ایرانیوں سے رشتہ کیا؟
تحریر: سید روح اللہ رضوی
(ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کی مناسبت سے)
علاقائی اور ملکی سرحدیں در اصل انسانی ایجاد ہیں جو نہ کسی حقیقت کی بنیاد پر استوار ہیں اور نہ ہی ہمیشگی ہیں۔ بلکہ معروضی حالات درحقیقت ان سرحدوں کے تعین کا سبب بنتے ہیں اور حالات کے تبدیل ہونے پر یہ سرحدیں بھی تبدیل ہوجاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ہمیشہ سے نظریاتی اور فکری حدود کو، جغرافیائی حدود پر فوقیت دی ہے۔ کیونکہ نظریاتی و فکری سرحد انسانی تصور کائنات اور واقعیت کی بنیاد پر استوار ہوتی ہیں۔ بقول اقبال: “اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے۔”
برصغیر کی تحریک آزادی میں بھی کئی ایسے واقعات رونما ہوئے کہ مسلمانوں نے اپنے علاقائی مفادات پر اس وقت دنیا کے افق پر موجود اسلام کے اہم مرکز یعنی خلافت عثمانیہ کے مفادات کو فوقیت دی۔
مسئلہ فلسطین پر بانیان پاکستان اور پاکستانی عوام کا موقف بھی اسی نظریاتی و فکری سرحدوں کی بنیاد پر ہی قائم ہے، 23 مارچ 1940ء کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں “قراردادِ پاکستان” کے ساتھ ساتھ “قراردادِ فلسطین” منظور کی گئی۔ اگر ان نظریاتی اور فکری سرحدوں کو نظر انداز کردیا جائے تو شناختی کارڈ نمبر کے علاوہ کوئی اور شناخت نہیں جس کی وجہ سے پاکستانی و غیر پاکستانی کا فرق کیا جاسکے۔ اور یہ شناخت بھی قابل تبدیل بلکہ بہ یک وقت دو ملکوں میں رکھی جاسکتی ہے۔ پس جو چیز ثابت اور غیر قابل تبدیل ہے وہ ہمارا عقیدتی رشتہ اور نظریاتی و فکری سرحد ہے۔
یہی وجہ تھی کہ ۱۹۷۹ء میں ایران میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد نا صرف شیعہ بلکہ اہل سنت عمائدین نے بھی اپنی محبتوں اور خوشی کا اظہار کیا، اقبال کی تعبیر کے مطابق تہران کو عالم اسلام اور مشرق کے جنیوا کے طور پر دیکھا گیا، امام خمینی کو امت اسلامی کا سربراہ سمجھا گیا جیسا کہ کوثر نیازی صاحب کے اس شعر میں بھی بیان ہوا؛ “حال ما در ہجر رہبر کمتر از یعقوب نیست، او پسر گم کردہ بود و ما پدر گم کردہ ایم” اور اسی بنیاد پر 1986ء میں ایرانی صدر اور آج کے رہبر انقلاب آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا پاکستان میں تاریخی استقبال ہوا، جس کا سبب انکا اسلامی علمی اور انقلابی چہرہ اور نمائندہ امام خمینی ہونا تھا۔
موجودہ حالات میں ایران کی اہمیت اور زیادہ واضح ہوگئی ہے۔ عالم اسلام کے سب سے اہم مسئلے یعنی مسئلہ فلسطین پر تمام اسلامی ممالک کی محدود حمایت یا خاموشی یا افسوسناک اسرائیلی حمایت کے وقت یہ واحد ایران ہے جو پوری قدرت و طاقت کے ساتھ فلسطینیوں کی حمایت اور غاصب صہیونی ریاست کے مقابل کھڑا ہے۔ جس کا اظہار بارہا فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں؛ حماس اور جہاد اسلامی کے رہنما کرچکے ہیں اور فلسطینی سرحد سے جڑے ممالک میں نہ جانے کتنے ہی ایرانی جنرلز اسرائیلی مفادات کو نقصان پہنچانے اور فلسطین کی آزادی کے راستے میں شہید کردئے گئے۔ لیکن تقریباً ۵۰ سال سے زیادہ عرصہ عالمی اقتصادی پابندیوں اور میڈیا ٹرائل کے باوجود ایران فلسطین کاز پر اپنے موقف سے پیچھے نہ ہٹا اور پھر عرصہ دراز کے بعد غاصب صہیونی ریاست کے خلاف عظیم کاروائی سے ایران کی اسلامی انقلابی تاریخ میں چار چاند لگ گئے ہیں، امت مسلمہ کی امیدوں کا محور آج یہی ایران ہے۔
ایران کے موجودہ جمہوری صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی جو اپنے اسلامی و انقلابی موقف میں شفافیت رکھتے ہیں، فلسطین کے مسئلہ پر انکی حکومت نے جس طرح عالمی سطح پر سفارت کاری کی وہ قابل تعریف ہے اور ان تمام سیاسی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ علوم قرآن و حدیث کے ماہر اور مفسر قرآن کی حیثیتت رکھتے ہیں اور اس سے قبل ایران کی عدلیہ کے سربراہ اور اس سے پہلے امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ مطہر کے متولی رہ چکے ہیں، وہ بروز پیر 22 اپریل 2024 پاکستان کے سرکاری دورے پر آرہے ہیں۔ افسوس کے ساتھ جب بھی پاکستان کے تعلقات برادر اسلامی ملک سے بہتری کی جانب بڑھنے لگتے ہیں تو ہمارے اداروں میں موجود پاکستان کو نقصان پہنچانے والی کالی بھیڑیں کچھ ایسے واقعات رونما کروادیتی ہیں کہ یہ تعلقات نہ صرف اچھے ہوں ؓبلکہ معمول پر بھی نہ آسکیں۔
ایسے میں پاکستانی قوم، بالخصوص فلسطین کے مسئلہ پر واضح موقف رکھنے والی مذہبی سیاسی تنظیمی، امریکی مفادات سے وابستگی کے مخالف اور پاکستان کی حقیقی آزادی اور استقلال کی بات کرنے والی سیاسی تنظیموں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ دنیا میں آزادی و حریت، اسلامی مزاحمت اور مسئلہ فلسطین کے علمبردار برادر اسلامی ملک ایران کے جمہوری صدر کا بھرپور استقبال کرکے دنیا کو یہ پیغام دیں کہ:
ایرانیوں سے رشتہ کیا – لا الہ الا اللہ
فلسطینیوں سے رشتہ کیا – لا الہ الا اللہ
#سید_محمد_روح_اللہ_رضوی
12 شوال 1445