مجھے عزاداری چاہیئے …..سیاست نہیں
تحریر: ذکی حیدر
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مجھے بس عزاداری کرنی ہے کیونکہ میرے مولوی صاحب نے کہا ہے کہ
عزاداری امام حسین (ع) کو سیاست سے دور رکھیں. کچھ تو پہلے بھی فرما چکے کہ دین و سیاست الگ ہیں.
بس تو میں بھی یہ کرونگا اور حقیقت یہ ہے کہ میرے اکثر بڑوں کا طریقہ اور رسم و رواج بھی یہی تھا اورہے.
کل کوفہ میں نےعلی ؑکے حق کی جس نے بات کی اسے بھی بڑوں نے یہ کہہ کر چپ کروادیا کہ سیاست پہ بات مت کرو یہ ابوبکر و علی (ع) جانیں اور اللہ (ج) جانے.
حالانکہ یہ میرے اجدادمولا علیؑ سے بہت محبت کرتے تھے اور خود کو ان شیعوں میں شمار کرتے تھے کہ جن کے بارے میں رسول اللہ (ص) فرمایا علیؑ تم اورتمہارے شیعہ کامیاب ہو،
مگر چونکہ سیاست سے نفرت کرتے تھے اس لیئے صفین میں کہا کہ بھئی علی ؑبہت اچھے ہیں، ان کا ذکر عبادت ہے مگر تم نماز وم غیرہ پڑھو یہ سیاسی باتیں مت کرو کہ علی ؑسچا یا معاویہ. علی (ع) و معاویہ جانے اللہ (ج) جانے.
لہٰذا یہ سیاست سے متنفر میرے متقی و پرہیزگار اجداد نمازیں پڑھتے رہے اور علی (ع) پچیس سال تنہائی میں رہنے کے بعد مسجد میں شہید کردیئے گئے اور اس وقت یہ میرے اجداد روتے ہوئے آئے یاعلی یاعلی! ہائے علی! ہائے واویلہ! !
پھر معاویہ امام حسن (ع) کے سامنے آیا، امام (ع) نے ایک… دو… تین… لشکر معاویہ کے خلاف بھیجے مگر سب کو معاویہ نے کوڑیوں کے دام خرید لیا.
سپہ سالاروں کو پیسے ملے اور فوجیوں کو ایک فصیح و بلیغ خطاب میں علماء نے اس بات پر قانع کر لیا کہ دیکھیئے صاحب سیاست بری چیز ہے دونوں طرف مسلمان ہیں معاویہ بھی مسلمان حسن (ع) بھی لہٰذا آپ عبادت وغیرہ کریں مگر سیاست سے دور رہیں. میرے سارے اجداد نے سوچا واقعی یہ سیاسی چکر ہیں، ہم کیوں مسلمان کشی کے مرتکب ہوں.
معاویہ کی فوج بھی مسلمان حسن ؑکی فوج بھی مسلمان! لہذا تلوار گھر پہ رکھ کر گوشہ نشین ہوکر عبادات میں مصروف ہوگئے. اس دور میں میں میرے اجداد کا ایک اور گروہ بھی تھا،وہ انقلابی گروہ تھا اور اپنے آپ کو (معاذاللہ) امام حسن ؐسے بھی زیادہ بابصیرت سمجھتا تھا کہ جب امام (ع) نے معاویہ سے صلح کی تو یہ جذباتی انقلابی امام (ع) کو یامذل المومنین (اے مومنوں کو ذلیل کرنے والے) کا خطاب دے کر گھر جا کر طاغوت شکن انقلابی ترانے پڑھنے لگے.
آخرکار امام حسنؑ شہید کردیئے گئے اور سیاست سے دور رہنے والے میرے اجداد جیسے کل علی (ع) کی شہادت پر ہائے علی! وائے علی! کرتے ہوئے پہنچے تھے آج ہائے حسن! ہائے حسن کرتے ہوئے ماتم کرنے پہنچ گئے. عزاداری شروع!
میرے اجداد دیکھتے رہے کہ امام حسین ؑکنبے کے ساتھ کوفہ نکل رہے ہیں، یزید ک ی بیعت نہیں کرنا چاہتے، مگر چونکہ میرے اجداد سیاست سے نفرت کرتے تھے تو انہوں نے امام حسین ؑکے اس کام میں دلچسپی نہ لی اور کہنے لگے مولا ؑ! آپ پر جان قربان مگر یہ سیاست ویاست کے چکروں میں ہمیں نہیں پڑنا. ہمیں معاف کردیں گھوڑا ووڑا چاہیئے تو لے جائیں لیکن ہم سیاست… نہیں!
جب کربلا میں امام حسین ؑ شہید ہوگئے تب میرے یہ اجداد ماتم کرتے ہوئے آئے یا حسینؑ! یا حسینؑ! عزاداری شروع ثواب شروع! آنسو کے ایک ایک قطرے پہ جنت واجب!
امام موسی کاظم ؑچودہ سال جیل میں رہے میرے اجداد نہ پہنچے، جو کہتا کہ ظالم وقت کے خلاف کوئی اقدام کیا جائے تو اسے کہا جاتا سیاسی باتیں مت کرو چپ رہو. آخرکار امام موسی کاظم (ع) کا جنازہ بغداد کی پل پہ پہنچا تو میرے اجداد ہائے موسی کاظم! ہائے موسی کاظم! کرتے ہوئے پہنچ گئے! عزاداری شروع!
میرے اجداد کی اکثریت نے ہر امام (ع) کو تنہا چھوڑا اور جب کسی امام (ع) کی شہادت ہوئی تو خوب گریہ کیا اور کہا کہ
یہ گریہ اجر عظیم رکھتا ہے لیکن ان بڑوں کے نزدیک آئمہ (ع) کا ساتھ دینا شاید اتنا اجر نہیں رکھتا تھا. یا آئمہ (ع) کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا سو میرا بھی نہیں. گویا آئمہ (ع) کو ظالم حکمرانوں نے صرف اس لیئے شہید کیا کہ وہ نماز و عزاداری تک محدود تھے.
ارے بھائی یہ بات ہوتی تو ظالم حکومت آپ کی طرح انہیں سیکیورٹی دیتی، کبھی شہید نہ کرتی
یہ تھے میرے اکثر اجداد… اب میں خود…!
عراق میں صدام ملعون حرم امام علی ؑو امام حسین (ع) کی بے حرمتی کرتا رہا، بہت سے مراجع شہید کردیئے گئے، حوزے کو تباہ کردیا گیا. شہید صدر و ان کی ہمشیرہ بنت الہدی کو اذیتیں دے کر شہید کیا گیا لیکن مجھے چونکہ سیاست سے نفرت تھی لہٰذا میں اپنے اجداد کی سنت پہ پابند رہتے ہوئے چپ رہا کہ مجلس میں صدام ودام کی بات مت کرو. سیاست چھوڑ دو! عزاداری کرو. جب ظالم امریکہ نے ظالم صدام کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تو میرے ان بزرگوں نے مجھے مشی کا ثواب بتایا کہ پیدل کربلا جانے کا بہت ثواب ہے. کاروان نکلنے شروع ہوئے، اربعین ود قبلہ و کعبہ حجت الاسلام فلاں…. اربعین ود مشہور نوحہ خواں فلاں… میں اور میرے ساتھ ڈھائی کروڑ شیعہ کربلا پہنچ گئے یاحسین (ع) یاحسین (ع)!
*بیشک عزاداری و اربعین کی مشی کا ثواب بہت زیادہ ہے میں اس کا انکار کروں تو لعنت ہو مجھ پر*
لیکن سوچیئے اگر صدام کے دور میں ہم ڈھائی کروڑ کربلا پہنچتے تو صدام کے باپ کی بھی مجال نہ ہوتی کہ ہمارے خلاف کوئی اقدام کرتا مگر مجھے سیاست سے نفرت ہے اس لیئے صدام کی حکومت میں گھر بیٹھا رہا، اس وقت نہ اربعین کے ثواب کی روایات مجھے سنائی دیں، نہ مشی کے ثواب کی، نہ ہی کسی عالم دین نے خواب میں “تزورونی” کا نوحہ سنا نہ کسی نے نوحہ پڑھا…
شام کے حالات خراب تھے تو دفاع حرم کیلئے مراجع میں سے صرف آیة اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای بات کرتے تھے، اور مجلس میں کوئی ان کا نام بھی لیتا تو میں کہتا قبلہ سیاسی باتیں مت کریں، عزاداری کا ثواب بتائیں،
بی بی زینب سلام اللہ علیہاکی زیارت میں نے ترک کر دی تھی کہ حالات خراب ہیں جب بہتر ہوں گے تب جاؤنگا، شاید وہاں پر بھی مشی کا انتظام کر لوں مگر فی الحال گھر بیٹھنا بہتر ہے. فی الحال جوان عزادار مدافعین حرم جائیں گلے کٹوائیں میں تو امن کے زمانے میں جاونگا ب…
مدینہ، جنت البقیع میں سعودی خلیفہ حکمران ہے، اس کے خلاف کوئی مجلس میں بات کرے یا شہید باقر النمر کو یاد کرے تو میں کہتا ہوں سیاسی باتوں سے پرہیز کریں، عزاداری غیر سیاسی ہونی چاہیئے میرے ہم وطن نجفی مرجع کی تاکید ہے.
لیکن کل جب باقر نمر کی سیرت پر چلنے والے سرفروشوں کی توسط سے سعودی حکومت کا خاتمہ ہوگا تب میں سب سے پہلے جنت البقیع پہنچوں گا، عزاداری کروں گا، شاید مکہ سے مدینہ تک مشی بھی کرتا ہوا جاؤں اور مدینہ پہنچ کر ٹھنڈی سبیل پیتے ہوئے اپنی بیوی کے ساتھ سیلفی لوں اور فیسبوک پہ دوں کہ: “می وِد مائے وائف اَیٹ جنت البقیع، فیلنگ بلیسِڈ