سپریم کورٹ میں جج صاحبان کے ایک دوسرے کو دلائل
تحریر: یافث نوید ہاشمی(ایڈووکیٹ سپریم کورٹ)
محترم یافث نوید ہاشمی ایڈووکیٹ ماہر قانون دان ہیں، ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان بنچ کے نا ئب صدر رہے ہیں، آئینی و قانونی أمور پہ گہری منظر رکھتے ہیں، پروسیجر اینڈ پریکٹس ایکٹ 2023 پہ فیصلے کے حوالے سے آپ کی ماہرانہ تحریر
۱۲ اکتوبر کےدن کی مختلف سماعتوں کے بعد سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ پریکٹس ایکٹ 2023 کا فیصلہ آ ہی گیا۔ فیصلہ جیسا بھی آیا اس پر مثبت و منفی تنقید کی جا سکتی ہے۔
لیکن اہم ترین بات یہ ہے کہ ان سماعتوں کے دوران بالخصوص گزشتہ دو دنوں میں جج صاحبان نے جیسے اپنے ساتھی ججوں کو دلائل دیئے وہ حیرت انگیز تھا۔ مختلف جج صاحبان بشمول معزز چیف جسٹس مختلف اوقات میں دیگر جج صاحبان کی آبزرویشن کو اپنے سامنے روسٹرم پر موجود وکیل کے کچھ کہنے سے پہلے خود ہی رد کر دیتے تھے یا اس کے مقابلے میں کوئ دلیل پیش کر دیتے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ معزز جج صاحبان خود ایک دوسرے کو دلائل دے رہے ہیں جو کہ یقیناً ایک ملک کی سب سے بڑی عدالت کے وقار کے شایانِ شان نہیں تھا اور اسی وجہ سے کئی مواقعں پر روسٹرم پر کھڑے طرفین کے وکلاء صاحبان بشمول اٹارنی جنرل کو عجیب صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا کہ وہ جس معزز جج صاحب کی طرف متوجہ ہوں اور کس کی طرف متوجہ نہ ہوں، کن جج صاحب کے سوال کا جواب دیں اور کس کا نہ دیں۔
مثال کے طور پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ایک ٹیم کے تین کپتانوں کے ہوتے ہوئے ہارنے کی مثال دی تو فوراً جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے سپورٹس سے تعلق کو بیان کرتے ہوئے کپتان اور نائب کپتان کا تصور پیش کر دیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے finanlity of judgments کے تصور پر بات کی تو معزز چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فوراً آئینی نکتہ نظر پیش کرتے ہوئے کچھ اختلاف کیا۔ اسی وقت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے colonial era کے قانون اور اسلام کی بات کی تو جسٹس منیب اختر نے اس پر اپنی رائے پیش کی۔ بظاہر تو سب جج صاحبان بات کرتے ہوئے اپنے سامنے کھٹرے وکیل کو مخاطب کر رہے ہوتے تھے لیکن ان کے نکتہ نظر اور آبزرویشن سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اپنے ساتھی جج کی دلیل کا رد پیش کررہے ہیں یا ان کی ہی بات کا جواب دے رہے ہیں۔
قانون کی کتب میں ایک محاورہ مشہور ہے کہ Judges speaks through their judgements ۔ لیکن آج کل ہمارے ملک کی عدلیہ میں جج صاحبان کی دورانِ سماعت گفتگو ایک معمول کی بات بن چکی ہے۔ ایک شخص عدالت میں اپنی طرف سے ایک وکیل کو اس لیے engage کرتا ہے کہ وہ وکیل اپنے دلائل کے ذریعے جج صاحب کو قائل کرے لیکن بطور وکیل یہ بات کئی بار میرے مشاہدے میں آئی ہے کہ اب جج صاحبان وکیل کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔
ہماری عدلیہ کے معزز جج صاحبان کو اس طرزِ عمل کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ البتہ آج بھی کئی ایسے جج صاحبان ہیں جو کیس کی پوری سماعت کے دوران خاموش رہتے ہیں یا صرف ایک یا دو سوال کرتے ہیں اور پھر ایک بھرپور فیصلہ دیتے ہیں۔ لیکن ایسے جج صاحبان کی تعداد کم سے کم ہوتے جا رہی ہے۔