حزب اللہ لبنان کی ممکنہ نئی قیادت
تحریر: امداد علی گھلو
حزب اللہ کی کامیابی کا راز صرف اس کی عسکری طاقت میں پوشیدہ نہیں، بلکہ اس کی قیادت کی بے پناہ دانشمندی اور حکمت عملی میں بھی مضمر ہے۔ تنظیم کی قیادت نے نہ صرف عسکری و سیاسی میدان میں بصیرت کا مظاہرہ کیا بلکہ اپنی عوامی مقبولیت اور مدبرانہ قیادت کے ذریعے تنظیم کو متحد اور مستحکم رکھا۔ تنظیم کی قیادت کے واضح موقف نے داخلی طور پر حزب اللہ کی بنیادوں کو مضبوط کیا، جبکہ بین الاقوامی سطح پر تنظیم کو ایک ناقابلِ نظرانداز قوت کے طور پر ابھارا۔
سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد ان کی جانشینی کا مسئلہ ایک حساس اور پیچیدہ موضوع بن چکا ہے۔ حزب اللہ میں قیادت کے انتخاب کا طریقہ کار سخت رازدارانہ ہے اور سیکرٹری جنرل کے انتخاب کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہوتی ہیں۔ تاہم، دو اہم شخصیات کو سید حسن نصراللہ کے ممکنہ جانشینوں کے طور پر دیکھا جا رہا ہے: سید ہاشم صفی الدین اور شیخ نعیم قاسم۔
سید ہاشم صفی الدین، سید حسن نصراللہ کی والدہ کے چچا زاد بھائی اور حزب اللہ کی ایگزیکٹو کونسل کے سربراہ، 1994 سے تنظیم کے انتظامی معاملات کی نگرانی کر رہے ہیں۔ نہ صرف حزب اللہ کی قیادت میں ان کا کلیدی کردار ہے بلکہ بعض ذرائع کے مطابق، انہیں کافی عرصے سے سید حسن نصراللہ کے جانشین کے طور پر تصور کیا جا رہا ہے۔ سید ہاشم صفی الدین اپنی طویل انتظامی تجربے کی وجہ سے بڑی اہمیت رکھتے ہیں اور وہ حزب اللہ کے مالی اور انتظامی معاملات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ سید حسن نصراللہ کے جانشین کے طور پر ان کے انتخاب کا فیصلہ 1990 کی دہائی کے آخر میں ہی کر لیا گیا تھا۔ 2011ء میں حزب اللہ کے ایک سابق عہدیدار نے انکشاف کیا کہ سید حسن نصراللہ کے سیکرٹری جنرل منتخب ہونے کے دو سال بعد ہی سید ہاشم صفی الدین کو ان کے جانشین کے طور پر نامزد کر دیا گیا تھا۔
دوسری اہم شخصیت شیخ نعیم قاسم ہیں، جو حزب اللہ لبنان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور تنظیم کے اہم رہنما ہیں۔ وہ حزب اللہ کے بانی ارکان میں شامل ہیں اور تنظیم کی قیادت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ 71 سالہ نعیم قاسم نے دینی اور عصری تعلیم حاصل کر رکھی ہے اور وہ سید حسن نصراللہ کے قریب ترین افراد میں شمار ہوتے ہیں۔ بعض سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ سید حسن نصر اللہ نے نعیم قاسم کو ہی اپنے جانشین کے طور پر متعارف کرا رکھا تھا۔ شیخ نعیم قاسم ایک زیرک، ہوشیار اور سنجیدہ رہنما ہیں، جو دشمن کی صفوں پر گہری نظر رکھتے ہیں اور تنظیمی حکمت عملی میں نمایاں کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
حزب اللہ لبنان نے اپنے منظم ڈھانچے اور انتظامی صلاحیتوں کی بدولت کئی نشیب و فراز کا کامیابی سے سامنا کیا ہے۔ بلاشبہ سید حسن نصراللہ کی شہادت حزب اللہ کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگی؛ لیکن تاریخ کے تجربات نے ثابت کیا ہے کہ یہ تنظیم اپنی ایمانی طاقت، دانشمند قیادت، عوامی حمایت اور علاقائی پشت پناہی کی مدد سے ایسے صدمات سے ہمیشہ آگے بڑھتی رہی ہے۔
سید حسن نصراللہ کی شہادت حزب اللہ کے اختتام کا سبب ہرگز نہیں بنے گی۔ خاص طور پر سید ہاشم صفی الدین اور شیخ نعیم قاسم جیسے طاقتور متبادل کی موجودگی میں، حزب اللہ مزاحمت کی ایک مؤثر قوت کے طور پر خطے میں قائم رہے گی اور فلسطین و بیت المقدس کی آزادی کی جدوجہد جاری رکھے گی۔
حزب اللہ کی قیادت میں تسلسل اور تنظیمی ڈھانچے کی مضبوطی نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ قیادت میں تبدیلی کے باوجود تنظیم کی راہیں متعین اور مضبوط رہیں۔ یہ قیادت کا تسلسل اور داخلی یکجہتی ہی ہے جو حزب اللہ کو ہر طرح کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے قابل بناتی ہے۔
واضح رہے کہ مذکورہ دو ناموں کے علاوہ، اگر کوئی اور اہم رکن بھی حزب اللہ کی قیادت سنبھالتا ہے، تو تنظیم کی مزاحمتی حکمت عملی اور فلسطین کی آزادی کے لیے جاری جدوجہد، ماضی کی طرح، ایک مضبوط اور متحرک قیادت کے تحت مسلسل آگے بڑھتی رہے گی۔ حزب اللہ کا منظم ڈھانچہ اور اس کی گہری عوامی جڑیں اسے ہر قیادت کے تحت مزاحمت کے سفر میں کامیاب بناتی آئی ہیں اور مستقبل میں بھی یہی اصول کارفرما رہے گا۔
مزید برآں، قیادت میں تبدیلی کے باوجود، حزب اللہ کا تنظیمی ڈھانچہ اس قدر مستحکم ہے کہ داخلی اتحاد اور عوامی حمایت تنظیم کی بنیادی طاقت بنے رہیں گے، جس سے مزاحمت کا تسلسل برقرار رہے گا۔