حجتہ السلام والمسلمین آغا اسید علی الموسوی کی یادیں
تحریر: ارشاد حسین ناصر
احادیث میں عالم کی موت کو عالم کی موت کہا گیا ہے اور علماء کے بے شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں، آغا علی الموسوی اس کا بہترین نمونہ تھے اور ان کی رحلت کا سانحۂ فقط ایک بزرگ عالم دین، بلند پایہ خطیب، ہردلعزیز رہنما، فعال تنظیمی و متحرک قومی شخصیت کا نقصان ہی نہیں تھا بلکہ ان کی رحلت مکتب تشیع پاکستان کی ایک تاریخ، انقلاب اسلامی ایران اور نظام ولایت فقیہ کے پاکستان میں بڑے پرچارک و پیرو، مفتی جعفر حسین قبلہ، علامہ سید عارف حسین الحسینی کی سپریم کونسل کے ممبر اور ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کے رفیق خاص و معاون و سرپرست اور امامیہ نوجونوں کی تنظیم آئی ایس او پاکستان کی مجلس نظارت کے واحد تاحیات رکن کی رحلت ہے۔
دس 10رمضان المبارک 1433ھ بمطابق 30 جولائی 2012ء کی دم فجر علم و عمل کے بحرِ بیکراں، معروف دینی شخصیت ہم سب کے مونس و غم خوار، امامیہ نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن، آغا سید علی الموسوی لاہور موچی دروازہ میں اس جہانِ فانی سے ابدی مقام کی طرف روانہ ہوگئے تھے۔ آغا علی الموسوی کی ہمہ جہت و ہر دلعزیز شخصیت کسی سے پوشیدہ نہیں، وہ بے انتہا خوبیوں کے مالک اور ان گنت ملی و قومی خدمات کی طویل تاریخ کی حامل شخصیت تھے۔ ان کی رحلت سے جہاں ملت تشیع پاکستان ایک فعال، مخلص، باتقویٰ، ہر دلعزیز شخصیت سے محروم ہوگئی وہاں خصوصی طور پر دینی تحریکوں و تنظیموں کے کارکن و رہنما جو آغا جی کو اپنا قیمتی ترین اثاثہ اور رہنمائی کا ذریعہ سمجھتے تھے، اس نعمت سے محروم ہوئے۔ پاکستانی ملت کے منظم نوجوانوں کی تنظیم آئی ایس او پاکستان کے ساتھ ان کی محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، ان کی تمام تر اُمیدوں کا مرکز و محور امامیہ طلباء ہی تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ آخری دم تک اس پر فخر کرتے رہے اور آئی ایس او کے نوجوانوں پر نازاں دکھائی دیئے۔
یوں تو آغا سید علی الموسوی کی زندگی کے تمام پہلو ہی اس بات کے متقاضی ہیں کہ دانشور و علماء اور ان سے قربت رکھنے والے ان کے ساتھ گذارے ہوئے لمحات اور ان کی متحرک، فعال زندگی و قومی، ملی، مذہبی و دینی خدمات کے تمام پہلوؤں کو تحریری و تقریری صورت میں نوجوانوں اور مستقبل کے معماروں کے سامنے لائیں۔ آغا سید علی الموسوی کا والدہ کی گود میں سفرِ نجف، نجف میں قیام، تحصیل علم، قم میں تحصیل علم اور علماء کرام و مجتہدین عظام سے گہری وابستگی، انقلاب اسلامی ایران سے ان کی دل لگی اور انقلاب اسلامی کے بانی سے عقیدت و محبت، پاکستان میں آمد اور قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی کی تحریک میں فعالیت، ڈاکٹر سید محمد علی نقوی شہید کے ساتھ ان کے شب و روز، اسلام آباد کا معرکہ 1980ء، قرآن و سنت کانفرنس 87ء اور سب سے بڑھ کر ان کی محبت، ان کا عشق آئی ایس او پاکستان کے سیمینارز، ورکشاپس اور مرکزی کنونشن کی یادگار تقاریب میں شرکت اور نصیحت آموز فکری و تنظیمی خطابات جن کو سن کر ہر عمر کے دوست و احباب نہ صرف لطف لیتے اور محظوظ ہوتے بلکہ ان کی باتوں کو مشعل راہ اور تجربات کا نچوڑ سمجھ کر پلے باندھ لیتے، یہ سب موضوعات یقیناً اس بات کے طالب اور متقاضی ہیں کہ اس بحر بیکراں میں غوطہ زنی کی جائے اور آغا سید علی الموسوی کی مسلسل فعالیت، متحرک زندگی اور ملی خدمات کا حق ادا کیا جائے۔
آغا سید علی الموسوی کی خوش قسمتی کہیں یا اہل موچی دروازہ کی خوشبختی، یہ بات بہرحال ہر دو اطراف صادق آتی ہے کہ آغا جی کی خوش قسمتی تھی کہ انہیں لاہور جیسے بڑے شہر کے دل موچی دروازہ کی مسجد کشمیریاں اور محلہ کشمیریاں جو عزاداری و مجالس کا مرکز و محور ہے، میسر آیا اور یہاں پر طویل قیام اور امامت کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے تبلیغات و دینی امور کی انجام دہی کے بھرپور مواقع میسر آئے۔ ایک مبلغ، ایک خطیب، ایک روحانی معالج و طبیب کیلئے اس سے بڑھ کر خوش قسمتی اور کیا ہوگی کہ اس کی بات سننے والے، اس کی تبلیغ کا اثر لینے والے اور اس کا تجویز کردہ نسخۂ دوا استعمال کرنے والے بلاچون و چراں یہ کام کر رہے ہوں۔
آغا جی کی شیریں بیانی، منفرد انداز سخن، ماحول سے مطابقت اور سادہ انداز اہل لاہور بالخصوص اندرون لاہور کے مومنین کو جذب کرنے کا ذریعہ بنا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہاں کے ماحول میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہونے لگیں، موچی دروازہ کی مسجد کشمیریاں میں نمازیوں کی تعداد میں بے حد اضافہ ہوا اور قوم خواجگان کے کاروباری حضرات و خواتین دین کی طرف رغبت اور دینی احکام کی پاسداری میں ان کی رہنمائی میں زندگی کے امور سرانجام دینے لگے، ہم خوش بختی کی بات کر رہے تھے، موچی دروازہ کے مومنین کی خوش بختی یہ ہوئی کہ انہیں ایک بلند پایہ، اعلٰی اخلاق سے مزین، ہردلعزیز، شیریں سخن، مبلغ، خطیب اور روحانی معالج میسر آگیا۔
جو زبان و علاقہ کے لحاظ سے اگرچہ ان سے بہت دور کا تھا مگر اپنے انداز زندگی، لوگوں سے میل ملاقات، دکھ درد اور نجی و قومی امور میں ان کا اپنا ہی محسوس ہوتا تھا، بلکہ یہ ایک الگ موضوع ہے کہ آغا علی الموسوی مومنین کے باہم جھگڑوں اور خانوادوں کی ناراضگیاں و لڑائیاں ختم کروانے اور کئی اہم اور مشکل معاملات پر تصفیے کرواتے تھے، اور وہ لوگ جو کسی پر اس حوالے سے اعتماد نہیں کرتے تھے، آغا جی کے سامنے اپنے معاملات رکھتے ہوئے قطعاً نہیں ہچکچاتے تھے۔ ان لوگوں سے تعلق اس قدر گہرا تھا کہ بیسیوں لوگوں کے ساتھ صیغۂ اخوت پڑھ رکھا تھا۔ جن کے ساتھ باقاعدہ اس کے تقاضون کے مطابق آخرِ دم تک رشتہ استوار تھا۔
آغا سید علی الموسوی آئی ایس او پاکستان کے نوجوانوں سے بےحد محبت رکھتے تھے، آئی ایس او ان کا عشق تھا، ان کی اُمید تھی، ان کی جوانی کا راز تھی، وہ اس پر فخر کرتے ہوئے اتراتے نہیں تھکتے تھے۔ وہ جب آئی ایس او کے کنونشن میں آتے تو خود کو جوان اور توانا و صحت مند سمجھنے لگتے تھے۔ گذشتہ دو تین کنونشنز 2011،2010،2009 میں وہ سخت علیل تھے، اس کے باوجود کم از کم آخری نشست جس میں نئے مرکزی صدر کا اعلان ہونا ہوتا ہے، میں اپنی شرکت کو یقینی بنایا۔ بے شک اس پُروقار تاریخی تقریب کا رنگ آغا جی کے بغیر پھیکا ہی رہتا۔ میری آنکھوں کے سامنے وہ منظر اس وقت بھی آرہا ہے کہ آغا جی کو لاٹھی کے سہارے کنونشن ہال میں لایا جا رہا ہے اور پھر ایک بار تو باقاعدہ ویل چیئر پر اُٹھا کر لایا گیا، اور نئے مرکزی صدر کا اعلان جس خوبصورت انداز سے آپ کرتے، وہ انہی کا خاصہ تھا۔
اکثر اوقات کسی شعر یا رباعی کے ذریعے اس کا اعلان کرتے اور منتظر نگاہیں اور کان آپ کے اعلان کے ساتھ ہی “فلاں بھائی قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں” کے فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے نومنتخب مرکزی صدر کو پنڈال سے اسٹیج پر پہنچاتے اور آغا علی الموسوی نئے منتخب صدر کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈال کر پیار کرتے، دستِ شفقت رکھتے اور اس سے حلف و فاداری لیتے، یہ تاریخی مناظر اب جب بھی ہماری آنکھوں کے سامنے آئیں گے تو آغا جی کی یاد ہمیں بہت تڑپائے گی، مگر نظام قدرت کے تحت ہم آپ کی یاد میں آنسو بہا کر ان کی یاد کو تازہ کریں گے، میرا یقین ہے کہ اس مردِ خدا کو بھی اس موقع پر بے چینی ہوگی اور وہ اپنے اعلٰی مقام سے اس پُروقار تقریب میں شامل ہونے کیلئے موجود ہونگے۔
ایک زمانہ تھا کہ آغا جی نوجوانوں کو شادی پر بےحد زور دیتے اور جو کنوارہ مل جاتا اسے سخت سخت احادیث اور اقوال آئمہ سناتے، ان کا یہ کہنا ہوتا کہ ملت تشیع بالخصوص آئی ایس او کو تقویت کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے شادی کرکے دیندار اور متقی و متحرک اولاد پیدا کی جائے۔ جلوسوں میں جب بھی تقریر فرماتے تو ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکاروں کو بھی پیغام دیتے اور انہیں شکریہ ادا کرتے ہوئے کہتے کہ ڈیوٹی کی نیت اس انداز سے کرلو کہ تمہاری ڈیوٹی ثواب کا ذریعہ قرار پائے۔
مرکزی کنونشن کی ایک نشست جس میں رات گئے مزاحیہ خاکے اور ڈرامے پیش کیے جاتے تھے، میں خصوصی طور پر فرنٹ سیٹس پر آکر دیکھتے، دراصل ان کے اندر حِس مزاح بدرجہ اتم موجود تھی، وہ ان چیزوں کو بےحد پسند کرتے تھے اور اکثر اوقات محفل میں کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور کر دیتے تھے کہ محفل کے شرکاء اگر کسی مسئلہ میں الجھے ہوتے اور Tentionمحسوس کر رہے ہوتے تو ان کی بات سے مکمل Relax ہو جاتے اور تازہ دم محسوس کرنے لگتے۔
آئی ایس او کے نئے صدر کو سب سے پہلے ناشتہ کی دعوت دیتے جو دراصل نصیحت و ہدایت کا ایک سلسلہ ہوتا تھا، اس محفل میں ان کی راہنمائی نئے مرکزی صدر کیلئے سال بھر اپنی پیٹھ پر بزرگ علماء کی تھپکی محسوس ہوتی اور نوجوان طالبعلم کے اندر ایک ولولۂ تازہ جنم لیتا۔ ابھی اس بار کنونشن ہونے جا رہا ہے تو آغا جی کی کمی بہت شدید محسوس ہوگی ان کا نعم البدل یقیناً کوئی نہیں ہے۔ آغا سید علی الموسوی مسجد کشمیریاں موچی دروازہ میں 1952ء سے خدمات سرانجام دے رہے تھے، جن دوستوں نے رمضان المبارک میں آغا جی کی مسجد میں ان کی معیت و امامت میں شب ہائے قدر بالخصوص 23،21ویں شب کے اعمال و عبادت کی ہے، انہیں شائد کہیں اور وہ لطف عبادت اور معنوی ماحول میسر نہ آئے، مسجد کے ماحول کو اس قدر روحانی بنانے، اور چھوٹی سی مسجد سے اس قدر وسیع خوبصورت مسجد، جس میں تمام سہولیات میسر ہیں بنانا، آغا جی کا ہی خاصہ تھا۔
وہ ایک ہی شب میں اپنے انداز سے لاکھوں روپے چندہ اکٹھا کرلیتے بلکہ ہم نے خود یکھا کہ مسجد کے منتظمین نے جو ٹارگٹ مقرر کیا اسے باآسانی پورا کرلیا گیا، اگرچہ ان کی اولاد اور مسجد کی ٹیم بھی بے حد فعال اور متحرک ہے، مگر ان کی کمی کو ہمیشہ اس مسجد کے نمازی محسوس کرتے رہیں گے اور یہ مسجد بھی آپ کی پاکیزگی، طہارت اور عبادت و ریاضت کی گواہی دیتی رہے گی۔ مسجد میں نماز باجماعت، عبادت، ریاضت، سحر و افطار، اقامت و اذان تو ہوگی مگر آپ کا دلنشین انداز ہوگا نہ آپ کا وجود پُر نور، آپ کا اثر انگیز خطاب ہوگا نہ دلوں کو پسیج کر دینے والا مصائب کا سلسلہ، آخری بار آپ کے جنازہ کو 30جولائی 2012ء کی دوپہر مسجد کے محراب و منبر تک لایا گیا تو کیسا کہرام برپا تھا، ہر آنکھ اشک بار تھی، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ مسجد کے در و دیوار اور محراب و منبر بھی آپ کی رخصتی پر گریہ کناں ہیں۔ یقیناً یہ آپ کو خراج عقیدت پیش کیا جا رہا تھا، جس کے آپ حق دار تھے۔
بقول شاعر:
یوں اُٹھ گیا کہ بزم میں اب زندگی نہیں
ہم دل جلا رہے ہیں مگر روشنی نہیں
احادیث میں عالم کی موت کو عالم کی موت کہا گیا ہے اور علماء کے بے شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں، آغا علی الموسوی اس کا بہترین نمونہ تھے اور ان کی رحلت کا سانحۂ فقط ایک بزرگ عالم دین، بلند پایہ خطیب، ہردلعزیز رہنما، فعال تنظیمی و متحرک قومی شخصیت کا نقصان ہی نہیں تھا بلکہ ان کی رحلت مکتب تشیع پاکستان کی ایک تاریخ، انقلاب اسلامی ایران اور نظام ولایت فقیہ کے پاکستان میں بڑے پرچارک و پیرو، مفتی جعفر حسین قبلہ، علامہ سید عارف حسین الحسینی کی سپریم کونسل کے ممبر اور ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کے رفیق خاص و معاون و سرپرست اور امامیہ نوجونوں کی تنظیم آئی ایس او پاکستان کی مجلس نظارت کے واحد تاحیات رکن کی رحلت ہے۔
آغا علی الموسوی کی رحلت ان کے لگائے ہوئے کئی ایک نوخیز پودوں اور تناور درختوں جن سے قوم و ملت سائبان کا کام لیتی ہے، کو اپنا خون و پسینہ دینے والے باغبان کی موت ہے، ان کی موت پر ان کے فرزند آغا حیدر الموسوی ہی اشک بار نہیں ہوئے اور ان کے گھر سے ہی قیمتی ترین اثاثہ گم نہیں ہوا، ملت کے کئی ادارے اور ان سے وابستہ نوجوان و بزرگان نے بھی ایسی ہی کمی کو محسوس کیا، مجھے یہ دکھ ذاتی طور پر محسوس ہوا کہ اتنی بڑے شخصیت کا جنازہ اس شان سے نہ اٹھا جس کے وہ حق دار تھے۔ اگرچہ رمضان المبارک اور سخت گرمی تھی اور کافی تعداد میں انکے چاہنے والے موچی دروازہ میں پہنچے تھے، علماء کی بھی ایک خاصی بری تعداد موجود تھی، مگر آغا جی کی خدمات کا عرصہ دیکھیں تو یہ کچھ بھی نہیں تھا۔ اسی طرح اسلام آباد میں اور پھر اسکردو میں بھی انہیں بہت خاص خراج تحسین پیش کیا گیا تھا، جبکہ بیرون ممالک بھی میں ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔
کہتے ہیں کہ جانے والے نہیں آتے، جانے والوں کی یاد آتی ہے، آغا علی الموسوی اپنی زندگی میں اپنا کام کرگئے، انہوں نے جو ذمہ داری اُٹھائی اسے خوب نبھایا، اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم ان کی امانتوں کو کیسے سنبھالتے ہیں۔ ان کی طرف سے تو یہ صدا بزبان ساحر لدھیانوی سنائی دے رہی ہے۔
لو اپنا جہاں دنیا والو ہم اس دنیا کو چھوڑ چلے
جو رشتے ناطے جوڑے تھے وہ رشتے ناطے توڑ چلے
کچھ سُکھ کے سپنے دیکھ چلے کچھ دُکھ کے سپنے جھیل چلے
تقدیر کی اندھی گردش نے جو کھیل کھلائے کھیل چلے
ہر چیز تمہاری لوٹا دی ہم لے کے نہیں کچھ ساتھ چلے
پھر دوش نہ دینا اے لوگو ہم دیکھ لو خالی ہاتھ چلے
یہ راہ اکیلی کٹتی ہے یاں ساتھ نہ کوئی یار چلے
اس پار نہ جانے کیا پائیں اِس پار تو سب کچھ ہار چلے
خدا وند کریم سے دعا ہے کہ آغا علی الموسوی کے درجات عالی کو بلند تر فرمائے اور ان کو جوارِ آئمہ طاہرین علیہم السلام میں شہداء ملت کی ہمسائیگی نصیب ہوآمین