چھ فریقی سیاسی جماعتوں کا اجلاس، محمود خان اچکزئی کی چیئرمین شپ میں گرینڈ الائنس کی تشکیل اور مستقبل کا لائحہ عمل
اسلام آباد: مجلس وحدت مّسلمین پاکستان کی میزبانی میں ایم ڈبلیوایم کے سربراہ سینیٹر علامہ راجا ناصر عباس جعفری کی رہائش گاہ پر 6 جماعتی گرینڈ اپوزیشن الائنس کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں پاکستان تحریک انصاف ، سنی اتحاد کونسل پاکستان، جماعت اسلامی پاکستان ، بلوچستان نیشنل پارٹی، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اور مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی قائدین نے شرکت کی۔
اجلاس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، عبد الرحیم زیارت وال ، سردار شفیق خان ترین ، ریاض خان، بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل، ساجد خان ترین ، پرویز ظہور، جمعیت اسلامی پاکستان کے مرکزی نائب امیر لیاقت بلوچ، امیر العظیم، سنی اتحاد کونسل کے صاحبزادہ مُحمد رضا، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری، سید اسد عباس نقوی، ناصر شیرازی، محسن شہریار، پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما بیرسٹر گوہر علی خان ،عمر ایوب خان ، اسد قیصر ، حامد خان ،روف حسن شریک تھے۔
اجلاس میں حالیہ الیکشن میں تاریخ کی بدترین دھاندلی، سیاسی کارکنان پر ظلم و جبر اور چادر و چار دیواری کے تقدس کی پامالیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔ حالیہ الیکشن میں بدترین دھاندلی اور ملک میں آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کیلئے گرینڈ احتجاجی تحریک کے حوالے سے تفصیلی مشاورت ہوئی اور اس حوالے سے مزید غور و خوص کیلئے سیاسی رابطے بڑھانے پر سب نے اتفاق کیا۔
اجلاس میں آئین کی مکمل بحالی ، قانون کی عملداری ، آزاد انہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے جمہوریت کی مکمل بحالی ، عدلیہ کی آزادی اور سول بالادستی کے بنیادی اصولوں پر اتفاق پایا گیا۔ اجلاس میں طے پایا کہ ان مقاصد کے حصول کے لئے مشترکہ جدو جہد کی ضرورت ہے نیز پاکستان کی دیگر جماعتوں سے بھی ان مقاصد کے پیش نظر رابطہ کیا جائے گا۔
آئین اور جمہوریت کے لئے حقیقی خطرات جنم لے چکے ہیں۔ جمہوریت اور ریاست کا نظام اب فوجی مداخلت کے وجہ سے مکمل طور پر مفلوچ ہو چکا ہے۔ فوجی جرنیلوں کے غیر آئینی بالادست سیاسی کردار اور مداخلت کی وجہ سے عوام اور ریاست میں خوفناک فاصلے پیدا ہو گئے ہیں۔ عوام کا غصہ اب اس سطح پر پہنچ گیا ہے کہ سیاسی قیادت نے آئین کی بالا دستی اور جمہوریت کی بحالی کے لئے کردار ادا نہ کیا تو ملک کے مستقبل کے لئے بڑے خطرات پیدا ہو جائیں گئے۔
۱۔ آج کا یہ اجلاس ملک کے تمام بحرانوں کی بنیادی وجہ ملک کے متفقہ آئین سے انحراف اور کروڑوں عوام کے منتخب پارلیمنٹ کی بے توقیری کو سمجھتا ہے اور اس عزم کا اعادہ کرتا ہے۔ کہ آئین کا ہر قیمت پر تحفظ اور دفاع کیا جائیگا اور اس پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا اور یہ کہ پاکستان کی اندرونی اور بیرونی معاملات کی تشکیل کا اصل منبع اور مرکز عوام کی حقیقی منتخب پارلیمنٹ ہو گی۔ کوئی بھی فیصلہ پارلیمنٹ کی منشا اور مرضی و منظوری کے بغیر نہ قبول ہوگا اور نہ کسی کو کرنے دیا جائیگا۔
۲۔ یہ اجلاس 08 فروری 2024 کے عام انتخابات کے تبدیل کئے گئے نتائج کو یکسر مسترد کرتا ہے۔ جن میں حقیقی الیکشن کے نتائج کو زر زور اور انتہائی بھونڈے انداز میں تبدیل کر کے سارے جہاں میں ملک کی بدنامی اور جگ ہنسائی کی بنیاد رکھی گئی اور ساتھ ہی موجودہ جعلی حکومت عوام پر تھونپ دی گئی۔
۳۔اجلاس نے قرار دیا کہ موجودہ جعلی حکومت کو مصنوعی استحکام اسٹیبلشمنٹ نے بخشا ہے اور غیر منتخب لوگوں کو الیکشن میں دھاندلی کے ذریعے عوام پر مسلط کیا۔ اجلاس نے اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں بڑھتے ہوئے عمل دخل پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور اسے ملک کی سلامتی اور قومی اداروں کےلئے خطرہ قرار دیا ۔ اجلاس نے مطالبہ کیا کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست میں ہر قسم کی مداخلت فوری طور پر بند کرے۔ اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام ادارے آئین کے تحت لیئے گئے حلف اور اس کے متعین کردہ حدود کی پابندی و پاسداری کرتے ہوئے سیاست میں مداخلت سے باز رہیں۔
۴۔ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ ملک میں شفاف، آزادانہ ، غیر جانبدارانہ انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جائے اس مقصد کے حصول کےلئے فی الفور انتخابی اصلاحات کی جائیں جس میں مسلح افواج اور ایجنسیز کا کوئی غیر آئینی عمل دخل نہ ہو۔
۵۔ اجلاس اعادہ کرتا ہے کہ 1973 کا آئین ، اٹھارویں ترمیم اور موجودہ این الف سی ایوارڈ قومی اتفاق رائے کا مظہر ہے ان پر حملوں کا بھر پور مقابلہ کیا جائیگا اور پوری قوت سے صوبائی خودمختاری کا تحفظ کیا جائےگا اور ان پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائےگا۔
۶۔اجلاس ملک میں صدارتی نظام رائج کرنے کے مذموم ارادے کو رد کرتا ہے اور حقیقی وفاقی پارلیمانی جمہوریت کو پاکستان کے تحفظ کا ضامن سمجھتا ہے۔ اجلاس د و ٹوک انداز میں واضح کرتا ہے۔ کہ پارلیمنٹ کی بالادستی پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائیگی اور نہ ہی اس پر کوئی سمجھوتہ کیا جائیگا۔
۷۔اجلاس عمران خان اور دوسرے سیاسی قائدین ، رہنمائوں اور سیاسی کارکنان کے خلاف سیاسی انتقام پر مبنی بے بنیاد اور جھوٹے مقدمات قائم کرنے ، انکی گرفتاریوں اور قید وبند کی صعوبتوں کی شدید الفاظ میں مذمت اور انکی بلا شرط رہائی کا مطالبہ کر تا ہے۔ اجلاس میڈیا کے باہمت افراد اور سیاسی انتقام کا سامنا کرنے والے تمام قائدین اور کارکنان کی جرأت ، بہادری اور استقامت پر داد تحسین پیش کرتا ہے۔
۸۔ اجلاس سیاسی کارکنوں، رہنمائی اور میڈیا پرسنز جن میں خواتین بھی شامل ہیں اس طرح سیاسی جمہوری و کلاء اور دیگر انسانی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والوں کے خلاف ہونے والے حکومت ذمہ داروں کی غیر آئینی ، غیر سیاسی اور غیر جمہوری رویوں کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ اور مطالبہ کرتا ہے۔ کہ ان تمام اقدامات سے گریز کیا جائے ۔ جو بنیادی انسانی حقوق صرف انسانیت اور آئینی حقوق کے خلاف ہوں۔ مطالبہ ہے کہ موجودہ اور ریٹائرڈ۔۔۔۔۔ جرنیلوں ، ججز اور من پسند سرکاری ملازمین کی مدت ملازمت میں توسیع بند کی جائے۔
۹۔ آج کا یہ اجلاس ملک بھر میں سویلین اتھارٹی کی فوری بحالی ، ایف سی اور دیگر اداروں کے ذریعے اختیارات چھیننے کے غیر آئینی و غیر قانونی عمل کو نفر ت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
۱۰۔ آج کا یہ اجلاس ملک بھر میں سیاسی کارکنوں کو زبر دستی لاپتہ کرنے اور ان کے مسخ شدہ لاشین پھینکنے پر انتہائی دکھ اور افسوس کا اظہار کرتا ہے۔ اور تمام لاپتہ افراد کو باز یاب کرانے کا مطالبہ کرتا ہے۔
۱۱۔ آج کا یہ اجلاس ملک پر نااہل حکومت کی جاری سخت ترین مہنگائی، بدترین بیروزگاری، آئے روز بجلی ، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے اور حکومت کی شاہ خرچیوں کو انتہائی نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہےاور ملک پر اسٹیبلشمنٹ کے رشوت خوروں اور کرپشن مافیا کے ٹھیکیداروں کا خاتمہ ضروری سمجھتا ہے۔
۱۲۔ آج کا یہ اجلاس ملک کے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی جانب سے عدلیہ کی آزادی میں خفیہ ایجنسیوں کی دھونس ، دھمکیوں، مداخلت اور احتجاج پر اپنے سخت ترین برہمی کا اظہار کرتا ہے۔ عدلیہ ،میڈیا کی آزادی کا ہر قیمت پر دفاع کا عہد کرتا ہے۔
۱۳۔ سرکاری ملازمین کی غلط داخلہ و خارجہ ناکام پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام اور عالمی تنہائی سے دوچار ۔۔۔۔ ملک کو سیاسی استحکام اور عالمی تنہائی سے نکالنے کےلئے ملک کی داخلہ و خارجہ پالیسی کی تشکیل ملک کے حقیقی منتخب پارلیمنٹ سے ضروری ہے۔