حجة الالسلام والمسلمین آغاعلی الموسوی

تحریر: سید نثار علی ترمذی
لاہور کے تاریخی شہر ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں تاریخی شخصیات رہائش پزیر تھیں. جہاں اس شہر کی تاریخی عمارات کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہیں ہیں وہیں تاریخی شخصیات کے آثار و افکار کو بھی محفوظ کرنے کی ضرورت ہے.
آغا علی الموسوی مرحوم انہی میں سے ایک ہیں. آپ نے نصف صدی سے زائد عرصہ تک اس شہر کو اپنے علم وفضل وکردار سے جگماے رکھا. اس مناسبت چند پہلو پیش کیے جاتے ہیں-
آپ 1952ء میں لاہور تشریف لائے.
آپ کے والد گرامی مرحوم علامہ آغا حسن الموسوی اندرون موچی دروازہ میں ایک چھوٹی سی مسجد کشمیریاں میں امامت و تبلیغ کی زمہ داری ادا کرتے تھے.
آپ نے اپنے والد بزرگوار کی وراثت کو سنبھالا, اسے پروان چڑھایا بلکہ اسے آیندہ نسلوں کو بھی منتقل کیا.
آپ عراق میں ممتاز مجاہد نواب صفوی شہید کے ہم کلاس و ہم کمرہ بھی رہے.
آپ نے محراب مسجد کو تبلیغ دین کا مورچہ بنا دیا اور اسے آخری سانس تک نبھاتے رہے. آپ کی شخصیت نے پیش نمازی کے منصب کو عروج پر پہنچایا.
آپ نے ایک قبیلہ جسے عرف عام میں نارووالی شیخ, کہا جاتا ہے میں وہ دینی روح بھر دی کہ ان کی نسلیں سنور گیں.
آپ نے امربالمعروف ونہی عن المنکر کی تحریک چلائی. واجبات دین خصوصاً خمس کی ادائیگی پر لو گوں کو متوجہ کیا, جس کے ثمرات سے ملک بھر کے دینی مدارس, تنظیمیں, ادارے اور مستحق افراد نے فیض پایا.
آپ نے روایتی مجالس کے ساتھ دروس کا سلسلہ شروع کیا جس کے آپ بانی کہلانے کے مستحق ہیں.
آپ نے دعا کے کلچر کو عام کیا, کربلا گامے شاہ میں دعاے کمیل کی محفل کے آپ بانی اور قاری تھے.
آپ جامعہ المنتظر سمیت بہت سے مدارس دینیہ کے بانی و موسس تھے. آپ مولانا صفدر حسین نجفی مرحوم کے ساتھی و ہمکار تھے.
آپ لاہور میں رہتے ہوے بھی اپنے آبائی علاقہ کی دینی و سیاسی طرقی کے لیے متواتر کوشاں رہے.
آپ تمام ملی و اہم مقامی تنظیموں کے فعال رکن, ہمدرد اور معاون رہے.
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن, امامیہ آرگنائزیشن و دیگر تنظیموں کے بانی و سرپرست تھے. امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے تا دم آخر ایک شفیق باپ کی طرح سایہ فگن رہے. قائد ملت مفتی جعفر حسین مرحوم کے ساتھ بھر پور کام کیا. شہید علامہ عارف حسین الحسینی کے 1985 سے 1986 تک سینئر نائب صدر رہے. سپریم کونسل کے رکن رہے.
آپ اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے اس مناسبت سے دیگر مسالک علماء سے روابط میں رہتے تھے. کئ علماء سے دوستی تھی. آپ کا یہ ایک فقرہ کئ کتب کے برابر ہے جو آپ نے منصورہ کی مسجد میں خطاب کرتے ہوے کہا” اے شیعہ علی سے بڑھ کر شیعہ نہ بن, اے سنی عمر سے بڑھ کر سنی نہ بن. “
آپ ان تین علماء میں سے ایک ہیں جنہوں نے آیت اللہ محسن الحکیم کی رحلت کے بعد آیت اللہ امام خمینی کی تقلید کی, دوسرے علامہ صفدر حسین نجفی مرحوم اور علامہ مرتضیٰ حسین صدرالافاضل مرحوم تھے. آپ نے 1986 میں رہبر معظم کی شالامار باغ لاہور کی تقریر کا اردو ترجمہ کیا.
آپ جہاں خود شاعر تھے وہاں علامہ اقبال شناس بھی تھے. آئی ایس او کے مرکزی صدر کا اعلان شاعری میں کرتے تھے.
آپ ایک اچھے مقرر تھے, اور مشکل سے مشکل بات بھی آسان و سادہ لفظوں میں بیان کرنے کا فن جانتے تھے. آپ کی محفل میں بیٹھ کر کوئی شخص بور نہیں ہوتا تھا.
آپ مشکل حالات میں بھی حق و صداقت کے امین رہے. حق بات کا برملا و بروقت اظہار آپ کا طرہ امتیاز ہے.
آپ بااخلاق, خوش اخلاق, باکردار اور سادہ زیستی کا نمونہ تھے.
حسین علیہ سلام اور اکیس رمضان کے جلوس عزا کی نماز ظہرین آپ کی اقتداء میں ادا کی جاتی رہی.نماز اول وقت میں ادا کرتے تھے. لاہور کے مرکزی جلوس عاشور, چہلم امام
اپ ماہ رمضان کی صبح کو اس دار فانی سے کوچ کر گیے. 29 جولائی 2012
آپ یوم رحلت ہے.
اللہ آپ کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرماے آمین ثم آمین
