ڈاکٹر قیصر عباس سیال شہید ۔۔ قافلہ شہدائے امامیہ کے سُرخیل
شہید ڈاکٹر قیصر عباس سیال شہدائے امامیہ کے وہ عالی منصب سُرخیل تھے جنہوں نے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی مثل جام شہادت نوش کیا, یکم اکتوبر 1999 کی صبح لاہور کی وحدت کالونی میں ظالم تکفیری دہشت گردوں کی فائرنگ سے شہید ہونے والے ڈاکٹر قیصر عباس سیال کی یاد آج بھی امامیہ نوجوانوں میں زندہ جاوید ہے, ڈاکٹر قیصر عباس سیال شہیدکی آج برسی ہے۔ سورہ فاتحہ مع صلواۃ ھدیہ کرنے کی درخواست ہے۔ (سید انجم رضا)
تحریر: سید نثار علی ترمذی
ان دنوں 2_ دیو سماج روڈ پر سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ میرا دفتر قریب تھا۔ جب دفتری کام سے تھک جاتا تو سستانے اور فریش ہونے کے لیے تحریک کے دفتر آ جاتا۔ یوں ڈآکٹر محمد علی نقوی شہید کی زیارت کے علاوہ مہمانوں سے بھی ملاقات ہو جاتی۔ اس کے علاوہ بھی بوقت ضرورت فون کر کے بلا لیا جاتا۔ غرضیکہ دن میں کئی بار آنا جانا لگا رہتا۔
کوئی دس بجے کا وقت تھا۔ میں دفتر آیا تو دیکھا کہ ڈآکٹر محمد علی نقوی شہید ایک خوبصورت نوجوان کے ساتھ محو گفتگو ہیں۔
مجھے دیکھتے ہی شہید ڈاکٹر نقوی نے اپنے روایتی انداز میں کہا کہ آغا ترمذی آپ کا ہی انتظار تھا۔ میرا تعارف کرواتے ہوئے اس نوجوان کو بتایا کہ ان کے بارے میں زکر کر رہا تھا۔ پھر اس نوجوان کے بارے میں بتایا کہ یہ قیصر عباس سیال ہیں اور ایم بی بی ایس فائینل ائیر کے سٹوڈنٹ ہیں، ان کے ایک یا دو پرچے کینسل ہوگئے ہیں۔ اگر اس کا حل ناں نکلا تو ان کا ایک سال ضائع ہو جائے گا۔ میں نے سیال صاحب سے پوچھا کہ وہ جھنگ سے ہیں؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے ہاں میں جواب دیا اور ساتھ ہی مجھ سے پوچھ ڈالا کہ ” جھنگ آلے ترمزی، مسلم حسین شاہ تہاڈے رشتہ دار ہیں؟ ” میں نے بتایا کہ وہ ہمارے رشتہ دار ہیں۔ انہوں نے ہنستے ہوئے بے تکلف ہوتے لگے جھنگ کے ترمزی سادات کے بارے میں قصے سنانے لگے۔ جھنگوچی زبان اور ڈاکٹر قیصر کا انداز بیان، وقت گزرنے کا علم ہی نہیں ہوا۔ آخر ڈاکٹر نقوی شہید نے مداخلت کرتے ہوئے متوجہ کیا جس مسئلہ کے لیے اے ہو اس پر بات کی جاے۔ ڈاکٹر قیصر تفصیل سے بتانے لگے کہ ہم تو کمرہ امتحان میں پرچہ حل کر رہے تھے کہ اچانک ایک جلوس اندر داخل ہو گیا اور بائیکاٹ بائیکاٹ کے نعرے لگائے لگا۔ سب لوگ اٹھ کھڑے ہوئے، لیکن یونیورسٹی نے دیگر کے ساتھ مجھ پر بھی ایک سال کے لیے پابندی لگا دی۔ ڈاکٹر نقوی شہید نے طنزیہ پوچھا قیصر تم نے ضرور حصہ لیا ہو گا؟ ڈاکٹر قیصر نے کہا قسم لو جو حصہ لیا ہو، ہاں جب تالیاں بجائی جا رہیں تھیں تو میں نے ان کے ساتھ تالیاں ضرور پیٹیں تھیں۔ شہید نے کہا شمولیت تو ہو گئی ناں۔ میں نے معاملے کی سنگینی کو درک کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ مارشل لاء کا دور ہے گورنر پنجاب ہی اس کو حل کر سکتا ہے۔ اس کے لیے سفارش تلاش کی جاے۔
ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید نے بتایا کہ انہوں نے حیدر علی مرزا صاحب سے رابطہ کیا اور وہ آتے ہوں گے۔ یوں ڈاکٹر قیصر عباس سیال سے پہلی ملاقات ہوئی۔ ان سے تعلق، رابطہ اور دوستی ان کی شہادت تک برقرار رہی۔ اب جب بھی دعا کے لیے ھاتھ اٹھاتا ہوں تو آپ دعا کا حصہ ہوتے ہیں۔
آپ کا مذکورہ بالا مسئلہ حل ہو گیا تو آپ لاہور کا حصہ بن گیے۔ لاہور کے متعدد ہسپتالوں میں خدمات انجام دیتے رہے۔ وحدت کالونی میں سرکاری گھر الاٹ ہو گیا، جہاں شام کو کلینک بنا لیا۔ آپ نے اپنے اخلاق و کردار و گفتار سے حیدر علی مرزا مرحوم کو گرویدہ بنا لیا تھا۔ مرزا مرحوم کے ہر پروگرام کے اسثیج سیکرٹری ہوتے، بعض اشتہارات میں آپ کا نام بھی ہوتا تھا۔ آپ برادر امتیاز علی رضوی کی کابینہ میں آئی ایس او کے مرکزی نائب صدر رہے۔ آپ نے اپنی اس وابستگی کو آخری دم تک نبھایا۔ آپ اپنی اس مادر علمی کی اخلاقی، نظریاتی اور مالی تعاون کرتے رہے۔ یونٹ سے لے کر مرکزی پروگرام تک میں شرکت کے لیے آمادہ رہتے۔ ایک دور میں آئی ایس او کا دفتر آپ کے گھر کے قریب آصف بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں شفٹ ہوا تھا۔ یوں دفتر اور آپ کا گھر تقریباً ایک ہو گیا تھا۔ سینٹرز آتے دفتر میں تھے مگر رہائش و کھانا ڈاکٹر قیصر کی طرف ہوتا۔ ۔ ان دنوں ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید نے سٹڈی سرکل شروع کیا ہوا تھا۔ استاد مرتضی مطہری شہید کی فقہ واصول فقہ جسے مدرسہ مظہر الایمان ڈھڈیال چکوال نے شائع کیا تھا کا اجتماعی مطالعہ کر رہے تھے کہ موضوع علم حدیث و علم رجال زیر مطالعہ آیا۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے مشورہ دیا کہ ہمیں اس موضوع پر کسی علمی شخصیت سے تبادلہ خیال کرنا چاہیے۔ تجویز ہوا کہ علامہ طالب حسین کرپالوی شہید سے استفادہ کیا جاے۔ اس کے لیے شہید قیصر کی رہائش گاہ تجویز ہوئی۔ جہاں رات گئے تک نشست رہی۔
آپ نے حیدر علی مرزا مرحوم سے تعلق کو مجبور و بے کس لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا۔ آپ اپنی ترقی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔ آخری وقت بھی شیخ زید ہسپتال میں پیشہ وارانہ کورس کے سلسلے میں تعینات تھے۔ آپ ڈاکٹرز کی تنظیم کے سرگرم رکن تھے۔ پنجاب کی سابقہ وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کے ساتھ نائب صدر تھے۔
آپ ملی تنظیمی معاملات میں مسلسل تنزلی سے سخت پریشان تھے۔ میں بات کا گواہ ہوں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی سے بارھا بحث کر چکے تھے اور انہیں متوجہ کرتے رہتے تھے۔ ڈاکٹر شہید ان سے اتفاق کرتے ہوئے پر امید رہنے کا مشورہ دیتے رہتے۔ ڈآکٹر محمد علی نقوی شہید کی شہادت سے ایک ڈیڑھ ماہ پہلے تحریک کے دفتر مسلم ٹاؤن لاہور میں ایک طویل نسشت ہوئی، جس دونون شہداء علاوہ برادر تسلیم رضا خان اور بندہ ناچیز موجود تھے۔ جس کافی بحث و مباحثہ کے متعدد تجاویز مرتب کی گئیں۔
ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کے بعد آپ نے اس خلاء کو کافی حد تک پر گیا۔ ایک مرتبہ میری طبیعت ناساز ہوگئی۔ سوچا کہ کہاں جاؤں تو ڈاکٹر قیصر کا خیال آیا۔ فون کیا تو کہا کہ شام کو کلینک پر آ جاو۔ وہاں گیا تو مجھے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اور ڈاکٹر قیصر سیال کے روئیے اور انداز میں کوئی فرق نہیں لگا۔ باوجود میرے اصرار کے فیس نہیں لی بلکہ کہا کہ چاے پیے بغیر نہیں جانا۔ غرضیکہ وہی محبت جس کی تمنا تھی میسر ائی۔ جاتے ہوئے کہنےگے ترمزی صاحب بغیر کم دے وی ملدے رہیا کرو، تہاڈے نال توں ساڈے کئی سانگے ہن۔
7مارچ 1999 ڈآکٹر محمد علی نقوی شہید کی برسی کا دن تھا۔ میں اپنے بیٹے ارتضیٰ کو لے کر علی رضا آباد پہنچا، تو وہاں پولیس کی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ مزار پر حاضری دینے کے بعد مسجد میں تلاوت قرآن پاک کرنے لگ گیا۔ دس بج گئے تو پولیس کا ایک آدمی آ اور پوچھا کہ کیا پروگرام ہے۔ میں نے اپنی لا علمی کا اظہار کیا۔ ساڑھے دس بجے کے قریب ایک بس آ کر رکی جس میں سے تیس چالیس نوجوان اترے۔ انہوں مزار پر حاضری دی۔ اسی دوران شہید ڈاکٹر قیصر عباس سیال بھی آ گئے۔ سجاوٹ سلامی ہوئی۔ ڈاکٹر قیصر نے مجھے کہا کہ انہوں سید نوں رول دیتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا کرنا چاہیے؟ تو شہید نے کہا انشاء اللہ اگلے سال برسی ہم خود کریں گے۔ جہاں بھی ملتے تو برسی کی یاددہانی ضرور کرواتے۔ اگلا سال شہید کی زندگی میں نہیں آیا مگر شہید سے وعدہ کیا یاد تھا۔ میں نے برادر ضمیر حسین ترمزی سے اس بات کا تذکرہ کیا تو انہوں نے حامی بھر لی، یوں رابطوں کا سلسلہ شروع ہو گیا، انجم رضا ترمذی، امجد کاظمی، ظفر سرگانہ اور بہت سے لوگ مل گیے۔ تین چار سال برسی پورے جوش و جذبے کے ساتھ منائی گئ۔ پھر الحمدللہ تنظیم نے یہ زمہ داری سنبھال لی جو اب تک جاری ہے۔ یہ ایک شہید کی خواہش کا ثمر ہے۔
ان سے آخری ملاقات شہید کی زندگی کے آخری اتوار ہوئی۔ المصطفی ہاوس، مسلم ٹاؤن میں ایک اجلاس تھا جس میں ملک بھر سے چیدہ چیدہ افراد شریک تھے، اس میں علامہ فاضل حسین موسوی کے بطور قائد لانے پر حکمت عملی تیار کی گئی تھی۔ ہم سارا دن اکٹھے رہے اور اجلاس میں شریک رہے۔
یکم اکتوبر 1999 کی صبح میں جب اپنے سرکاری دفتر گیا تو جیسے ہی اخبار پر نظر پڑی تو اس کی بڑی شہ سرخی تھی کہ پنجاب میں فرقہ وارانہ دہشت گردی۔ اس کی ذیلی سرخی میں تھا کہ لاہور میں ڈاکٹر قیصر عباس سیال، بہاولنگر میں مظہر خمینی اور ممتاز الحسن کھوکھر دہشت گردی کا شکار ہو گئے۔ ملت کے تین ہیرے خاک و خون میں نہلا دیے گئے۔ میں تو کافی دیر کرسی پر بے حسی بیٹھا رہا۔ اتنے وحدت کالونی سے میرے دوست و کولیگ رانا سہیل آ گیے۔ میں نے انہیں خبر دکھائی تو انہوں نے بتایا کہ یہ تو کل شام کا واقعہ ہے اور آج گیارہ بجے جنازہ ہے۔پھر اس نے جو ڈاکٹر کے فضائل بیان کرنے شروع کردیے۔
غرضیکہ اس کے وحدتِ کالونی آیا تو شہید کے چھوٹے بھائی طاہر عباس سیال میت لینے اے ہوے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی گلے لگ کر بلند آواز گریہ کرتے ہوے کہنے لگے ترمزی صاحب اسیں تا اجڑ گئے ھاں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ واقعی جس قوم کے اتنے سنہری لوگ چلے جائیں تو قوم اجڑ ہی جاتی ہے۔