پاک ایران تعلقات کا اُتار چڑھاو
تحریر: سید جواد رضوی
ایران اور پاکستان کے روابط ماضی قریب میں اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد ایران وہ پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم کیا اور سفارتی روابط قائم کئے۔ دونوں ممالک کے درمیان انتہائی صمیمی و مثالی دوستی قائم ہوئی۔ پاکستان میں اس زمانے تک فارسی پڑھائی جاتی تھی جو روابط میں فروغ کا سبب بنا، دوسری جانب ایرانی پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے تھے۔ کراچی میں ایرانیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہوئی، ایرانی ہوٹل اس زمانے میں چائے اور کھانے پینے کے اعلی مراکز ہوا کرتے تھے۔ بعد میں یہ لوگ بھی پاکستان میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت اور انتہا پسندی کا شکار ہوئے اور رفتہ رفتہ ایران اور دیگر ممالک میں بس گئے۔
شاہ ایران کے اس دور میں پاکستان اور ایران کے تعلقات بہترین رہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد بھی بہت اچھے روابط رہے۔ جنرل ضیاء الحق کو ایران کی شکل میں اپنی اسلامائزیشن کے لئے ایک آئیڈیل مل گیا۔ اسی زمانے میں افغان جنگ کا آغاز ہوا جس کے بعد پاکستان امریکہ کا قریبی اتحادی بن گیا لیکن امریکہ اور ایران کے درمیان مخاصمت شروع ہوئی، اس کے باوجود ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات مثالی رہے۔ ایرانی فوجی اور سپاہ کے نئے ریکروٹ اور کیڈٹ پاکستان میں ٹریننگ حاصل کرتے تھے۔ جنرل اسلم بیگ کے دور میں پاکستان نے ایران کو جوہری استعداد فراہم کی جو آن ریکارڈ ہے۔
سن نوّے کی دہائی کے آخر تک یہ تعلقات کافی مثالی رہے جبکہ اس زمانے میں لاہور میں ایرانی ڈپلومیٹ صادق گنجی کو قتل کیا گيا، لاہور ہی میں مال روڈ پر واقع ایرانی کلچرل سینٹر کو فرقہ پرست عناصر نے آگ لگائی اور قرآن مجید کے نارد نسخوں سمیت متعدد قلمی نسخے جل کر راکھ ہو گئے، ملتان میں ایرانی ثقافتی مرکز خانۂ فرہنگ پر حملے میں سات افراد جاں بحق ہوئے، راولپنڈی میں ایرانی کیڈٹس کو جبکہ کراچی میں کلفٹن پل کی تعمیر کے دوران ایرانی انجنیئرز کو قتل کیا گیا جس کی ذمہ داری اس زمانے میں سپاہ سیاپا اور لشکر بھنگوی نے قبول کی۔ اس کے باوجود بھی ایران نے دریا دلی کا مظاہرہ کیا اور تعلقات خراب نہیں ہوئے البتہ اس میں دراڑیں پڑنی شروع ہو گئيں۔ اس دوران افغانستان میں طلاب کے ظہور کے بعد یہ تعلقات خراب ہوتے گئے کیونکہ ایران شمالی اتحاد کی حمایت کرتا تھا جبکہ پاکستان افغانستان میں اپنی حمایت یافتہ حکومت کا خواہاں تھا جس کے لئے پاکستان میں موجود دیوبندی مدارس کے افغانی و پاکستان طلاب کو منظّم و فعّال کر کے افغانستان کی سرزمین میں ان کی آبیاری کی گئی۔ طلّاب نے مزار شریف میں ایرانی سفارتکاروں کو قتل کیا تو پاکستان و ایران کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہوئے۔
انہی دنوں جنرل پرویز مشرف نے مارشل لاء نافذ کیا لیکن پاکستان نے بدستور طلّاب کی مدد جاری رکھی کیونکہ وہ ہمارا اسٹریٹجک اثاثہ تھے۔ نائن الیون کے بعد دنیا نے ہمارا افغانستان میں یوٹرن بھی دیکھ لیا۔ دوسری طرف ایران میں جند اللہ نامی ایک تنظیم بلوچ اکثریتی علاقوں میں قائم ہوئی جس نے ایران کے حنوب مشرقی علاقوں میں دہشتگردانہ کارروائیاں کیں۔ جنداللہ نے بعد میں نام تبدیل کر کے “جیش العدل” نام اختیار کیا جس کے تانے پانے پاکستانی میں ٹی ٹی پی اور لشکر بھنگوی سے ملتے ہیں۔ یہ تنظیم ایران میں کارروائیاں کر کے پاکستان میں مبینہ طور پر پناہ لیتی رہی۔
دوسری طرف پاکستان کی ساری توجّہ مشرقی سرحد (بھارت) کی طرف رہی اور پھر کسی حد تک افغانستان پر مرکوز رہی۔ پاکستان ایران کے بارڈر پر اپنے وسائل خرچ نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ یہ اس کے لئے ممکن نہیں تھا کہ بیک وقت کئی سرحدوں پر وسائل کو بروئے کار لائے۔ اس چیز کا فائدہ ان دہشتگرد تنظیموں نے اٹھایا۔ ایران کا پہلا خودکش حملہ بھی اسی تنظیم نے کیا اور پھر ایرانی سیکیورٹی فورس کے گیارہ افراد کو اغوا بھی کیا گیا جس کے متعلق ایران نے دعوی کیا کہ یہ پاکستان میں یرغمال ہیں۔ بعد میں ان کو قتل بھی کر دیا گيا۔
عبدالمالک ریگی جو اس طرح کی کارروائیوں میں ایران کو مطلوب تھا، ایک عرصہ بلوچستان اور کراچی میں لیاری نامی علاقے میں مبیّنہ طور پر چھپا رہا، بعد میں دوبئی سے کرغیزستان جاتے ہوئے ایران نے اپنی فضائی حدود میں اس جہاز کو روک کر ریگی کو اس کے ساتھیوں سمیت گرفتار کر کے پھانسی دے دی۔ پاکستان نے اس زمانے میں دعوی کیا کہ ریگی کو پکڑنے میں انٹیلی جنس پاکستان نے ایران کو مہیّا کی تھی۔ اس کے بعد بھی مختلف دہشتگردانہ کارروائیاں جاری رہیں اور ایران متعدد دفعہ پاکستان سے آفیشل سطح پر تنظیموں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتا رہا۔ دوسری طرف ایران نے بھی پاکستان میں بلوچ علحدگی پسندوں کو مبینہ طور پر محفوظ پناہ گاہیں فراہم کیں۔ پاکستان بھی ایران سے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتا رہا اور دونوں کے درمیان ان تنظیموں کی بیخ کنی پر کئی دفعہ اتفاق بھی ہوا۔
2010 کے بعد ہمیں متعدد دفعہ تعلقات میں اتار چڑھاؤ نظر آیا۔ کئی بار ایرانی فوج اور سپاہ کے عہدیداروں نے پاکستان کو خبردار کیا کہ اگر آپ اپنے علاقوں سے ایران میں دہشتگردی کو نہیں روکیں گے، تو ہم براہ راست ان کے ٹھکانوں پر حملہ کریں گے۔ دونوں ممالک کی سیاسی قیادتیں باہم قریب رہیں اور آپس میں دوستی قائم رکھنے پر متفق نظر آئے لیکن دونوں کے سیکیورٹی ادارے ایک دوسرے کے متعلق شک و تردید کا شکار رہے۔ اس کا واضح ثبوت پاکستان میں ایرانی صدر حسن روحانی کے دورے کے دوران پاکستانی سیکیورٹی فورسز کا کلبھوشن کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے جو مبینہ طور پر ایران سے پاکستان میں داخل ہوا تھا اور ایران میں بلوچ علحدگی پسندوں کو موبلائز کرتا تھا۔ آپ اس واقعے کی ٹائمنگ دیکھیں تو پاکستان کی سیاسی قوّتوں اور اداروں کے درمیان ایران کے معاملے پر اختلاف واضح نظر آتا ہے۔
ابھی دو دن کے اندر ایران نے پاکستانی سرزمین میں مداخلت کرتے ہوئے مبینہ طور پر جیش العدل کے ٹھکانوں پر حملہ کیا، اور آج صبح پاکستان نے ایرانی سرزمین میں مداخلت کرتے ہوئے جوابی طور پر BLA اور BNA کے ٹھکانوں پر حملہ کیا۔ ایران کے مقابلے میں پاکستان کی کارروائی زیادہ دقیق نظر آتی ہے کیونکہ ایرانی سرکار کے مطابق بھی مرنے والے سب کے سب پاکستانی تھے۔ سیستان و بلوچستان کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ ہم یہ تحقیق کر رہے ہیں کہ ایرانی سرزمین پر یہ پاکستانی کیا کر رہے تھے۔
بظاہر حالات بڑے خراب نظر آ رہے ہیں، لیکن کئی ایکسپرٹ اس کارروائی کو دونوں ممالک کی نورا کشتی قرار دے رہے ہیں۔ یعنی ایک دوسرے کو پیشگی اطلاعات دے کر اہداف پر حملہ کیا ہے۔ ویسے ایران اس سے قبل بھی جیش العدل کے ٹھکانوں پر اس قسم کے خاموش حملے کرتا رہا ہے لیکن اس بار اس حملے کے بعد ایرانی سرکاری میڈیا نے کافی تشہیر کی جس کی وجہ سے پاکستان کو ناگزیر جوابی کارروائی کرنا پڑ گئی وگرنہ دیگر ممالک جیسے افغانستان و بھارت کو بھی یہ جرات ہوتی۔
یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ پاکستان میں امریکہ نے چار سو سے زائد ڈرون حملے کئے جن میں سینکڑوں پاکستانی ہلاک ہوئے، لیکن کبھی پاکستان نے امریکہ کو منہ توڑ جواب کا نہیں سوچا۔ لگتا ہے کہ ایران اور پاکستان ایک دوسرے کو بہت آسان شکار سمجھتے ہیں یا حقیقت میں یہ دونوں کے درمیان نورا کشتی ہے۔
بہرحال ایران تو جنگوں، پابندیوں اور سخت پریشر کا عادی ہے جبکہ پاکستان بھارت کے علاوہ کسی سے جھگڑا مول نہیں سکتا۔ معیشت کی اس وقت بری حالت ہے اور ملک میں چند دنوں کے تیل کا ذخیرہ ہے جو کسی بھی جنگ کی صورت میں ناکافی ہے۔ دانشمندی یہی ہے کہ کسی قسم کے تنازعے سے گریز کیا جائے، یہی وجہ ہے کہ دونوں کے درمیان انتہائی نرم الفاظ کا تبادلہ ہو رہا ہے۔
بہرکیف تعلقات جلد بحال ہوتے نظر آ رہے ہیں۔