ھوگلی ٹرسٹ – حاجی محمد محسن اصفہانی
ترتیب و تدوین: نثار علی ترمذی
محسنین کی خدمات کا تذکرہ, مثال بنتا ہے دوسروں کے لیے. بعض لوگوں ایسی لابی میسر آ جاتی ہے کہ وہ انہیں یاد رکھتی ہے اور بہت سے نیک لوگ ایسی سہولت میسر نہ آنے کی وجہ سے گمنامی کے اندھیروں میں چھپ جاتے ہیں, بعض کو تعصب کی وجہ سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے, بعض کے اپنے ہی اتنے لاپرواہ اور لا علم ہوتے ہیں کہ اپنے ہیروز کو پہچان نہیں پاتے یا انہیں شعور نہیں ہوتا کہ جس منزل پہ وہ پہنچے ہیں ان کی بنیادیں کتنی گہری ہیں یا کتنوں کی محنتیں یا زحمتیں یا خون شامل ہے
حاجی محمد محسن غیر منقسم بنگال کے ایک عظیم ہستی جن کے قائم کردہ ادارے آج بھی لوگوں کو فیض پہنچا رہے ۔ ان کی انسان دوست کارناموں کے لئے وہ آج بھی شدت سے یاد کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے بنگال کے ضلع ہگلی مدرسہ ،کالج ،اسپتال اور امام باڑہ قائم کئے جو آج بھی پورے شان و شوکت کے ساتھ ماضی کی عظمت کو بیان کرتے ہیں ۔
ایسی ہی ایک ہمارے حلقوں میں غیر معروف شخصیت حاجی محمد محسن اصفہانی کی ہے جو 1732 میں پیدا ہوے اور 1812 میں خاک نشین ہوگے. ھوگلی امام بارگاہ چن سورہ (بنگلہ دیش)میں آسودہ خاک ہیں. انہوں نے اپنی پوری جائیداد مزھب, تعلیم اور فلاح وبہبود کے لیے وقف کر دی۔
.
آپ حاجی فیض اللہ اور زینب خانم کے گھر پیدا ہوے. انہوں نے اپنے گھر میں قرآن, حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی. بعد ازاں سفر زیارت وسیاحت کی غرض سے ایران, عراق, ترکی اور عرب علاقوں میں گئے. اس دوران حج کی سعادت بھی حاصل کی یوں حاجی آپ کے نام کا حصہ بن گیا. اس سفر کے بعد وطن واپس آ کر آپ نے وسیع جائیداد کا انتظام سنبھالا, اس میں ان سوتیلی بہن منوجان کی وسیع جائیداد بھی شامل تھی, جو انہیں اپنے شوہر مرزا صلاح الدین سےملی جو کہ نائب فوجدار/ ڈپٹی ملٹری گورنر براے نواب آف بنگال تھے. اسی طرح انہیں اپنی والدہ سے بھی جائیداد ملی. یہ جائیداد ھوگلی, جے سور, مرشد آباد اور نادیہ میں پھیلی ہوئی تھی. 1803ء میں منو جان کی رحلت کے بعد ساری جائیداد حاجی محسن کو مل گئی. انہوں نے اس میں اپنی دولت جو کہ -/756000 روپے شامل کر کے 1806ء میں وقف کر دی. انہوں نے اپنی جائیداد کا ایک تہائی حصہ تعلیم کے لیے, ایک تہائی حصہ مذہبی سرگرمیوں کے لیے جبکہ ایک تہائی غریب, بوڑھے, معزور افراد کو پنشن اور ٹرسٹیز کے اخراجات کے لیے وقف کر دی. نیز انہوں بیالیس ایکڑ زمین میں سے چالیس ایکڑ زمین گورنمنٹ بی ایل کالج ،کھلنا، بنگلہ دیش جو جنوبی بنگلہ دیش کا سب سے پہلا کالج ہے۔ 29 نومبر 1812ء میں حاجی محسن کی رحلت کے بعد گورنمنٹ آف بنگال( جو کہ اس وقت برٹش انڈیا کمپنی) نے ٹرسٹ کی مینجمنٹ سنبھال لی. بعد ازاں عدالت نے 1836ء میں ٹرسٹیز کے سپرد کر دیا. اس ٹرسٹ نےکئ تعلیمی اداروں کا آغاز کیا خصوصاً مسلمان طلباء کو وظائف دیے جانے لگے. یکم اگست 1836 میں نیو ھوگلی کالج کا آغاز ہوا, جو سو سال مکمل ہونے پر اس کا نام ھوگلی محسن کالج سے موسوم کر دیا گیا.
تعلیم کے میدان میں حاجی محسن ٹرسٹ کی شراکت کی وجہ سے ہندوستان اور بنگلہ دیش میں ان کے نام پر کئی تعلیمی ادارے قائم کیے گئے۔ چنسورہ، مغربی بنگال میں واقع نیو ھوگلی کالج جسے اب ھوگلی محسن کالج کہا جاتا ہے انہی کا قائم کردہ ہے۔ چٹاگانگ، بنگلہ دیش میں حاجی محمد محسن کالج اور ڈھاکہ یونیورسٹی کے حاجی محمد ہال کے نام بھی انہی کے نام پر رکھے گئے۔ اسی طرح بنگلہ دیش کی بحریہ کے بیس کا نام بھی ان کے نام پر رکھا گیا ہے۔
1779-70 میں بنگال میں زبردست قحط پڑا۔ اس قحط محمد محسن نے اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے ہزاروں افراد کی دل کھول کر مدد کی۔
اس ٹرسٹ کے زیر اہتمام ھوگلی میں مسجد و امام بارگاہ موجود ہے جس کی تعمیر 1841ء میں شروع ہوئی اور 1861ء میں مکمل ہوئی۔ یہ دو منزلہ عمارت ہے اور بلند وال کلاک ٹاور ہے جبکہ اس ایک حصہ ہسپتال بھی قائم ہے۔
یہ ایک تعلیمی، فلاحی اور مذہبی خدمت کی شاندار مثال ہے۔
نئی نسل کو اس سے آگاہ کرنا ان کے جذبوں کو توانا کرنے باعث بنے گا۔
( یہ معلومات نیٹ پر مختلف سائٹس سے حاصل کی ہیں۔ آگاہ احباب اس میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ )