یوم القدس منانے کی تاریخ
تحقیق و ترتیب: سید انجم رضا
دنیا بھر کے مسلمان ماہِ رمضان المبارک کے آخری جمعہ (جمعة الوداع) کو عالمی یوم قدس مناتے ہیں، یہ دن فلسطینیوں کی حمایت اور صیہونیت و اسرائیل کے فلسطین پر قبضہ کی مخالفت کا دن منایا جاتا ہے، اور قبلہ اول بیت المقدس کے عنوان سے منایا جاتا ہے
فروری ۱۹۷۹ میں اسلامی انقلاب ایران کی کامیابی کے بعد امام خمینی ؓ کے حکم پہ دُنیا بھر میں یہ دن منایا جاتا ہے، کہاجاتا ہے کہ اسے امام خمینی ؓ نے ے یوم یروشلم کی مخالفت میں شروع کیا تھا جو اسرائیل کی جانب سے مئی 1968ء سے ہر سال یوم یروشلم منایا جاتا تھا اور سنہ 1998ء میں اسے اسرائیلی حکومت نے قومی تعطیل میں بدل دیا۔
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آیت اللہ العظمیٰ امام خمینی نے اپنے برپا کردہ انقلاب سے پہلے بھی ہمیشہ اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست قرار دیا اور قبلہ اول کی آزادی کے عزم کا اعلان کیا
بی بی سی کے مطابق سب سے پہلے جمہوریہ ایران کے پہلے وزیر خارجہ ابراہیم یزدی نے ہر سال ایک صیہونی مخالف دن منانے کی تجویز ایرانی انقلاب کے رہنما روح اللہ خمینی کے سامنے پیش کی تھی۔ اس وقت اسرائیل اور لبنان میں سخت کشیدگی جاری تھی اور دونوں ملکوں کے درمیان یہی تناؤ اس تجویز کا باعث تھا۔
امام خمینی کو یزدی کی یہ تجویز پسند آئی۔
اور 7 اگست 1979ء میں انہوں نے اعلان کر دیا کہ ہر سال رمضان کے آخری جمعہ یعنی جمعۃ الوداع کو یوم القدس منایا جائے گا اور اس دن دنیا بھر کے مسلمان اسرائیل کے مظالم کے خلاف اور فلسطینوں کے حق میں احتجاج اور اتحاد کا مظاہرہ کریں گے۔
امام خمینی ؓ نے اپنے پیغام میں کہا
میری دنیا بھر کے مسلمانوں سے اپیل ہے کہ ہ وہ ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو و یوم القدس قرار دیں، اور اس کے دن فلسطین کے مسلمان عوام کے قانونی حقوق کی حمایت میں اپنے اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔
میں عرصہ دراز سے تمام مسلمانوں کو غاصب اسرائیل
کے خطرے سے آگاہ کر رہا ہوں، جس نے ان دنوں ہمارے فلسطینی بہن بھائیوں پر اپنے مظالم میں اضافہ کر دیا ہے اور خاص طور پر جنوبی لبنان میں فلسطینی مجاہدین کے خاتمے کے لیے ان کے گھروں پر مسلسل بمباری کر رہا ہے۔ میں پورے عالم اسلام کے مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اس غاصب اور اس کے حامیوں کے ہاتھ کاٹنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہو جائیں اور تمام مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کے دن جو ایام قدر میں سے بھی ہے اور فلسطینی عوام کی تقدیر کو واضح کرنے کا دن بھی ہو سکتا ہے، اس کو ‘یوم القدس’ قرار دیں اور کسی پروگرام کے ذریعے بین الاقوامی طور پر ان مسلمان عوام کے ساتھ تمام مسلمانوں کی ہمدردی کا اعلان کریں۔ اللہ تعالٰی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کو کافروں پر فتح عنایت کرے۔یوم القدس فلسطینیوں کا نہیں مستضعفین کا دن
البتہ یوم القدس کا تعلق صرف فلسطینیوں سے نہیں ہے بلکہ تمام امت مسلمہ اور مستضعفین جہان سے ہےہاں فلسطین اس کا محور ضرور ہے ۔جیسا کہ امام خمینیؒ نے اپنے ایک پیغام میں فرمایا: ’’یوم القدس صرف فلسطین سے مخصوص نہیں ہے، یہ اسلام کا دن ہے؛ یہ اسلامی حکومت کا دن ہے۔ایسا دن ہے جب سپر طاقتوں کو سمجھانا چاہئے کہ اب وہ اسلامی ممالک میں اپنی مرضی نہیں چلا سکتے. میں یوم القدس کو اسلام اور رسول اکرم(ص) کا دن سمجھتا ہوں‘‘۔
اس لئے آج اگر یوم القدس منانے کی بات کی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دن دنیا کے تمام مظلومین کی حمایت اور تمام ظالمین کے خلاف صدائے احتجاج کا دن ہے۔یہ احتجاج فلسطینیوں کی حمایت میں بھی ہے جنہیں صہیونیوں نے تقریبًا سات دہائیوں سے اپنے ظلم و جور اور بربریت کا شکار بنا رکھا ہے۔یہ احتجاج آل سعود کے خلاف بھی ہے جو مسلسل تین سال سے نہتے یمنیوں پر آئے دن بم،راکٹ اور میزائل برسارہے ہیں،یہ احتجاج آل خلیفہ کے خلاف بھی ہے جنہوں نے اپنے ہی شہریوں سے زندگی اور آزادی کا حق چھین رکھا ہے اور ہر صدائے احتجاج کو بندوق کی نوک سے دبارہے ہیں۔یہ احتجاج ان طاقتوں کے خلاف بھی ہے جنہوں نے اسلامی ممالک میں جنگ کی آگ بھڑکا رکھی ہے اور عالم اسلام کو ایک عجیب فتنہ میں مبتلا کر رکھا ہے۔
یوم القدس کی مخالفت
عالمی سطح پر جہاں یوم قدس کی حمایت کی جاتی ہے اور اسے بڑی شان اور عقیدت کے ساتھ منایا جاتا ہے وہیں اس کی مخالفت بھی کی جاتی ہے۔وہ ممالک اورطاقتیں جو دنیا میں دہشتگردی کروا رہی ہیں اور اس کی حمایت کررہی ہیں،انہیں یوم القدس ایک آنکھ نہیں بھاتا ،کیونکہ یہ ان کےناپاک عزائم کے خلاف ،دنیا کے حریت پسندوں کا کھلا احتجاج ہے۔اسی لئے وہ ممالک جو عالمی دہشتگردی کی پلاننگ کرتے ہیں وہ حکومتوں پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ یہ دن نہ منایا جائے،میڈیا کو خریدتے ہیں کہ ان ریلیوں اور احتجاج کور ایج نہ دی جائے یا اسے دنیا کے سامنے دہشتگردوں کی حمایت کا عنوان دیا جائے،اسی طرح وہ مسلم اور غیر مسلم ممالک جو عالمی دہشتگردی میں بڑی طاقتوں کے ساتھ یا ان کے آلہ کار ہیں وہ بھی بڑی شدت کے ساتھ اس اسلامی اور الٰہی دن کی مخالفت کرتے اور دوسروں سے کرواتے ہیں،اس طرح کے احتجاجات کے خلاف زر خرید مفتیوں سے فتوے تک دلوائے جاتے ہیں۔ورنہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلم ممالک میں حکومتی سطح پر ایسے مظاہرے کروائے جاتے،مسلمان حکمران خود ان مظاہروں میں پیش پیش رہتے ،وہ ایسا کیوں نہیں کرتے کیونکہ ان کے ہاتھ خود بے گناہوں کے خون سے رنگین ہیں اور ان کی آستینوں سے مظلوموں کا لہو ٹپک رہا ہے۔
خود مکتب اہلبیت(ع) کے پیروکاروں میں بھی ایک گروہ اس کا مخالف ہے ۔وہ طرح طرح کے بہانے اور اعتراضات سامنے لاتے ہیں تاکہ لوگوں کو گمراہ کرسکیں اور اس اہم انسانی اور اسلامی فریضے سے روک سکیں۔کہتے ہیں فلسطینیوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں وہ تو ناصبی ہیں،یا کہتے ہیں ہم یوم قدس کیوں منائیں ،یوم بقیع کیوں نہ منائیں؟
عجیب فکر ہے ،عجیب طرز عمل ہے ان لوگوں کا ۔نہیں معلوم یہ کس اسلام کی بات کرتے ہیں،اہلبیتؑ کی کن تعلیمات کی بات کرتے ہیں،آئمہ معصومینؑ کی کون سی سیرت اور عمل ان باتوں کا جواز فراہم کرتا ہے۔یہ پیغمبر اکرمؐ کو کیا جواب دیں گے جو فرماتے ہیں: ’’وَ مَنْ سَمِعَ رَجُلًا يُنَادِى يَا لَلْمُسْلِمِينَ فَلَمْ يُجِبْهُ فَلَيْسَ بِمُسْلِمٍ ‘‘ اگر کوئی مسلمان دوسرے مسلمانوں کو مدد کے لئے پُکار رہا ہو اور کوئی مسلمان اس کی فریاد سنے لیکن اس کی فریاد کی طرف کوئی دھیان نہ دے ،کسی رد عمل کا اظہار نہ کرے ،وہ مسلمان نہیں ہے۔ یا فرماتے ہیں :’’مَنْ أَصْبَحَ وَ لَا يَهْتَمُّ بِأُمُورِ الْمُسْلِمِينَ فَلَيْسَ بِمُسْلِمٍ‘‘ جس کی صبح اس حالت میں ہو کہ وہ مسلمانوں کے حالات سے غافل ہو وہ مسلمان نہیں ہے‘‘۔
یہ امام علی(ع) کو کیا جواب دیں گے جو ظلم کے خلاف سراپا احتجاج تھے ۔جن کی سیرت یہ تھی کہ جب شام کے لشکر نے کسی جگہ حملہ کیا اور لوٹ مار کی اور اس لوٹ مار میں دو عورتوں سے زبردستی ان کے زیور چھینے گئے جن میں ایک عورت مسلمان اور دوسری یہودی تھی،جب یہ خبر حضرت علی(ع) تک پہنچی آپ نے اس واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور اسے خلاف انسانیت عمل قرار دیا۔البتہ امام نے صرف اس واقعہ کی اور ظلم کرنے والوں کی مذمت نہیں کی بلکہ ان افراد کی بھی مذمت کی جو یہ واقعہ ہوتے دیکھتے رہے،جو دفاع کرسکتے تھے لیکن انہوں نے دفاع نہیں کیا۔امامؑ نے اپنے دُکھ کا اظہار اس انداز میں کیا:’’فَلَوْ أَنَّ امْرَأً مُسْلِماً مَاتَ مِنْ بَعْدِ هَذَا أَسَفاً مَا کَانَ بِهِ مَلُوماً بَلْ کَانَ عِنْدِی بِهِ جَدِیراً ‘‘ اگر کوئی مسلمان یہ دیکھ کر اور یہ سن کر مرجائے تو میری نظر میں وہ قابل ملامت نہیں ہے۔
امام علی(ع) نہ صرف انسانوں پر بلکہ حیوانوں پر بھی ظلم برداشت نہیں کرتے اور اسے بھی خلاف انسانیت قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں :’’وَاللَّهِ لَوْ أُعْطِيتُ الْأَقَالِيمَ السَّبْعَةَ بِمَا تَحْتَ أَفْلَاكِهَا،عَلَى أَنْ أَعْصِيَ اللَّهَ فِي نَمْلَةٍ أَسْلُبُهَا جُلْبَ شَعِيرَةٍ مَا فَعَلْتُهُ ‘‘خدا کی قسم اگر مجھے پوری کائنات کی حکومت دے دی جائے اور بدلے میں مجھ سے صرف اتنا چاہا جائے کہ میں از روئے ظلم چیونٹی کے منہ سے جو کا چھلکا لے لوں تو میں ہرگز ایسا نہیں کروں گا۔
اب اگر کہیں انسانوں کو زندہ جلایا جارہا ہو،اگر کہیں بے گناہوں کے گلے کاٹے جارہے ہوں،اگر کہیں عورتوں پر ظلم کیا جارہا ہو،اگر گھروں کو مسمار کیا جارہا ہو،اگر کہیں نہتے لوگوں پر بم برسائے جارہے ہوں تو کیا کوئی مسلمان یہ کہہ سکتا ہے کہ مجھ سے کیا مطلب؟ کیا کوئی انسان یہ سب کچھ دیکھ کر اور سن کر خاموش رہ سکتا ہے؟ کیا مولا علیؑ کو اپنا امام ماننے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ شیعہ نہیں ہیں اس لئے مجھے کوئی دُکھ اور درد نہیں ہے؟
اس دن ہم کیا کرسکتے ہیں؟
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ دنیا کے ان حالات کے تئیں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ہماری ذمہ داری کے کئی مراحل ہیں:
۱۔دنیا اور عالم اسلام کے حالات سے آگاہ رہیں۔ایک انسان ہونے کے ناطے بھی اور ایک مسلمان ہونے کے ناطے بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم دنیا کے حالات سے آگاہ اور باخبر رہیں۔ اپنے اندر حق اور باطل کی شناخت پیداکریں ۔میڈیا کے بچھائے ہوئے جال اور اس کے پیچھے دشمن کی چال کو سمجھنے کی کوشش کریں۔افواہوں اور غلط خبروں پر اعتبار نہ کریں۔دوست اور دشمن کو پہچاننے کی کوشش کریں۔دوست کو دشمن اور دشمن کو دوست نہ سمجھ بیٹھیں۔ظالم اور مظلوم کو جانیں کہیں ایسا نہ ہو کہ عالمی میڈیا جو تصویرہمیں دکھارہا ہے اور جو تصور ہمارےذہنوں میں قائم کرنا چاہتا ہے ہم آسانی سے اسے قبول کرلیں ۔آج مسلمانوں کے بڑے بڑے لیڈر جو خود کو بڑا دانشور سمجھتے ہیں یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے پیچھے کیا کھیل ہے۔ وہ ظالم کی حمایت کرتے ہیں اور جو مظلوموں کا ساتھ دیتے ہیں انہی کو اصلی مجرم مان بیٹھے ہیں۔
۲۔جہاں خود اپنے اندر آگہی اور بصیرت پیدا کرنا ضرور ی ہے وہیں دوسروں کو حالات اور حقائق سے آگاہ کرنا بھی ضروری ہے۔لہٰذا جو شخص جس حد تک خود آگاہ ہوچکا ہےوہ اس حدتک دوسروں کو آگاہ کرسکتا ہے۔
۳۔ظالم کے خلاف اور مظلوم کی حمایت میں اپنی آواز اٹھائیں۔جس طرح سے ممکن ہے۔قلم کے ذریعہ،زبان کے ذریعہ،قدس کی احتجاجی ریلیوں اور مظاہروں میں پر امن شرکت کے ذریعہ،مظلوموں کے حق میں دعا کے ذریعہ۔جس طرح سے بھی ممکن ہے انسان مظلوم سے اظہار حمایت اور ظالم سے اعلان برائت کرے۔
ہمارے احتجاج سے کیا ہوگا؟
ایسے مواقع پر ایک وسوسہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ہمارے احتجاج کرنے سے،قدس کی ریلی نکالنے سے،ظالموں کے خلاف نعرے لگانے سے،مظلوم کی حمایت میں آواز اٹھانے سے کیا ہوگا؟اسکے کئی فائدے اور اثر ہیں:
۱۔سب سے پہلا فائدہ یہ ہے کہ ہم اپنی ذمہ اری ہر عمل کرسکتے ہیں۔ جب دشمن خدا نمرود نے اللہ کے نبی جناب ابراہیم(ع) کو جلانے کے لئے آگ تیار کی تو بہت سے لوگوں کے ساتھ ایک چڑیا بھی وہاں تھی۔ جب اس نے دیکھا کہ زمین پر بسنے والے سب سے برے انسان نے اس زمین کے سب سے اچھے انسان اور اللہ کے نبی جناب ابراہیم کو آگ میں ڈالا ہے اور سب لوگ کھڑے دیکھ رہے ہیں اسے تعجب بھی ہوا اور دُکھ بھی ہوا۔یہ دیکھ کر اس نے سوچا آگ کو بجھا کر جناب ابراہیم کو بچایا جائے! اس لئے بار بار جاتی اور اپنی چونچ میں پانی لاکر آگ پر ڈالتی۔ کسی نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا: تم جانتی ہو کہ جس آگ میں ابراہیم ؑکو ڈالا گیا ہے اس کی اونچائی آسمان کو چھو رہی ہے تمہارے چونچ بھر پانی سے اس آگ پر کیا اثر ہوگا؟ چڑیا نے جواب دیا: ٹھیک ہے کہ میرا چونچ بھر پانی کچھ نہیں کرسکتا لیکن اس طرح میں اپنی ذمہ داری تو پورا کرسکتی ہوں۔کل اگر خدا نے مجھ سے پوچھ لیا کہ جب میرا دوست اور میرا نبی آگ میں تھا اس وقت تونے کیا کیا؟ تو میں کہہ سکتی ہوں کہ جو میں کرسکتی تھی وہ کیا!
کیا ہم چڑیا سے بھی گئے گزرے ہیں؟کیا ہمارے اندر چڑیا جتنی بھی سمجھ نہیں ہے؟دنیا میں جو ظلم و ستم کی آگ لگائی گئی ہے جس میں فرزندان ابراہیم ؑ اور فرزندان محمد(ص)کو جو جلا رہا ہے کیا اس کے لئے ہماری اندر اس چڑیا کے برابر ذمہ داری کا احساس بھی نہیں ہے؟!
کیا یہ کہنا صحیح ہے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں؟ سچ میں! اگر خدا نے ہم سے بھی پوچھ لیا کہ تم نے کیا کیا تو ہمارے پاس کیا جواب ہوگا؟
کم سے کم یہ جواب تو ہونا ہی چاہیے:جو کرسکتے تھے وہ کیا!جتنا کرسکتے تھے اتنا کیا!
۲۔دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس سے مظلوموں کی ڈھارس بندھتی ہے ،ان پر ایک مثبت نفسیاتی اثر پڑتا ہے۔جب وہ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں ہماری حمایت ہورہی ہےان کے اندر ایک حرارت پیدا ہوتی ہے۔وہ ڈٹ کر ظالم کے خلاف لڑتے ہیں،ان کے اندر ظلم سے ٹکرانے کا ایک جوش پیدا ہوتا ہے۔دوسری طرف جب ظالم یہ دیکھتا ہے کہ دنیا اس کے ظلم کے مقابل رد عمل دکھارہی ہے تو گھبراتا ہے،چند قدم ظلم کرنے سے پیچھے ہٹ جاتا ہے۔
۳۔تیسرا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ ہم اپنے آپ کو تحفظ فراہم کرتے ہیں ۔کیونکہ جو ظلم آج دوسروں پر کیا جارہا ہے وہ کل ہم پر بھی ہوسکتا ہے۔ظالم کے ساتھ کسی کی رشتہ درای یا دوستی نہیں ہوتی کہ دوسروں پر تو وہ چڑھائی کرے گا لیکن ہمیں بخش دے گا۔جب ہم ظلم کے خلاف اٹھیں گے،اس کے خلاف آواز اٹھائیں گے تو ہمارے اندر ظلم سے لڑنے کی جرائت بھی پیدا ہوگی ۔جتنی یہ آواز مضبوط ہوگی ظالم اتنا خود کو سمیٹنے کی کوشش کرے گا لیکن اگر ظلم کے مقابل کوئی رد عمل نہیں ہوگا تو ظلم کا دائرہ بڑھے گا اور اس کی آگ پھیلے گی جو ہمارے بھی دامنگیر ہوسکتی ہے۔لہٰذا یہ احتجاج اپنی مدد آپ بھی ہے۔
عملی طور پر بھی ہم اس کا مشاہدہ کرسکتے ہیں ۔فلسطین پر قبضہ کے ذریعہ دشمن نے اسرائیل اعظم کا جو خواب دیکھا تھا یا دنیا کی بڑی طاقتیں جس نیو ورلڈ آرڈر کی باتیں کرتی تھیں وہ امت مسلمہ کی بیداری کی وجہ سے چکنا چور ہوگیا ہے۔پہلے اسرائیل کی صہیونی حکومت استکباری طاقتوں خاص طور پر امریکہ کی حمایت کے بل بوتے پر اپنی جعلی ریاست کی حدود کی قائل نہ تھی اور اس نے اسلامی ممالک مخصوصا عرب ممالک کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنا رکھا تھا۔ حزب اللہ لبنان کے خلاف اسرائیل کی 33 روزہ جنگ اور اس کے بعد غزہ میں حماس کے خلاف 22، 12 اور 51 روزہ جنگوں نے اسرائیل کو موجودہ سرحدوں میں محصور کر دیا ہے۔اور اب خطے میں پراکسی وارز کے ذریعے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے کوشش کی جارہی ہے۔ داعش کی فوجی اور مالی مدد، سعودی عرب اور دیگر خلیجی عرب ریاستوں کو ایران کے خلاف طیش دلانا اور یمن کے مظلوم عوام خاص طور پر معصوم بچوں اور خواتین کا قتل عام انہیں پراکسی وارز پر مبنی دشمن کی پالیسیز کی کچھ مثالیں ہیں۔
بیت المقدس ہمارے لئے کیوں مقدس ہے؟
اکثر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ بیت المقدس کو ہم اتنی اہمیت کیوں دیتے ہیں اور وہ ہمارےلئے اتنا مقدس کیوں ہے؟شاید جوانوں کے ذہنوں میں یہ سوال زیادہ اٹھتا ہو کہ ہم مسلمان بیت المقدس کو اتنی اہمیت کیوں دیتے ہیں؟
ہم مختصر طور پر اس سوال کا جواب پیش کریں گے اور یہ بتائیں گے بیت المقدس ہمارے لئے کیوں اس قدر اہمیت کا حامل ہے۔دو اہم پہلؤوں سے بیت المقدس مسلمانوں کے لئے مقدس اور اہم ہے:
الف )مذہبی پہلو
۱۔ بیت المقدس وہ سرزمین ہے جس میں مسلمانوں کا پہلا قبلہ،اسلام کی دوسری مسجد،مکہ و مدینہ کے بعد تیسرا حرم الہٰی ہے۔اور امام علیؑ کے فرمان کے مطابق دنیا میں چار جنتی محلوں (مسجد الحرام،مسجد النبی،مسجد بیت المقدس،مسجد کوفی) میں سے ایک ہے۔یہ شہر یکساں طورپر تین بڑے الٰہی ادیان یعنی یہودیوں ،عیسائیوں اور مسلمانوں کے لئے اہمیت کا حامل رہا ہے۔یہ گزشتہ امتوں کا قبلہ بھی رہا ہے اور پیغمبر اکرمؐ کی بعثت کے بعد ۱۴ سال سے زیادہ تک مسلمانوں کا قبلہ اول رہا ہے۔
۲۔بیت المقدس کے مقدس ہونے کی دوسری وجہ مسجد الاقصیٰ ہے جو اسی شہر میں واقع ہے۔یہ وہ مقام ہے جس سے پیغمبر اکرمؐ کی معراج کا تعلق ہے ۔کیونکہ قرآن کے مطابق آپ کی معراج مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ تک اور وہاں سے آسمانوں کی طرف’’سُبْحانَ الَّذِى أَسْرى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِى بارَكْنا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آياتِنا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ‘‘۔پاک و منزہ ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو سیر کرائی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے اطراف و اکناف کو ہم نے بابرکت بنایا ہے،تاکہ اسے اپنی نشانیاں دکھائیں ،بے شک وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
آیت میں اگر ’’ بارَكْنا حَوْلَهُ ‘‘ پر اگر غور کیا جائے تو اس سے اندازہ ہوتا ہے مسجد اقصیٰ جہاں خود ایک مقدس سرزمین ہے وہیں اس کے اطراف کو بھی مادی اور معنوی لحاظ سے خدا نے بابرکت بنایا ہے۔یہ سرزمین پوری تاریخ انسانیت میں خدا کے عظیم پیغمبروں کا مسکن اور توحیدو خدا پرستی کا مرکز رہی ہے۔امام صادق(ع) فرماتے ہیں:’’مسجد اقصیٰ اسلام کی اہم ترین مساجد میں سے ایک ہے جس میں عبادت کرنا بہت فضیلت رکھتا ہے‘‘۔
۳۔شہر بیت المقدس میں ،مسجد اقصیٰ کے علاوہ ۳۶ اور بھی مسجدیں ہیں جن میں ۲۹ مساجد شہر کے اندر اور ۷ مساجد شہر سے باہر اس کے اطراف و اکناف میں ہیں۔اس کے علاوہ بہت سے بزرگان اسلام اور اصحاب پیغمبر(ص) کے مزارات بھی اس شہر میں واقع ہیں۔
ب)سیاسی پہلو
ایک اور مسئلہ جس کی وجہ سے اسے اہمیت حاصل ہے وہ اسلام اور عالمی کفر کے مقابلہ کا مسئلہ ہے۔فلسطین کو جس پلاننگ کے ساتھ غصب کیا گیا ہے وہ محض سرزمین فلسطین پر قبضہ کی پلاننگ نہیں ہے بلکہ ایک عالمی سازش ہے جس کی زد میں پورا عالم اسلام آتا ہے۔اس وقت صہیونیوں کا مقابلہ صرف فلسطینیوں سے نہیں ہے کہ یہ کہہ کر جان چھڑالی جائے کہ یہ فلسطینیوں اور اسرائیلوں کا مسئلہ ہے ہم سے اس سے کیا مطلب؟ بلکہ مسئلہ یہاں پورے عالم کفر اور عالم اسلام کا ہے۔اسرائیل کے ناپاک اور مذموم عزائم کا ساتھ پورا عالم کفر،مغربی دنیا اور مستکبرین عالم دے رہے ہیں اور ان کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک ایسا محاذ قائم کرنا ہے جس کا مقصد عالم اسلام کی نابودی اور جدید اسلامی تمدن کی روک تھام ہے۔اس بناپر مسئلہ فلسطین کا تعلق جہاں دین سے ہے وہیں عالم اسلامی کی سلامتی اور امن سے بھی ہے۔فلسطین اور بیت المقدس اب مسلمانوں کا سیاسی قبلہ بھی بن چکا ہے ۔جس کا رُخ اس کی طرف ہے وہی مسلمان ہے لیکن جس نے بھی اس سے منھ موڑ رکھاہے،جو اسے پشت دکھاتا ہے،وہ چاہے زندگی بھر خانہ کعبہ کی طرف رُخ کرکے نمازیں پڑھتا رہے،بلکہ خانہ خدا کی خدمت اور مجاوری کا دعویٰ کرتا رہے،اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
آج اگر یہ سمجھنا ہو کہ کون سے ممالک ،کون سی حکومتیں،کون سی جماعتیں واقعی اسلام کی،قرآن کی اور رسول اللہ کی پیروکار ہیں تو یہ دیکھنا ہوگا کہ کن کا سیاسی قبلہ بیت المقدس ہے اور کن کا قصر ابیض(وائٹ ہاؤس)،یہ جاننا ہوگا کہ کون مسلمانوں کی حمایت کرتا ہے اور کون مسلمانوں کے قاتلوں کی پشت پناہی،یہ جائزہ لینا ہوگا کہ کون مظلوم فلسطینیوں ،بحرینیوں،یمنیوں کی حمایت کررہا ہے اور کون ان پر حملہ کرکے ان کے دشمنوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہا ہے۔کون مسلمانوں کے ساتھ مہربان ہے اور کون اہل کفر و شرک کے تلوے چاٹ رہا ہے۔