اہل سنت مجاہدین و شہداء کے لئے دعاء خیر
مکتب اہل بیت ع نے عام مسلمانوں سے جو غیر شیعہ ہیں ان سے سماجی روابط سے نہ کبھی منع کیا اور نہ ہی آئمہ ع کی سیرت و عمل سے کوئی ایسا واقعہ ثابت ہے، وسیع المشربی و وسیع الظرفی فقط طریق اہل بیت ع ہے جو اس سے برگشت ہوا ، وہ اہل بیت ع سے دور ہوگیا۔ علامہ سید روح اللہ رضوی نوجوان عالمِ دین ہیں، موضوع کے حوالے سے آپ کی مدلل تحریر (سیدا نجم رضا)
تحریر: سید روح اللہ رضوی
جنہوں نے اہل سنت کے حوالے سے مراجع عظام بالخصوص رہبر معظم آیت اللہ العظمی خامنہ ای اور آیت اللہ العظمی سیستانی کے اقوال و فتاوی کا مزاق اڑایا ان سے تو گلہ بنتا ہی نہیں۔ یہ پیغام صرف ان افراد کے لئے ہے جو آج بھی خود کو آیت اللہ العظمی سیستانی یا کسی دیگر مرجع کا مقلد سمجھتے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ بات واضح رہے کہ نہ ہر فلسطینی ناصبی ہے اور نہ ہی ہر اہل سنت کو ناصبی کہا جاسکتا ہے؛ یہ آگاہ یا نادان صہیونی خدمتگزاروں کی کوشش ہے کہ جو اہل سنت میں حماس و فلسطینی مجاہدین کے خلاف شیعہ ہونے اور شیعوں میں انکے ناصبی ہونے کا پروپگنڈہ کررہے ہیں۔ جس کے جواب مختلف مقامات پر مختلف افراد کی جانب سے دئے جاچکے ہیں۔
البتہ سوال کرنے کی صورت میں اپنے بیانات بدل دینا بھی خوف و بزدلی کی علامت ہے مردانگی تو یہ تھی کہ جو کہا ہے اس پر ڈٹے رہیں یا معذرت خواہ ہوں۔ نیز جب شہداء سے بچے، مستضعفین، پیدائشی اہل سنت جن تک حق نہیں پہنچ سکا اور شیعوں کی ایک اقلیت نکال لی جائے تو یہ تخصیص اکثر ہے جو قبیح ہے۔ نیز کون ایصال ثواب میں دشمن اہل بیت اور ناصبیوں کو شامل کررہا ہے جس کی بنیاد پر اسے احمق، نادان یا جاہل قرار دیا جارہا ہے؟
صحیفہ سجادیہ میں امام زین العابدین علیہ السلام سے منقول ستائسویں دعا جو سرحدوں کی حفاظت کرنے والوں کے لئے امام علیہ السلام نے خدا کی بارگاہ میں کی؛ اگر اسکی طرف متوجہ ہوں تو اندازہ ہوگا کہ اسلام کے خلاف برسر پیکار دشمن سے نبردآزما افراد کیا حق رکھتے ہیں۔ یقینا بنو امیہ کے دور میں مسلمان حکومت کی سرحد کے محافظین کی اکثریتِ قاطع وہ تھی جو درباری اور بنو امیہ کے نمک خوار تھے۔ لیکن آپ امام علیہ السلام کا انکے لئے اندازِ دعا ملاحظہ کریں؛ نہ صرف یہ بلکہ ان محافظینِ سرحد کی عدم موجودگی میں انکے گھر والوں کی خبر گیری کرنے والوں کے لئے دعا اور اس سے بھی بڑھ کر جو اس معرکے میں غمگین ہو اور اور جہاد کا ارادہ رکھتے ہوئے کسی رکاوٹ کے سبب سرحد کی حفاظت کے لئے نہ جاسکے امام اسکے لئے بھی دعا فرماتے ہیں کہ “فَاکتُبِ اسْمَهُ فِی الْعَابِدِینَ، وَ أَوْجِبْ لَهُ ثَوَابَ الْمُجَاهِدِینَ، وَ اجْعَلْهُ فِی نِظَامِ الشُّهَدَاءِ وَ الصَّالِحِینَ” اے اللہ! اس کا نام عبادت گزاروں میں لکھ اور اسے مجاہدوں کا ثواب عطا کر اور اسے شہیدوں اور نیکو کاروں کے زمرے میں شمار فرما۔
آج فلسطین و صہیونیت کے درمیان اس معرکہ کو رہبر معظم آیت اللہ العظمی خامنہ ای حق و باطل کا معرکہ قرار دے رہے ہیں، آیت اللہ العظمی سیستانی اس معرکہ کے مقتولین کو شہید قرار دیتے ہوئے اسرائیل کی نابودی کو مسلمان ممالک میں امنیت و صلح کا واحد سبب قرار دے رہے ہیں اور اس سے قبل اہل سنت کے بارے میں فرماچکے ہیں کہ انہیں بھائی نہ کہو بلکہ اپنی روح و جان کہو۔
خداوند متعال سے دعا ہے کہ ہمیں امیر المومنین علیہ السلام کے حقیقی ماننے والوں اور انکی پیروی میں حق کی خاطر اور ظلم کے مقابل ڈٹ جانے والوں میں قرار دے۔ دوست و دشمن کے دلوں میں فتح خیبر کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے جلد عصر جدید کے خیبر کی فتح دیکھنا نصیب کرے۔
الامان الامان الامان من فتنۃ آخرالزمان