فقہ جعفریہ میں افطار کا وقت
تحریر: سید جواد حسین رضوی
سوال) کیا افطار و نماز مغرب کے لئے غروب کا وقت کافی ہے؟ یا دس منٹ صبر کرنا ضروری ہے؟ کیا ضرورت کے وقت اہلسنت کے ساتھ روزہ افطار ہو سکتا ہے؟
جواب) نماز مغرب اور افطار کے وقت کی بابت ہماری احادیث اور علماء کے اقوال میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ایک طرف وہ احادیث ہیں جن میں سورج کی ٹکیہ کے اوجھل ہو جانے کو ہی نماز مغرب اور افطار کا وقت کہا گيا ہے، اور دوسری طرف وہ روایات ہیں جن میں مشرق کی سرخی زائل ہونے تک صبر کرنے کا ذکر ہے۔ اسی وجہ سے ہی غروب کے بعد دس پندرہ منٹ کا فرق آ جاتا ہے۔ احادیث میں اسی اختلاف کی وجہ سے علماء کے اقوال میں بھی اختلاف ہے۔
قرآن میں حکم واضح ہے ” ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى اللَّيْلِ ” یعنی روزہ تمام کرو رات تک (سورہ بقرہ 287)۔ تو یہ واضح ہے کہ روزہ رات تک رکھنا ہے لیکن رات کب شروع ہوتی ہے؟ آیا سورج کا غروب ہو جانا ہی رات کا صدق ہونا ہے یا مشرقی سرخی کا زائل ہونا؟ یہ بات تو طے ہے کہ غروب آفتاب سے ہی رات کا آغاز ہو جاتا ہے، رات کا اندھیرے سے تعلق نہیں بلکہ غروب کا یقین ہو جانا ہی رات کا آغاز ہے۔ اب اختلاف غروب کے وقت کے تعین میں ہے۔ احادیث میں ہمیں دونوں باتیں ملتی ہیں۔
مثلا قرب الاسناد میں صفوان جمّال کی ایک حدیث ہے کہ امام صادق(ع) نے فرمایا کہ جب سورج کی ٹکیہ غائب ہو جائے تو مغرب کی نماز پڑھ لیا کرو۔ من لا یحضرہ الفقیہ میں حریز اور زرارہ سے صحیح السند حدیث ہے کہ جب سورج کی ٹکیہ غائب ہو جائے تو روزہ افطار کر لیا کرو (من لا یحضرہ الفقیہ، جلد 2 حدیث 1902)
مذکورہ حدیث شیخ کلینی (کافی ج3 ص279) اور شیخ طوسی (تہذیب الاحکام ج 2 ص261 ح1038) نے بھی نقل کیا ہے۔ پس یہ روایت کتب اربعہ کی تمام کتب میں باسناد صحیح مروی ہوئی ہے، اور درایت کے لحاظ سے وثوق صدوری کے اعلی درجے پر فائز ہے۔
دوسری طرف دیگر احادیث ہیں جن میں مشرقی سرخی کے انتظار تک صبر کرنے کا کہا گیا ہے۔ اس لئے ہمیں علماء کے مندرجہ ذیل اقوال ملتے ہیں؛
1) سورج کی ٹکیہ غروب ہوتے ہی مغرب کی نماز اور افطار کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ یہ قول شیخ صدوق کا ہے۔
2) مغرب کے دو اوقات ہیں، سورج کی ٹکیہ کے غائب ہو جانے سے مغرب کا وقت شروع ہو جاتا ہے لیکن فضیلت کا وقت مشرقی سرخی کا زائل ہو جانا ہے۔ ان علماء نے دوسری روایات کو فضیلت پر محمول کیا۔ علامہ مجلسی کے والد ملاّ تقی مجلسی نے اس قول کو اختیار کیا ہے۔
3) مغرب کی نماز اور افطار کا وقت غروب کے بعد شروع ہو جاتا ہے، لیکن احتیاط کے طور پر مشرقی سرخی تک انتظار کریں تو بہتر ہے۔ یعنی ان کے نزدیک سورج کے غروب ہوتے ہی افطار کیا جا سکتا ہے لیکن احتیاط کیا جائے تو بہتر ہے۔ معاصرین میں آیت اللہ خوئی، ناصر مکارم شیرازی، تقی بہجت، سعید الحکیم، یوسف صانعی و سید فضل اللہ نے اس قول کو اختیار کیا۔ یعنی اس گروہ کے مطابق بوقت ضرورت غروب کا یقین ہو جانے کے بعد نماز مغرب پڑھ سکتے ہیں اور افطار کر سکتے ہیں۔
4) احتیاط واجب ہے کہ مشرق کی سرخی کے زائل ہونے تک انتظار کیا جائے۔ آیت اللہ سیستانی، نوری ھمدانی، و وحید خراسانی کی یہی آراء ہیں۔ البتہ ان کے مقلّدین احتیاط واجب کی صورت میں دیگر مراجع کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔ مثلا ضرورت کے وقت اعلم فی الاعلم کا خیال کرتے ہوئے آیت اللہ سیستانی کے مقلدین آیات عظم مکارم شیرازی یا سعید الحکیم کے فتوی سے رجوع کر سکتے ہیں جو غروب کے بعد افطار یا نماز مغرب جائز سمجھتے ہیں۔
5) مشرق کی سرخی زائل ہونے سے پہلے افطار اور مغرب کی نماز جائز نہیں ہے بلکہ مشرق کی سرخی زائل ہونے تک صبر کرنا واجب ہے۔ ان علماء کے مطابق مشرق کا زائل ہونا غروب ہونے کی ہی علامتوں میں سے ہے۔ معاصرین میں آیت اللہ خامنہ ای و موسی شبیری زنجانی نے اسی پر فتوی دیا ہے۔ ان مراجع کے مطابق غروب کے بعد اتنا صبر کرنا ضروری ہے کہ مشرقی سرخی زائل ہو جائے، جس میں کم سے کم دس پندرہ منٹ لگ جاتے ہیں۔ اپنے اپنے جغرافیائی علاقوں کے اوقات کی طرف رجوع کریں۔
پس اس سلسلے میں اپنے مرجع تقلید کے فتوی پر عمل کریں۔