کیا امامت منصبِ الٰہی یا وراثتی جاگیر ہے؟
تحریر: سید انجم رضا
کیا امامت منصبِ الٰہی یا وراثتی جاگیر ہے؟
بہت سے لبرل سیکولر ایک فکری مغالطہ ڈالنے کی عموماً کوشش کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں امامت ،بادشاہت کی طرح وراثتی ہے اور ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے
حالانکہ یہ استدلا انتہائی غیر عالمانہ استدلال ہے، اس استدلال کے پس منظر میں وہ ناصبیانہ سوچ ہے جو غدیر کی الٰہی حاکمیت کے بجائے شورائی قبائلی و نسلی تصور کو مانتے ہیں
تو یہ کہ شیعہ امامت کو نبوت کی طرح سمجھتے ہیں اور جیسا کہ قرآن نے نبوت کو موروثی بیان نہیں کیا ہے اسی طرح امامت میں بھی وراثت کی کوئی گنجائش نہیں۔خدا وند متعال فرماتا ہے:
«وَ وَرِثَ سُلَیمانُ داوُد»
کیا سلیمان نے نبوت ارث میں لی تھی؟ اگر مراد نبوت ہوتی، تو حضرت داود ؑکے بہت سارے فرزند تھے تو ان کوبھی یہ مقام ملنا چاہیے تھا
اسی طرح سے ایک اور روایت ہے جو امامت کو ایک امر الہی قرار دیتی ہے اور یہ امامت کے موروثی ہونے کو رد کرتی ہے
ایک روایت میں ذکر ہوا ہے کہ امامت امام حسن و امام حسین (علیهم السلام) کو ملی؛
لیکن امام حسن و حسین، کے بعد امامت فرزندان امام حسین (علیه السلام) کو ملی اور امام حسن علیہ السلام جو کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے بڑے فرزند تھے ان کو نہیں ملی،
جس طرح سے نبوت حضرت موسی(علیه السلام) کے فرزندوں کو نہیں ملی بلکہ ہارون علیہ السلام کے فرزندوں کو ملی
آغائے ناصر مکارم شیرازی کا جواب
ابوالحسن ندوی شیعوں پر اعتراض کرتے ہوئے کہتا ہے : امامت اور خلافت میں شیعہ امامیہ کا عقیدہ ، خدا و رسول کے ہدف کے ساتھ سازگار نہیں ہے کیونکہ وہ موروثی حکومت کے معتقد ہیں
آغائے ناصر مکارم شیرازی جواب میں فرماتے ہیں
اول : ان کا یہ کہنا کہ انبیاء کے اوصیاء، ان کی اولاد اور اہل بیت سے منتخب ہوتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا وند عالم نے ان کے اہل بیت کو یہ صلاحیت دی ہے تاکہ وہ اس مقام کے مستحق ہوسکیں ۔ اگر وراثت سے مراد یہ ہے کہ یہ انبیاء اور امام کے فرزند ہیں چاہے ان میں اس مقام کی صلاحیت اور قابلیت ہو یا نہ ہو تو شیعوں کا یہ عقیدہ نہیں ہے۔
دوم : جس طرح ابوالحسن ندوی کہتا ہے : موروثی حکومت، مادی حکومتوں کا نعرہ ہے اور انبیاء الہی کو اس سے پاک و پاکیزہ ہونا چاہئے(۲)تو پھر قرآن کریم موروثی حکومت کا تذکرہ کرتے ہوئے گذشتہ انبیاء کی صلاحیت اور قابلیت کی تائید کیوں کرتا ہے
قرآن مجید میں سورة النسا کی آیت۱۷۶ میں کہاجاتا ہے
“یا وہ ان لوگوں سے حسد کرتے ہیں جنہیں خدا نے اپنے فضل و کرم سے بہت کچھ عطا کیا ہے تو پھر ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت اور ملک عظیم سب کچھ عطا کیا ہے۔”
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے اپنی اولاد کے لئے امامت کی درخواست کی ہے جیسا کہ خدا وندعالم فرماتا ہے
“اور(وہ وقت یاد رکھو)جب ابراہیم کو ان کے رب نے چند کلمات سے آزمایا اور انہوں نے انہیں پوراکردکھایا ،
ارشاد ہوا: میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں، انہوں نے کہا : اور میری اولاد سے بھی؟
ارشاد ہوا : میرا عہدہ ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔”
اس آیت میں خدا وند عالم نے موروثی حکومت اور امامت کی بطور مطلق نفی نہیں کی ہے بلکہ اس کو حضرت ابراہیم(علیہم السلام)کی ظالم و ستمگر اولاد سے نفی کی ہے۔
اسلام کی تعلیمات اور مسلمانوں کی تاریخ میں ایک تفاوت رہا ہے۔ اسلام نے منصب کو اہلیت سے متعلق کیا ہے۔ سماج اور ریاست کے لیے قرآن مجید کی تعلیم یہی ہے کہ امانتیں ان کے اہل لوگوں کو سپرد کی جائیں۔