مصوّرِ غم جناب محشرؔ لکھنوی
ترتیب و انتخاب و پیشکش : ذیشان زیدی
إنا لله وإنا إليه راجعون ۔ برِصغیر پاک و ہند کی رثائی شاعری کا ایک اور عہد تمام ہوا۔ مصوّرِ غم شاعرِ اہلبیتؐ آلِ غفران مآب جناب سید محسن رضا نقوی المعروف محشرؔ لکھنوی بارگاہِ رب العزت میں منتقل ہوئے ۔
کرب و بلا نصیب سے جانا نصیب ہو
پھر لوٹ کر وہاں سے نہ آنا نصیب ہو
پروردگار ٹھوکریں در در کی کب تلک
اب مستقل نجف میں ٹھکانہ نصیب ہو
محشرؔ یہ آرزو ہے کہ بے غسل و بے کفن
کرب و بلا کی تہہ میں سمانا نصیب ہو
جی چاہے جہاں بیٹھ کے نوحے کہو محشرؔ
جنت کے سبھی گوشے ہوادار رہیں گے
محشر کی تجھے فکر ہے کس واسطے محشرؔ
دو چار نہیں چودہ مددگار رہیں گے
بس وہ فشارِ قبر سے محشر بچائے گا
جس نے شگاف ڈال دیا مہتاب دیا
یا رب یہ التماس ہے تیری جناب میں
مجھ کو ملا دے خاکِ بو تراب میں
محشر لکھنوی 14 اگست 1945کے روز کوٹھی تحسین لکھنئو ہندوستان میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم ناظمیہ مدرسہ عربی کالج لکھنئو سے حاصل کی- وہی لکھنو شہر جو اپنی نزاکت ،تہذیب و تمدن کثیر الثقافتی خوبیوں کے لیے دنیا بھر میں بے مثل اور بینظیر ہے۔ آپ نے شاعری کا آغاز لاہور میں سن 1970 میں غزل، ہزل اور گیت سے کیا- جناب ایک عرصے تک صحافت کے شعبے سے بھی وابستہ رہے اور اپنا اُستادِ صحافت جناب آغا شورش کاشمیری مرحوم کو مانتے تھے- جناب محشر لکھنوی صاحب کے اساتذہِ شاعری میں جناب ثمر ہوشنگ آبادی مرحوم، جناب عزم جونپوری مرحوم، جناب نفیس فتح پوری مرحوم اور جناب سید سبط حسن انجم مرحوم کے نام شامل ہیں اور نوحہ خوانی کے اُستاد جناب صادق حسین چھجن صاحب مرحوم تھے- میں نے۹۰ کی دہائ میں ان کو کافی بار انچولی کے امام بارگاہ خیر العمل شہدائے کربلا میں سنا تھا اور میرے چچا مرحوم سید شیدا حسن زیدی کہتے تھے کہ “محشر صاحب آپ تو جہاں بھی جاتے ہیں محشر بپا کردیتے ہیں”
صدقہ میرے آقاﷺ کا ہے عام مدینے میں
ناکامیاں ہوتی ہیں ناکام مدینے میں
پھر کیوں نہ وہیں جا کر ہم لوگ کہیں نعتیں
سنتے ہیں کہ ہوتا ہے الہام مدینے میں
اٹھوں تو علیؑ کہہ کر سو جاؤں نبیﷺ کہہ کر
آغاز نجف میں ہو انجام مدینے میں
سو حج بھی کیے جائیں پھر بھی نہیں مٹ سکتا
اک بار جو لگ جائے الزام مدینے میں
دیتی نہ ضمانت جو اولاد پیمبرﷺ کی
قیدی کی طرح رہتا اسلام مدینے میں
جبریلؑ اگر دے دے پر اپنے مجھے محشرؔ
ہر صبح نجف میں ہو ہر شام مدینے میں
محشر لکھنوی کا تعلق بر صغیر کے بہت مقدس اور جلیل القدر خاندان اجتہاد سے تھا جہاں علماء دین کی قدم بوسی ہوتی تھی۔ وہ علامہ سید احمد لکھنوی عرف علامہ ہندی کے پوتے تھے اور پردادا حضرت مولانا سید محمد ابراہیم نقوی قبلہ مجتہدِ اعظم تھے جنھوں نے خدائے سخن حضرت میر ببر علی انیسؒ کی نمازِ جنازہ پڑھائی تھی-
جس طرح کوئی خدائے پاک سے برتر نہیں
جس طرح کوئی رسول اللہؐ کا ہمسر نہیں
ایک ہے دنیا میں حیدرؐ دوسرا حیدرؐ نہیں
مثلِ حیدرؐ یہ کسی کی تیغ میں جوہر نہیں
اِک طرف ساری خدائی اِک طرف حیدرؐ کا وار
لافتا اِلا علیؐ لا سیف اِلا ذوالفقار
مشکل کے وقت آتا ہے خیبر شکن کا نام
ڈھارس ہے میرے قلب کی شاہِ زمن کا نام
جیسے اذان میں اکبر گُل پیرہن کا نام
محشر کے دل پہ نقش ہے یوں پنجتن کا نام
محشر صاحب کی یہ منقبت اپنی مثال آپ ہے
کشتیِ دیں بھور سے نکالی حسینؐ نے
کیا کام کردیا ہے مثالی حسینؐ نے
آیا یزید لشکر جوروجفا کےساتھ
صبرورضا کی فوج بلا لی حسینؑ نے
بس اِک سوالِ بیعتِ فاسق کو رٙد کیا
ورنہ کسی کی بات نہ ٹالی حسینؐ نے
بلکل اسی طرح محشر صاحب کے ایک سلام کا شہرہ آفاق شعر ہے
کچھ دیر فرض کیجئے اہلِ عزا نہ ہوں
سارا جہاں حسینؐ کا قاتل دکھائی دے
اِس کے علاوہ علامہ اقبال کی زمیں میں محشر کا کلام جس کا عنوان ہے “دعائے عزا”
“لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری”
بس عزادار کی صورت ہو خدایا میری
اور علامہ اقبال کی ہی زمیں میں “حسینیؐ ترانہ”
کرب وبلا ہماری باغِ جناں ہمارا
یعنی زمیں ہماری اور آسماں ہمارا
جناب محشر لکھنوی صاحب کا سب سے مختصر اور مکمل تعارف وہ معرکة الآرا نوحہ “کہتی تھی یہ ماں خوں بھری میت سے لپٹ کر ہائے ہائے علی اکبرؐ” ہی محشر صاحب کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے- پروردگار محشر لکھنوی کے درجات مزید بلند فرمائیں اور جوارِ معصومینؐ میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین