پاکستانی سیاسی جماعتیں یا ڈکٹیٹرز کے پراجیکٹ
پاکستان میں اس وقت سینکڑوں چھوٹی اور بڑی سیاسی جماعتیں موجود ہیں ہر سیاسی جماعت کا اپنا ایجنڈا اور نظریہ ہے جبکہ بہت سی سیاسی جماعتوں کے نمائندے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنی جماعتوں کی نمائندگی بھی کر رہے ہیں جو سیاسی جماعتیں اس وقت پاکستان میں نمایاں اور مین اسٹریم ہیں ان میں تین بڑی سیاسی جماعتیں سرفہرست ہیں، پہلی پاکستان تحریک انصاف جو وفاق میں او ، دوسری پاکستان مسلم لیگ ن جبکہ تیسری جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہے محترم حسنین کاظمی سیاسی و سماجی امُور پہ گہری نظر رکھنے والے دانشور ہیںِ آپ نے اپنی اس تحریر میں پاکستان نمایاں سیاسی پارٹیوں کا تجزیہ کیا ہے
تحریر: حسنین کاظمی
پاکستان میں مخالف سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کے ذریعے اقتدار میں آنے کا الزام تواتر سے لگاتی ہیں، زیر نظر کالم میں ہم نے تین بڑی سیاسی جماعتوں کی تاسیس اور اقتدار تک پہنچنے کیلئے ان کی جدوجہد کا جائزہ تسلیم شدہ تاریخی حقائق سے کرنے کی کوشش کی ہے۔
پاکستان کی 3 بڑی سیاسی پارٹیاں عمر کے اعتبار سے بالترتیب پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف ہیں۔
پیپلز پارٹی کے بانی جناب ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی زندگی کا آغاز ہی میجر جنرل سکندر مرزا کی کابینہ میں بطور وفاقی وزیر ہوا۔ اس سے پہلے ایک دن موصوف کی سیاسی زندگی کا نہیں تھا۔
سکندر مرزا کے بعد جناب بھٹو پاکستان کے پہلے ڈکٹیٹر ایوب خان کی کابینہ میں مختلف وزارتوں ہر براجمان رہے۔ الیکشن ہوا تو ڈکٹیٹر کے متبادل امیدوار بنے اور تب تک اس کے قریب ترین رہے جب تک یہ احساس نہ ہوا کہ جہاز ڈوب رہا ہے۔
1970ء کے الیکشن میں اکثریتی پارٹی کے اقتدار منتقل کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنے اور پھر باقی ماندہ پاکستان کے پہلے (اور اب تک آخری) سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے۔ آپ کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران آپ کا جمہوری رویہ بھی تاریخ سے اوجھل نہیں۔ بلوچستان کی منتخب حکومت کا خاتمہ، فوجی آپریشن، پکا قلعہ حیدرآباد اور شاہی قلعہ لاہور اس کی محض جھلکیاں ہیں۔ آپ کی زیر قیادت 1977ء کے الیکشن نتائج کو خود ان کی اپنی جماعت بھی قبول نہیں کرتی۔
اب آتے ہیں جناب نواز شریف کی جانب۔ آپ پاکستان کے تیسرے ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے زمانہءاقتدار میں اس کے صوبائی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی کی کابینہ میں براہ راست صوبائی وزیر خزانہ بنے۔ یہ 1981ء تھا جب ڈکٹیٹر ملک کے سب سے مقبول عوامی لیڈر جناب ذوالفقار علی بھٹو کو ایک متنازعہ عدالتی فیصلے کے ذریعے پھانسی لگا چکا تھا۔ واضح رہے کہ صوبائی وزارت سے پہلے جناب نواز شریف کی سیاسی زندگی ایک دن تو کیا ایک گھنٹہ بھی نہیں تھی۔
بعد ازاں 1985ء میں ایک جعلی ریفرنڈم کے ذریعے ڈکٹیٹر نے مزید 5 سال کیلئے صدارت سنبھالی تو بہت سی دعاؤں کے ساتھ غیرجماعتی اسمبلی میں جناب نواز شریف کو وزیراعلی پنجاب مقرر کر دیا گیا۔ 1988ء میں ڈکٹیٹر نے اپنے ہی منتخب کردہ وزیراعظم محمد خان جونیجو کو برطرفی اور اسمبلیاں برخاست کیں مگر نواز شریف کو وزیراعلی برقرار رکھا۔
1988ء سے 1999ء کے درمیان جناب نواز شریف کے جمہوری رویوں کے حوالے سے اس وقت کی ایک اور مقبول لیڈر محترمہ بینظیر بھٹو کو سن لیا جائے تو مناسب ہو گا۔
1999ء میں مارشل لاء لگا تو جناب نواز شریف مزاحمت کرنے کی بجائے اپنی پارٹی کی اعلیٰ قیادت (جو اپنی حیثیت کے مطابق ڈکٹیٹر کے خلاف مورچہ زن تھی) تک کو لاعلم رکھ کر پہلی دستیاب سہولت سے فایدہ اٹھا کر بیرون ملک سدھار گئے۔ آمریت کے خلاف جدوجہد پر آپ اور آپ کی پارٹی کے نظریات کو آپ کی صاحبزادی اور سیاسی وارث محترمہ مریم نواز نے انتہائی خوبصورتی سے ایک جملے میں سمو دیا “مزاحمت ہو گی تو مفاہمت ہو گی”۔ اس کی تشریح آپ خود مسلم لیگ(ن) کی سیاسی زندگی کے تناظر میں کر سکتے ہیں۔
آخر میس سب سے کم عمر پارٹی تحریک انصاف کے بانی جناب عمران خان پر نظر ڈالتے ہیں۔ 1996ء میں تحریک انصاف کے قیام کے وقت عمران خان نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں کھیل اور رفاہی سرگرمیوں کی وجہ سے ایک معروف نام تھا۔ اس کے باوجود تحریک انصاف 1997ء کے الیکشن میں ایک نشست بھی حاصل نہ کر پائی۔ 2002ء کے الیکشن میں عمران خان اپنے آبائی علاقے میانوالی سے جیتنے میں کامیاب ہوئے اور اپنی جماعت کے اکیلے منتخب رکن کے طور پر اپوزیشن کا حصہ بنے۔ یاد رہے کہ PTI کو اپنی پہلی نشست اپنے قیام کے چھٹے سال اور دوسرے جنرل الیکشن میں مل سکی۔
2008ء کے جنرل الیکشن کا پیپلز پارٹی کے علاوہ تمام جمہوری جماعتوں نے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا کیوں کہ ڈکٹیٹر جنرل مشرف وردی سمیت صدر منتخب ہو چکا تھا۔ بعد ازاں آخری لمحات میں جناب نواز شریف متفقہ فیصلے کو بغیر کسی مشاورت کے چھوڑ کر الیکشن میں کود گئے مگر تحریک انصاف دیگر چھوٹی جماعتوں کے ساتھ ڈکٹیٹر کے زیر انتظام الیکشن بائیکاٹ کے فیصلے پر قائم رہی۔
اکتوبر 2011ء میں PTI کیلئے ایک نئی سیاسی زندگی کا آغاز تب ہوا جب مینار پاکستان پر ایک بڑا جلسہ منعقد کیا گیا، کہا جاتا ہے کہ اس جلسے کی کامیابی کے پیچھے اس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل پاشا کا ہاتھ تھا۔ یہ الگ بات کہ نہ کبھی اس کا ثبوت دیا گیا اور نہ یہ بتایا گیا کہ ایک مخالف سیاسی حکومت کی موجودگی اور الیکٹیبلز کی مکمل عدم موجودگی میں آئی ایس آئی آخر کس طرح عام لوگوں کو جلسہ گاہ میں بھر سکتی تھی؟
2013ء کے الیکشن میں تحریک انصاف خیبرپختونخوا میں 124 کے ایوان میں 48 نشستیں لے کر ایک بڑی جماعت بن کر ابھری مگر حکومت بنانے کیلئے سادہ اکثریت تب بھی نہ مل سکی، جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی کی مدد سے قائم حکومت نے بمشکل 5 سال مکمل کئے۔ بہرکیف PTI نے 1996ء میں اپنی تاسیس کے 17 سال بعد پہلی مرتبہ اقتدار کا مزہ چکھ لیا۔
قومی اسمبلی میں ڈالے گئے ووٹوں کے اعتبار سے تو تحریک انصاف بڑے فرق سے دوسرے نمبر پر رہی مگر نشستیں صرف 35 ہی بنیں اور اپوزیشن لیڈری تک نہ ملی۔ دلچسپ بات یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کےگڑھ پنجاب میں تحریک انصاف کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی اور اس کو زیادہ تر نشستیں خیبر پختونخوا سے ہی ملیں۔
2018ء کے الیکشن میں تحریک انصاف خیر پختونخوا میں تو واضح اکثریت حاصل کر پائی مگر پنجاب اور مرکزی حکومتوں کیلئے اس کا مکمل انحصار اتحادی جماعتوں پر ہی تھا۔ بہرحال جناب عمران خان اپنی عوامی زندگی کے 47 سال (2018-1971) اور سیاسی زندگی کے 22 سال (2018-1996) بعد پہلی دفعہ اقتدار کا مزہ چکھنے میں کامیاب ہوئے۔
جناب عمران خان پر البتہ اپوزیشن کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کا الزام شدت سے لگایا گیا اور اسمبلیوں کو جعلی قرار دیا گیا مگر وقت کی ستم ظریفی اپنی جگہ کہ 2018ء کی اپوزیشن اسی اسمبلی سے اقتدار میں آنے کے بعد اس کی توہین کے خلاف قانون سازی بھی کررہی ہے اور اس کی آئینی مدت میں اضافی بھی چاہتی ہے۔
امید ہے کہ اوپر درج کئے گئے حقائق سے یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ اسٹیبلشمنٹ کا پراجیکٹ کون ہے اور سیاسی جدوجہد کس نے اور کتنی کی، فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں۔