکر نے عقب نشینی تیکنیکی انجام دی اور سوریہ کو اسرائیل کے توقع کے بر خلاف تحریر الشام کے ہاتھوں میں دے دی۔
تحریر الشام کے ساتھ باضابطہ مذاکرات کرکے مقدسات اور کی تضمین لے لی۔
جبکہ باقی جنگ میں دخالت دئیے بغیر اور دشمن کے چال میں پھنسے بغیر اسرائیل کا نقشہ خنثی کردیا۔
خود حزب اللہ کے پاس اس وقت کم از کم دس سال سے زائد تمام عیار جنگ لڑنے کی توانائی بھی موجود ہے۔
دوسری بات خود ایران بیروت تک بھی جاسکتے ہیں
اس کے علاوہ لبنان کے اندر بھی ایران نے حزب اللہ کیلئے میزائل سازی کی فیکٹریاں بنا کر دی ہوئی ہے۔
لہذا حزب اللہ محاصرہ میں آ بھی جائے تو پھر بھی کم از کم دس سے پندرہ سال جنگ کرنے کے اسلحے سے مسلح ہیں۔
دوسری جنگ ان دس پندرہ سالوں میں ایران دوبارہ شام کو حاصل بھی کرسکتا ہے۔
یا شامی اخوان المسلمین یا شامی حماس کے دفتر کے ساتھ مل کر شامی محاذ کو لانا آسان ہوگا۔
🔹 اسرائیل کا نقشہ یہ تھا کہ تحریر شام کو فقط لڑانا تھا یا حلب تک مشغول کرنا تھا۔
جبکہ اس کا ارادہ ہی یہ نہیں تھا کہ اسے حکومت دے دے۔
لیکن ایران نے متشدد گروہ کو بالکل اسرائیل کے باڈر پر پہنچا کر اسرائیل کو مزید خطرے میں ڈال دیا۔
تحریر الشام اور اخوان المسلمین میں گہرا رابطہ ہے،
لہذا ایران اس رابطے سے فایدہ اٹھا کر شاید دوبارہ ا جائے۔
🔹لہذا سوریہ سے نکلنا محور مقاومت کی شکست نہیں بلکہ فتح ہے۔
کیونکہ اس کے ذریعے اسرائیل کے اس خطرناک منصوبے کو ناکام کیا ہے جو حزب اللہ کے خاتمے کیلئے کھینچا گیا تھا۔
لہذا اسرائیل خود خطرے میں پڑ گیا ہے۔
اسرائیل کی کوشش تھی کہ جنگ تحریر الشام کرے جبکہ حکومت کسی اور سیکولر کو دے دے۔
کیونکہ ان کے مطابق ایران کے دفاعی حملوں میں تحریر الشام کمزور ہو جائیں گے. لبنان محاذ کو مکمل محفوظ بنایا