شہید راہ ِ حق کاظم حسین شاہ شہید
( ۱۵ اکتوبر شہید کی برسی ہے۔ سورہ فاتحہ مع صلواۃ ھدیہ کرنے کی درخواست ہے )
تحریر: سید نثار علی ترمذی
ایک دن مشہور “ترغیبی ناصح ” یعنی موٹیویشنل سپیکر قاسم علی شاہ کا وڈیو کلپ دیکھ رہا تھا جس میں اس نے اپنے آبائی علاقے معین الدین پور ،گجرات کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ دیگر افراد کا ذکر کرتے سید کاظم حسین شاہ کا خصوصی تذکرہ کیا اور ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ ان کا نام سنا تو نا جانے کیا کیا یاد آ گیا۔
جعفریہ کالونی، لاہور کے امام بارگاہ میں تحریک پنجاب کی صوبائی جعفریہ کونسل کا اجلاس تھا۔ قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی رح تشریف فرما تھے۔ جس ضلع کی رپورٹ پڑھی جاتی تو سولات میں تحریک کی شعبہ جاتی تنظیموں کے قیام کے بارے میں سوال ضرور کیا جاتا۔ جہاں شعبہ جاتی تنظیمیں قائم ہو چکی تھی وہ بتاتے اور جہاں قائم نہیں تھیں وہ وعدہ کر لیتے کہ جلد اقدام کریں گے۔ اسی دوران سید کاظم حسین شاہ صاحب نے ضلع گجرات کی رپورٹ پیش کی۔ جب ان سے شعبہ جات کے بارے میں سوال ہوا تو انہوں نے فوراً کہہ دیا کہ یہ سب فراڈ ہے اور میں اسے تسلیم نہیں کرتا۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ پنڈال میں سے کئی لوگ اٹھ کھڑے ہوئے کہ یہ شعبہ جات قائد کے حکم پر قائم ہوئے ہیں۔ قائد محترم خود بیٹھے ہیں۔ ان کے سامنے یہ بات کردی۔ شاہ صاحب دوبارا کھڑے ہوئے اور کہا میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں اور معذرت کرتا ہوں۔ یوں یہ مسئلہ حل ہوا۔ ان دنوں تحریک اور امامیہ آرگنائزیشن کے درمیان شعبہ جات کے قیام پر اختلاف تھا۔ کاظم شاہ صاحب امامیہ آرگنائزیشن کے عہدیدار بھی تھے۔ یہ میرا ان سے پہلا تعارف تھا۔ وقفہ کے دوران ان سے امنا سامنا ہوا تو انہوں نے بیج سے میرا نام پڑھ کر کہا ترمزی صاحب ہم اجلاس بلاتے ہیں اور آپ تشریف لے آئیں۔ میں نے بھی جلد آنے کا وعدہ کر لیا۔
ایک دن میں گجرات پہنچ گیا۔ انہوں نے ٹرسٹ کی بلڈنگ میں قائم دفتر میں چند احباب کو بلایا ہؤا تھا۔ تعارف پر معلوم ہوا کہ یہ تو سب امامیہ آرگنائزیشن کے رکن ہیں۔ میرے تعجب کرنے پر شاہ صاحب نے واضح کیا کہ ترمزی صاحب ہم نے یہاں سب کچھ مشترکہ رکھا ہؤا ہے۔ انہوں نے ایک رجسٹر دکھایا کہ ائی ایس او، ائی او، تحریک اور یہاں کی انجمن سب ایک ہیں اور مل کر کام کرتے ہیں۔ سارے عطیات و چندہ ایک ہی جگہ جمع ہوتے ہیں۔ سب کے اجلاسوں میں سب شرکت کرتے ہیں۔ یہ تقسیم اوپر کی سطح پر ہے۔ یہاں ضلع گجرات میں سب ایک ہی دفتر میں کام کرتے ہیں۔ ترمذی صاحب آپ سے گزارش ہے کہ آپ ہمارے اس سیٹ اپ کو ڈسٹرب نہ کریں۔ آپ کے تمام پروگراموں میں شرکت ہوگی۔ انہوں نے ایک برادر کو اسلامک ایمپلائز ویلفیئر آرگنائزیشن کے لیے زمہ داری بھی دی۔ وقت گزرتا گیا، شاہ صاحب ضلعی ذمہ داری سے ڈویژن کے صدر ہو گئے، یوں صوبائی اجلاسوں میں شرکت کی وجہ سے زیادہ ملاقاتیں ہونے لگیں۔ اکثر مواقع پر ہم دونوں کا موقف ایک جیسا ہوتا تھا۔ دہشت گردی و قتل و غارتگری سے سخت نالاں تھے۔ امامیہ آرگنائزیشن کے پہلے چیرمین اعجاز حسین رسول نگری کی شہادت نے ہم دونوں کو دل گرفتہ کر دیا تھا۔
اعجاز رسول نگری شہید شخصیت، اخلاق و اخلاص میں اپنی مثال آپ تھے۔ ایسے حالات تھے کہ یقین نہیں تھا ہم دوبارا بھی مل سکیں گئے۔ تحریک میں جب اندرونی بحران پیدا ہوا تو شاہ صاحب ہمارے ہم خیال نکلے۔ چاہتے تھے کہ اس مسئلہ کو جلد حل کرلیا جائے۔ پھر حزب اختلاف کو الگ کر دیا گیا۔ پھر وقت گزرتا چلا گیا۔ آپ گرفتار بھی رہے۔
ایک دن اچانک اطلاع ائی کہ آپ ایک قاتلانہ حملے میں شہید ہو گئے۔ اطلاع کا موجدہ نظام نہ ہونے اور بعض مجبوریوں کی وجہ سے جنازہ میں شرکت نہ کر سکا۔ جنہوں نے جنازہ میں شرکت کی وہ بتاتے ہیں کہ جنازہ سے لگ رہا تھا کہ شاہ صاحب کس قدر اپنے علاقے میں ہر دلعزیز تھے۔ امامیہ آرگنائزیشن، حیدر روڈ، لاہور والے دفتر میں تعزیتی پروگرام میں شریک ہوا۔ اپنے بے تکلف دوست سید حسن رضا نقوی، جو آج کل امامیہ آرگنائزیشن لاہور ریجن کے ناظم بھی ہیں سے پروگرام بنایا کہ چہلم میں ضرور شریک ہوں گے۔ رسم چہلم کے بعد معلوم ہوا کہ ہم خیال دوستوں کی علیحدہ سے نشست ہے اور اس میں بھی شرکت کرنی ہے۔ تنظیمی دوست ایک پروگرام سے کئی فائدے اٹھانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ اس نشست میں رہبر معظم کی طرف سے تفویض کردہ شور’ی کے سربراہ حجہ الاسلام علامہ عابد حسین الحسینی، بزرگ سید اعجاز علی شاہ مرحوم، شوکت شیرازی صاحب سابقہ مرکزی صدر آئی ایس او و دیگر برادران امامیہ کافی تعداد میں تھے۔ آقا عابد الحسینی صاحب نے خطاب کیا۔ غرضیکہ پورا دن وہاں گزارا۔ مغرب کے۔ بعد واپس روانہ ہوئے۔ میں سارے وقت یہی سوچتا رہا کہ اگر کاظم شاہ صاحب خود موجود ہوتے تو کتنے خوش ہوتے۔
سوانحی خاکہ
نام- سید کاظم حسین شاہ
ولدیت۔سید فضل حسین جوہر
تاریخ پیدائش۔ 22, اکتوبر، 1952ء
تعلیم۔ بی ایس سی، ایل ایل بی
پیشہ۔ وکالت
دیگر مصروفیات و خدمات
1- مرکزی جنرل سیکریٹری، امامیہ آرگنائزیشن پاکستان
2- ڈویژنل صدر، تحریک جعفریہ، گوجرانولہ ڈویژن
3- چیرمین، یونین کونسل معین الدین پور، گجرات
4- صدر, ینگ لائرز فورم, گجرات
5-صدر، سوشل ویلفیئر سوسائٹی معین الدین پور، گجرات
6- جنرل سیکرٹری، انجمن بہبود مریضاں
7- جنرل سیکرٹری، مرکزی حسینیہ ٹرسٹ
8- موسس، مدرسہ العصر، معین الدین پور
9- سیکرٹری پنجاب ینگ بلڈ ڈونرز فورم
10- رکن ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن، گجرات
11- سرپرست، بزم انیس، گجرات
12- موسس، دعاء کمیل کمیٹی، گوجرانولہ ڈویژن
13- رکن، مجلس نگارش، مجلہ العصر، لاہور
14- جنرل سیکرٹری، ٹی بی ایسوسی ایشن، گجرات
شہادت
15, اکتوبر 1998ء آپ حسب معمول ضلع کچہری سے گھر کی طرف روانہ ہوئے، ابھی قریب ہی پہنچے ہوں گے کہ قاتلوں نے فائرنگ کر دی جس سے آپ اپنے قریبی عزیز سید کرامت حسین شاہ کے ہمراہ فرجہ شہادت پر پہنچ گئے۔ آپ کی شہادت کی خبر سے پورے علاقے میں کہرام مچ گیا۔ ہر آنکھ اشک بار تھی۔ آپ کی شریک حیات، آپ کے بیٹے اور بیٹیاں جنہیں شائد اس صدمے سے نڈھال تھیں۔ ملک بھر سے احباب، علماء کرام اور علاقے کی عوام نے کثیر تعداد میں نماز جنازہ میں شرکت کی۔ مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی۔ آنسوؤں، سسکیوں اور دعاؤں کے ساتھ 16, اکتوبر 1998ء کو آسودہ خاک ہوئے۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔
بعض شخصیات اپنے کردار کے لحاظ سے ایک تنظیم کے لبادے میں نہیں سما سکتے، کاظم حسین شاہ شہید ایسی ہی شخصیت تھے۔ دوست، ہمدرد اور مخلص انسان تھے۔ مسکراہٹ آپ کے چہرے سے کڑی ہوئی تھی۔ جو لوگ تنظیموں میں فعال ہو جاتے ہیں وہ علاقے کے مسائل سے لاتعلق ہو جاتے ہیں مگر شہید جس قدر ملی تنظیموں میں سرگرم تھے اس سے زیادہ اپنے علاقے کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں تھے۔ آپ کی شہادت کا ایک سبب یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ آپ اپنے علاقے سے منشیات کی لعنت کو ختم کرنا چاہتے تھے، آپ کو راستے سے ہٹانے میں منشیات فروشوں کا ہاتھ بھی ہو سکتا ہے۔ غرضیکہ وہ شخص ہی نہ رہا جس سے رونقیں تھیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے آمین ثم آمین۔
آپ کے دوست جناب غیور زیدی صاحب نے آپ کے حالات پر ” آئینہ حیات ” کے نام سے کتاب لکھی۔ کم از کم ایک دوست تو ایسا بھی ہونا چاہیے کہ جو آپ کے اس دنیا سے جانے کے بعد یاد رکھے جیسے برادر غیور زیدی صاحب۔