سید بشیر حسین بخاری شہید آف سرگودھا

سید بشیر حسین بخاری شہید آف سرگودھا (مؤلف تاریخ جلالیہ)

تحریر : تبسّم نواز وڑائچ

شہید سید بشیر حسین بخاری ۲۵ اپریل ۱۹۱۸ بمطابق ۱۳ رجب المرجب ۱۳۳٦ ھجری مشرقی پنجاب کے مردم خیز خطہ بٹالہ ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے۔ جو اب بھارت میں واقع ہے۔ آپ نے سید علی بخاری سادات کے گھرانے میں جنم لیا۔ مسلم ہائی سکول بٹالہ ہی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور ادیب عالم کی سند بھی اسی زمانہ میں حاصل کی۔جب آپ کا عالم شباب تھا تو پنجاب شیعہ کانفرنس کی رکنیت قبول کی اور سردار بخش حیدری کے ہمراہ پنجاب بھر کا تنظیمی دورہ کیا۔

لکھنو محاذ حسینی:

آپ از ابتدا تا انتہا لکھنو محاذ حسینی میں سرگرم عمل رہے۔ اور یہ ایک ریکارڈ ہے۔ڈسٹرکٹ جیل سیتا پور اور ڈسٹرکٹ جیل بنارس میں ایام اسیری بسر کرتے رہے۔رہائی کے بعد حکومت گوبند ولبھ پنتھ ( پیدائش ۱٠ ستمبر ۱۸۸۷ وفات ۷ مارچ ۱۹٦۱ ) کی وزارت نے ایجیٹیشن کو ناکام بنانے کے لئے ۷۲ گھنٹے کا کرفیو نافذ کیا تو بشیر حسین بخاری صاحب نے ۷۲ رضاکاروں کی قیادت کرتے ہوئے وکٹوریہ روڈ لکھنؤ بالمقابل بالمقابل امام بارگاہ ناظم الدولہ اور قومی پریس لکھنو سے کرفیو توڑتے ہوئے اپنی گرفتاری پیش کی۔ ھفت روزہ شیعہ لاہور نے بخاری صاحب کے ان کارناموں کا تذکرہ کیا ہے۔

قادیان میں حسینی اجلاس :

جناب مظفر علی شمسی نے قادیان میں جو بٹالہ سے ۲٠ کلومیٹر دور ہے حسینی اجلاس کا اجراء کیا تو اگلے سال اسے مکمل تزک و احتشام اور اجلال و احترام سے منعقد کرنے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ جس میں شمسی صاحب کے علاوہ بخاری برادران سید شبیر حسین بخاری سید بشیر حسین بخاری اور سید عاشق حسین بخاری شامل تھے

سید بشیر حسین بخاری کی شادی سید ایوب حسین بخاری کی صاحبزادی سیدہ امتہ الفاطمہ سے ہوئی جن سے آپ کے پانچ بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئیں بیٹوں میں سیداعجاز مرتضیٰ بخاری سید جاوید مرتضیٰ بخاری سید عارف مرتضیٰ بخاری سید رضی مرتضیٰ بخاری اور سید طاہر مرتضیٰ بخاری ہیں جن میں سے اسوقت سید جاوید مرتضیٰ بخاری حیات ہیں جبکہ باقی سب اپنی حیات مستعار گزار کر رخصت ہو چکے ہیں اور اب انکی اولادیں انکی جگہ لے چکی ہیں جواں سال سید طاہر مرتضیٰ بخاری اپنے والد گرامی  کی زندگی میں ہی داغ مفارقت دے گئے اور بخاری صاحب کو پیرانہ سالی میں جوان بیٹے کی موت کا زخم سہنا پڑا۔

بخاری صاحب کے سسر سید ایوب حسین بخاری نے ۱۹۳٠ میں دربار بی بی پاک دامناں لاہور میں عزاداری سیدالشہداء کا اجراء کیا۔ آپکی رہائشگاہ موچی دروازہ لاہور میں بی بی سائرہ کے قدیمی اور مشہور امام بارگاہوں میں سے ایک میں ہے لاہور کے مشہور مجتہد سید علی الحائری نے وصیت کی تھی کہ میری نماز جنازہ سید ایوب حسین بخاری پڑھائیں گے۔ سید علی الحائری وہ شخصیت ہیں کہ جنہوں نے علامہ محمد اقبال کی دوسری نماز جنازہ پڑھائی تھی۔ مجتہد علی الحائری علامہ اقبال کے رفقاء میں سے تھے۔ سید ایوب بخاری کا سن وفات ۱۹٤۸ ہے۔

قائد اعظم کے خطبات میں شرکت :

بشیر بخاری صاحب جالندھر  لاہور راولپنڈی اور انبالہ میں قائد اعظم کے جلسوں میں شریک ہو کر انکے خطابات بھی سنتے رہے۔ لاہور کے اجلاس میں بٹالہ مسلم لیگ کے رضاکاروں نے ایک ہفتہ قبل جملہ انتظامات میں بھرپور حصہ لیا۔جن میں بخاری صاحب بھی ایک دستہ کے انچارج تھے۔ قیام پاکستان کے بعد آپ ہجرت کر کے سرگودھا میں آباد ہو گئے بلاک نمبر ۲٠ شربت چوک میں جناح اسٹریٹ میں آپکی رہائش گاہ المرتضیٰ آج بھی موجود ہے جہاں سے آٹھ محرم کو سرگودھا شہر کا معروف جلوس ذوالجناح برآمد ہوتا ہے جو بخاری صاحب کی باقیات الصالحات میں سے ہے

مناظرہ سندرال :

مناظرہ سندرال نزد خوشاب پاکستان میں یہ پہلا مناظرہ ہے جس میں عیسائی بشیر مسیح آف گل والہ سرگودھا ثالث شیعہ مناظر مولانا حکیم امام بخش معاون مولانا غلام شبیر شاہ اور صدر سید بشیر حسین بخاری تھے جبکہ مولوی نور محمد سندرالوی سنی مناظر معاون مولوی عبدالحکیم شاہ پور اور صدر حاجی شیر باز خان تھے موضوع عقد ام کلثوم بنت علی تھا ثالث نے شیعہ مناظر کے حق میں فیصلہ دیا

بخاری صاحب آل شیعہ کانفرنس اور ادارہ تحفظ حقوق شیعہ کی بنیاد گزاری کے وقت ان کے بھی عہدہ دار تھے اس کے علاوہ بخاری صاحب شیعہ دارالتبلیغ کے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سےمبلغ اعظم و مناظر مولوی اسماعیل  مرحوم سابقہ دیوبندی کی خواہش پر گوجرہ آ گئے آپ مبلغ اعظم کے رسالہ ” صداقت ” کے مدیر بھی رہے صدر ایوب کے دور میں آپ نے سرگودھا سے ھفت روزہ ” المفید ” کا اجراء کیا جس کا مقصد شیعہ حقوق کی ترجمانی تھی مگر صدر ایوب کے بیان پر تنقید کی وجہ سے یہ رسالہ بند کرنا پڑا

مناظرہ جھوک دایا :

جھوک دایا ضلع جھنگ میں مبلغ اعظم مولانا محمد اسماعیل کی تقاریر سے سنی لوگ بلکہ سنی علماء بھی جوق در جوق شیعہ ہوتے جا رہے تھے تنظیم اہلسنت اگرچہ کئی مناظروں میں مبلغ اعظم سے شکست کھا چکی تھی اہلحدیث بھی ناکامی کا منہ دیکھ چکے تھے مناظرہ کوٹ ہمالیہ ریاست پور میں اہلحدیث مناظر مولوی محمد صدیق بری طرح شکست سے دوچار ہوئے جس کے نتیجے میں کافی اہلسنت شیعہ ہو گئے اب ایک مشترکہ محاذ پیر سیال کی سرپرستی میں جھوک دایا قائم کیا گیا جس میں بریلوی دیوبندی چکڑالوی اہلحدیث جامعہ محمدی شریف بکھی شریف سرگودھا کے نامور خطیب حامد علی شاہ ڈاکٹر طاہر بریلوی مولوی احمد شاہ چوکیروی مولوی دوست محمد وغیرہ شامل تھے دوسری جانب اکیلے علامہ مرزا یوسف حسین ۔علامہ صاحب نے کسی کو بھیج کر شہید بخاری صاحب کو بلوا بھیجا ۔ بخاری صاحب سید امجد حسین

شیرازی سید ذوالفقار علی بخاری اور سید اظہر حسن زیدی کو لے کر جھوک دایا پہنچ گئے مخدوم سید خضر حیات شاہ آف شاہ جیونہ نے مبلغ اعظم مولوی محمد اسماعیل کو بلا لیا تھا ۔ مناظرہ ڈٹ کر ہوا ۔سنی تنظیم مناظرہ کے محمد خان گاڑی بلوچ کا داماد اور چچا غلام رسول سرِ مناظرہ ہی شیعہ ہو گیا۔۔ تنظیم اہلسنت کا جنازہ پیر سیال کے کندھوں پر سوار جھوک دایا سے واپس گیا

حق نواز جھنگوی کی شکست :

بانی انجمن سپاہ صحابہ حق نواز جھنگوی نے ایران عراق پاکستان کے شیعہ علماء کو مناظرہ کا چیلنج کیا تو بخاری صاحب نے چیلنج قبول کرتے ہوئے شرائط طے کرنے کے لئے اسے مناظرہ کی دعوت دی لیکن ایک دو تین بار دعوت دینے کے باوجود حق نواز جھنگوی سامنے نہ آیا اس پر اسکی عبرت ناک شکست کے اشتہارات سرگودھا جھنگ چنیوٹ فیصل آباد کے نمایاں مقامات پر چسپاں کر دئے گئے جبکہ لاہور کراچی پشاور کوئٹہ ملتان کے سنی دیوبندی و اہلحدیث علماء و مدارس کو بذریعہ ڈاک ارسال کیا گیا

شہید بخاری صاحب ڈسٹرکٹ مینجر اوقاف کے عہدے سے مدت ملازمت پوری کر کے ۱۹۷۸ میں ریٹائر ہوئے اسی دوران انکی اہلیہ بھی وفات پا گئیں جس کے بعد آپ حج اور زیارات عتبات عالیہ کے لئے عازم ایران و عراق ہوئے۔ آپ چونکہ مذھبی تحقیقی علمی کاموں سے ساری عمر منسلک رہے تو اپنے اسی شغف کی تکمیل کے لئے آپ نے اپنے مکان کی پہلی منزل پر ادارہ تحقیقات اسلامیہ بھی قائم کیا جس میں ایک بہت معیاری لائیبریری بھی قائم کی جس میں نادر و نایاب کتب کا قیمتی ذخیرہ ہے اس ادارے کے تحت آپ  علامہ اقبال اوپن ائیر یونیورسٹی کی طرز پر شیعہ بچوں کی علمی و فکری تربیت کے لئے کافی عرصہ ایک پروگرام چلاتے رہے جس کا باقاعدہ نصاب مدون کر کے کتب پروگرام میں داخلہ لینے والے بچوں کو ارسال کی جاتیں جن میں سے بعد میں ان کا امتحان لیا جاتا اور امتیازی پوزیشن لینے والے بچوں کو انعامات ارسال کئے جاتے جبکہ باقی کامیاب طلبہ کو سندات جاری کی جاتیں

بخاری صاحب مرکز تحقیقات اسلامیہ کی طرف سے ایک ماہانہ پرچہ ” احقاق الحق ” کے نام سے شائع کیا کرتے۔ اس پرچہ میں مرحوم حسن طاہر شیرازی مرحوم سید رضی مرتضیٰ اور تبسّم نواز وڑائچ ریسرچ اسکالرز کے طور پر معاونت کیا کرتے

شہید بشیر حسین بخاری ملت کے لئے درد دل رکھنے والی ایک فعال اور متحرک شخصیت تھے وہ دوسرے مسالک کے عوام اور علماء و سماجی شخصیات سے بھی یکساں روابط رکھنے کے قائل تھے سرگودھا شہر کی مشہور سماجی شخصیت اور اہلحدیث رہنما اور تاجر عبدالستار آزاد ان کے گہرے دوست تھے معروف بریلوی عالم دین اور مرکزی جامع مسجد کمپنی باغ کے خطیب سید حامد علی شاہ اور تحریک ختم نبوت کے مرکزی مقامی رہنما مولانا اکرم طوفانی سے انکے خصوصی مراسم تھے مشہور دیوبندی محقق اور عالم دین مولانا احمدشاہ چوکیروی مرحوم سے ان کے گھریلو مراسم تھے برصغیر کے معروف احراری اور دیوبندی خطیب سیاسی لیڈر اور بیباک صحافی آغا شورش کاشمیری سے بھی انکا بے تکلف یارانہ تھا یہی وجہ ہے کہ جب بخاری صاحب کی شہادت ہوئی تو تمام مکاتب فکر کے علماء نے دلی تعزیت کا اظہار کیا اور شہید کے فرزندان سے گھر آ کر ملے اور پرسہ دیا

شہید سید بشیر حسین بخاری ایک شگفتہ طبیعت اور باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے ان کی صحبت بچوں جوانوں بزرگوں بوڑھوں کے لیئے یکساں مفید ہوتی تھی اور کسی کو یکسانیت بوریت یا اکتاہٹ کا احساس تک نہ ہوتا تھا بلکہ انکی موجودگی میں محفل کشتِ زعفران بنی رہتی وہ ایک مجلسی شخصیت رکھتے تھے اور سماجیات انکی شخصیت کا غالب پہلو تھا انکی فطرت میں خلوص ایثار ہمدردی اور سخاوت تھی وہ ایک مہمان نواز اور خوش اخلاق انسان دوست سید زادے تھے جرات اور کھرا پن انکی بنیادی صفات تھیں وہ ایک نڈر انسان تھے وہ قلم کاری اور خطابت میں یکساں مہارت رکھتے تھے خطرات کا سامنا کرنے سے کبھی نہیں گھبراتے تھے لڑکپن میں لکھنو ایجی ٹیشن سے ساری زندگی آخری سانس تک مؤدت آل محمد میں مشکلات مسائل اور مصائب کا سامنا کرتے رہے پولیس کا جبر و تشدد بھی برداشت کیا عزاداری کی حرمت و تحفظ اور بقا کی خاطر قید و بند کی ساری زندگی صعوبتیں برداشت کرتے رہے ۸۵ سال کی عمر میں بھی عشقِ اہلبیت کے جرم میں پس دیوارِ زنداں بھیجے گئے اور اہلبیت علیہم السلام کو اپنے اس سچے عاشق کے عشق کے صدق و اخلاص کی کیفیت کا علم تھا کہ انہیں نوے سال کی عمر میں شہادت سے سرفراز سرخرو اپنی بارگاہ میں واپس بلایا

یہ رتبہء بلند ملا جس کو مل گیا

ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں

شہادت:

    ۲۱ ستمبر ۲٠٠٦ کی شام کو راقم الحروف کے ہاں علم کشائی کی تقریب تھی جسے شہید بخاری صاحب کے ہاتھوں کروانے کا پروگرام تھا اور انہیں مدعو کیا ہوا تھا لیکن اسی روز صبح حسب معمول وہ اپنے دوست کی دکان پر اخبار کا مطالعہ کر رہے وہ حقہ نوشی بھی کرتے تھے چائے کا کپ سامنے رکھا تھا کہ سپاہ صحابہ کے دہشت گردوں نے ان کے سر پر فائر کیا اور آپ موقع پر ہی خالق حقیقی سے جا ملے۔سرگودھا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دو روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا تمام کاروباری مراکز اور ادارے بند رہے آپکی نماز جنازہ آپکے دیرینہ دوست متبحر و متدین عالم دین پرنسپل دارالعلوم محمدیہ سرگودھا علامہ سید اعجاز حسین کاظمی مرحوم نے پڑھائی اور مرکزی قبرستان میں خانقاہ جلالیہ میں تدفین کی گئی۔ بقول جگر مراد آبادی مرحوم یوں عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا

بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن

 خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

آجکل شہید کے پوتے سید مہدی مرتضیٰ بخاری سلمہ ابن سید رضی مرتضیٰ بخاری اپنے شہید دادا کے علمی ورثے کے حقیقی وارث ہیں جو خود بھی ماشاء اللہ حافظ قرآن خوبصورت قاری اور اچھے قابل مقرر اور محقق ہیں

راقم الحروف تبسّم نواز وڑائچ نے شہید کی شہادت سے کافی سال پہلے ان کا تین گھنٹے کا ایک تفصیلی آڈیو انٹرویو لیا تھا جو ان کی زندگی کے یادگار واقعات پر انہی کی زبان و بیان سے ایک تاریخی دستاویز ہے جو مرکز تحقیقات اسلامیہ کے یو ٹیوب چینل پر موجود ہے جسے شائقین سن سکتے ہیں

ہر گز نمیرد آن دلش زندہ شد بہ عشق

ثبت است بر جریدہء عالم دوامِ ما

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں