“فقط تمہارا حسین “
بعض اوقات گریہ کے لئے صرف ایک لفظ ہی کافی ہوتا ہے
مندرجہ ذیل تحریرمیں جتنی بار یہ لفظ پڑھا ہے
“فقط تمہارا حسین “
آنسوؤں کی جھڑی سی لگ جاتی ہے
اے میرے آقا حسین ؑ! ہمیں بھی اپنے قدموں میں شرف غلامی عطا کیجئیے آمین (سید انجم رضا)
یہ تقسیمِ ہندوستان سے پہلے کا واقعہ ہے کہ لکھنؤ میں ایک شاعر تھے ، جن کا نام سید ظفر عباس تھا ۔ آپ دعبل ہند مولانا سید فرزند حسین ذاخرؔ اجتہادی کے حقیقی فرزند تھے اور سلام اور نوحہ گوئ میں اپنے والد گرامی کے وارث و جانشین اور ہندوستان گیر شہرت کے مالک ہوئے فضل لکھنؤی تخلص کرتے اور عمومی شاعری کے ساتھ ساتھ ، آقا حسین (ع) ، کربلا (م) اور دیگر ہستیوں پر ، سوز و سلام ، نوحے کہا کرتے تھے ۔ یہ لکھنؤ سے “نظارہ” نامی ، ایک ہفتہ وار رسالہ بھی نکالتے تھے۔
ایک سال ان پر بہت مشکل اور پریشانی کا وقت آیا ، اور وہ پیسے پیسے کو محتاج ہو گئے – ان کے ہی محلے کے ایک صاحب ، ٹرین میں سفر کر رہے تھے ، اور کسی دوسرے شہر سے واپس لکھنؤ آ رہے تھے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ، ایک صاحب میرے برابر میں آ کر بیٹھ گئے ، اور باتوں باتوں میں مجھ سے پوچھنے لگے کہ ، کیا آپ ان شاعر کو جانتے ہیں ، جن کا نام فضل لکھنوی ہے ، اور جنہوں نے ،
“اٹھو حسین (ع) تم سے بہن (س) ملنے آئی ہے” ، نوحہ کہا ہے ؟
فضل لکھنوی کے محلے دار نے کہا ، کہ ان کو میں نہ صرف جانتا ہوں ، بلکہ وہ ہمارے پڑوس میں ہی رہتے ہیں – یہ سنکر وہ صاحب مسکرائے اور کہا ، آپ میرا ایک کام کریں گے؟
پڑوسی نے کہا جی ہاں ضرور ، اس پر ان صاحب نے ایک لفافہ دیا اور کہا ، یہ لفافہ فضل صاحب کے گھر پہنچا دیجیئے گا ، پڑوسی نے کہا کہ ہاں کیوں نہیں ، ضرور ۔
مگر یہ تو بتائیں ، میں ان کو کیا کہوں کہ ، یہ کس نے دیا ہے ؟
وہ صاحب مسکرا کر کہنے لگے ، جب وہ یہ کھولیں گے ، انھیں خود پتہ چل جائے گا ، کہ کس نے بھیجا ہے۔ پھر وہ صاحب اگلے اسٹیشن پر اتر گئے – پڑوسی لکھنؤ پہنچ گئے ، اور اپنے گھر جانے سے پہلے ، فضل لکھنوی صاحب کے گھر گئے ، اور انکا لفافہ انکو پہنچا دیا –
کہتے ہیں ابھی ہم ان کے گھر سے واپس اپنے گھر پہنچے ہی تھے ، کہ فضل صاحب کے گھر سے ، رونے پیٹنے کی آوازیں بلند ہونے لگیں ، کہتے ہیں میں الٹے پاؤں ، انکے گھر واپس آیا ، پوچھا کیا ہوا ؟
انہوں نے روتے ہوئے ، ایک خط میرے ہاتھ میں دے دیا –
خط کا مضمون کچھ یوں تھا-
السلام و علیکم ! ہمیں تمھارا یہ نوحہ ، بہت پسند آیا –
“اٹھو حسین (ع) تم سے بہن (س) ملنے آئی ہے” –
اس لفافے میں کچھ رقم ہے ، اسے تم اپنے تصرف میں لاؤ ۔
فقط ،
تمہارا حسین (علیہ السلام)
غالباََ اسی واقعہ کے بعد ، سید ظفر عباس فضل نے ، اپنے تخلص کے ساتھ ، “حسینی شاعر” ، لکھنا شروع کر دیا ۔ ایک شعر میں ، وہ اپنے ہی بارے میں فرماتے ہیں :
تم فضل حسینی شاعر ہو،کیوں کر نہ عطا ہوتی تم پر،
شہرت بھی ملی،عزت بھی ملی، مولا کا بھروسا دیکھ لیا
ذیل میں ہم فضل لکھنوی صاحب قبلہ کا , مولا حسین علیہ السلام کی ، بارگاہ میں قبول شدہ نوحہ , آپ کی خدمت میں , پیشِ کر رہے ہیں ۔
اٹھو حسین (ع) تم سے بہن (س) ملنے آئی ہے ،
میت نہیں تو قبر گلے سے لگائی ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔
اک بے کسی فضاء حقیقت میں چھائی ہے ،
جنگل پسند آ گیا بستی بسائی ہے ،
خوشبو لہو کی خاک کے ذروں میں پائی ہے ،
پھر کربلا (م) سے قید میں تقدیر لائی ہے ،
میت نہیں تو قبر گلے سے لگائی ہے ،
اٹھو حسین (ع) تم سے بہن (س) ملنے آئی ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈوبا ہوا لہو میں ہے مغرب کا آفتاب ،
ہر ذرہ کربلا (م) کا ہے دنیائے انقلاب ،
لیلیٰ (س) کا چاند (ع) اور وہ زلفوں میں پیچ و تاب ،
سینے میں زخم دے گیا اجڑا ہوا شباب ،
قاتل نے دل کو دیکھ کے برچھی لگائی ہے ،
اٹھو حسین (ع) تم سے بہن (س) ملنے آئی ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔
جو دل کو تازہ کرتا ہے بن بھی نہیں ملا ،
سوکھے ہوئے گلو کو چمن بھی نہیں ملا ،
شکوہ نہیں کوئی جو وطن بھی نہیں ملا ،
چادر نہیں ملی تو کفن بھی نہیں ملا ،
بیٹے (ع) نے آ کے قید سے تربت بنائی ہے ،
اٹھو حسین (ع) تم سے بہن (س) ملنے آئی ہے ،
۔۔۔۔۔
مشکل بہت تھی راہ مگر کام کر گئے ،
ماں (س) دیکھتی تھی گود کے پالے کدھر گئے ،
اک داغ دل میں چھوڑ دیا اور گزر گئے ،
جھولا بھی ختم ہو گیا اصغر (ع) بھی مر گئے ،
بچے (ع) کی قبر ماں (س) نے گلے سے لگائی ہے ،
اٹھو حسین (ع) تم سے بہن (س) ملنے آئی ہے ،
۔۔۔
جو لب پے آہ تھی وہ دل زار تک گئی ،
غم کی امنگ آنسوؤں کے دار تک گئی ،
بالوں سے منہ کو ڈھانپ کے بازار تک گئی ،
کیا کیا کہوں مزید کہ دربار تک گئی ،
گردش نہ جانے کیسے مقدر نے کھائی ہے ،
اٹھو حسین (ع) تم سے بہن (س) ملنے آئی ہے ،
۔۔۔۔
مشکیزہ اپنے ساتھ فداعی (ع) لیئے ہوئے ،
دل میں بہن (س) کی بات کو بھائی (ع) لیئے ہوئے ،
قبضے میں اپنے ساتھ خدائی لیئے ہوئے ،
عباس (ع) سو رہے ہیں ترائی لیئے ہوئے ،
ہیبت علی (ع) کے شیر کی دریا پے چھائی ہے ،
اٹھو حسین (ع) تم سے بہن (س) ملنے آئی ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔
جس دل کو کہہ لیئے وہ بہتر کی قبر ہے ،
قاسم (ع) کی قبر ہے کہیں اصغر (ع) کی قبر ہے ،
بھائی (ع) سے پائے گی دل مضطر کی قبر ہے ،
لیلی (س) سے کوئی کہہ دے یہ اکبر (ع) کی قبر ہے ،
مٹی میں کس نے چاند کی صورت چھپائی ہے ،
اٹھو حسین (ع) تم سے بہن (س) ملنے آئی ہے ,
(فضل لکھنوی)
بشکریہ : ایڈمن بلینڈ آف ہسٹری