مکتبِ اہل بیت ؑ کے عظیم مجاہدعلامہ غلام عباس نجفی (مرحوم) آف جھنگ
تکفیریت و خارجیت کو جھنگ کی سرزمین میں شکست دینے والے مکتبِ اہل بیت ؑ کے عظیم مجاہدعلامہ غلام عباس نجفی آف جھنگ نام تاریخ ملت تشیع پاکستان میں کسی تعارف کا محتاج نہیں، آپ ایک متقی و متدین عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی و ملی رہنما اور ایک ایسی قد آور شخصیت تھے کہ صرف ضلع جھنگ ہی نہیں بلکہ تشیع پاکستان ہمیشہ آپ پہ فخر کریگی۔علامہ غلام عباس نجفی آف جھنگ کی ستائیسویں برسی کے موقع پر برادر نثار علی ترمذی کی تحریر قارئین ہفت روزہ رضاکار (ویب) کی نذر (سید انجم رضا)
علامہ غلام عباس نجفی مرحوم
تحریر: سید نثار علی ترمذی
خاندانی پس منظر
آپ کا خاندان
آپ بنو تمیم سے تعلق رکھتے ھیں آپ کے آباء اجداد بصرہ سے ھجرت کرکے دیبل سے ھندوستان میں داخل ھوئے ۔اور دیبل سے ملتان تک کے علاقوں میں آباد ہیں۔جو کہ مقامی زبان میں تمیم سے تھہیم بولا جانے لگا ۔اپ کے آباء واجداد پتراکی موضع میں آباد ھوئے ۔جہاں سے آباؤ اجداد میں سے بہت نامور شخصیات نے دنیا پر اپنی علمی برتری کی وجہ سے حکومت کی ھے۔جس میں سے نواب سعداللہ خان تھہیم وزیراعظم ھند در عہد شاہ جہاں سلطنت مغلیہ کے وزیر اعظم رھے اور اورنگزیب عالمگیر کے استاد بھی رہے۔نواب صاحب نے بھی صفوی بادشاھوں کے شاہ جہاں پر ھونے والے سوالات کے جوابات دیئے ۔اور فتاویٰ قاضی خان نامی فقہ حنفی کی کتاب آپ کی زیر نگرانی لکھی گئی اور آپ کے بیٹے نواب لطف اللہ خان دھلی کے گورنر رھے۔دونوں باپ بیٹا لال قلعہ دہلی کے شاھی قبرستان میں دفن ھیں ۔1857 کی جنگ آزادی میں انگریزوں کے جبر کے خلاف لڑتے ھوئے ہمارے پردادا نام نواب عظمت اللہ خان تھہیم نے پتراکی سے ترک سکونت کرکے جھنگ میں زیر زمین زندگی اختیار کی جن کی قبور جھنگ میں ہیں۔
تاریخ نے ایک خوبصورت موڑ لیا اور اسی نسل میں میاں حسن خان اور میاں حسین خان نے مذھب اھل بیت علیھم السلام اختیار کیا اور ان کی تیسری نسل میں سے مکتب اھلبیت علیھم السلام کے مبلغ غلام عباس نجفی کی ولادت ھوئی۔
مولانا غلام عباس نجفی کے حالات زندگی
مولانا غلام عباس نجفی 3 جنوری 1947 کو تھہیم خاندان کے متوسط طبقے کے زمین دار میاں عنایت علی کے گھر پیدا ھوئے۔آپ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ آپ کی نازو نعم سے پرورشِ کی گئی ۔ںپ نے 1966 میں میٹرک پاس کیا ۔1970 میں گورنمنٹ کالج جھنگ سے گریجویشن کیا ۔1972 میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے عربی کیا اور اس سے قبل فاضل عربی کا امتحان پاس کرچکے تھے۔مولانا عبدالرشید فاضل دیوبند آپ کے عربی ادب کے استاد تھے۔اپ کی دینی و دنیاوی تعلیم کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلتا رھا ۔دینی تعلیم کے لئے مولانا سید حسن زیدی مرحوم آپ کے پہلے استاد تھے اس کے بعد آپ نے مولانا سید محمد عارف صاحب قبلہ پرنسپل جامعہ حسینیہ اور علامہ حسین بخش جاڑا مرحوم سے تعلیم مکمل کی۔
نجف اشرف میں آیت اللہ خوئی کے درس خارج میں تقریباً چھ ماہ شرکت کی کیوں کہ اقامہ ہی چھ ماہ کا تھا جسے عراقی حکومت نے مزید توسیع نہ دی اور اس کے بعد قم المقدس، ایران میں آیت اللہ شھاب الدین مرعشی نجفی کے درس خارج میں ایک سال شریک ھوئے ۔ اسی دوران آپ کے والد صاحب قبلہ میاں عنایت علی مرحوم نے واپس بلا لیا اور دوبارہ نہ جاسکے۔
خطابت میں آپ کے استاد قائد ملت جعفریہ سید محمد دھلوی ،خطیب اعظم تھے۔اپ نے تا دم آخر اساتذہ قم و نجف کی تحقیقات و تالیفات سے استفادہ کا سلسلہ جاری رکھا اور ایک بہترین ذاتی لائبریری تشکیل دی ۔جو کہ جدید و قدیم تحقیقات کا بہترین مجموعہ ھے ۔جس میں موجود کتب کی تعداد دس ھزار سے زیادہ ھے۔اپ کا قم و نجف میں استفادہ کا سلسلہ آخر تک جاری رھا اور آیت اللہ مرعشی نجفی، آیت اللہ سید عبداللہ شیرازی سے استفادہ بھی جاری رھا۔آپ پنجابی اردو کے علاوہ ۔عربی،فارسی، انگریزی کافی روانی سے بولتے تھے۔
خدمات
اتحاد بین المسلمین
اپ ملک و ملت کے پرخلوص خیرخواہ اور اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے ۔تحریک ختم نبوت کے دوران اھل اسلام کے مشترکہ جلسوں سے آپ کے خطبات اب تک اھل علاقہ یاد کرتے ھیں ۔یاد رھے کہ ان جلسوں میں سٹیج سیکرٹری حق نواز جھنگوی ھوتے تھے۔اپ اتحاد امت کو ھی ملک و ملت کے استحکام کی ضمانت قرار دیتے تھے ۔جھنگ میں شیعہ سنی اتحاد کو عملی صورت میں برقرار رکھنا اور اس اتحاد سے ناصبیت و تکفیریت کو ھر محاذ پر شکست دی۔ آپ کی دو راندیشی اور تدبر فکر کا نتیجہ ھے۔
اتحاد بین المومنین
آپ نے اتحاد بین المومنین کے لئے بھی عملی طور پر اقدام کئے۔ ملت جعفریہ پاکستان پر مشکل وقت آیا اور قوم دو حصوں میں تقسیم ھو کر رہ گئی تھی۔ شیخی و خالصی نام پر باھم دست وگریباں ھوگئ تو اس وقت علامہ سید صفدر حسین نجفی مرحوم اور علامہ شبیھہ الحسنین محمدی مرحوم کی مشاورت سے اتحاد کیلئے لائحہ عمل مرتب کیا گیا۔ اس بے مثال اجتماع کی میزبانی کا شرف آپ کے حصے میں آیا۔ جھنگ میں ھر دو فریقین کے علماء کرام کو ایک منبر پر بٹھا کر ملت کو اتحاد کی نوید سنائی گئی اور علماء کرام کے مابین تحریری معاہدہ لکھا گیا جو کہ معاہدہ جھنگ کہلاتا ھے اور ہر دور میں ملت کے اتحاد کیلئے قابل عمل نمونہ ھے۔
مجالس و منبر
۔اپ ایک بہترین اور بے لوث خطیب، عالی قدر مدرس اور با بصیرت رھنما تھے۔اپ نے امریکہ، انگلینڈ، عرب امارات ،قطر ، اورمقسط سمیت دنیا بھر کے دینی مراکز میں آپ کے تبلیغی خطاب اھل ایمان کے لئے سرمایہ ہیں۔اس سلسلہ خطابت میں آپ کو جو نذر نیاز ملتی واپسی پر جھنگ کے یتامیٰ مساکین میں تقسیم کر دیتے آپ نے ساری زندگی کوئی ذاتی جائیداد نہیں بنائی اور نہ ھی کوئی بینک بیلنس چھوڑا۔سب کچھ مساجد، مدارس اور غرباء کی فلاح وبہبود کے لئے خرچ کیا ۔ آپ نے ایک طویل عرصہ زیدی ہاؤس، شاہ جمال، لاہور میں عشرہ مجالس سے خطاب کیا۔
مساجد کی تعمیر
اپ نے مساجد تعمیر کروائیں اور مومنین میں تعمیر مساجد کی تحریک پیدا کی جس کے نتیجے میں آج جھنگ صدر میں اھل تشیع کی اذانوں کی آواز شہر کی فضا پر چھا جاتی ھے۔آپ کہا کرتے تھے کہ اگر ہمارے اسلاف امام باگارہوں کے ساتھ مساجد بھی تعمیر کرتے تو آج عددی برتری کے نتائج مختلف ھوتے۔
دفاع مذہب اہل بیتؑ
جب جھنگ میں مذھب اھل بیت ع کے خلاف باقاعدہ تکفیری پروپیگنڈہ کا آغاز کیا گیا اور ہر طرح کے وسائل اور لوازمات کو ملت جعفریہ کے خلاف استعمال کیا گیا ۔کبھی فتویٰ کفر جاری کیا جاتا کبھی پمفلٹ، کبھی اشتہارات، کبھی جلسے، کبھی عدالتوں میں محاذ لگائے جاتےتھے۔کبھی مناظرہ کے چیلنج دیئے جانے لگے تو مکتب و ملت کی حفاظت کیلئے آپ نے دشمن کے خلاف تنہا قیام کیا اور اس علمی لڑائی کے بیس سالہ دور میں دشمن کو ھر محاذ پر شکست دی۔فتوی کے جواب میں فتویٰ پمفلٹ کے جواب میں پمفلٹ اشتہارات کے جواب میں اشتہارات عدالتوں میں ناقابل تردید حوالہ جات پیش کرکے اور مناظروں کے چیلنج قبول کرکے تکفیریت کے مکروفریب اور جھوٹ کو بے اثر کر کے رکھ دیا۔اور تکفیری قیادت جب ضلعی یا صوبائی امن کمیٹی کے اجلاس میں آپ کے سامنے بیٹھتی تو انھیں بات کرنے کی جرات نہ ھوتی۔۔۔جب جنرل ضیاء الحق نے مجلس شوریٰ تشکیل دی تو اس وقت کے ڈپٹی کمشنر جھنگ نے آپ کو مجلس شوریٰ کی رکنیت کی پیشکش کی جس سے آپ نے انکار کردیا ۔۔۔
تبلیغ
اپ نے ملت کی تعمیر ترقی اور مکتب کی تبلیغ پر خصوصی توجہ دی کافی افراد نے آپ کے ھاتھوں پر مذھب اھلبیت علیھم السلام قبول کیا۔۔
قومی خدمات
قومی معاملات میں آپ صف اول میں خدمات سر انجام دیتے نظر آتے ہیں۔اسلام آباد کنونشن ھو یا دیگر قومی معاملات میں آپ علامہ مفتی جعفر حسین اعلیٰ مقامہ کے بااعتماد ساتھی رھے۔قائد ملت علامہ مفتی جعفر حسین کی وفات کے بعد جب قوم دو قیادتوں میں تقسیم ھو گئی تو آپ نے ملت کو متحد کرنے کی کوشش کی ۔قائد شہید سید عارف حسین الحسینی نے سفید کاغذ پر دستخط کرکے دے دیئے اور کہا آپ جو فیصلہ لکھ دیں مجھے منظور ھے۔مگر علامہ سید حامد علی موسوی قبلہ نے شرط رکھی کہ حسینی صاحب ہماری تحریک میں ساتھ دیں ۔بد قسمتی سے یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا جس کا آپ کو افسوس رھا۔۔اس کے باوجود نجفی صاحب ھر حال میں مکتب و ملت کے اتحاد و سربلندی کیلئے کوشاں رھے۔
قلمی خدمات
1۔حدیث غدیر در شان جناب امیر علیہ السلام ۔۔2.. والدین اور اولاد کے حقوق ۔۔۔3…جواب فتویٰ۔ 4- اور بہت سا تحریری سرمایہ
انجمن حسینہ جھنگ کی بحالی جھنگ کے بڑے بڑے زمینداروں نے ملت کی فلاح وبہبود کے لیے ایک یتیم خانہ، سکول کی بنیاد ڈالی۔ جس میں جھنگ کے سیال، شاہ جیونہ اور رجوعہ سادات کے سادات شامل تھے۔ انہوں نے اس کے لیے پچیس مربع زمین وقف کی۔ شہر کی مرکزی جگہ پر چار ایکٹر سے زائد زمین پر یتم خانہ، جامعہ حسینیہ مدرسہ اور سکول قائم کیا۔ یہ سکول بھٹو دور میں عمارت سمیت قومی تحویل میں لے لیا گیا۔ مدرسہ اور یتم خانی بدستور انجمن حسینہ جھنگ کے زیر اہتمام چلتے رہے۔ اس مدرسے نے کئی معروف علماء پیدا کیے۔ جب بزرگ زعماء ملت یہ دنیا چھوڑ گئے تو ان کی اولاد نے بھی کوئی خاص دلچسپی نہ لی۔ زمین آدھی انجمن کے نام رہ گیں۔ اس کو ملک بھر میں مرکزی مقام حاصل تھا۔ قائد ملت علامہ سید محمد دھلوی اس کے سرپرست مقرر ہوئے۔
سالانہ جلسہ منعقد ہوتا تھا۔ جس میں ملک بھر سے علماء، زعماء اور دانشور شریک ہوتے تھے۔
حکومت نے جب اس کے مالی معاملات میں خرد برد دیکھی تو اس پر قبضہ کر کے ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا۔ علامہ نجفی صاحب نے عدالتی و انتظامی کارروائی و جد جہد کےذریعے بحال کروایا۔
تدریس
آپ دو سال سے زائد جامعہ حسینیہ جھنگ کے پرنسپل رہے۔
اولاد
بیٹا ،:مشبر عباس
بیٹی: نرجس عباس۔
انتقالِ پُر ملال
آخر کار 21 جون 1996 بوقت نماز شب بروز جمعہ عالم جاودانی کی طرف کوچ فرما گئے۔اپ کے جنازہ میں ھر مسلک کے لوگوں نے تمام اھل اسلام نے شرکت کی خداوند کریم آپ کے درجات عالیہ کو متعالیہ فرمائیں۔
حجتہ الاسلام و المسلمین علامہ غلام عباس نجفی مرحوم آف جھنگ کی چوبیسویں برسی کے موقع پر ان کی انچاس 49 سالہ مختصر زندگی جو کہ دین کی خدمت میں صرف ھوئی کا مختصر جائزہ پیش کیا۔اپ کی شخصیت دینی و دنیاوی تعلیم کا حسین امتزاج تھی۔اپ انتھائی سادگی پسند اور بے لوث رھنما تھے۔اپ کی خدمات کا احاطہ کرنے کیلئے ضخیم کتاب تحریر کی جاسکتی ھے۔
اللہ نجفی صاحب کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرماے. آمین
مرحوم سے کافی ملاقاتیں تھیں. جب وہ زیدی ہاوس لاہور میں محرم کی مجالس پڑھا کرتے تھے تو مجلس کے بعد تحریک کے دفتر تشریف لاتے, جہاں طویل نشستیں ہوتیں. انجمن حسینیہ جھنگ کی بحالی کے لیے آپ کی خدمات مثالی ہیں. اس میں شہید کیپٹن علی رضا, ڈی سی خانیوال جو اس وقت محکمہ سوشل ویلفئر میں ڈپٹی سیکریٹری تھے اور بندہ ناچیز بھی وہیں تھا. یوں مشترکہ کوششوں سے انجمن بحال ہوئی. قدرت نے انہیں زیادہ وقت نہیں دیا.
علامہ غلام عباس نجفی مرحوم میں خود اعتمادی بلا کی تھی. جب انجمن حسینیہ بحال ہوئی تو فیصل صالح حیات کے پورے گروپ کو انجمن کے ممبرز بنا دیا گیا. آپ جنرل سیکریٹری تھے. میں نے متوقع خدشات کا ذکر کیا تو فرمانے لگے ایک دفعہ بحال ہونے دیں پھر میں سنبھال لوں گا. بعد میں اس حوالے سے کافی مشکلات درپیش آئیں.
اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے آمین ثم آمین