محسن ِ ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی مرحوم
محسنِ ملت علامہ صفدر حسین نجفی رحمتہ اللہ علیہ جیسی شخصیات کم ہی پیدا ہوتی ہیں ۔ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو صرف اپنے ادارے ،مدرسے اور مسجدتک تو گرانقدر خدمات سرانجام دیتے اور ان کی اپنی ہمت اور استطاعت انہیں تک محدود رہتی ہے، علامہ سید صفدر حسین نجفی نے ملت جعفریہ پاکستان کے ملی و قومی تشخص کو زندہ جاوید بنانے میں اہم کردار ادا کیا،آپ ملی قیادتوں کی ریڑھ کی ہڈی بن کر رہے، نجف اشرف و قم المقدسہ کے مراجع بھی ان کی علمی حیثیت کے معترف تھے، آپ نے مذہب حقہ کی بیسیوں معرکۃ الآرا کتب کو اردو کے قالب میں ڈھالا، پاکستان بھر میں ملت جعفریہ کے مدارس کا جال بچھادیا،پاکستان میں مکتبِ اہل بیتؑ کے نوجوانوں کی تنظیم آئی ایس او کے قیام اور استحکام آپ کی سعی کاوش کا نتیجہ ہے، انقلابِ اسلامی کی حمایت اور امام خمینی رض کے معتمد ترین وکیل رہے،آپ رہبر معظم ولی امرِ مسلمین آیتہ اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای سے خاص الفت و محبت رکھتے تھے 3دسمبر آپ کی برسی کا دن ہے، محترم سید نثار علی ترمذی کی تحریر قارئین “ہفت روزہ رضاکار(ویب)” کے لئے(سید انجم رضا)
تحریر: سید نثار علی ترمذی
آپ 1932کو علی پور ضلع مظفرگڑھ میں پیدا ہوئے۔ جس دن آپ پیدا ہوئے اسی دن آپ کے چچا علامہ سید محمد یار شاہ صاحب قبلہ علم دین حاصل کرنے نجف اشرف تشریف لے گئے۔ جب وہ واپس آئے تو جہاں بھی تعلیم و تبلیغ کے لیے گئے تو آپ کو ساتھ لے گئے۔ جب آپ سرگودھا میں تھے تو آپ کو خیال آیا کہ مزید تعلیم کے لیے نجف اشرف جانا چاہیے۔ یہ ارادہ لے کر لاہور تشریف لائے۔ یہاں کسی سے راستہ پوچھا تو اس نے کہا کہ یہ ریلوئے لائن ہے یہ وہاں تک لے جائے گی۔ کرایہ تھا نہیں مگر عزم و ہمت کے ساتھ ایک دوست کے ساتھ پیدل ہی چل پڑے۔ جب چیچہ وطنی پہنچے تو حالت خراب ہو گئی تو کسی نے سمجھا بجھا کر واپس بھجوایا۔ پھر کہیں سے وسائل و رھنمائی لے کر کوئیٹہ جا پہنچے۔ جب ایرانی کونسلیٹ گئے اور ویزہ کی درخواست کی۔انہوں نے بغیر پاسپورٹ ویزہ دینے سے انکار کردیا۔ اس طرح آپ کراچی آ گئے۔ پھر کسی نہ کسی طرح کاغذات مکمل کر کے بحری جہاذ کے زریعے عراق روانہ ہوئے۔ خود بتاتے ہیں کہ پیسے نہیں تھے اور نہ کھانے کی کوئی چیز۔ بھوک سے جب حالت غیر ہونے لگی تو دیکھا ایک مسافر نے مٹھائی کے ڈبے کو کھول کر سونگھا اور اسے سمندر میں پھینکنے لگا تو آپ نے کہا کہ اسے پھینکنے کے بجائے اسے دے دیں۔ یوں انہوں نے اپنی بھوک مٹائی۔ نجف پہنچ کر بھی مالی حالت ایسی ہی رہی۔ فرماتے ہیں کہ اقامہ نہیں تھا مگر ایک طالب علم کے ساتھ اس کے کمرئے میں رہتا تھا ایک دن انتظامیہ نے کہا کہ آج شام کے بعد یہ یہاں نظر نہ آئے۔ طالب علم نے اپنی مجبوری کی وجہ سے معذرت کرلی۔ یوں آپ نے وہ رات سردی اور بارش میں نجف اشرف کی گلی میں گزاری، اس دوران اپنے مولا سے التجا کی وہ کب تک اس حالت میں رہیں گئے۔ اللہ نے ان کی فریاد سن لی اور ان کی شادی مولانا امیر حسین نقوی مرحوم کی ہمشیرہ اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی پھوپھو سے ہوگئی۔یوں کچھ دن آرام سے گزر گئے۔
جب تعلیم مکمل کر لی تو واپسی کا ارادہ کر لیا۔ لاہور میں اس وقت شیخ الجامعہ مولانا اختر عباس مرحوم جامعہ المنتظر کی بنیاد رکھ چکے تھے۔ یہ پہلے موچی دروزہ ، حسینیہ ہال میں قائم ہوا پھر وسن پورہ میں ایک دو کمروں کے مکان میں شفٹ ہو گیا۔ اس وقت آپ کی عمر صرف 23 برس تھی۔ آپ معلم کی حثیت سے اس مدرسہ میں تعلیم دینے لگے ساتھ ہی وہیں نماز باجماعت کا اھتمام کیا۔ چند نمازی تھے مگر آپ نے
معاشرے کو بدلنے کی ٹھان لی۔ آپ لوگوں کے گھر جاتے اور ا نہیں قائل کرتے کہ وہ نماز جماعت میں شریک ہوں۔ کچھ عرصہ بعد علامہ اختر عباس نجف چلے گئے تو آپ اس مدرسہ کے پرنسپل ہوگئے۔ مگر متواتر سوچتے رہے کہ اس کو کسی بڑی جگہ پرمنتقل کیا جائے۔ توانہوں نے اپنے دوست آغا علی الموسوی مرحوم سے تذکرہ کیا۔ یوں مرحوم طفیل، صوفی انور، سیٹھ برادران کے ساتھ مل کر ایک ٹرسٹ تشکیل دیا۔ جنہوں نے کوشش کر کے موجودہ جگہ ماڈل ٹاون میں حاصل کی جہاں اس وقت جامعہ المنتظر موجود ہے۔
ہم لوگ انہیں مولوی صاحب کے نام سے یاد اور پکارا کرتے تھے۔ انہیں بھی کوئی القابات کا شوق نہ تھا۔ جب نجف سے واپس آئے تو 23 یا 24 کی عمر تھی جو کہ جوانی کی عمر ہوتی ہے اور جب اس دنیا سے گئے تو 57 سال عمر تھی اتنے مختصر عرصے میں اتنے کارنامے انجام دئیے کہ ان کا فقط مختصر تذکرہ ہی کیا جاسکتا ہے۔
جس دور میں آپ نے کام شروع کیا تو کئی ادارے ملک میں کام کرہے تھے۔ جن سب سے پرانا ادارہ تحفظ حقوق شیعہ تھا جو پاکستان بننتے ہی وجود میں آ گیا تھا۔ اس کے پہلے سربراہ علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم بعد ازاں علامہ حافظ کفایت حسین مرحوم تھے پھر اس ادارے کے سربراہ مولانا اظہر حسن زیدی مرحوم بھی رہے۔ ایک ادارہ “ امامیہ مشن “ جس کے نگران اعلیٰ سید العماء سید علی نقی نقوی عرف نقن صاحب تھے۔ اسی طرح شیعہ مطالبات کمیٹی اور آل پاکستان شیعہ کانفرنس بھی تھی۔ یہ سب ادارے اپنی جگہ مختلف خدمات انجام دے رہے تھے۔
ان دنوں ملت دو گروہوں میں بٹ چکی تھی۔ایک کی قیادت علامہ بشیرانصاری مرحوم، مولانا اسماعیل دیوبندی مرحوم، علامہ مرزا یوسف حسین مرحوم اور علامہ شبیہ محمدی کے پث تھی جب کہ دوسری طرف علامہ محمد یار شاہ مرحوم۔ علامہ گلاب علی شاہ مرحوم، مفتی جعفر حسین مرحوم۔ علامہ محمد حسین ڈھکو مرحوم اور مولانا صفدر حسین مرحوم تھے۔ پہلا گروپ خود کو “خوش عقیدہ“ کا حامل قرار دیتا تھا اور دوسرے گروپ کو “بد عقیدہ “ قرار دیتا تھا۔ عوام بھی اسی طرح تقسیم تھے۔ ایک دوسرے کے خلاف دبی زبان میں مجالس میں تزکرہ ہوتا۔ جواب الجواب کتب بھی لکھی گئیں مگر مولوی صاحب نے دونوں گروپس کے درمیان اتحاد کی کوششیں کیں۔ آخر وہ کامیاب ہوئے اور ایک معاھدہ مابین فریقین طے پایا جس کے لیے جامعہ حسینہ جھنگ میں ایک اجلاس منعقد ہؤا ،نتیجہ میں ضابطہ اخلاق پر دستخط ہوئے، جس پر تمام جید علماء کے دستخط ہیں۔جس میں مشترکہ امور پر مل کر جدوجہد کرنے اور اختلافات کو سٹیج یا عوام میں زیر بحث نہ لانے بلکہ آپس میں علمی انداز سے حل کرنے پر اتفاق ہوا۔ اس معاھدے نے تناو کی کیفیت کو ختم کیا۔
آپ نے تمام جاری تحریکوں کے ساتھ تعاون کیا جس میں علیحدہ شیعہ دینیات کا مطالبہ بھی تھا۔ اس ضمن ایک دھرنہ راولپنڈی میں وزیرعظم کی رہائش کے باہر منعقد ہوا جس میں علیحدہ شیعہ دینیات کا مطالبہ پورا ہوا۔ یہ کتاب چھپی اور امتحانات بھی ہوئے۔
22 مئی 1972 امامیہ اسٹوڈنس آرگنائزیشن کی تاسیس ہوئی۔ اس کا دوسرا اجلاس ڈاکٹر نوروز عابدی کی رہائش پر ١١ جون کو منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر نوروز عابدی کے والد صاحب جو کہ عالم دین تھے کے علاوہ علامہ آغا علی الموسوی، علامہ مرتضیٰ حسین صدر الاافاضل شریک ہوئے۔ اس کے کچھ عرصے کے بعد سے لے کر اپنی رحلت تک آئی ایس او کے سرپرست، معاون و مددگار رہے۔ اس کی فکری و نظری تربیت و اٹھان میں آپ کا بہت بڑا حصہ ہے۔ 1974 میں امامیہ آرگنائزیشن کی تاسیس میں بھی ساتھ رہے۔ ان دونوں تنظیموں کی مجلس مشاورت کے رکن رہے جو بعد میں مجلس نظارت میں بدل گئیں۔1970 میں جب آیت اللہ محسن الحکیم کی رحلت ہوئی تو اس وقت آیت اللہ کاظم شریعت مدار کی ترویج ہو چکی تھی۔ ان کی مسکراتی ہوئی تصویر اور احکام کی کتاب اکثر گھروں میں پہنچ چکی تھی۔ ایسے میں لاہور کے تین علماء علامہ صفدر حسین نجفی مرحوم، آغا علی الموسوی مرحوم اور علامہ مرتضیٰ حسین صدرالافاضل مرحوم نے امام خمینی کی تقلید کا اعلان کردیا۔
ثاقب بھائی کے بقول وہ انقلاب سے کہیں پہلے جب وہ مرحوم صدرالافاضل کے گھر گئے تو ان کے گھر امام خمینی کی تصویر آویزاں تھی۔جس پر قرآنی آیت {فضَّلَ اﷲُ الْمُجَاھِدِیْنَ بِأَمْوَالِھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ عَلَی الْقَاعِدِیْنَ دَرَجَۃً وَکُلاًّ وَعَدَ اﷲُ الْحُسْنٰی وَ فَضَّلَ اﷲُ الْمُجَاہِدِیْنَ عَلٰی الْقَاعِدِیْنَ اَجْراً عَظِیْماً۔} لکھی ہوئی تھی۔ انہیں اس اعلان کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ بقول آغا علی الموسوی کے دھمکیاں دیں اور لالچ بھی دیا اور مخالفت بھی کی۔ انہیں کہا گیا کہ ان کی حثیت کیا ہے۔ ایک مدرسے کا استاد ہے یعنی مولوی صاحب، ایک مسجد کا پیش نماز ہے یعنی آغا علی اور ایک سکول ٹیچر ہے علامہ صدرالافاضل، یہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ مولوی صاحب نے جلد ہی امام خمینی کی تو ضیع المسائل اور حکومت اسلامی کا ترجمہ کر کے شائع کروا دیا۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں امام خمینی کا کوئی تعارف نہیں تھا۔
مولوی صاحب نے جب ضیاء الحق نے نظام اسلام کا اجراء کیا تو اس کی رد کے کے لیے بنیادی اقدامات کیئے۔اس کے لیے پہلے گوجرانوالہ اور سرگودہا میں اجلاس کیئے پھر اس کو عملی جامع پہنانے کے لیے بکھر میں ہونے والے کنونشن کا انعقاد ہوا۔ وہاں علماء کا ایک گروہ ایک اور شخصیت کو قائد بنانا چاہتا تھا مگر آپ نے وہاں علماء کے اجلاس میں انہیں مفتی صاحب کی قیادت پر راضی کیا ۔یوں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی بنیاد رکھی گئی۔
1980 میں جب اسلام آباد میں ھیت علماء امامیہ نے فیلسوف مشرق آیت اللہ باقر الصدر شہید کا چہلم منانےکا اعلان کیا تو آپ نے وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اسے ملک گیر کنونشن میں بدل دیا اور اس کو کامیاب کروایا۔ اس کنونشن کے تمام تر اخراجات بھی آپ نے برداشت کیے۔جب مفتی جعفر حسین کی رحلت ہوئی تو آپ سینئر نائب صدر تھے۔ یوں قائم مقام قائد ہو گئے۔
مفتی جعفر حسین مرحوم کی رحلت کے بعد ضروری تھا کہ انتخابی ادارہ مرکزی کونسل تشکیل دی جائے جو اس وقت تک نہیں بنی تھی۔ اس کے لیے ہر ضلع سے دو دو افراد کا انتخاب کرنا تھا۔ تین رکنی کمیٹی جو علامہ محمد حسین ڈھکو صاحب, علامہ حافظ ریاض حسین نجفی اور وزارت حسین نقوی مرحوم پر مشتمل تھی نے ملک گیر دورہ کر کے نامزدگیاں مکمل کیں. یوں گیارہ فروری 1984 کو بھکر اجلاس کا اجلاس طلب ہوا جس میں نئے قائد کا انتخاب ہونا تھا۔ ایک مرتبہ پارا چنار سے واپسی پر میری سیٹ شہید ذولفقار حسین نقوی کے ساتھ تھی ۔ وہ راوی ہیں کہ ہم مولوی صاحب کے ساتھ بھکر جانے کے لیے نکلے تو آپ نے کہا سرگودہا سے ہو کر جانا ہے۔میں نے وجہ پوچھی تو بتایا کہ علامہ نصیر حسین جو علامہ حامد موسوی صاحب کے استاد اور بزرگ عالم دین ہیں ان سے ملیں گئے اور انہیں قائل کریں گئے کہ وہ قیادت کا منصب سنبھالیں یوں قیادت اجتماعی رہے گی۔ میں نے پوچھا اگر وہ راضی نہ ہوئے تو پھر کسے نامزد کریں گے، آپ نے کہا کہ تو مفتی عنایت علی شاہ صاحب کو بنا دیں گئے ۔ یہ سنتے ہی گاڑی کے سب لوگ ہنس پڑے۔ میں نے پھردریافت کیا اگر انہیں قبولیت حاصل نہ ہوئی تو کسے نامزد کریں گئے۔ تو مولوی صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ فیر عارف حسین پارا چنار والے نوں بنا دیاں گئے او آپے ہی لڑدا پھرے گا۔( پھر عارف حسین پارا چنار والے کو بنا دیں گے خود لڑتا رہے گا) شہید ذولفقار کہتے ہیں کہ میں نے پہلی مرتبہ ان کا نام سنا تھا۔ علامہ نصیر حسین راضی نہ ہوئے۔ مفتی صاحب کو قبول نہ کیا گیا۔ یوں مولوی صاحب نے اپنی سوچ کے مطابق علامہ عارف حسین حسینی شہید کو نامزد کیا. آپ نے شہید حسینی کا ہر طرح سے ساتھ دیا. آپ علامہ عارف حسین الحسینی کو قائد ملت کے لقب سے پکارتے ہوئے میں نے خود سنا.
شہید کے دور میں جو اضطراب رہا مولوی صاحب نے کوشش کی کہ درمیانی راستہ اختیار کیا جائے۔ اس طرح ان کا دور کسی بڑے مسئلہ سے دوچار ہونے سے بچ گیا۔
پھر انہوں نے علامہ ساجد علی نقوی کے انتخاب میں بھی بنیادی کردار ادا کیا۔ آپ نے ہی ان کا نام سپریم کونسل میں پیش کیا۔
اسلام آباد کنونشن کے بعد آپ نے چند نوجوانوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی۔ جس میں ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید۔ امجد کاظمی صاحب اور احمد رضا خان صاحب شامل تھے کہ وہ ملت کی منصوبہ بندی کریں۔ اس کے لیے ضروری وسائل بھی مہیا کئے۔انہوں تین سال کی مدت میں اپنا کام مکمل کرکے دیا۔ اس مسودے کی زیارت کا شرف مجھے حاصل رہا۔ اس میں لانگ ٹرم اور شارٹ ٹرم منصوبے شامل تھے، شہید کے دور میں جو تحریک کی اٹھان ہوئی بیشتر اسی دستاویز کا پرتو تھا۔ مولوی صاحب نے اس میں سے اپنے لیے مدارس کا کام ژمہ لیا اور اسی پر لگ گئے۔ انہوں نے ملک میں اور بیرون ملک مدارس کا جال پھیلا دیا۔ وہ چاہتے تھے کہ ہر پچاس کلومیٹر پر ایک مدرسہ ہونا چاہیے۔یہ بات ریکارڈ پر رہنی چاہیے کہ ان مدارس کی بیشتر کاغذی کارروائی شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی زیر نگرانی مکمل ہوئے۔ دیو سماج میں ایک الماری تھی جن میں مدارس کی فائلیں اور ٹرسٹ کے کاغذات ہوتے تھے۔ شہید کے جنازے پر علامہ حافظ ریاض حسین صاحب نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں جس مدرسہ میں بھی گیا تو اس کے ابتدائی کاغذات شہید کے ہاتھوں کے بنے ہوئے تھے۔
مولوی صاحب کا یہ مشہور جملہ تھا کہ ہمارا دین سنا سنایا ہے پڑھا پڑھایا نہیں۔ وہ سب لوگوں کو کتاب پڑہنے کی تلقین کرتے۔ وہ ان علماء پر کڑی تنقید کرتے جو فقط تقاریر کرتے ہیں اور کوئی قلمی کام نہیں کرتے۔ اس کے لیے خود مثال بنے۔آپ نے خود بہت سے کتب کا ترجمہ و تحریرکیں۔ ان کےمزار پر چالیس کے قریب کتب کے نام درج ہیں جن میں تفسیر نمونہ 27 جلدوں پر شامل ہے۔امامیہ پبلیکیشنز کے ادارہ تشکیل دینے میں بنیادی کردار ادا کیا جس نے آپ کی متعدد کتب شائع کیں۔یہ آپ کی تعلیمات کا اثر تھاکہ آئی ایس او کی پہلی کابینہ تشکیل پائی تو اس میں ایک عہدہ مرکزی سیکریٹری لائیبریری کا تھا۔آج جو کتب کی بہار ہے یا مدارس کا قیام ہے اس میں آپ کا وافر حصہ ہے۔
آپ نے محسوس کیا کہ ملت میں قرآن فہمی کی جانب رجوع نہیں ہے تو کوشش میں لگ گئے کہ ایک جامع تفسیر اردو میں ہونی چاہیے۔ آپ ایران میں چھپنے والیں تفاسیر کا جائزہ لیا۔ انہیں آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی کی لکھی جانے والی تفسیر نمونہ پسند آئی۔ اس وقت اس تفسیر کی دس جلدیں فارسی میں جھپ چکی تھیں۔ ثاقب بھائی راوی ہیں کہ وہ مولوی صاحب کے ساتھ آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی کو ملنے قم گئے۔دوران ملاقات دریافت کیا کہ اس کی کتنی جلدیں ہوں گی تو انہوں نے فرمایا کے 27 جلدیں ہوں گی۔ آپ سے اس کا ترجمہ کرنے اور پاکستان میں شائع کرنے کی اجازت لی۔ جب باہر نکلے تو میں نے مولوی صاحب سے کہا کہ ان مفسر قرآن کا کیا پاکستان میں کوئی تعارف ہے۔ مولوی صاحب نے جواب دیا نہیں۔ میں نے کہا کہ وہاں پر ہمیں اتنی مالی مشکلات رہتی ہیں ان سے کہتے کہ وہ چھاپنے کے لیے پیسے دیں۔ مولوی صاحب نے ڈانٹ کر اور ہاتھ کا اشارہ کر کے کہا کہ دینے والا ہاتھ بہتر ہوتا ہے یا لینے والا.
مولانا صفدر حسین نجفی مرحوم ، نے علوم قرآنیات بالخصوص “ تفسیر نمونہ “ کی اشاعت اور ترویج کے لیے ادارہ “ مصباح القران ٹرسٹ “ بنیاد رکھی۔ سب سے پہلے تو مسئلہ ان 27 جلدوں کے فارسی سے اردو ترجمہ کا تھا۔ کسی نے آپ پوچھ لیا کہ ان کا ترجمہ کیسے ہوگا؟ یہ تو بہت مشکل کام ہے اور وقت بھی بہت لگے گا۔ لیکن آپ نے حوصلہ افزاء جواب دے کر اسے مطمئن کردیا۔ انہوں نے کہا کہ میرے سینکڑوں شاگرد ہیں۔ ایک شاگرد ایک جلد کا ترجمہ کردے گا۔ شائد آپ نے ایسا کیا بھی ہو مگر عملی صورت حال یہ ہوئی کہ ان کے دوست مولانا آغا طیب جزائری نے چھٹی جلد کا ترجمہ کیا۔ باقی 26 جلدوں کا ترجمہ آپ نے خود کیا۔( ایک اطلاع کے مطابق ایک جلد کا ترجمہ علامہ محمد حسین اکبر صاحب نے بھی کیا, مگر وہ شائع نہیں ہوا) جب مذکورہ جلد چھپنے لگی تو ٹرسٹ کی انتظامیہ نے کہا کہ باقی جلدیں جب مولانا صاحب کے نام سے چھپیں گی تو یہ ایک جلد بھی انہی کے نام سے ہو۔ آپ کے دوست بھی راضی تھے جلد پر ان کے نام کے بجائے مولوی صاحب کا نام ہو۔ مگر آپ کسی طرح اس پر راضی نہ ہوئے کہ جس نے ترجمہ کیا اسی کا نام ہی چھپنا چاھیے۔ یوں وہ تنہا جلد اصلی مترجم کے نام سے چھپی۔
مولوی صاحب اس قبل متعدد کتب کا ترجمہ کر چکے تھے مگر انہوں نے تفسیر کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہو احساس کیا کہ اردو زبان کی نزاکتوں کا خیال نہ رکھ سکیں گئے۔ انہوں نے مشہور ادیب اور شاعر سید مشکور حسین یاد مرحوم کی خدمات حاصل کیں۔جنہوں نے کئی جلدوں کی اصلاح کی مزید مولانا محمد حسین برستی مرحوم کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا لیکن 22 جلدوں کو برادر ثاقب اکبر صاحب نے اصلاح و ری رائٹ کیا۔ ثاقب بھائی سی ڈی اے اسلام آباد میں بطور ٹاون پلانر گریڈ 17 میں سروس شروع کرچکے تھے۔ مولوی صاحب نے انہیں فون کر کے اس تفسیری سفر میں شامل ہونے کو کہا اور وعدہ کیا کہ ان کی خدمات کے بدلے مکمل سہولیات دی جائیں گی۔ جس میں ایک گھر بھی شامل تھا۔آپ کی زندگی تک تو یہ وعدہ کسی نہ کسی طرح پورا ہوا۔ بعد میں کیا ہوا وہ کہیں اور سنا کرئے کوئی۔ ان کے ساتھ کے آج انیسوئیں اور بیسوئیں گریڈ میں پہنچ چکے ہیں۔یہ قربانی بھی اسی ضمن میں لکھی جائے گی۔ ثاقب بھائی کہتے ہیں کہ جب انہوں نے استعفیٰ دیا تو ان کے ایک ساتھی نے ایسا نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ آپ نے اسے جواب دیا کہ اگر میں کسی نبی کے دور میں ہوتا اور وہ مجھے کوئی کام کہتے تو مجھ پر ان کی اطاعت واجب ہوتی، آج یہ علماء نبیوں کے وارث ہیں تو کی اطاعت بھی واجب ہے۔ اللہ ثاقب بھائی کے درجات بلند فرمائے آمین ثم آمین ۔
کسی ایک جلد پر غلطی سے مولوی صاحب کے نام کے ساتھ رحمت اللہ علیہ چھپ گیا۔ ٹرسٹ نے نئی جلد بنانے کی تجویز طے پائی مگر مولوی صاحب نے یہ کہ کر منع فرمادیا “ رہنے دو مرنے کے بعد کسی نے کہنا بھی ہے یا نہیں۔“
اس تفسیر نے واقعی ایک اپنا منفرد مقام پایا۔ اس کی جہاں بے مثال پزیرائی ملی۔ اس دور کا ہر نظریاتی فرد اپنی اولین ترجیح سمجھتا تھا اور انتظار میں رہتا تھا کہ نئی جلد کب چھپے گی۔ آج بھی ضرورت ہے کہ قران سے محبت کرنے والے ہر فرد کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ آپ نے تفسیر موضوعی کا ترجمہ بھی کیا۔
1988 اسلامک ایمپلائز ویلفیئر آرگنائزیشن کی پہلی کانفرنس زینبیہ کمپلیکس، لاہور میں منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا۔ خوش قسمتی سے 22 23 مارچ کو دونوں دن چھٹی تھی اور ملازمین کے لیے اس سے اچھا موقع اور نہیں تھا چناچہ یہی دن قرار پائے۔ انہی دنوں میں وفاق العلماء شیعہ کا سالانہ اجلاس جامعہ میں ہوتا تھا اور آئی او کا کنونشن بھی انہی تاریخوں میں ہوتا تھا۔ مگر ہم نے بھی سود و زیاں کی پروا کئے بغیر انہی ایام کا فیصلہ کیا۔ طے پایا کہ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے مولوی صاحب خطاب کریں گئے۔ میں برادر حاجی فضل عباس کے ساتھ انہیں دعوت دینے ماڈل ٹاون، لاہور پہنچا۔ سادہ سے زمینی بستر پر بیٹھے ڈیسک سامنے رکھے لکھ رہے تھے۔ ساتھ ہی حقہ پڑا تھا.ڈرتے ڈرتے دعوت نامہ پیش کیا کہ آپ ڈانٹیں گے ان تواریخ میں کیوں پروگرام رکھا۔ مگر انہوں نے دعوت نامہ کو دیکھ کر ہمیں دیکھا تو میں نے کہا کہ آپ کو 22 مارچ کی نشست میں خطاب کرنا ہے۔ انہوں نے اس قبول کیا۔ میں نے موقع غنیمت دیکھتے ہوئے مالی تعاون کی بھی درخواست کردی۔ آپ نے وہاں ٹہلتے ہوئے ایک شخص سے پوچھا کہ کنے پیسے ہیں تیری جیب ویچ۔ اس نے کہا بارہ سو روپے۔ ایہہ اناں نوں دے دے۔ ہم نے وہ پیسے وصول کئے اور شکریہ ادا کر کے چل دئے۔ آپ کو موٹر سائیکل پر لے کر آئے۔ آپ نی یادگار خطاب کیا اور وہی موٹر سائیکل والا انہیں واپس چھوڑ آیا۔
محترم سیٹھ نوازش بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ اور ان کی اہلیہ زیارات کے لیے عراق گئے تو مولوی صاحب نے ان کے ہاتھ امام خمینی رضوان اللہ علیہ کو پیغام بھجوایا کہ وہ عراق سے پاکستان تشریف لے آئیں۔ جس کے جواب میں امام خمینی نے فرمایا کہ میرا یہاں رہنا ضروری ہے۔ اگر انہوں نے نکالا بھی تو پھر بھی زیادہ سے زیادہ یہاں رہنے کو ترجیح دوں گا۔ اسی طرح جب امام خمینی پیرس میں تھے تب بھی مولوی صاحب سیٹھ نوازش کو ساتھ لے کر انگلینڈ گئے وہاں سے مولانا امیر حسین نقوی مرحوم کو ساتھ لیا اور امام خمینی کی خدمت میں جا پہنچے۔ انہیں پھر دعوت دی کہ وہ پاکستان تشریف لائیں جس پر امام خمینی نے کہا یہ کہ کر معذرت کر لی کہ وہ اب نکل چکے ہیں آپ بھی نکلیں۔
جب انقلاب اسلامی کامیاب ہوا تو مولوی صاحب پھر امام خمینی کی خدمت میں تشریف لے گئے۔انہیں پاکستان کے مسائل بتا کر درخواست کی ایک مجتہد انہیں پاکستان کے لیے دی دیں تاکہ وہاں درس خارج شروع کروایا جا سکے۔ امام خمینی نے دریافت کیا کہ کس کو بھیجیں تو مولوی صاحب نے وہاں پر موجود آغا احمد حسن نوری کی طرف اشارہ کیا انہیں بھیج دیں۔ یوں آپ انہیں پاکستان لانے میں کامیاب ہوگئے۔ اسی طرح پھر آیت اللہ حسن طاھری خرم آبادی مرحوم کو لانے میں کامیاب رہے۔ مگرحکومت پاکستان نے انہیں اجازت نہ دی جس پر احتجاج بھی ہوا۔
زولفقار علی بھٹو نے طلبہ کو رعائیتی کرایہ پرسفر کی سہولت دی تو مدارس کے علماء اور اور طلبہ نے بھی مطالبہ کردیا کہ یہ سہولت انہیں بھی دی جائے۔ اس کے لیے ایک اجلاس حکومتی سطح پر بلایا گیا۔ مولوی صاحب بھی تشریف لے گئے۔ علماء پرجوش انداز میں اپنے موقف کے حق میں باتیں کرنے لگے۔ مولوی صاحب خاموشی سے ایک طرف بیٹھے رہے۔صدر مجلس نے مولوی صاحب کو خطاب کرتے ہوئے کہا آپ خاموش بیٹھے ہیں آپ کی کیا رائے ہے۔تو آپ نے فرمایا کہ میں تو اس کے حق میں نہیں کہ طلبہ کو رعائتی کرایے کی سہولت دی جائے۔ انہوں نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے کہا جب مالکان راضی نہ ہوں تو یہ سفر کسی طرح بھی جائز نہیں ہے اس لیے ہم اپنے مدارس کے طلبہ کے لیے یہ سہولت نہیں چاہتے۔
چھپر سٹاپ بر لب سڑک ایک مسجد جعفریہ کے نام سے موجود ہے۔ کسی دور میں یہ ایک پرانے کمرے کی شکل میں موجود تھی۔ جب ڈاکٹر شہید مولوی صاحب سے ملتے تو انہیں مسجد کے لیے کچھ کرنے کو کہتے۔ ایک مرتبہ آپ بھلہ سٹاپ، ڈاکٹر شہید کے گھر آئے ہوئے تھے۔ جب مسجد کی بات ہوئی تو آپ نے ڈاکٹر صاحب سے کہا ایک سیڑھی اور کسی لے کر آو۔ وہ مہیا کردی گئی۔ آپ نےسیڑھی مسجد کی دیوار کے ساتھ لگا کر چھت پر چلے گئے اور کسی سے اسے گرانا شروع کردیا اور کہا کہ یہ گرے گی تو بنے گی۔
تحریک نے جب ایک حد تک منظم کرلیا تو بحث شروع ہوگئی کہ اسے سیاست میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں۔ اداروں کی بحث سے قبل ایک سروے کروایا گیا جس میں متعدد سوالات تھے اور یہ سوالات بہت سی شخصیات کو ارسال کئیے گئے تھے۔مولوی صاحب نے اس نکتہ پر کہ تحریک کو سیاست میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں تو جواب میں لکھا تھا اگرسیاست میں حصہ نہیں لینا تو ان تنظیموں کو ختم کر دینا چاہیے۔ بعد ازاں ان آراء سمیت ایک کتابچہ “ تحریک کا سیاسی سفر “ شامل کر کے شائع کیا گیا تھا۔ تحریک نے جو نظام کی تبدیلی کا منشور “ہمارا راستہ “ چھ جولائی 1987ء کو قرآن و سنت کانفرنس ، منعقدہ مینار پاکستان ، لاہور میں پیش کیاگیا تھا اس کا آئیڈیا بھی آپ نے دیا تھا۔
آپ کی مجالس بھی بہت مقبول تھیں۔ آپ سادہ اور آسان انداز میں بات کرتے۔ جو بھی آپ کی مجلس سے اٹھتا وہ کچھ لے کر ہی اٹھتا۔ان کی کئی مجالس سننے کا اتفاق ہوا۔ایسے لگتا تھا گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔امام بارگاہ زینبیہ لٹن روڈ پرمجالس عشرہ محرم سے خطاب تاریخی تھے۔ آپ کی مجالس پر ایک یا دو کتب چھپ بھی چکی ہیں ۔ ایک مرتبہ آپ نے بی بی سکینہ کے مصائب پڑھے اور اس انداز سے پڑھے کا اس کی تاثیر سے لوگوں نے اتنا گریا کیا کہ زیارت پڑھی گئی مگر لوگ گریا کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض لوگ سڑک تک گریہ کرتے رہے۔ میں نے اتنے پر تاثیر مصائب کم ھی سنے ہیں۔
آپ علی شریعتی پر کڑی تنقید کرتے۔ اس کے افکار کو رد کرتے۔ آپ کہتے کہ وہ جب اپنی شکل مسلمانوں جیسی نہیں بنا سکا اسلام کو کیا سمجھا ہو گا۔ انہوں نے مثال دے کر بتایا کہ تشیع میں سے اگر علامہ مجلسی کو نکال دیں باقی کیا رہتا ہے اور اس نے انہیں مشکوک کردیا۔ وہ اپنی بات کرتے کرتے ایسی درمیان میں بات کر جاتا ہے کہ تشیع کا متفقہ نکتہ لوگوں کی نظر میں خراب ہوجاتا ہے۔ اس لیے اس کے لٹریچر کو نہ پڑھا جائے۔ وہ ایرانی وفود جو یہاں آتے انہیں بھی کہتے کہ شریعتی کو نہ چھاپیں۔
علامہ سید صفدر حسین نجفی مرحوم نے ہمیشہ حق کو حق کہا اور باطل کو باطل کہا۔ جس کی وجہ انہیں ایک مخالفین کی جماعت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس نے کئی سازشیں کیں۔ اس کی دو مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔
ایک خودساختہ مومن کئی علماء حق کے پاس گیا اور ہماری مشہور احادیث کی کتاب اصول کافی سے ایک حدیث نکال کر لے کر آیا جس کے مطابق حضرت علی علیہ السلام نے خلیفہ اول کی بیعت کرلی تھی۔ اس نے دعویٰ کیا اگر اس کا ترجمہ کر دیا جائے تو پورا ایک گاوں شیعہ ہوسکتا ہے۔ وہ قائدملت مفتی جعفر حسین مرحوم کے پاس گیا۔ انہوں اس کا ترجمہ کردیا مگر ساتھ لکھ دیا کہ میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ یہی چیز جب مولوی صاحب کے سامنے پیش ہوئی، سنا ہے کہ جامعہ کے ایک شخصیت نے سفارش بھی کی تھی۔ جامعہ کے لیٹر پیڈ پراس حدیث کا اردو ترجمہ کر کے علامہ کے دستخط کروائے گئے۔ ظاہر ہے علامہ کی حیثیت ایک مترجم سے زیادہ نہیں تھی۔ مگر جس سازشی نے یہ کروایا تھا اس نے اسے خوب استعمال کیا۔ مجالس میں اس تذکرہ ہونا شروع ہوگیا۔ اسٹیج سے تبرہ بازی اور لعنت ملامت کرنی شروع کردی ۔ اس سے صورت حال خراب ہوتی چلی گئی۔انقلاب اسلامی اور ملکی تنظیموں کے معاون ومدد گار کو لوگوں کی نظروں سے گرا دیا جائے۔ شیعوں کی مرکزی جامعہ کو بے اثر کردیا جائے۔ یہ صورت حال سب کے لیے باعث تشویش تھی۔یہ صورت حال ان نوجوانوں کے لیے وجہ پریشانی اور غصہ کا باعث بنی جن کے آپ مربی تھے یا جنہوں نے آپ سے فیض حاصل کیاتھا۔
کربلا گامے شاہ مین ایک مجلس ہو رہی تھی جس سے مولانا ضمیرالحسن نجفی مرحوم نے خطاب کیا۔ اس مجلس میں اس نے اس بات کو موضوع بنا کر سخت الفاظ استعمال کیے۔ وہاں پر موجود نوجوانوں نے اسے روکا تو دوسرے لوگ مقابلے پر آ گئے۔ اس پر مولانا نے اعلان کیا کہ وہ چند دن بعد پاونڈو سٹریٹ امام بارگاہ میں اسی موضوع پر خطاب کریں گئے۔ آئی ایس او اور جامعہ کے طلاب نے فیصلہ کیا وہ اب مزید اپنے استاد کے خلاف بدتمیزی برداشت نہیں کریں گئے۔ وہ بسوں میں بیٹھ کر مذکورہ امام بارگا پہنچ گئے۔ جب مولانا نے بات شروع کی تو نوجوانوں نے نعرے بازی شروع کردی، اسے تقریر کرنا مشکل ہو گیا۔ مجلس انتظامیہ جو کہ خود اسلحہ بردار تھا اور دیگر ڈنڈا بردار تھے وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔ اتنے میں پولیس آگئی ۔ یوں نوجوان تو بسوں میں بیٹھ کر چلے گئے۔ مگر یہ واقعہ ایک اور رخ اختیار کر گیا۔
اس پر خوب واہ ویلا ہوا کہ ایک عمامہ پوش عالم دین کی توہین کی گئی ہے. برادر ثاقب اکبر جو اس مہم میں میں شامل تھے روایت کرتے ہیں کہ وہ برادر افسر حسین خان کو ساتھ لے کر اگلی صبح و سویرے جامعہ امامیہ کربلا گامے شاہ میں قائد ملت علامہ مفتی جعفرحسین کی خدمت میں جا کر رات کا واقعہ گوش گذار کیا,تو آپ نے ہاتھ کا اشارہ کیا اور اپنے مخصوص انداز کہا ” ابھی کم ہوا ہے ” مگر برادران نے تادیبی کارروائی کرتے ہوے برادر ثاقب اکبر اور چوہدری فضل کی امامیہ آرگنائزیشن کی بنیادی رکنیت ختم کردی. ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید نے متضاد رویے کو دیکھتے ہوئے امامیہ آرگنائزیشن کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا. قاری محمود مرحوم جب بھی ملتے تو مجھے شہید کے استعفیٰ دینے کا واقعہ ضرور سناتے کہ شہید نے کہا کہ آپ لوگ ثاقب کو نکال رہے ہو اور مجھے استعفیٰ نہ دینے کا کہ رہے ہو جب کہ ثاقب اور مجھ میں کوئی فرق نہیں ہے. بعدازاں شہید حسینی نے ان معاملات کا جائزہ لیتے ہوئے ثاقب اکبر اور چوہدری فضل کی رکنیت کو بحال کر دیا, جس کا تحریری حکم نامہ اب بھی آئی ایس او کے ریکارڈ میں موجود ہے اور میں اس کی زیارت کر چکا ہوں. جس پر اب تک عمل درآمد نہیں ہوا.
مولوی صاحب آئی ایس او سے جتنی محبت کرتے تھے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی۔لوگوں کو ان کی یہ محبت ناقابل برداشت تھی اس میں رخنہ ڈالنے کے لیے غلیظ ھتھکنڈے اپنائے گئے۔ کچھ لوگوں کو بذریعہ ڈاک ایسا مواد ملا جس میں مولوی صاحب اور ان کےخانوادے کے خلاف قلمی کارٹون بنے ہوئے تھے اور آئی ایس او لکھا ہوا تھا۔ جس جس کو ملا وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ خود مولوی صاحب کے بارے میں روایت ہے کہ وہ اسے دیکھ کر رو دئے اور کہا لوگ اب دشمنی میں اس حد تک آ گئے ہیں ان کے گھر کو بھی نہیں بخشا گیا۔ مخالفین کو تو موقع چاہیے تھا آئی ایس او کے خلاف بات کرنے کا۔آئی ایس او کے ہر ذمہ دار شخص نے اس کی تردید کی اور اس کی مزمت کی اور لا تعلقی کا اظہار کیا، انکوائری کمیٹی بنی اس نے بھی یہی رپورٹ دی کہ اس کا آئی اس او سے کوئی تعلق نہیں۔ خود علامہ عارف حسین الحسینی شہید نے مولوی صاحب سے مل کر اس اقدام کی شدید انداز میں مزمت کی اور آئی ایس او کی طرف سے صفائی پیش کی۔ مگر وہ جو کہتے ہیں شیشیہ میں بال پڑ گیا والی کیفیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس شازش یا شرارت نے بہت نقصان کیا لیکن اللہ بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ اس سازشی شخص کو اللہ نے ھدایت دی اور اس نےمولوی صاحب کی خدمت میں پیش ہوکر اپنے جرم کا اقرار کر لیا۔ مولوی صاحب نے نہ صرف اسے معاف کردیا بلکہ اسے ایک بیرون ملک مدرسہ میں تعینات بھی کردیا۔ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں.
جنوری 1989 کے ایام تھے۔ دفتر میں بیٹھے تھے کہ برادر تصور حسین نقوی، سابقہ مرکزی صدر آئی ایس او تشریف لائے۔ایک ہفت روزہ اخبار دکھا کر کہا ترمزی صاحب یہ دیکھا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ دیکھ چکا ہوں۔ تو انہوں نے کہا فیر بیٹھے ہو۔ یہ ایک ہفت روزہ اخبار تھا جس کے چیف ایڈیٹر علامہ محمد حسین اکبر صاحب تھے اور ایڈیٹر اختر بخاری تھے۔ اس نے جنوری کے شمارے میں ان شخصیات کا تذکرہ کیا جن کا انتقال 1988 میں ہوا تھا۔ اس میں شہید عارف الحسینی کے ساتھ ھلاک لکھا تھا۔ اس تحریر نے واقعی دلی تکلیف پہنچائی۔ ہم دو یا تین نوجوان موٹرسائیکلز پر اخبار کے دفتر جو کہ مزنگ چونگی پر تھا جا پہنچے۔ اس وقت ایڈیٹر صاحب موجود تھے وہ ہمیں دیکھ کر کچھ خوف زدہ ہوئے۔ انہوں نے بڑی نرمی سے اسے کاتب کی غلطی قرار دے دیا۔ جب کہ نہ تو وہ اصل مسودہ دکھا سکے اور نہ پروف کی اصلاح کی زمہ داری لی۔بحرحال جو کہ سکتے تھے اسے کہا۔ جب باہر آئے تو برادر تصور نے کہا آو مولوی صاحب کے پاس چلتے ہیں ان سے بات کرتے ہیں۔ یہاں سے ہم سب ماڈل ٹاون سیٹھوں کی کوٹھی پر پہنچے۔ مولوی صاحب حسب معمول فرشی بسترے پر براجمان ڈیسک سامنے رکھے ہوئے ترجمہ میں مشغول تھے حقہ ساتھ ہی استادہ تھا۔ پہلے تو ہماری بات کو انہوں نے غور سے سنا۔ کہا کہ میں نے صبح ہی اسے بلا کر ڈانٹا ہے۔ اس کی اتنی غلطی نہیں ہے مگر میں نے اسےکہا کہ جامعہ کا حوالہ نہ دیا جائے۔بس تم لوگ بات کا بتنگڑ بنا لیتے ہو۔ پھر انہوں نے ہماری کلاس لینی شروع کردی کہ یہ جوتم سبز جیکٹاں پا لیندے ہو فیر ہو کسے نو انقلابی نہیں سمجھتے۔ سردی تھی اور پم نے سبز رنگ کی ایرانی جیکٹس پہن رکھی تھیں۔ پھر انہوں نے کہا دوست دشمن کی پہچان اورجس نے نیکی کی اس کو یاد رکھنا چاہیے۔ انہوں مثال دیتے ہوئے کہا ڈھکو میرا یار ہے۔(علامہ محمد حسین ڈھکو صاحب) لیکن میں نے اسے کہہ دیا ہے کہ پاکستان میں کوئی مجتہد نہیں۔ لیکن ان کی خدمات کو کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا۔ مولوی صاحب پرانی بات سنانے لگے۔ کہ جب مفتی صاحب کا انتقال ہوا تو میں قائم مقام تھا۔میں نے طے کیا کہ قوم خود ہی کسی کو قائد چن لے گی میں اپنے مشن پر لگا رہا۔ وہ آئے دس دن یہاں رہے جبکہ ان کی اگر ڈائری دیکھیں تو کوئی تاریخ مجلس سے خالی نہیں ہوگی، مجھے قائل کیا پھر پورے پاکستان کا دورہ کر کے اضلاع میں نمائنیدے مقرر کیے۔ جنہوں شہید عارف الحسینی کا انتخاب کیا۔ ان کی شہادت کے بعد میں نے کوئی دلچسپی نہیں لی مگر وہ پہلے لاہور آئے اور مجھے ساتھ لے کر پشاور گئے جہاں موجودہ قائد کا انتخاب ہوا۔ وہ ہر اہم کام میں معاون رہے مگر ہم ان کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ہم ان کی نصحیت آمیز گفتگو سن کر اور سلام کر کے چلے آئے۔
مولانا کے داماد راوی ہیں کہ آپ ماہ رمضان قم میں گزارتے تھے۔ نماز فجر حرم میں ادا کرتے۔ جب باہر آتے تو پاکستانی طلاب کی لائن لگی ہوتی۔ آپ ان سے مصافہ کرتے ہوئے گھر تشریف لے آتے۔ گھر پر طلاب آتے رہتے۔ آپ متواتر ترجمہ کرتے رہتے۔ ایک دن آپ کے داماد مولانا نجم الحسن نقوی آ کر پاس بیٹھ گئے مگر آپ ترجمہ کرتے رہے۔جب کئی گھنٹے گذر گئے تو آپ متوجہ ہوئے۔ قلم کو بند کیا پوچھا کیوں بیٹھے ہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں آپ کی اولاد کی طرف سے نمائیندہ بن کر آیا ہوں اور ایک عرض کرنی ہے، آپ نے کہا بتائے۔ تو جواب میں کہا قبلہ آپ نے اتنے مدرسے اور اتنے ادارے قوم کے لیے بنا دئیے ہیں کوئی چیز اپنی اولاد کے لیے بھی بنادیں، یہ سن کر آپ نے اپنے قلم کی کیپ کھولی اور اسے لگا کر کاغذ پر رکھا اور کہا اگر میری اولاد دین پر چلے گی تو اللہ انہیں بہت دے گا اگر نہیں چلے گی تو کھسماں نوں کھان۔ یہ کہہ کر پھر لکھنا شروع کردیا۔
آخری لمحات، یہ اطلاع تو مل چکی تھے کہ آپ شدید بیمارہیں پھر شہید ڈاکٹر انہیں لینے چلے گیے. اور مولوی صاحب کو لاہور لے آے. آپ بتایا کرتے تھے کہ دوران سفر میں نے ایک انٹرویو ریکارڈ کیا کیونکہ ان کی زندگی کے دن کم رہ گیے تھے. میں نے سوال کیا کہ کیا آپ کے ذمے کوئی واجبات ہیں؟ آپ نے جواب میں کہا کہ میرے ذمے کوئی واجبات نہیں ہیں. کمرے میں آپ کے بهائی سید باقر حسین، ڈاکٹر سید محمد علی نقوی، مولانا سید محمد عباس نقوی، برادر نسبتی مولانا بختیار الحسن سبزواری اور آپ کے فرزند مولانا تقی نقوی موجود تهے، بے چین هو کر بیٹھے اور پهر سر اپنے بیٹے کے زانو پر رکھا. ہاتھ کے اشارے سے پانی کا مطالبہ کیا ، ڈاکٹر محمد علی شہید نے چمچ سے پانی دیا پهر بیقرار هو کر دو تین دفعہ اٹهے. عین اس وقت سیٹھ نوازش علی صاحب کمرے میں داخل ہو کر سرهانے انکی دائیں طرف پہنچے شائد اپنے دیرینہ دوست کی انتظار میں تهے انکی طرف دیکھا اور پاکزه روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئ معمولی سا جهٹکا اور ساتھ ہی منکا ایک طرف ڈهلک گیا . ڈاکٹر محمد علی فوراً اونچی اواز میں کلمات فرج پڑهنے لگے اور ساتھ ساتھ انکے پاوں کے انگوٹھے اور سر اور منہ پر پٹی باندھنے لگے . انا للہ و انا الیہ راجعون! آپ جامعہ المنتظر, ماڈل ٹاون, لاہور میں آسودہ خاک ہیں.
پاکستان میں بہت سی شخصیات جنہوں نے اس ملت کی خدمت کی ہے. علامہ صفدر حسین نجفی مرحوم اس حوالے سے منفرد ہیں کہ انہوں نے ملت کے تمام مسائل کا جائزہ لے کر ایک ہمہ جہت پروگرام دیا. ان کی سوچ مقامی, نجی اور علاقائی ہونے بجاے ملکی اور عالمی سطح کی تھی. آپ نمود و نمائش کے بجاے کام کو ترجیح دیتے تھے. آپ خود غور و فکر کرتے اور اس کے مطابق دعوت دیتے. آج اس ملت میں جتنی چہل پہل ہے اس میں وافر حصہ مولوی صاحب کا ہے. مجھے یقین ہے آج جو ملت کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے,اگر آپ موجود ہوتے تو اس وقت تک آرام سے نہ بیٹھتے جب تک کہ کے کسی حل پر تمام گروہوں کو آمادہ نہ کر لیتے. مزید تشیع کے عقائد و نظریات میں جو تحریف کی جارہی ہے تو اس کے تدارک کے لیے قابل عمل لائحہ عمل دے کر انہیں شکست فاش دیتے جیسے کہ ماضی میں ایسے نظریات کے حامل گروہوں کو پچھاڑچکے تھے. آپ کے وارثان مسند اس حوالے سے اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں. آخر میں بقول مختار مسعود فقط اتنا کہوں گا کہ”بڑے آدمی انعام کے طور پر دیے اور سزا کے طور پر روک لیے جاتے ہیں.”(آواز دوست,ص.