یوم القدس
تحریر: سید نثار علی ترمذی
یہ تو یاد نہیں کس سال کے یوم القدس کے جلوس میں شریک ہوا مگر یہ یاد ہے ،1985 1986 سے یوم القدس کے جلوس کے انتظامات میں شریک رہا ہوں.
ماہ رمضان سے قبل ہی یوم القدس کے حوالے, پروگرام بننے شروع ہو جاتے. امام خمینی کے یوم القدس کے بارے میں پیغامات اور تازہ پیغام کو شائع کرنے اہتمام کیا جاتا. قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی علیحدہ قدس کی مناسبت سے پیغام جاری کرتے. ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کیونکہ تحریک کے مرکزی سیکریٹری نشرواشاعت تھے اس لیے مسودہ , کتابت, اشاعت اور ترسیل کا کام 2.دیوسماج روڈ دفتر سے انجام پاتا. یہ ترسیل پورے پاکستان میں ہوتی. تحریک آزادی قدس, تحریک وحدت اسلامی, تحریک, آئی ایس او غرض کہ مختلف نام سےت اشتہارات, پیغام رساں عبارات اور دلکش ڈیزائن غرضیکہ ہر اشتہار و پمفلٹ منفرد نظر آتا. اس میں زیادہ تر کاوش شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی, ثاقب اکبر اور مقصود گل صاحب کی ہوتی. آتے جاتے احباب بھی اپنی رائے دے دیتے. اگر صائب ہوتی تو قبول ہو جاتی, بعض مرتبہ دل رکھنے کے لکھ لیتے مگر بعد میں ترمیم ہو جاتی. جب یہ سب چھپ کر آ جاتیں تو دفتر میں تل رکھنے کی جگہ نہ ہوتی. ایک مختصر میٹنگ میں ترسیل کا فارمولا طے پاتا. دن رات ایک کر کے ہر جگہ بھجوا دیے جاتے. ڈاکٹر شہید یا برادر علی رضا نقوی فون کے زریعہ اطلاع وپیغام رسانی کرتے کہ لٹریچر کو وصول کر لیں. ان زمہ داریوں سے عہدہ براہ ہونے کے بعد لاہور کی باری آتی.
لاہور میں 1986 تک تحریک سے وابستہ لوگ تو تھے مگر باقائدہ تنظیم نہیں تھی. 1986 کے وسط میں مولانا مشہور حسین کاظمی مرحوم صدر اور سید ذولفقار حسین نقوی شہید جنرل سیکریٹری نامزد ہوے تھے. بحرل ماہ رمضان کے شروع میں ہی ہم خیال تنظیموں و احباب و شخصیات کا مشترکہ اجلاس بلایا جاتا. جس میں یوم القدس کے حوالے سے انتظامات طے کیے جاتے. مختلف کمیٹیاں تشکیل پاتیں. یہ اجلاس گاہے بگاہے ہوتے رہتے. کچھ اشتہار انفرادی اور تنظیمی طور پر تقسیم ہو جاتے. مثلاً میں رستم سھراب فیکٹری کے سامنے رہتا تھا تو میرے ژمہ شاہدرہ موڑ سے لے کر فیکٹری کے اگلے چوک تک اشتہار لگانے ہوتے تھے ج میں اپنے روم میٹس کے ساتھ مل کر لگواتا تھا. باقی اشتہار دفتر کے مستقل رہائشی اور آئی ایس او لاہور ڈویزن کے کارکن لگاتے تھے. مرکز آئی ایس او کے افراد علیحدہ سے اشتہار لگواتے تھے. ڈاکٹر شہید کو لڑیاں بنوانے کا بہت شوق تھا. وہ کہتے تھے کہ اگر لڑیاں بنی ہوئی ہوں تو آسانی سے کسی جگہ لگائی جا سکتی ہیں. اس وجہ سے دفتر میں اشتہاروں کی بہار آئی ہوئی ہوتی تھی. پورے صحن میں ڈوریاں باندھ دی جاتیں اور جو بھی دفتر میں آتا اسے لڑیاں بنانے پر لگا دیا جاتا.
روابط کا سلسلہ جاری رہتا. علماء کرام سے رابطے کےلیے ذمہ دارایاں تفویض ہو جاتیں. آیت اللہ حسن طاہری خرم آبادی نمائندہ امام خمینی یا قائد ملت کی جانب علماء کرام و امام جمعہ و جماعت کے اعزاز میں افطار ڈننر کا اہتمام ہوتا. قدس کے پیغام کو زیادہ پھیلانے کے لیے احباب اہل سنت کی مساجد کے باہر بعد از نماز جمعہ کھڑے ہو جاتے اور پمفلٹ تقسیم کرتے. اقوال اور نعروں کا انتخاب کر کے بینرز لکھوائے جاتے.
جب جمعۃ الوداع آتا تو دفتر کا عجب ماحول ہوتا. القدس کا ماڈل سجایا جاتا اور شیخ سبطین کی پک اپ پر باندھ دیا جاتا. جھنڈے اور بینر جمع کر کے پک میں رکھ دیتے.
ڈاکٹر شہید اعلان کرتےکہ سب لوگ نماز ظہرین اول وقت میں پڑھ لیں. ابھی نماز ادا کر رہے ہوتے کہ اطلاع آتی کہ مولانا مشہور حسین کاظمی مرحوم اپنے طلاب کے ہمراہ ناصر باغ پہنچ گئے ہیں اور نماز باجماعت ادا کر رہے ہیں. پھر ہم سب جلدی سے ناصر باغ میں ہوتے. ایک بجے ایسا لگ رہا ہوتا کہ جلوس ابھی روانہ ہونے کو ہے. جلوس کی ترتیب کس طرح کرنی ہے اس پر بات ہوتی. آہستہ آہستہ قافلے آتے رہتے رونق بڑہتی رہتی. ایک بڑا قافلہ علامہ آغا علی الموسوی مرحوم کی قیادت میں موچی دروازہ سے آتا. مرحوم قدس کے جلوس کی رونق تھے. جیسے ہی اسلام پورہ سے جلوس شامل ہوتا تو القدس کا جلوس منزل کی طرف روانہ ہوتا. آغاز تقاریر سے ہوتا اور اختتام بھی تقاریر سے ہوتا.
اب بھی قدس کا جلوس نکلتا ہے. میں اب اسلام پورہ سے جلوس میں شامل ہوتا ہوں. جب یہ ناصر باغ پہنچتا ہے تو وہاں ایک کافی تعداد میں لوگ بسوں کے زریعہ سے لایے ہوتے ہیں. انہیں جلوس سے جدا رکھنے کے لیے رسہ کی مدد لی ہوتی ہے. ان میں کئی آشنا چہرے بھی ہوتے ہیں جن سے ہاتھ کے اشارہ کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے. مجھے وہاں سے گزرتے ہوئے اکثر خیال آتاہے کہ شاید ہمارا قدس اور ہے یا ان کا قدس اور ہے.
برادر بشارت قریشی نے کیا خوب کہا ہے. کہ ہمیں آزادی القدس سے یوم القدس کےجلوس سے زیاد دلچسپی ہے