یہودیت ایک تعارف
(آسمانی یا ابراہیمی ادیان میں سب سے اولیں شریعت یافتہ دین یہودیت کو کہا جاتا ہے، یہودیت کے بارے میں نوجوان دانشور محترم احمد الیاس کی تحقیقاتی تحریر قارئین ہفت روزہ رضاکار (ویب ) کے ذوقِ مطالعہ کی نذر (سید انجم رضا)
تحریر: احمد الیاس
اگر آپ تقابلِ ادیان کے علماء اور طالب علموں سے سوال کریں کہ کون سا مذہب اسلام سے سب سے زیادہ مماثل اور کون سی ملت مسلمانوں سے سب سے بڑھ کر مشابہ ہے تو تقریباً سب یہودیت اور یہودیوں کا نام لیں گے۔ لیکن اس کے باوجود مسلمانوں میں یہودیوں کے حوالے سے انتہائی منفی تاثر اور ناپسندیدگی موجود ہے جس کی ظاہر ہے بہت گہری سیاسی، تاریخی اور کسی حد تک مذہبی جڑیں ہیں۔
یہ ناپسندیدگی تو ایک علیحدہ موضوع ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس اہم اور دل چسپ دین اور ملت کے حوالے ہمارے ہاں کافی لاعلمی بھی پائی جاتی ہے۔ حالانکہ ہمارے لیے یہودیوں کی تاریخ اور تہذیب کا مطالعہ کسی بھی دوسرے دینی گروہ کے مطالعے کی نسبت مفید کیس سٹڈی ثابت ہوسکتا ہے۔
یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے دین کا ظہور تب ہوا جب خدا نے ابراہیم سے ایک عہد کیا کہ ابراہیم اور ان کی اولاد صرف ایک خدا کی بندگی کرے گی اور خدا اس کے بدلے انہیں فضیلت اور سرزمین کنعان دے گا۔ اس عہد کی علامت کے طور پر آلِ ابراہیم کے لڑکوں کا ختنہ کرنے کا حکم دیا گیا جو آج تک یہودی کرتے ہیں۔ ابراہیم آج سے کوئی چار ہزار سال قبل تھے۔ ابراہیم کے بعد ان کے فرزند اسحاق اور اسحاق کے بعد ان کے فرزند یعقوب جن کا نام اسرائیل بھی ہے۔ ان کے بارہ بیٹوں سے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے بنے۔ شروع میں یہ قبائل کنعان سے مصر جا بسے کیونکہ یعقوب کے ایک بیٹے یوسف وہاں حاکم تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ ان کی نسلیں غلام بنتی گئیں یہاں تک کہ سب سے عظیم پیغمبر موسیٰ نے کوئی چونتیس سو سال قبل انہیں مصر سے نکالا۔ مصر سے نکل کر یہ لوگ صدیوں کنعان (فلسطین) کے آس پاس صحراؤں میں بھٹکتے رہے لیکن اس سرزمین کو حاصل نہ کرسکے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا یہاں تک کہ طالوت اور داؤد آئے اور اسرائیل کی بادشاہت قائم ہوئی۔
داؤد کے بیٹے سلیمان نے یروشلم میں ایک عظیم عبادت گاہ تعمیر کروائی جو یہودیوں کا سب سے مقدس مقام اور قبلہ ٹھہری۔ (اس مسجد کا قرآن میں بھی ذکر ہے اور آج کی مسجدِ اقصیٰ دراصل اسی مسجد کی تعمیرِ نو ہے)۔ سلیمان کے دنیا سے جانے کے تقریباً فورا بعد مملکت اسرائیل کوئی ۹۳۰ قبل مسیح میں دو ٹکرے ہوگئی۔ دس قبائل نے شمال میں مملکت اسرائیل سنبھال لی اور دو قبائل نے جنوب میں مملکت یہودا قائم کرلی جس کا دارالحکومت یروشلم تھا۔ ان دونوں میں اہمیت یہودا قبیلے کو حاصل تھی (جو یعقوب کے بیٹے یہودا سے تھا)۔ کوئی دو سو سال بعد شام کی سمت سے آشوری مملکت نے شمالی مملکت اسرائیل پر حملہ کرکہ اس کا خاتمہ کردیا اور دس قبائل بکھر کر گم ہوگئے یعنی مختلف خطوں میں جاکر گھل مل گئے۔ یوں صرف مملکت یہودا باقی رہی اور اس سے اسرائیلی مذہب کو یہودیت اور اس کے پیروکاروں کو یہودی کا نام ملا۔
شمالی اسرائیل کی تباہی کے کوئی سوا سو سال بعد ۵۸۷ قبل مسیح میں یہودا کی مملکت کو نو بابلی حکمران بخت نصر نے تباہ کردیا، سلیمان کی عبادت گاہ کو گرا دیا اور زیادہ تر یہودیوں کو غلام بنا کر بابل (عراق) لے گیا جہاں وہ کوئی نصف صدی اسیری میں رہے۔ یہاں تک کہ ایران سے سائرس اٹھا اور اس نے طوفانی فتوحات کے بعد عدل و انصاف قائم کیا تو یہودیوں کو کنعان لوٹنے اور ہیکلِ سلیمانی کی تعمیرِ نو کی اجازت دی جو ہوگئی۔
دوسرے ہیکل کا یہ دور ایرانیوں، پھر یونانیوں اور پھر رومیوں کی سرپرستی میں گزرا لیکن ہیکل قائم رہا اور یہودی کنعان میں رہے۔ اس دوران ان میں بہت سے فرقے بنے اور تحریکیں اٹھیں جن میں سے کچھ علیحدہ ادیان کی شکل اختیار کرگئیں۔ ان میں سب سے اہم اور مشہور عیسوی تحریک ہے جو یہودیوں میں رائج ہوچکی ظاہر پرستی اور منافقتوں وغیرہ کے خلاف ابھری لیکن جناب عیسیٰ کے بعد ان کے نام لیوا جب شریعت موسوی اور اسرائیلی قومی فضیلت سے انکار کر بیٹھے تو علیحدہ دین یعنی مسیحیت بن گئے۔
70 عیسوی میں بغاوتوں کے جرم میں رومیوں نے دوسرا ہیکل سلیمانی بھی گرا دیا۔ اور یہودی پوری دنیا میں بکھر گئے۔ اس واقعے کے تقریباً چھ صدیوں بعد کنعان اور یروشلم بازنطینی رومیوں سے مسلمانوں کی ہاتھ لگے تو سیدّنا سلیمان علیہ السلام کی عبادت گاہ کے مقام پر شہر کا کچرا پھینکا جاتا تھا۔ مسلمانوں نے اس جگہہ کو صاف کیا اور یہاں مسجد تعمیر کی جو مسلمانوں کے نزدیک قرآن میں مذکور مسجدِ سلیمانی ہی کی تعمیرِ نو ہے کیونکہ سلیمان علیہ السلام اسلام کے پیغمبر تھے اور مسلمان ان کے وارث ہیں۔ مسلمانوں نے ہی دوسرے ہیکل کی ایک بچی ہوئی دیوار صاف کرکہ عبادت کی لیے یہودیوں کو دی جو اب مغربی دیوار یا دیورِ گریہ کہلاتی ہے اور یہودیوں کی سب سے اہم عبادت گاہ ہے۔ لیکن یہودی اب اس مقدس قطعہِ زمین کے اندر داخل ہونے کو اس وقت تک حرام سمجھتے ہیں جب تک ان کا مسیحا، بادشاہ اور خلیفہِ داؤد واپس نہیں آجاتا۔
یہودیوں میں مسلمانوں کی طرح جنت دوزخ کا، مسیحیوں کی طرح نجات کا یا ہندوؤں کی مانند جنم لے لے کر واپس آنے اور مُکتی پانے کا کوئی واضح تصور نہیں ہے لیکن حیات بعد الموت پر انہیں بھی یقین ہے۔ یہودی مقدس کتاب واضح کرتی ہے کہ جسم کی موت سے روح نہیں مرتی۔ اس حوالے سے یہودی تصور یہ ہے کہ موت کے بعد روح اپنے اجداد کے ساتھ رہنے کہیں چلی جاتی ہے اور جب مسیحا آئے گا تو ہر زمانے میں گزرے ہوئے ہر یہودی کو دنیا میں زندہ کیا جائے گا اور ایک نئی زندگی کا آغاز ہوگا۔
یہودیوں کی مقدس کتاب تناخ ہے جس کے تین حصے ہیں۔ پہلا حصہ تورات ہے جو پانچ ذیلی کتب پر مشتمل ہے اور سب سے عظیم پیغمبر موسیٰ کی کتاب ہے۔ اس میں یہودیوں کے بنیادی عقائد، تصورات اور شریعت موجود ہے۔ موسیٰ یہود کے وہ پیغمبر ہیں جو شریعت لے کر آئے۔ یہ شریعت ۶۱۳ احکام پر مشتمل ہے جن میں سب سب مشہور دس احکام ہیں جو خدا نے موسیٰ کو پتھر کی دو لوحوں پر لکھ کر دئیے۔
یہودیوں اور مسلمانوں کی شریعت بہت زیادہ مماثل ہے۔ حلال و حرام کا تصور بالکل ایک جیسا ہے (مسلمانوں کے لیے صرف یہودیوں کا ذبح کیا ہوا گوشت کھانا جائز ہے کیونکہ وہ بھی اللٰہ کے نام پر قربانی کرتے ہیں اور سور یا گوشت خور جانور نہیں کھاتے)۔ لیکن یہ فرق ہے کہ مسلمان سود کو قطعی طور پر حرام سمجھتے ہیں جبکہ یہودیوں میں صرف یہودیوں کو سودی قرض دینا منع ہے، غیر یہودیوں کو سودی قرض دئیے جاسکتے ہیں۔ اس طرح مسلمانوں کو مقدس دن جمعہ ہے جس پر جمعے کی نماز کے علاوہ کاروبار اور دیگر معمولات زندگی جائز ہیں لیکن یہودی اپنے سبت یعنی ہفتے کے دن کاروبار ہی نہیں بلکہ ہر طرح کی دنیاوی سرگرمی سے اجتناب کرتے ہیں یہاں تک کہ بجلی اور موبائل فون کا استعمال اور دنیاوی کتب، رشتے داروں دوستوں سے ملنا یا سفر کرنا بھی ناپسندیدہ ہے۔ یہ دن ان کے ہاں صرف عبادت، دینی مطالعے اور غور و فکر کے لیے مخصوص ہے۔
تناخ کا دوسرا حصہ “کتبِ انبیاء” کہلاتا ہے جو موسیٰ کے بعد کے اسرائیلی پیغمبروں کی تعلیمات اور حالاتِ زندگی پر مشتمل ہے جبکہ تیسرا حصہ مکتوبات ہے جو الہامی نہیں ہے لیکن یہودیوں کے مطابق خدائی نصرت ست لکھا گیا ہے۔ تناخ یہودیوں کے ہاں صرف عبرانی میں پڑھی جاتی ہے اور کل چوبیس کتب پر مشتمل ہے۔ اسے صرف عبادت گاہوں میں مخصوص شکل میں رکھا جاتا ہے اور کسی نسخے کو معمولی خستگی پر بھی دفن کردیا جاتا ہے۔ مسیحی البتہ اس کا ترجمہ بھی کرتے ہیں اور اسے عہدنامہ قدیم کہتے ہیں۔ (انجیل ان کے نزدیک عہد نامہ جدید ہے)۔ لیکن ظاہر ہے کہ مسیحیوں کے لیے اس کی اہمیت محض ثانوی ہے۔
تناخ کے علاوہ یہودیوں کی ایک بہت اہم مذہبی کتاب تلمود ہے جس میں قدیم یہودی علماء کی لکھی ہوئی تناخ کی تفاسیر اور اجتہادات موجودہ ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے آغاز سے قبل دنیا میں ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ یہودی تھے جن میں سے نوے لاکھ یورپ، پچاس لاکھ شمالی و جنوبی امریکہ، آٹھ لاکھ ایشیا اور کوئی چھ لاک افریقہ میں تھے۔ ان کی کثیر اکثریت یعنی قریباً نوے فیصد اشکنازی یہودی تھے جو روس اور شمالی یورپ میں رہتے تھے یا وہاں سے نکل کر امریکہ و کینیڈا وغیرہ گئے تھے۔ ان کی مقدس زبان عبرانی لیکن تہذیبی زبان یدیش تھی۔ ان کے علاوہ ایک بڑا گروہ سفاردی یہودیوں کا تھا جن کی اصل ہسپانیہ و پرتگال میں تھی لیکن ہسپانیہ میں مسلمانوں کی حکومت ختم ہونے کے بعد وہ سلطنت عثمانیہ بالخصوص شمالی افریقہ میں پھیل گئے تھے۔
اسلامی اندلس میں ان یہودیوں نے اپنا سنہری دور گزارا۔ اس دور کو یہودی ہیکل کی تباہی کے بعد اپنا بہترین زمانہ مانتے ہیں جس میں انہوں نے عربوں کے زیر اثر علمی اور تہذیبی ترقی دوبارہ شروع کی۔ موسیٰ کے بعد یہودی دینیات اور شریعت پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والے عالم موسیٰ بن میمون بھی اسلامی اندلس میں پیدا ہوئے اور بعد میں مصر آگئے جہاں وہ صلاح الدین ایوبی کے وزیر بھی رہے۔ اشکنازی و سفاردی یہودیوں کے علاوہ عراقی و ایرانی یہودی، جنوبی ہند کے یہودی اور افریقہ کے بعض خطوں کے یہودی بھی دل چسپ تواریخ رکھنے والی چھوٹی چھوٹی برادریاں ہیں ۔
تہذیبی و دینی مماثلت کے سبب مسلمانوں علاقوں میں رہنے والے یہودیوں کی کثیر اکثریت اسلام قبول کرکہ مسلمانوں میں گھُل مِل گئی تھی لہذا جدید دور کی آمد تک یہودیوں کی اکثریت یورپی تھی۔ یہ یورپی یہودی تقریباً دو ہزار سال تک ظلم و تشدد اور امتیازی سلوک سہتے رہے اور کئی بار ان کو جلاوطنیوں اور نسل کشی کی مہمات کا سامنا کرنا پڑا لیکن بقاء کی جنگ نے ان کو انتہائی سخت جان اور محنتی بنادیا۔
جب یورپ میں نشاتہ ثانیہ کا آغاز ہوا تو علمی و کاروباری سرگرمی میں یہ لوگ پیش پیش تھے اور اپنی قلیل تعداد کے باوجود عالموں اور بینکاروں میں ان کے تناسب کافی زیادہ تھا۔ جس کی وجہ سے ان کے انتہائی ذہین ہونے کا تاثر پیدا ہوا۔ جدید دور میں بھی ان کو تعصب کا سامنا کرنا پڑا جس کی سب سے بڑی مثال نازی ازم کا جدید مادیتی نظریہ ہے۔ ہولوکاسٹ میں ڈیڑھ کروڑ میں سے تقریباً تیس لاکھ یہودی مارے گئے جو سب کے سب اشکنازی تھے۔ یوں یہودیوں میں اشکنازیوں کا تناسب نوے سے کم ہوکر اب ستر فیصد رہ چکا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد یہودیوں کی تعداد کم ہوکر سوا ایک کروڑ رہ گئی تھی جو اب دوبارہ بڑھ کر پونے دو کروڑ سے دو کروڑ رک ہوگئی ہے۔ ان میں تقریباً ایک تہائی اسرائیل، ایک تہائی امریکہ اور باقی ایک تہائی دنیا کے دیگر تمام ممالک میں رہتے ہیں جن میں سب سے بڑی اور موثر برادریاں فرانس، برطانیہ اور کینیڈا کی ہیں۔
اسرائیل یہودی قوم پرستی کی تحریک یعنی صیہونیت کے زیراثر بننے والی ریاست ہے۔ دو جنگوں میں برطانیہ کی مالی امداد کرکہ یہودیوں نے بدلے میں فلسطین میں آباد کاری کا حق حاصل کرلیا۔ (فلسطین پہلی جنگ عظیم میں عثمانیوں کے ہاتھوں سے برطانیہ کے قبضے میں چلا گیا تھا)۔ اور پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد اسرائیل کی ریاست قائم کروالی۔ ۱۹۴۸ اور ۱۹۶۷ کی جنگوں میں مقدس مقامات کے حاملہ مشرقی یروشلم سمیت عربوں کے کئی علاقوں پر قبضہ کرکہ اسرائیل کی توسیع کرلی گئی۔ اور بچا کچھا اسرائیل فلسطین بھی اسرائیل کے زیر نگیں آگیا۔ فلسطین کے بڑے علاقے یعنی مغربی کنارے میں یہودی آباد کاری کا سلسلہ اب بھی جاری ہے جسے امریکہ و اسرائیل کے سوا دنیا کا ہر ملک غیر قانونی سمجھتا ہے۔ جب مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی بجائے یہودی کثیر اکثریت میں ہوجائیں گے تو اسے بھی اسرائیل میں ضم کرلیا جائے گا۔
لیکن یہ یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ یہودیت اور صیہونیت دو مختلف چیزیں ہیں۔ یہودیت ایک قدیم مذہب ہے جبکہ صیہونیت ایک جدید قوم پرستی ہے۔ بہت سے یہودی بالخصوص کئی مذہبی یہودی صیہونیت کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اسرائیل میں بھی ہین اور دنیا کے دیگر تمام خطوں میں بھی۔
اسرائیل میں چونکہ پوری دنیا سے یہودی آئے جو مختلف زبانیں بولتے تھے لہذا قومی زبان بنانے کے لیے عبرانی زبان کو دوبارہ زندہ کیا گیا۔ عبرانی اب تک صرف یہودیوں کی ایک مقدس مذہبی زبان تھی۔ اسے دوبارہ زندہ کرکے عام بول چال کی اور سرکاری زبان بنانا اسرائیل کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔
یہودیوں میں بھی فرقے ہیں جو سنیّ مسلمانوں میں ذیلی فرقوں کی تقسیم سے ملتے جلتے ہیں۔
ارتھوڈوکس یہودی وہ ہیں جو شریعت کی سختی سے اور ظاہر پرستانہ و روایت پرستانہ طریقے سے پابندی کرتے ہیں، اجتہاد وغیرہ کو ناپسند کرتے ہیں۔ لمبی داڑھیاں، مخصوص لباس، مردوں کا سر ڈھانپنا، زیادہ بچے پیدا کرنا، سبت کے دن کچھ نہ کرنا، مذہبی تعلیم حاصل کرنا وغیرہ ان کی مخصوص علامتیں ہیں۔ ان میں ہیراڈی یہودی یعنی الٹرا اورتھوڈوکس یہودیت کو انبیاء کی زمانے کی اصل حالت میں بحال کرنے کی بات کرتے ہیں اور ہمارے وہابیوں کی مانند ہیں۔ جبکہ ماڈرن اورتھوڈوکس یہودی ان کی نسبت تھوڑے کم کٹر ہیں اور بعد کی روایت کو بھی محفوظ رکھنے کی بات کرتے ہیں اور ہمارے مقلدین کی طرح ہیں۔
اورتھوڈوکس یہودیوں کے علاوہ ایک بڑا فرقہ کنزرویٹو یہودیوں کا ہے جو روایت کو ایک مسلسل اور زندہ چیز سمجھتے ہوئے آگے بڑھاتے ہیں جبکہ ایک اور فرقہ ریفارمسٹ یہودیوں کا ہے جو شریعت سے بڑی حد تک منکر ہوچکے ہیں اور صرف یہودی عقائد، اخلاقیات، عصبیت اور “یہودیت کی روح” تک خود کو محدود کرلیا ہے۔
یہودیت مسیحیت اور اسلام سے اس لحاظ سے کچھ مختلف ہے کہ اس میں خدا کے انسانوں سے اور انسانوں کے خدا سے محبت کرنے کا کوئی واضح تصور نہیں ہے بلکہ صرف خدا کی اطاعت اور اس سے ابراہیم کے معاہدے کی پاسداری کا تصور ہے۔ مسیحیت دوسری انتہاء کی طرف مائل ہے اور شریعتِ موسوی سے آزاد ہوکر صرف خدا کی محبت کا ذکر کرتی ہے۔ اسلام میں ان کے درمیاں توازن نظر آتا ہے لیکن اسلام میں بھی جہاں مولویوں اور بالخصوص سلفی تحریک کا جھکاؤ اطاعت کی طرف ہے وہیں صوفیاء محبت پر زیادہ زور دیتے آئے ہیں۔ اس لحاظ سے ملاّئی اسلام ہمیں اپنے مزاج کے اعتبار سے یہودیت سے اور صوفی اسلام مسیحیت سے نسبتاً زیادہ قریب نظر آتا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر اسلام اپنی وحدت اور محبت و اطاعت کے درمیان اپنے توازن کو محفوظ رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔
ایک اور اہم فرق یہ ہے کہ اسلام اور مسیحیت تمام نسلوں اور قوموں میں پھیلے ہیں اور مشنری مذاہب ہیں، یعنی اپنی تبلیغ کرتے ہیں۔ یہودی اپنے دین کی تبلیغ نہیں کرتے اور یہودی ہونے کے لیے عموماً ضروری سمجھا جاتا ہے کہ باپ یا ماں یہودی ہو۔ اگرچہ اس اصول ہر ہمیشہ سختی سے عمل نہیں ہوا اور سب یہودی نسلی طور پر اسرائیلی نہیں ہیں۔ اور جو اسرائیلی ڈی این اے رکھتے ہیں ان میں بھی ظاہر ہے دیگر نسلوں کی بے پناہ ملاوٹ ہے۔