شہید لیفٹیننٹ سیدیاسر عباس۔۔پاک وطن کا عظیم مجاہد
تحریر: ارشاد حسین ناصر
بارہ برس قبل بائیس مئی دو ہزار گیارہ کی شب بھی ایک عجیب رات تھی جب مہران نیول بیس رات کے اندھیرے میں جدید اسلحہ سے لیس متعدد دہشت گردوں نے راکٹوں سے حملہ کر دیا مہران نیول بیس کراچی پر جدید اسلحہ سے لیس دہشت گردوں کا صرف ایک پسٹل کے ساتھ 12 منٹ تک مقابلہ کرنے والے بہادر شہید لیفٹیننٹ سید یاسر عباس رضوی نے اس شب شجاعت و بہادری کی لازوال داستان رقم کی (سید انجم رضا)
ارض ِ وطن کے حصول ،قیام،آذادی ،استحکام اور ترقی و بقا کیلئے اس کے فرزندوں کی قربانیوں کا سلسلہ بہت طویل ہے سماجی ،سیاسی، معاشرتی ،اور نظریاتی محاذوں سے لیکر جغرافیائی محاذوں پر جانوں کے نذرانے پیش کرکے ارض ِ وطن کو مضبوط ومستحکم بنانے اور دشمنانان ِ وطن کی سازشوں ،اندرونی و بیرونی حملوں اور وارداتوں سے محفوظ رکھنے کی رسم جاری ہے۔1965ء کی پاک بھارت جنگ ہو یا 1971کی معرکہ آرائی ،سیاچن کا بلند ترین محاذ جنگ ہو یا کشمیر کی آذادی کیلئے لڑی جانے والی جنگیں ،افغانستان کے راستے پاکستان پر قبضہ کی سازش ہو یا 1999ء میں کارگل کا محاذ جنگ بلوچستان میں وطن فروشوں کی کارروائیاں ہوں یا قبائیلی علاقوں میں افواج پاکستان پر اسلحہ اٹھانے والوں کے سامنے سینہ سپر ہونے کا معاملہ ہر محاذ پر وطن کے فرزندوںنے شجاعت کی داستانیں رقم کی ہیں ،جانوں کے نذرانے پیش کیئے ہیں ، سازشوں کے سامنے دیوار بنے ہیں ،جارحیتوں کے سامنے پہاڑ بنے ہیں، پاک سرزمین کو دشمن کے نجس و ناپاک قدموں سے بچایا ہے،آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے ،دہشت گردی کے خلاف افواج پاکستان کے جیالے اور بہادرسپاہی و آفیسران اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے وطن کو ناقابل تسخیر بنائے ہوئے ہیں ۔اپنے پاک وطن اور وردی کی عزت اور لاج رکھے ہوئے ان بہادروں کو پاکستانی قوم سلام پیش کرتی ہے ۔
لیفٹیننٹ سید یاسر عباس بھی اس پاک وطن کے ایک عظیم مجاہد اور محسن تھے جنہوں نے اپنی جان کا نذرانہ اس انداز سے پیش کیا کہ ان کے کارنامے کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ا نہیں سلام پیش کیا جاتا رہیگا۔ ان کی زندگی پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔ شہید یاسر عباس 22جولائی1986ء کو ٹیکسلا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید جعفر عباس آرمی میں تھے اور 2010ء نومبر میں کرنل کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے۔ وہ مختلف علاقوں میں تعینات رہے ۔ یاسر عباس تین بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے، وہ جسمانی طور پر بہت پھرتیلے اور تیز تھے ،مختلف کھیلوں میں بھرپور حصہ لیتے تھے، وہ پڑھائی میں بہت شاندار کارکردگی دکھانے والے تھے، مذہبی حوالے سے بھی وہ نماز، روزہ، عزاداری میں بھرپور حصہ لیتے تھے۔ ان کے والدین کا کہنا ہے کہ اس نے 7برس کی عمر میں نماز و روزہ کی پابندی سے ادائیگی شروع کردی تھی۔ مزاج کے اعتبار سے یاسر بہت ہی غریب پرور تھے،ہمیشہ دوسروں کی مدد کرکے خوشی محسوس کرتے تھے، لیفٹیننٹ سید یاسر عباس نے تعلیم میں ہمیشہ 90فیصد سے زیادہ نمبر حاصل کیئے۔ ان کے والد کراچی میں تعینات تھے تو ملیر کینٹ کے APSسے میٹرک کیا،FSCگریژن کالج لاہور سے مکمل کیااور بورڈ میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ 2004ء میں NUST، انجینئرنگ کے انٹری ٹیسٹ میں 42ویں نمبر پر آئے۔ سید یاسر عباس نے تمام فورسز کےISSB ٹیسٹ کلیئر کئے۔NUSTمیں راولپنڈی کیمپس میں پہلے سمسٹر کے دوران پاک نیوی سے کال لیٹر آیا تو جنوری2005ء میں پاک نیوی جوائن کرلی اور ٹریننگ کیلئے منوڑہ چلے گئے، رسالپور میں ایروناٹیکل انجینئرنگ منتخب ہو کر آگئے جہاں ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد PNSمہران پر پوسٹنگ ہوئی۔رسالپور میں ٹریننگ کے دوران Spaceمیں سیٹلائٹ کی جاسوسی پر نئے انداز میں پروجیکٹ بنایا ، جس کو کئی ممالک نے تسلیم کیا اور فرانس و برطانیہ ،چین نے اس پروجیکٹ پر کام آگے بڑھانے کیلئے پیشکش کی۔یاسر عباس کی تعلیمی قابلیت اور ذہانت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ وہ اپنے ان سینئرز کو بھی پڑھاتے تھے جنہیں والدین نے انہیں پڑھانے کیلئے رکھا تھا۔ پاکستانی فورسزمیں جانے کے حوالے سے اسے والد نے صرف یہ بات کہی تھی کہ فورسز میں اگر آپ کوئی ناجائز کام، رشوت وغیرہ نہ لینا چاہو گے تو کوئی آپ کو مجبور نہیں کرسکتا جبکہ ملک کے دیگر محکموں میں انسان اس پوزیشن میں نہیں ہوتا۔شہید شہادت کا اس قدر متمنی تھا کہ اپنے کئی دوستوں کو اپنی شہادت کامیسج کر کے کہا کہ وہ یوں شہید ہو گا اور آپ میری تصاویر کو شہداء پاکستان کے ساتھ دیکھو گے بلکہ شہادت کے اس متمنی نے اپنے کمرے میں اپنی شہادت کا مکمل ایکٹ کر کے دکھایا جس کی گواہی اس کے قریبی دوستوں نے دی۔ملک میں ہر طرف دہشت گردی ،بم دھماکوں اور خود کش حملوں کا دور دورہ ہوا اور فورسز کو ان کے مراکز پر نشانہ بنایا جانے لگا ۔وطن کے فرزندوں نے دفاع ِ وطن کیلئے جانوں کے نذرانے پیش کرنے کی ریت قائم رکھی ۔
یہ 22مئی 2011ء ، کی بات ہے جب کراچی میں مہران نیول بیس پر وطن دشمن دہشت گردوں نے رات کی تاریکی میں حملہ کردیا۔ دہشت گرد ائیر فورس کے متصل ایریا سے نیوی ایریا کے اندر داخل ہوئے تھے، ان کے پاس جدید اسلحہ تھا ،کلاشنکوفوں، راکٹ لانچرز اور دستی بموں سے مسلح دہشت گردوں کے پاس رات کو دیکھنے والے چشمے بھی تھے، نیول بیس پر ڈیوٹی کمانڈر سید یاسر عباس کو جیسے ہی فائرنگ کی آواز آئی اس نے انتہائی پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جیپ نکالی اور جس طرف سے آواز آئی اسی طرف گاڑی کا رخ کر دیا۔لیفٹیننٹ یاسر عباس حملہ کی جگہ سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر تھے مگر صرف تین منٹ میں موقع پر پہنچ گئے۔لیفٹیننٹ یاسر عباس بنیادی طور پر ایروناٹیکل انجینئر تھے ، بد قسمتی سے عالمی دہشتگردوں کے مقابلے کیلئے نیوی کے افسران کی اس طرح کی تربیت نہیں تھی۔ ڈیوٹی پر موجود اہلکار اور گارڈز نے جب دہشت گردانہ حملہ دیکھا تو اپنی جان بچانے کیلئے چھُپ گئے جبکہ سید یاسر عباس نے ملکی وقار، عزت اور وردی کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے جرأت مندانہ اور مثالی کردار ادا کرتے ہوئے دہشت گردوں کا راستہ روکا اور انہیں آگے بڑھنے سے روکا۔ لیفٹیننٹ یاسر عباس کے پاس صرف ایک پسٹل تھا ،جیب بھی عام تھی ، جبکہ اسی جگہ بلٹ پروف جیپ بھی کھڑی تھی جو امریکیوںکے کنٹرول میں تھی ،انہوں نے یہ جیپ یاسر عباس کو نہ دی تو وہ فائرنگ اور دھماکے والی جگہ کی طرف عام جیپ پر ہی اکیلا چلا گیا تھا۔ دہشت گرد ائیر فورس کے ایریا سے نیوی کے کمپائونڈ کی طرف بڑھنا چاہتے تھے جہاں دیگر اہم طیاروں کے علاوہ اورینC.3طیارے کھڑے تھے جبکہ بیس پر دیگر غیر ملکی آفیسرز کے علاوہ چینی انجینئرز بھی موجود تھے جنہیں خاص طور پر خطرہ تھا اور دہشت گردوں کا مقصد اور منصوبہ بھی انہیں یر غمال بنانا تھا ۔ یاسر عباس نے دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے انہیں 12منٹ تک روکے رکھا ۔ اس دوران اس کے کئی ساتھی بھی اسے چھوڑ گئے تھے وہ اکیلا ہی جرأت ،بہادری، جوانمردی جو اس کے خون میں شامل تھی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کی نیو ل فوج کی ایک نئی تاریخ رقم کررہا تھا۔ اس موقع پر جب بعض جونیئرز اہلکاروں نے اپنے کمانڈر کو جوانمردی سے لڑتا ہوا دیکھا تو وہ بھی حوصلہ کرکے آگے بڑھے اور کئی ایک زخمی بھی ہوئے جبکہ کچھ شہادت سے بھی سرفراز ہوئے۔ کمانڈرلیفٹیننٹ یاسر عباس دہشت گردوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئے اور شاندار جرأت و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سینے میں تین گولیاں کھائیں اور شہادت سے سرفراز ہوئے۔ کمانڈرلیفٹیننٹ سید یاسر عباس کے اس عظیم کارنامے و وطن کے دفاع کیلئے مثالی کردار کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس دور کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ان کیلئے نشان حیدر Recmondکیا ۔ وزیر اعظم اور صدر سمیت اپوزیشن جماعتوں ،وزراء اور سیاسی و سماجی شخصیات نے شہید سید یاسرعباس کی خدمات کو سراہا اور سانحہ مہران بیس میں دہشت گردوں کے منصوبے ناکام بنانے کے حوالے سے ان کے شاندار کردار کو تسلیم کیا تھا ۔ ان کے والد کرنل جعفر عباس سے اظہار تعزیت بھی کیا گیا اور میڈیا میں اس اعزاز کی خبر بھی دی گئی مگر وزیر اعظم پاکستان کے اعلان پر عملی جامہ نہ پہنایا جاسکا اور شہید سید یاسر عباس کو نشانِ حیدر کے بجائے ستارئہ بسالت دیا گیا
شہیدبارگاہ ِ خداوندی میں بلند مقام اور اعلیٰ مراتب پاتا ہے۔وہ نہ صرف خود بخشش کا حقدار ٹھہرتا ہے بلکہ اپنے قریبیوں کو بھی بخشوا سکتا ہے۔بہت سے شہدا ء کے قریبی ورثا ء اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ان کا شہید انہیں مختلف مسائل کے حوالے سے رہنمائی کرتا ہے اور کئی ایک کی مشکلات کی رہ ِ حل بھی بتاتا ہے۔شہید یاسر عباس کے گھر والوں نے بھی بتایا کہ شہید ان سے مکمل رابطہ رکھے ہوئے ہے اور بہنوں،والدہ اور کئی ہمسایوں کو بھی خواب میں آکر اپنی نئی ذمہ داریوں کے حوالے سے آگاہ کر چکے ہیں۔شہید کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی ڈیوٹی اور وردی بدل گئی ہے اب وہ امام کا سپاہی بن گیا ہے اور ان کی طرف سے کوئٹہ میں تعینات ہے،ہم وطن کے اس عظیم فرزند کو سلام پیش کرتے ہیں اور مادر وطن کی طرف میلی آنکھوں سے دیکھنے والوں کو پیغام دیں گے کہ جب تک مائیں شہید یاسر عباس جیسے فرزندان وطن کو اس کی سرحدوں پر نچھاور کرنے کیلئے بھیجتی رہینگی اس ملک پر ذرا برابر بھی آنچ نہیں آ سکتی۔ والدین کے اکلوتے لاڈلے شہید یاسرعباس جن کی بارہویں برسی 22مئی کو منائی جا رہی ہے کے بارے یہی کہا جا سکتا ہے کہ
میرے خیال نے جتنے بھی لفظ سوچے ہیں
تیرے مقام، تیری عظمتوں سے چھوٹے ہیں