ملتان میں عزاداری

تحریر: شاکر حسین شاکر

ملتان میں عزاداری کی روایت بہت قدیم ہے۔ معتبر حوالوں کے مطابق ملتان میں موجودہ عزاداری کے بانی مخدوم پیر سیّد سخی لعل شاہ ہیں۔ جبکہ اس خطے میں نوحہ خوانی کی روایت کئی برسوں سے جاری و ساری ہے۔ اس علاقے میں عزاداری کی روایت دنیا بھر میں منفرد حیثیت سے قائم ہے۔ یہاں کے لوگ محرم الحرام کا چاند نظر آتے ہی سیاہ کپڑے ملبوس کر لیتے ہیں۔ اکثر گھروں میں بطور سوگ چارپائیوں کو اُلٹا کر دیا جاتا ہے۔ گھروں میں سادہ پکوان جبکہ نیازِ حسینؑ کے طور پر حلیم، دال گوشت، دودھ اور شربت کی سبیلیں عام دکھائی دیتی ہیں۔

ملتان کی فضا میں جیسے ہی محرم کا چاند دکھائی دیتا ہے یہاں پر روحانیت کے ساتھ ساتھ اتحاد بین المسلمین کے جذبے کے تحت مجالسِ حسینؑ کا آغاز ہو جاتا ہے۔ سوگواری کی فضا ہر طرف پھیلی دکھائی دیتی ہے اور یہ ملتان میں محرم کا آغاز ہوتا ہے کہ جیسے ہی چاند دکھائی دیا ملتان کے تمام امام بارگاہوں میں ماتم داری کا آغاز ہوتا ہے اور پھر یکم محرم سے لے کر 8 ربیع الاول تک مجالس، ماتمی جلوس منعقد کیے جاتے ہیں ۔ اب تک محتاط اندازے کے مطابق ان ایام میں کئی ہزار مجالس برپا ہوتی ہے جس میں پورے ملک سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام، ذاکرین اور نوحہ خواں پارٹیاں ذکرِ حسینؑ کرتی ہیں۔ محرم کے پہلے عشرے میں نکلنے والے جلوسوں کی شبیہات کو جس طریقے سے سجایا جاتا ہے اس سے ایک طرف معصومین کے روضوں کی شبیہوں کی یاد تازہ ہوتی ہے تو دوسری جانب وہ تمام تعزیئے، علم، ذوالجناح اور جھولے سرائیکی خطے کے مذہبی، تہذیبی اور ثقافتی رنگوں کو نمایاں کرتے ہیں۔ ملتانی نوحہ ملتان کی تہذیب کا نہ صرف حصہ بن گیا ہے بلکہ اس نوحے نے اس زبان کو پوری دنیا تک رسائی دے دی ہے اور جو لوگ سرائیکی زبان کو مشکل سمجھتے ہیں وہی لوگ جب ذکرِ حسینؑ کو اس زبان میں سنتے ہیں تو یہ زبان ان کو اپنے گھر کی زبان لگتی ہے۔

ملتان میں تعزیہ سازی پچھلے کئی سو سالوں سے جاری و ساری ہے۔ ملتان اور چنیوٹ کے نجار (بڑھئی) بہت معروف ہیں۔ جنہوں نے اپنے اس ہنر کا آغاز معز الدولہ حاکم بغداد کے دور میں 945ھ میں کیا۔ تعزیہ داری کی رسم اس علاقے میں تب شروع ہوئی جب سلاطین عثمانی اور شاہانِ ایران کے درمیان جنگوں کا آغاز ہوا تو مقامِ کربلا پر ترکوں نے قبضہ کر لیا۔ جس وجہ سے زائرین وہاں نہیں جا سکتے تھے۔ اسلئےاِرد گرد کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اس کا حل یوں نکالا کہ انہوں نے ایام عزا میں امام حسینؑ کے روضے کے شکل کی شبیہ بنانی شروع کر دی۔ جس کو تعزیئے کا نام دیا گیا۔ سرائیکی زبان میں تعزیئے کو زیارت بھی کہا جاتا ہے۔ دیوان ساون مل کے زمانے میں ملتان میں محرم الحرام کے جلوسوں کے لیے کوئی راستہ یا روٹ مقرر نہ تھا اور نہ ہی ان جلوسوں کے راستوں کو اہمیت دی جاتی تھی۔ تعزیئے ہندو آبادی سے گزرتے تھے اور کوئی ہندو اعتراض نہیں کرتا تھا۔ 1865ء میں انگریز نے تعزیوں کے لائسنس جاری کیے۔ آغاز میں صرف اہلِ تشیع ملتان سے تعزیئے کے جلوس نکالتے تھے۔ پھر انگریز حکمرانوں کے کہنے پر ہندوؤں نے بھی ان کی مخالفت شروع کر دی تو پھر اہلِ سنت نے شیعہ حضرات کے ساتھ مل کر تعزیئے بنانے اور نکالنے شروع کر دیئے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ آج بھی ملتان میں تعزیئے کے زیادہ لائسنسدار اہلِ تشیع کی بجائے اہل سنت ہیں۔ روایت ہے کہ ملتان میں سب سے پہلا تعزیہ ملتان کے قدیمی امام بارگاہ آستانہ لعل شاہ سے نکالا گیا یہ وہی دور ہے جب 1840ء میں دیوان ساون مل کی اجازت سے عزاداری شروع ہوئی تو حضرت لعل شاہ نے ملتان کی موجودہ تاریخ کا سب سے پہلا ماتمی جلوس نکالا۔ لیکن گردیزی خاندان کے بہت سے بزرگ یہ کہتے ہیں کہ سب سے پہلا تعزیہ تو شاہ گردیز سے برآمد ہوا تھا کیونکہ آج بھی شاہ گردیز کے امام بارگاہ میں 10محرم کی صبح اذانِ علی اکبرؑ کی مجلس کے بعد تعزیہ دفن کیا جاتا ہے۔ جس سے اُن کے اس مؤقف کی تصدیق ہوتی ہے۔ سب سے پہلا تعزیہ بھی امام بارگاہ شاہ یوسف گردیز سے برآمد ہوا۔ یوں تو اب اس سرزمین میں محرم الحرام کے حوالے سے سینکڑوں جلوس نکالے جاتے ہیں لیکن کچھ جلوس بالکل منفرد ہوتے ہیں۔جیسے یہاں کے بعض جلوس ماڑو اور شہنائی کے ساتھ برآمد ہوتے ہیں۔

ماڑو دراصل ڈھول کی وہ سوز بھری لَے ہے جو صرف نوحہ خوانی اور عزاداری سے مخصوص ہے۔ بعض لوگ ماڑو سے مراد ڈھول بھی لیتے ہیں جو محرم کے دنوں میں نوحہ خوانی کے ساتھ بجایا جاتا ہے۔ ماڑو کے ساتھ ہمیشہ شہنائی بھی شامل ہوتی ہے اور جب یہ دونوں آوازیں نوحہ خوانی کا الاپ آواز کی صورت میں فضا میں بکھیرتی ہیں تو اردگرد کا ماحول سوگوار ہو جاتا ہے۔ جس طرح ایران، عراق اور شام میں نوحہ خوانی کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے اسی طرح ملتان کے تمام امام بارگاہوں میں ماتمی ٹولیاں سارا سال ریاض کرتی ہیں۔ نئے آنے والوں کو سُر اور لَے کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ لیکن ملتان میں ماڑو اور شہنائی کے ساتھ نوحہ خوانی اس کی پہچان ہے اگرچہ پاکستان میں کجن بیگم اور ان کی بیٹی مہناز نے کلاسیکی انداز میں جو مرثیے پڑھے اس کے بعد ہمیں کوئی اور دکھائی نہیں دیتا۔ بالکل اسی طرح یہاں پر بھی ماڑو اور شہنائی کے ذریعے نوحہ خوانی کی جاتی ہے۔

صرف ملتان شہر میں محبت اہلِ بیت کے اظہار کے سلسلے میں 300 سے زائد جلوس برآمد ہوتے ہیں۔ جن میں 41 علم بردار جلوس، 50 علم اور ذوالجناح کے جلوس، 5 گتکا پارٹی، 2 جلوس پنگوڑے، 65 جلوس تعزیئے اور باقی جلوس ماتم کے برآمد ہوتے ہیں۔

شبِ عاشور کالے منڈی سے چوک بازار کی جانب جائیں تو اُس بازار میں رات گئے گتکا اور ڈھول کے ساتھ عزاداری کی جاتی ہے۔ اسی طرح آستانہ کوڑے شاہ دہلی گیٹ میں 7 محرم سے مغرب کے بعد نقارہ بجایا جاتا ہے۔ جس سے لوگوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ نقارہ جنگ کا نقارہ ہے۔ بقول ثریا ملتانیکر ملتان میں بہت عرصہ پہلے ماڑو اور شہنائی کے ساتھ نقارہ اور تاشہ بھی دورانِ عزاداری بجایا جاتا تھا۔ نقارہ تو اب شاید ہی کہیں بجایا جاتا ہو لیکن تاشے کے ساتھ نوحہ خوانی اور عزاداری اب بھی سرائیکی خطے کے علاقوں ڈیرہ غازی خان اور شجاع آباد میں ہوتی ہے۔ ملتان میں ماڑو اور شہنائی پہ نوحہ خوانی عزاداری کی رو ایت کو مضبوط کرتی ہے کہ اس خطے میں اس روایت کا آغاز کلاسیکل گائیکوں کی وجہ سے ہوا کہ یہاں کے تمام اساتذہ گائیک نوحہ خوانی کیا کرتے تھے اور انہی لوگوں نے نوحوں اور مرثیوں کی کلاسیکل بندشیں بنا کر نوحہ خوانی کو موسیقی کے ساتھ جوڑ دیا۔ یوں اس خطے میں عزاداری اور نوحہ خوانی کی روایت فن میں ڈھل گئی اور اسے موسیقی کی باقاعدہ ایک صنف کا مقام حاصل ہوا۔

ملتان کی فضا کی خوبی یہ بھی ہے کہ یہاں پر اہلِ سنت جماعت سے تعلق رکھنے والے بے شمار لوگوں کو تعزیوں کے لائسنس ملے ہیں بلکہ حکومت کے ریکارڈ کے مطابق سنیوں کے لائسنس زیادہ ہیں اور اثناء عشری کے لائسنس کم ہیں۔ دور کیوں جاتے ہیں ملتان میں سب سے زیادہ شہرت پانے والے تعزیئے استاد اور شاگرد کے لائسنسدار بھی تو جماعت اہل سنت سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں کے ماتمی جلوسوں میں جہاں مرد، بچے بڑی عقیدت سے شرکت کرتے ہیں وہاں پر خواتین بھی بڑی تعداد میں شرکت کرتی ہیں۔ عزاداری یہاں کی ثقافت اور مذہب کا حصہ بن گئی ہے۔ جگہ جگہ مسالمہ، مرثیہ، ماتم اور مجلس عزا منعقد کیے جاتے ہیں۔ تعزیوں کو سجایا جاتا ہے۔ منتیں مانی جاتی ہیں اور پھر ان پر نیازیں دلائی جاتی ہیں۔ جس سے ایامِ عزا میں اس شہر کا رُخ ہی تبدیل ہو جاتا ہے۔

ملتان میں جیسے ہی محرم کا چاند دکھائی دیا تو فضا سوگوار ہو جاتی ہے۔ محمدؐ و آلِ محمدؐ کا ذکر سننے والے صبح سے لے کر شام تک ایک امام بارگاہ سے دوسری امام بارگاہ کا سفر طے کر کے غمِ حسینؑ مناتے ہیں۔ یکم محرم الحرام کو پاکستان کی سب سے بڑی مجلسِ عزا چوک دولت گیٹ کے نزدیک امام بارگاہ حسینؑ آباد میں بپا ہوتی ہے۔ اس مجلسِ عزا سے درجنوں علماء و ذاکرین خطاب کرتے ہیں۔ اس مجلس کی خوبی یہ ہے کہ یہاں پر مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے امام بارگاہوں کے متولی حضرات بھی اپنی اپنی مجالس کے لیے علماء و ذاکرین کا انتخاب کرتے ہیں محرم الحرام کے دنوں میں ملتان کے ہر امام بارگاہ میں اپنی زبان کی مناسبت سے مجالس کا اہتمام ہوتا ہے۔ کہیں پر اُردو بولنے والے اگر مجلس کا انتظام کر رہے ہیں تو وہاں پر علمائے کرام اُردو میں مجلس پڑھتے ہیں اور اگر سرائیکی بولنے والوں نے امام بارگاہ بنا رکھا ہے تو وہاں پر ذاکرین آ کر ذکرِ حسینؑ کرتے ہیں۔

ملتان کی عزاداری کی ایک خاص بات یہ ہے کہ ہر امام بارگاہ میں اپنی اپنی زبان، رواج اور ثقافت کے مطابق مجالس و ماتم کا اہتمام کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر آستانہ لعل شاہ کچہری روڈ کے جلوس کی برآمدگی بہت رقت آمیز ہوتی ہے۔ اسی طرح امام بارگاہ جوادیہ میں صبح کے وقت جلوس برآمد کرنے سے قبل مردوں کا جو ماتم ہوتا ہے اور اس پر جو سرائیکی میں نوحہ پڑھا جاتا ہے وہ بڑا معروف اور رقت آمیز ہوتا ہے۔ ماتم کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے اور چاروں اُور ایک قدیم نوحہ پڑھا جاتا ہے اور اس نوحے کے دوران جتنا گریہ ہوتا ہے اُتنا گریہ شاید ہی کسی نوحے کے دوران ہوتا ہو۔

حسین حسین حسین حسین

شہید کربلا حسین، غریب و بے نوا حسین

ایہو ڈٖینہ ظلم دا چڑھیا ہے

ساڈٖا ماریا بادشاہ حسین

تیڈٖے بٖال یتیم اج روندے ہِن

گھٹ پانْی دے کیتے لوندے ہِن

آ بٖچڑیاں کوں پانْی پلا حسین

تیڈٖا سر کٹیا میڈٖا گھر لٹیا

ڈٖونہیں اُجٖڑے بھینْ بھرا حسین

حسین حسین حسین حسین

یہ نوحہ پڑھتے پڑھتے سینکڑوں کی تعداد میں عزادار امام بارگاہ جوادیہ میں داخل ہوتے ہیں۔ وہاں پر ذوالجناح موجود ہوتا ہے۔ عزادار اس کی زیارت کرتے ہوئے روتے ہیں اور ایک دوسرے کے گلے مل کر پُرسہ دیتے ہیں۔ ان تمام عزاداروں کے سروں پر خاک بکھیری جاتی ہے۔ گریبان کے بٹن اگر بند ہوں کھول دیئے جاتے ہیں اور پھر حضرت علی اکبرؑ کی روانگی کے موضوع پر سرائیکی میں نوحہ پڑھا جاتا ہے۔ ماتم و گریہ ہر طرف دکھائی دیتا ہے اور اسی گریے میں جلوس برآمد ہوتا ہے۔ اور پھر دہلی گیٹ النگ پر نماز ظہرین ادا کی جاتی ہے اور اس کے بعد یہ جلوس اپنے مقرر کردہ روٹ سے ہوتا ہوا دربار حضرت شاہ شمس پر جا کر اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔ امام بارگاہ حضرت شاہ یوسف گردیز کی تمام نوحہ خواں ٹولیاں سرائیکی میں زیادہ نوحے پڑھتی ہیں لیکن ان کا روایتی نوحہ اُردو میں ہے۔

جو سبطِ نبی کو روتے ہیں

عقبیٰ میں رتبہ پاتے ہیں

اسی طرح محلہ جھِک میں استاد کمتر کا لکھا ہوا یہ نوحہ کئی عشروں سے پڑھا جا رہا ہے لیکن اس کی رقت میں کمی نہیں آئی:

میڈٖے سجنْ تمامی مارے

رُلی زینب وطن اَوارے

سبھ ساتھی جنت سدھارے

رُلی زینب وطن اَوارے

بھینْیں ہو گٖیاں بن بھائیاں

رُل گٖئیاں نیں زہرا جٖائیاں

ساڈٖے ترٹ گٖئے سبھ سہارے

رُلی زینب وطن اَوارے

شہر ملتان میں عزاداری کے سلسلے اتنے پھیلے ہوئے ہیں کہ اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ وہ محرم کے دس دنوں میں تمام امام بارگاہوں کی مجلس اور جلوسوں میں شریک ہو جائے تو یہ ناممکن بات ہے کیونکہ اس شہر میں اتنے زیادہ جلوس برآمد ہوتے ہیں کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ دس دنوں میں تمام جلوسوں میں شرکت کر لی جائے۔ ملتان میں تعزیوں کے لحاظ سے استاد اور شاگرد کے تعزیئے تو اپنی مثال آپ ہیں لیکن اس کے باوجود اب آہستہ آہستہ ملتان میں اتنے تعزیئے بن گئے ہیں جو فن تعمیر کے اعتبار سے شاہکار کا درجہ پا سکتے ہیں۔ ملتان کے جن امام بارگاہوں میں تعزیئے موجود ہیں ان میں ممتاز آباد، کڑی داؤد خان، کوڑے شاہ، آستانہ آغا پورہ، محلہ ماتم واہ، امام بارگاہ جعفریہ، محلہ باغ بیگی، آستانہ بہادر شاہ، امام بارگاہ قاضی جلال، آستانہ عظیم شاہ، آستانہ تجمل شاہ، آستانہ کیڑی پٹولیاں، آستانہ ابراہیم شاہ، انجمن یادگار حسینی بوہڑ گیٹ، امام بارگاہ حویلی مرید شاہ، امام بارگاہ شاہ گردیز، امام بارگاہ حیدریہ گل گشت، آستانہ جان محمد، آستانہ گلی ولایت شاہ، دیوان خانہ روڈ، کربلا شاہ شمس (دربار شاہ شمس)، آستانہ فضل شاہ، سورج میانی، سوتری وٹ، امام بارگاہ کوٹ قاسم، امام بارگاہ شیر شاہ، خلاصی لائن، کالے منڈی، جالی موسیٰ والہ، محلہ قصاب پورہ، آستانہ کاشی گراں نیو ملتان، چوک غازی آباد، آستانہ بھیڈی پوتراں، تھلہ سادات، محلہ آغاپورہ، محلہ جھک، محلہ جوادیہ، آستانہ بی بی پاک دامن، دائرہ بستی، عبداﷲ والا تعزیہ، درکھاناں والا تعزیہ، اصغر والا تعزیہ، کمنگراں والا، لعل کرتی ملتان کینٹ، قاسم بیلہ ملتان کینٹ، حضرت لعل شاہ نزد چوک کچہری اور دیگر امام بارگاہ شامل ہیں۔

ایام عزا میں اگرچہ ملتان میں جگہ جگہ جلوس نظر آتے ہیں لیکن خصوصی طور پر دس محرم الحرام کو اندرون نواں شہر میں ایک مٹی کی تسبیح کی زیارت کرائی جاتی ہے۔ اس تسبیح کے متعلق معروف ہے کہ یہ کربلا کی اس مٹی سے بنی ہوئی ہے جہاں خونِ حسینؑ گرا تھا۔ اس تسبیح کی خوبی یہ ہے کہ جب دس محرم الحرام کو امام حسینؑ کی شہادت کا وقت ہوتا ہے تو اس تسبیح کا رنگ سرخ ہو جاتا ہے اور اس میں بل پڑ جاتے ہیں۔ اس تسبیح کی زیارت کے لیے لوگ دور دور سے ہزاروں کی تعداد میں آتے ہیں۔ اسی طرح کی ایک اور کربلا سے آئی ہوئی زیارت جو مٹی کی بنی ہوئی ہے علی منزل ویسٹرن فورٹ کالونی قاسم بیلہ میں موجود ہے جس کو دس محرم الحرام کو زیارت کے لیے کھولا جاتا ہے اور امام حسینؑ کی شہادت کے وقت سے قبل مسلسل ماتم داری ہوتی ہے اور جیسے ہی عصر کا وقت ہوتا ہے یہ مٹی کی زیارت بھی سرخی مائل ہو جاتی ہے۔ لوگ اس کی سرخی دیکھ کر دُعائیں مانگتے ہیں اور گریہ کرتے ہیں۔ بعد میں حاضرین محفل کی فاقہ شکنی کرائی جاتی ہے۔

آٹھ محرم الحرام کی شب ممتاز آباد میں حضرت عباس علمدار کی یاد میں رات کو ایک جلوس نکالا جاتا ہے۔ اس جلوس کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس کا روٹ کوئی طے شدہ نہیں ہوتا ہے بلکہ جس گھر سے منت کے علم برآمد ہوتے ہیں اس گھر میں حضرت عباس کی یاد میں نوحے پڑھنے والی ٹولیاں جاتی ہیں۔ ماتم داری کرتی ہیں پھر نیاز کھا کر اسی گھر سے علم اٹھا کر جلوس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ جلوس کے آغاز میں علم کم ہوتے ہیں لیکن جوں جوں ماتمی حضرات گھروں میں جاتے ہیں ویسے ویسے علموں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ہر علم دیکھنے میں اپنی مثال آپ ہوتا ہے۔ جلوس کے روٹ میں سرچ لائٹ لگائی جاتی ہیں۔ ایک مرحلے پر جب درجنوں کی تعداد میں علم اکٹھے ہو جاتے ہیں تو رنگ برنگے علم خوشبوؤں میں بسے ایک خاص مہک اور مختلف فضا بنا دیتے ہیں۔ آنکھوں میں آنسو، ہاتھوں میں علم اور نوحہ خوانوں کے نوحے اور سینوں پر ہلکا ہلکا ماتم جب ممتاز آباد کے مرکزی امارگاہ کے سامنے آتے ہیں تو نویں محرم کی شب کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اس رات ممتاز آباد کے مکین 9 محرم کے جلوس کی تیاری کرتے ہیں یہ جلوس ملتان کے چند بڑے جلوسوں میں شامل ہے۔ امام بارگاہ ممتاز آباد میں یوں تو پورا سال ہی مجالس عزا کے علاوہ مناقب کی محافل ہوتی رہتی ہیں لیکن ایام عزا کے اختتام پر گزشتہ چند سالوں سے یہاں کے نوجوان عماریوں کی برآمدگی کی مجالس کا اہتمام کر رہے ہیں۔ جس میں 7 ربیع الاول کی شب عماریوں کا جلوس برآمد ہوتا ہے جس میں ہزاروں عزادارانِ حسینؑ شرکت کرتے ہیں۔

چوک دولت گیٹ پر ایک بہت بڑا علم نصب کیا جاتا ہے۔ اسی چوک کے نزدیک امام بارگاہ حسین آباد میں حسینی بیڑہ بھی بنایا جاتا ہے جو شب عاشور مکمل ہوتا ہے۔ اس بیڑے کو سینکڑوں نوجوان مل کر تیار کرتے ہیں۔ یہ سال میں دو مرتبہ بنایا جاتا ہے۔ دوسری مرتبہ یہ بیڑہ 28 صفر کو تیار کیا جاتا ہے۔ 28 صفر کو امام حسنؑ کے یومِ شہادت کے موقع پر یہ بیڑہ تیار کیا جاتا ہے۔ اس بیڑے کی زیارت کے لیے پورے پاکستان سے لوگ ملتان تشریف لاتے ہیں اور اس بیڑے کی خوبصورتی کو دیکھ کر بنانے والے کو داد دیتے ہیں۔ اس بیڑے پر 72 شہدائے کربلا کے نام بڑی خوبصورتی سے لکھے گئے ہیں۔ اس کو مختلف رنگ کے آرائشی قمقموں سے سجایا جاتا ہے۔ اور اس کو سینکڑوں نوجوان مل کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پر منتقل کرتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک اور بیڑہ امام بارگاہ سوتری وٹ میں بھی موجود ہے جو محرم کے دنوں میں تیار کیا جاتا ہے۔

ملتان کے محرم کا ذکر اس مضمون میں ممکن ہی نہیں۔ بس اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ اس شہر کے لوگ اپنی ثقافت کی طرح محرم الحرام کے ایام بھی پوری عقیدت و احترام سے مناتے ہیں۔ عزاداری یہاں کی مذہبی روایت کا حصہ ہے۔ خوبصورت تعزیئے، منفرد علم اور ذوالجناح یہاں کے لوگوں کی اہلِ بیت سے محبت کا اظہار ہیں۔ 10 محرم کو عام لوگوں کے لیے محرم الحرام یا سوگ ختم ہو جاتا ہے لیکن اگر اس شہر کی تاریخ کو دیکھا جائے تو پورا سال مجالسِ عزا اور ماتمی جلوس جاری و ساری رہتے ہیں۔ امام بارگاہ شاہ یوسف گردیز سے لے کر دربار حضرت شاہ شمس سبزواری پورا سال ذکرِ حسینؑ سے آباد رہتے ہیں۔ اور یہاں کے وہ لوگ جو اس غم کے ساتھ وابستہ ہیں ان کی یہی دُعا ہوتی ہے کہ اﷲ غمِ حسینؑ کے علاوہ اُن کو کوئی اور غم نہ دے۔ دربار حضرت شاہ شمس سبزواری کے ذکر سے یاد آیا کہ 10 محرم الحرام کو سینکڑوں کی تعداد میں ماتمی جلوس یہاں پر اختتام پذیر ہوتے ہیں۔ احاطۂ دربار شاہ شمس سبزواری کربلا کے میدان کا منظر پیش کرتا ہے۔ خاک اڑائی جاتی ہے، ماتم کیا جاتا ہے، گریہ و آہ و زاری کی آواز ہر طرف سے آ رہی ہوتی ہے۔ تو پھر اچانک لاؤڈ سپیکر سے ایک عالم کی آواز آتی ہے :

’’عزت جو بڑی تھی تو مصیبت بھی بڑی تھی‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں