راستے رکیں گے، راہیان کربلا نہیں

تحریر: علی زین

بسمِ اللہ الرحمٰن الرحیم

آج ایک ایسی خبر نے دلوں کو دہلا دیا جو بظاہر تو ایک سفری ضابطے کا اعلان ہے مگر دراصل یہ سیاسی اور تہذیبی محاذ آرائی کا آشکار اشارہ ہے۔ عراق میں حالیہ انتظامی اقدامات اور بین الاقوامی دباؤ کی فضا میں کیا گیا فیصلہ جس میں پاکستانی زائرین پر سخت شرائط اور پابندیاں عائد کی گئی ہیں دراصل محض سرحدی کنٹرول نہیں، بلکہ ایک وسیع تر کوشش ہے جس کا ہدف وہ عوامی روابط ہیں جو صدیوں سے کربلا کے پیغام کو زندہ رکھتے آئے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے بھی حالیہ زمینی راستوں پر پابندی اور عراق کے ساتھ مل کر غیر منظم داخلوں کو کنٹرول کرنے کی کوششیں سامنے آئیں؛ یہ اقدامات بلاشبہ ‘سیکیورٹی’ کے نام پر کیے گئے، مگر ان کے پیچھے جو جغرافیائی اور سیاسی حسّاسیت ہے اسے نظر انداز کرنا خطرناک ہوگا۔

کربلا اور اربعین صرف ایک مذہبی اجتماع نہیں یہ ایک عالمی شعور، ایک مزاحمتی تاریخ اور ایک زندہ نصابِ ظلم کے خلاف بغاوت ہے۔ کربلا نے محض ایک واقعہ رہنے سے انکار کر دیا، اس نے ایک تحریک بن کر دنیا کے گوشوں میں اپنا عکس چھوڑ دیا۔ اسی وجہ سے آج بعض قوتیں جو ایران کے خطّی اثر و رسوخ، خاص کر شیعہ عوامی تحریکوں کے ابھار کو اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھتی ہیں ہر اس راستے کو بند یا محدود کرنے کی کوشش کرتی ہیں جس سے یہ تحریک پھیلتی ہے۔ امریکہ اور اتحادیوں کی پالیسیوں نے عراق میں ایران سے وابستہ اثرات کو ایک نازک موضوع بنا دیا ہے، اور واشنگٹن کی حکمتِ عملی بعض اوقات بغداد کو ایسے دباؤ میں لاتی دکھائی دیتی ہے کہ وہ حساس فیصلے لینے پر آمادہ ہوتا ہے۔ یہ تجزیہ محض قیاس نہیں مغربی اور خطّی سیاسی تجزیات میں واضح طور پر کہا جا رہا ہے کہ واشنگٹن عراق میں ایران کے اثر و رسوخ کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ہم نے تاریخ میں دیکھ رکھا ہے کہ جب ظالم خوفزدہ ہوتے ہیں تو وہ رستے بند کرنے، ہجوم تقسیم کرنے، اور عوامی تجمعات کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ عباسی خلافت کے دورِ عروج میں متوکل عباسی نے بھی اسی خیال کے تحت زیاراتِ امام حسینؑ پر قدغنیں لگائیں، اس نے مقبرۂ شہادت کو چھپانے، زیارت گاہوں کو کمزور کرنے، اور علوی تحریک کی وسعت کو روکنے کی کوشش کی تاکہ ایک برآمدہ علوی قوت قائم نہ ہو سکے۔ یہ محض تاریخِ ماضی نہیں، یہ ایک عبرت ہے کہ جو قوتیں محبتِ حسینی کو عوامی طاقت میں بدلنے سے خوفزدہ ہوں، وہ راستے بند کر دیتی ہیں، پل توڑ دیتی ہیں، تعلقات کو کنارہ کش کر دیتی ہیں۔

آج کی صورتِ حال میں فرق صرف اتنا ہے کہ یزیدیت کی وہی کوششیں نئے رنگ و روپ میں سامنے آ رہی ہیں۔ عبرانی-عرب-امریکی توازن، علاقائی رقابتیں، اور وہی عالمی معادلے جو کسی صدا کو خطرہ سمجھتے ہیں، مل کر عوامی زیارات اور عوامی سفارتکاری پر قدغنیں لگا رہے ہیں۔ مگر جو سچّی طاقت کربلا نے پیدا کی ہے وہ محض اعلانیہ حج و زیارت کا نام نہیں یہ ایک سماجی ارتکاز ہے لوگوں کا باہم ملنا، ان کا خدمتِ خلق، اُن کا مشترکہ تجربہ جو نسل در نسل منتقل ہوتا ہے۔ راستوں کو کاٹ دینے سے وہ تجربہ رکتا نہیں وہ پیغام کہیں اور جنم لے لیتا ہے، اور زیادہ پختہ ہو کر واپس آتا ہے۔ اس کا تاریخی ثبوت وہی ہے جسے متوکل کی کوششوں نے قراراً غلط ثابت کر دیا تھا۔

عراق اور پاکستان کے بیچ جو روابط صدیوں سے رہے ہیں تجارتی، مذہبی، جذباتی انہیں کاٹنے کے ساتھ چند فرضی یا حقیقی جرائم کو جواز بنا کر ایک پوری قوم کو سزا دینا نہ انصاف ہے نہ عقل مندی۔ اسمگلنگ، انسانی تجارت، ڈنکی کے راستے یا غیرقانونی مزدوری کے نیٹ ورکس اگر واقعی وجود رکھتے ہیں تو ان کا جواب قانون اور مشترکہ کارروائیاں ہونی چاہیئیں، سرحدی نگرانی میں بہتری، ویزا و ریٹرن ٹریکنگ، مشترکہ انٹیلی جنس، اور مجرم نیٹ ورکس کے خلاف کڑی کارروائیاں یہی ٹھوس حل ہیں، نہ کہ عوام کی روحانی آزادی کو محدود کردینا۔ عالمِ سیاست میں جو آسان راستہ اپنایا جا رہا ہے معمولی یا کمزور طبقات پر پابندیاں عائد کر کے صورتحال کو سیاسی مفاد میں تبدیل کرنا وہ دراصل یزیدی حکمتِ عملی کی ایک نئی شکل ہے۔

ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ ایران، لبنان، یمن اور حماس نے خطّے میں جو اثر قائم کیا ہے، وہ صرف ریاستی طاقت کا نتیجہ نہیں بلکہ سماجی و ثقافتی پیوند کا نتیجہ ہے اسی وجہ سے بعض خارجہ طاقتیں اس محور کے بڑھنے کو برداشت نہیں کرسکتیں۔ تازہ ترین خطِ تصادم اور جوابی کارروائیاں چاہے وہ دفاعی نوعیت کی ہوں یا سیاسی نے بڑے پیمانے پر خطّی تشویش کو جنم دیا ہے؛ مغربی و علاقائی پالیسی ساز ان حرکات کو مزید طاقت بننے سے روکنے کے لیے ترکیبیں ڈھونڈ رہے ہیں جبکہ رہبر معظم آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کی دور اندیشی اور تدابیر کے سامنے ان کی ہر مذموم سازش بے نقاب اور ناکام ہو رہی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی بیرونی دباؤ یا داخلی قدغن نے عوامی روایتوں کو چیلنج کیا، تو وہ روایت منفعل ہونے کی بجائے زیادہ زندہ اور طاقتور ہو کر سامنے آئی۔

یہاں ایک فیصلہ کن نکتہ واضح کرنا ضروری ہے جو قوتیں آج فیصلہ کر رہی ہیں چاہے بغداد کا کوئی ادارہ ہو یا وہ بیرونی ایجنڈے جو اس پر اثر انداز ہوتے ہیں اُنہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کربلا و اربعین محض ایک فِکر یا عمل نہیں، یہ ایک عوامی انقلاب کا قبلہ ہے۔ وہ لوگ جو کربلا کے راستوں کو کانٹے دار بنانے کے خواہشمند ہیں، وہی ایک دن خود اس سرکشی کے سامنے شرمندہ ہوں گے۔ عوام کا صبر اور عوامی محبت ایسی چیزیں نہیں جنہیں کاغذی احکام یا سفارتی دباؤ سے ہمیشہ محدود کیا جا سکے اور جو کوئی اس فیصلے پر خوش ہے، کل اس کا منہ کالا ہوگا، یہ کوئی خودی نہیں، بلکہ ایک سچی پیشگوئی ہے جو عوامی تاریخ کی باریک نگاہ سے واضح ہوتی ہے۔

قائدین، علما، ذاکرین، اور وہ لوگ جو منبر و محراب کے شعلہ سے دل جلاتے ہیں، آپ کہاں ہیں؟ آپ کی صدائیں کب تک محض لفاظی میں گم رہیں گی؟ کب تک آپ ذاتی مفادات، سیاسی مواضعات یا کسی جماعتی چال کو مذہب کے اوپر ترجیح دیں گے؟ جب مساجد اور مجالس میں بلند ہونے والے نعرے کہیں عمل میں بدلنے کے بجائے ٹی وی چینلوں یا سوشل میڈیا پوسٹس میں رہ جائیں تو وہ ہی فرضی قیادت بنتی ہے جسے لوگ ‘سوداگرانِ دین’ کہہ دیتے ہیں۔

جب زمینی راستوں پر پابندیاں لگیں تو دل جل کر رہ گیا مگر جو داغ سب سے گہرا ہے وہ اُن نام نہاد قائدین، علما اور ذاکرین کا ہے جو سال بھر حسینؑ کے نام پر جلسے منعقد کرتے، منہ پر حزن سجائے تصویریں بنواتے اور اپنی جیبیں بھر لیتے ہیں۔ جب واقعی حسینؑ عمل، قربانی اور محنت کا تقاضہ کرتے ہیں تو یہ لوگ مصلحت کی چادر اوڑھ کر گھروں میں محصور ہو جاتے ہیں؛ انہی کے سکوت نے دروازے بند کرائے، انہی کے مفاد نے عوام کی سانسیں تنگ کیں۔ اے وہ بزرگ جو منبر پر دعوے کرتے ہوتمہاری خاموشی نے محنت کش، جوان اور ماں باپ کو تنہا کر دیا ہے۔ درد یہ ہے کہ جب حقیقی امتحان آیا تو تم نے عمل نہیں، صرف بیانیہ بیچا اور اسی میں قوم کا نقصان ہے۔ اٹھو، اپنا ضمیر جگاؤ، ورنہ تمہارا وہ سب دعویٰ جس کی بنیاد ایمانی تھا، زمینی مفادات کی تجارت بن کر رہ جائے گا۔

اس قوم نے ہمیشہ امامِ حسینؑ کے لیے قربانی دی ہے۔ انہوں نے اپنے بچوں کو، اپنی جمع پونجی کو، اور اپنی جانوں کو وقف کر دیا ہے۔ مگر آج صورتِ حال یہ ہے کہ جب ایک ریاستی یا بین الاقوامی فیصلے کی وجہ سے زیارات مسدود کی جاتی ہیں، تو کون بولے گا؟ وہی لوگ جو منبر پر جلّادوں کی مذمت کرتے ہیں، جب پارلیمنٹ کی لابی میں یا کسی سرکاری دفتر کے دروازے کے پیچھے ان کا مفاد جڑا ہو تو خاموش رہ جاتے ہیں۔ یہ خاموشی قبول نہیں کی جا سکتی یہ مومن کی سانسیں بند کرنے اور دلوں کی دھڑکنوں کو روکنے کے مترادف ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہمارے شیعہ قائدین، علما، ذاکرین اور ہر مومن ایک صف میں کھڑے ہوں۔ ذاتی عناد، سیاسی مفادات یا گروہی ہٹ دھرمی کو خیر باد کہہ کر اپنی آمریت، مقام یا مراعات کو عوام کی روحانی ضرورت پر فوقیت نہ دیں۔ بس کریں، اب یہ وقت بازیگری کا نہیں، ضمیری ذمہ داری کا ہے۔ عوام کے دِلوں میں اگر یہ شک پیدا ہو گیا کہ قیادت اپنے مفاد کو دین پر مقدم رکھ رہی ہے تو وہ قیادت خود بخود بے وقعت ہو جائے گی۔ راہیانِ کربلا کبھی خاموش نہیں رہیں گے، وہ اپنی آواز اٹھا کر حق کو پہچان لیتے ہیں اور اُن نام نہاد قائدین، علما یا ذاکرین کو خود اپنے پیمان سے مسترد کر دیں گے جو سوداگرِ مذہب بن چکے ہیں۔ یہ ایک خبردار کنندہ حقیقت ہے قیادت کو یا تو عوام کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا یا عوام اپنے حق کی حفاظت خود کریں گے۔

عراق اور پاکستان دونوں کو چاہیے کہ وہ اس فیصلے کا ازسر نو جائزہ لیں۔ حقائق اور شواہد کی بنیاد پر مشترکہ تحقیق کی جائے، مجرمانہ نیٹ ورکس کو قانونی اور عسکری طور پر نشانہ بنایا جائے، اور زائرین کے محفوظ، منظم اور باعزت راستے بحال رکھے جائیں۔ راہِ کربلا بند کرنے سے نہ امن مضبوط ہوگا، نہ دوستی قائم رہے گی، نہ ہی وہ انقلاب رُکے گا جس کی جھلک اربعین میں ہر سال دکھتی ہے۔

یہ وقتِ آزمائش ہے، راہیں بند کرنے کا فیصلہ فوری سیاسی فائدے دے سکتا ہے، مگر طویل مدتی تاریخ، عزتِ قوم، اور مذہبی ہم آہنگی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ تاریخ ہمیشہ ایسے فیصلوں کا حساب رکھتی ہے، اور وہ حساب اکثر انھیں دینا پڑتا ہے جو لوگوں کے رستے بند کرتے ہیں۔ اربعین ایک گونجدار صدائے انسانیت ہے اسے دبایا نہیں جا سکتا اس کی بات سننی ہوگی، ورنہ ایک دن تاریخ اپنا فیصلہ سنا دے گی کہ ہمیشہ راستے رکیں گے، راہیان کربلا نہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں