ثاقب بھائی! ایک دانشور، ایک ملی رہنما
برادرِ محترم ثاقب اکبر مرحوم ہماری ملی و قومی زندگی ایک ایسے بہترین عالمِ، دانشور، محقق، قرآن فہم، محبِ اہل بیتؑ، پیروئے خط امام تھے، جن کی ساری زندگی متعلم و معلم کے طور پہ گزری، آپ مولائے متقیان امیرالمومنینؑ کے اس فرمان کا عملی نمونہ تھے کہ ” معلم بنو یا طالب علم “۔ فروری ۲۰۲۳ ہم سے جدا ہونے والا شخص اتنےعظیم کام کرگیا ہے کہ ملت اسلامیہ پاکستان ہمیشہ مرہون منت رہے گی۔ علمی کاموں میں تفسیر نمونہ جیسے عظیم پراجیکٹ کا آغازسے لیکر قرآان شناسی وقرآان فہمی کے لئے بیسیوں تصانیف، ادارہ البصیرہ کے بانی اور اس کے تلے بہت سے علمی و اخلاقی و فقہی و سماجی موضوعات پہ تحقیق و تصانیف، ملی و سماجی میدان میں نوجوان طلبا امامیہ کی تنظیم کے بانی اراکین میں شمار، انقلابِ اسلامی کے سچے اور متحرک کارکن و معتقد، اتحاد بین المسلمین کے حقیقی داعی و مبلغ اور ملی یک جہتی کونسل جیسے موثر پلیٹ فارم کے ذریعے اسلامیان پاکستان کے اتحاد اور بین المسالک اور بین الادیان یک جہتی و رواداری کے داعی تھے۔ برادر ثاقب نقوی سے ایک دیرینہ الفت و محبت کا رشتہ تعلق قائم رہا، ان کی پہلی برسی کے موقع پہ ان سے وابستہ یادوں کو احاطہ تحریر میں لانے کی سعی کی ہے، اور جب لکھنے بیٹھا تو یادوں کے دریچے وا ہوتے ہی اندازہ ہوا کہ شاید ایک نشست میں یہ یادیں تحریر نہ ہوسکیں، سو پہلا حصہ احاطہ تحریر میں لایا ہوِں، انشا اللہ وقت کے ساتھ ساتھ مزید یادیں آپ کی نذر ہونگیں۔
ثاقب بھائی کو ہم سے جُدا ہوئے ایک سال ہونے کوآیا، کئی بار ارادہ کیا کہ ثاقب بھائی پہ کچھ تحریر کروں، سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ بات کہاں سے شروع کروں۔
پہلی بار آپ سے جب ملا اُس پہلےسے صرف کا غائبانہ تذکرہ سُنا ہوا تھا، میں نےآپ کو ۱۲ اپریل ۱۹۷۹ میں شیعہ کنونشن بمقام بھکر پہ پُرجوش انداز میں کنونشن کی روح رواں بنے تو دیکھا مگر یہ نہ معلوم تھا کہ آئی ایس او کا صدر ثاقب بھائی ہیں، اور ان کے ساتھ دھان پان سی شخصیت ڈاکٹر محمد علی نقوی ہیں۔
جب برادر بزرگ شبیر بخاری صاحب مرکزی صدر تھے میں آئی ایس او ملتان ڈویژن میں کبیروالا یونٹ کا ممبر بعد ازاں جنرل سیکرٹری اور پھربرادر محترم امتیاز علی رضوی کی مرکزی صدارت کے دوران آئی ایس او کبیروالا کا یونٹ صدررہا، ، بخاری صاحب کا دورِ صدارت آئی ایس او کی تاریخ میں بڑا متحرک اور ہنگامہ خیز بھی تھا، ملتان میں آئی ایس او کے متوازی ایک تنظیم بنانے کی کوشش کی گئی جو کچھ عرصہ بعد اپنی موت آپ مرگئی، اسی طرح لاہور کے ایک اجتماع میں امر بالمعروف کرنے پہ برادر ثاقب نقوی پہ تنظیم میں پابندی عائد کردی گئی،حالاں کہ اس وقت کے قائد مرحوم علامہ مفتی جعفر حسین نقوی اعلی اللہ مقامہ نے ثاقب بھائی کے عمل کی تائیدو تحسین بھی فرمائی تھی، مگر اکثریتی تنظیمی فیصلے پہ سرِ تسلیم خم تھا۔
ملتان ڈویژن میں آئی ایس او کے بہت سے سینیئر افراد جن میں برادرِ بزرگ فرحت عباس نقوی، برادر محمد ناصر، برادر ڈاکٹر افتخار اعوان جیسے احباب پھر بھی محترم ثاقب نقوی سے دیرینہ تعلق کو برقرار رکھے ہوئے رشتہ الفت و مُحبت کو جاوداں کئے ہوئے تھے، مرکزی کنونشن کی آخری نشست کے بعد علامہ اقبال ٹاون لاہور میں برادر ثاقب نقوی سے ملاقات ایک اہم ترین سرگرمی ہوتی تھی۔
اور یہ ملاقاتیں ایک ایسی علم و آگہی کی نشستیں ہوتی تھیں، مکتب اہل بیتؑ تشیع کی حقانیت،اُس وقت تازہ تازہ برپا ہوئے انقلاب اسلامی ایران کے مختلف پہلووں پہ گفتگو، رہبرِ کبیر اما م خمینی کے افکار پہ گفتگو، تنظیمی امور سے آگہی ،
ثاقب بھائی کیونکہ ہمہ جہت شخصیت تھے ، انکے ساتھ گزرتا وقت طویل بھی مختصر محسوس ہوتا تھا
وہ خوش کلام ایسا تھا کہ اس کا پاس ہونا
طویل رہنا بھی لگتا تھا مختصر ہونا
ثاقب بھائی اپنی تعلیم اور پروفیشن کے اعتبار سے آرکیٹیکٹ انجنیئر تھے اور اس زمانے کی پاکستان کی سب سے اعلیٰ پائے کی انجنیئرنگ یونیورسٹی ، یو ای ٹی لاہور سے فارغ التحصیل تھے۔
مگر علوم دینی و سماجی اور سیاسی و فرہنگی دانش کے حوالے سے تنظیمی افراد میں اپنی مثال آپ تھے، اور اسی لئے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے صرف رفیقِ کار ہی نہیں بلکہ آپ ہمدم و رازدار و غم گُسار بھی تھے۔
محسنِ ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی اعلی اللہ مقامہ سے آپ کا تعلق ایک ایسے ہونہار علمی فرزند کا تھا کہ قبلہ مولانا صاحب کے حکم کی تعمیل میں ثاقب بھائی نے سی ڈی اے اسلام آباد کی اعلی منصب کی جاب کو چھوڑ کر کچھ عرصہ جامعة المنتظر لاہور کے انتظامی اُمور کے انچارج ذمہ داریاں سنبھال لیں۔
اسی دوران آ پ نے مولانا صفدر حسین نجفی اعلی مقامہ کے زیرِ نظر ایک ایسے عظیم کام کا آغاز کیا جو آنے والے وقتوں میں ملت اسلامیہ پاکستان کو مکتبِ اہل بیت تشیع کی قرٓن فہمی و قرآن دوستی کا تعارف کرائے گا
تفسیر نمونہ کے اردو ترجمے کے تصحیح مواد سے لیکر کتابت وکمپوزنگ، تدوین و طباعت کا آغاز ثاقب بھائی کی نگرانی میں ہی شروع ہوا، اولیں دس جلدیں اسی انتظام کاری میں طبع ہوئیں اور پھر یہ کام مصباح القرآن ٹرسٹ کی صورت میں منتج ہوا، جس میں محترم ثاقب بھائی کا ان پُٹ ہمیشہ موجود رہا۔
ثاقب بھائی کی نظریاتی و علمی زندگی پہ دو واقعات نے بہت مثبت اور گہرا اثر ڈالا ایک تو امام خمینی رح کی قیادت میں انقلاب اسلامی کا برپا ہونا اور دوسرا ملت تشیع پاکستان کو علامہ سید عارف حسین الحسینی کی قیادت کا نصیب ہونا۔
علامہ سید عارف حسین الحسینی کی قیادت کو ثاقب بھائی نے ایسے قبول و اتباع کی کہ جیسے ایک مُدت سے اسی گوہر مقصود کے متلاشی تھے
انقلابِ اسلامی کی کامیابی کے بعد ثاقب بھائی سے ملاقاتوں میں حکومت اسلامی کے خدو خال اورنظریہ ولایت فقیہ کی عملی جہتوں پہ بہت گفتگو رہی، مجھے یہ لکھنے میں کوئی باق نہیں کہ اسی کی دہائی میں پاکستان میں علمائے کرام جن میں محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی، علامہ مرتضےٰ حسین صدر الفاضل، علامہ آغا سید علی الموسوی کے علاوہ غیر علما شخصیات میں فقط شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اور محترم ثاقب بھائی ہی تھے جنہوں نے نظریہ ولایت فقیہ کو قبول کرتے ملت تشیع پاکستان کے نوجوانوں کو انقلاب ِ اسلامی، رہبر امام خمینی مدظلہ کی شخصیت اور نظریہ ولایت فقیہہ کو متعارف کروایا۔
شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کی قیادت نے ثاقب بھائی کی سیاسی و سماجی صلاحیتوں کا خوبصورت مظہر نمایاں کیا، ایک تنظیمی فرد جو پیشے کے لحاظ سے آرکیٹکٹ انجنیئر اور علم و دانش میںاپنی مثال آپ تھا، اب ثاقب بھائی کی قائدانہ صلاحیتیں اتباع قائد علامہ عارف حسین الحسینی میں متحرک و فعال ہوچکی تھیں۔
دو دیو سماج جوکہ ملی و تنظیمی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا تھا، تفسیر نمونہ پہ کام بھی یہیں پہ منتقل کردیا گیا، علامہ شبیر بخاری کی مسئولیت میں مکتبة الرضا قائم ہوا۔
ثاقب بھائی دن بھر تحریکی تنظیمی کاموں میں مصروف رہتے تھے،ساتھ ساتھ اردو بازار میں واقع ہفت روزہ رضاکار کے دفتر میں کچھ نہ کچھ کام کرتے اور شام ہوتے ہی تفسیر نمونہ پہ کام شروع کردیتے جوکہ رات گئے تک جاری رہتا، کھانا پینا اور آرام کرنا ثانوی حیثیت اختیار کرچکا تھا
چھ جولائی ۱۹۸۵ کو قائد شہید نے اس وقت کےآمر مطلق ضیا کو قائد مرحوم علامہ مفتی جعفر حسین کے گئے معاہدے کی یاددہانی اور ملت جعفریہ کے حقوق کی بحالی کے لئے لاہور، کراچی ،کوئٹہ اور پشاور میں دھرنوں کا اعلان کردیا، یہ وہ زمانہ تھا بھٹو حکومت ختم ہونے کے بعد سے لیکر اب تک ملک بھر عوامی اجتماع کا انعقاد کرنابغاوت کے مترادف سمجھا جاتا تھا، مگر قائد کے اعلان کے بعد ملک بھر میں ایک جوش و خروش کی لہر دوڑ گئی اور ثاقب بھائی نے شہید ڈاکٹر صاحب کے ساتھ مل کر پنجاب بھر کے طول و عرض میں دورے کرکے عوامی موبلائزیشن کمپیئن کو منظم کیا۔
چھ جولائی ۱۹۸۵ کا دن بہت عجیب تھا کہ جب لوئر مال روڈ سے لیکر اسمبلی ہال تک مال روڈ پرپولیس ہی پولیس تھی ، مگر پھر بھی مال روڈ کے نواحی راستوں جن میں لارنس روڈ، ہال روڈ، بیڈن روڈ،میکلو روڈ، اے جی آفس روڈ پہ مومنین کی ٹولیاں اکٹھی ہوتی جارہی تھیں، منصوبے کے مطابق ٹھیک گیارہ بجے دن شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی، ثاقب بھائی، برادر مقصود گل ، برادر سید صفدر رضا بخاری،شہزادہ علی ذوالقرنین، شفقت علی رضا، آغا زاہد علی صادق نےمسجد شہدا ریگل چوک کے سامنے تکبیر کا نعرہ بلند کرتے ہوئے مال روڈ بلاک کردی، بس اس کے ساتھ ہی نواحی راستوں پہ موجود مومنین کا جم غفیر یا علی ؑ کے نعرے بلند کرتے ہوئے مال روڈ پہ اکٹھا ہوچکا، تقریباً پانچ ہزار سے زائد افراد اکٹھے ہوچکے تھے
ثاقب بھائی میگا فون ہاتھ میں پکڑے بلند آواز میں نعرے لگاتے ہوئے لوگوں کے خون کو گرمارہے تھے ، ضیائی مارشل کے جبروت کے دوران لاہور کی تاریخ میں پہلی بار مال روڈ پہ مسجد شہدا کے سامنے عوامی احتجاج شروع ہوچکا تھا، اس اجتماع کو شہید ڈاکٹر محمد علی قیادت میں ثاقب بھائی اور برادر مقصود گل اپنے ولولہ خیز خطابات سےگرمارہے تھے، لاہور کی فضا مرگ بر ضیا کے نعروں سے گونج رہی تھی
عصر کے وقت اطلاع ملی کہ کوئٹہ کے عوامی اجتماع پہ ضیائی گماشتوں کی فائرنگ سے بیسیوں مومنین شہید ہوچکے ہیں، بس اب یہ لاہور کا اجتماع بھی احتجاجی دھرنا میں تبدیل ہوگیا، جوکہ مغرب تک جاری رہا اور پھر قائد محترم علامہ عارف حسین الحسینی کے حکم پراس اجتماع کو کربلائے گامے شاہ منتقل کردیا، اور خود قائد محترم پشاور کا دھرنا مکمل کرکے لاہور پہنچ گئے۔
قائد محترم علامہ عارف حسین الحسینی نے لاہور پہنچتے ہی کربلائے گامے شاہ میں موجود مومنین سے ملاقات کی اور تحریک کے علمائے کرام کی ایک میٹنگ جامعة المنتظر میں اسی شب ہوئی جس میں فیصلہ کیا گیا کہ شہدا کوئٹہ کا خون رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا، اور پاکستان بھر میں ضیائی مارشلائی حکومت کی ظلم و بربریت کے خلاف شہداکی مجالسِ ترحیم بطور احتجاجی اجتماع کے برپا ہونگیں۔
برادر ثاقب نقوی نے برادر مقصودِ گل کے ہمراہ ہفت روزہ رضاکار کا ایک ایڈیشن ہنگامی طور پہ طباعت اور شب کو کے لئے تیار کرنا شروع کردیا ، میرے لئے حیران کن لمحے تھے جب ان دونوں برادران کے قلم جذبہ سے بھرپور تحریریں لکھ کر کاتب کے حوالے کررہے تھے،، اور ٹیلی فون پہ برادر علی رضا نقوی انجنیئر سے حقیقت حال معلوم کرکے حقائق احاطہ تحریر میں لائے جارے تھےاور برادر ثاقب نقوی منظوم بھی ساتھ لکھ رہے تھے، ایک سے دوگھنٹے میں پرچے کا مواد تیار ہوگیا، سانحہ کوئٹہ کے شہدا اور زخمیوں کی تصاویر بذریعہ فیکس منگوائی گئیں۔
راتوں رات یہ اخبار چھاپ کر ملک بھر میں بذریعہ کارگو ارسال کردیا گیا۔
لاہور میں شہدائے کوئٹہ کی مجلس ترحیم کربلائے گامے شاہ میں احتجاجی اجتماع کی صورت میں ہوئی جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اس احتجاجی اجتماع کے روح رواں برادر ثاقب نقوی ہی تھے۔
اس موقع پہ برادر ثاقب نقوی نے شیعان لاہور کا ایک تعزیتی وفد لاہور سے بذریعہ ٹرین کوئٹہ جانے کا اعلان کیا، اور آپ کی سرکردگی میں یہ وفد لاہور سے بذریعہ ٹرین ہوا اور راستے میں آپ سمیت سارا وفد کوئٹہ پہنچنے سے پہلے ہی گرفتار کرلیا جاتا ہے، اس تعزیتی وفد میں ثاقب بھائی کے والدِ گرامی محترم سید اکبر حسین بھی شامل تھے۔
اس زمانے میں رابطہ کاری کے لئے موبائیل جیسی سہولت بھی مہیا نہ تھی، ثاقب بھائی اور ان کے وفد کی گرفتاری کا پتہ چل گیا تھا، مگر آپ لوگ کس حال میں کہاں ہیں ْ کچھ معلوم نہ ہورہا تھا، ڈاکٹر محمد علی نقوی سمیت تمام تنظیمی احباب شدید پریشان تھے ۔
کہ ایک روز مغرب کے وقت دفتر تحریک واقع دیو سماج روڈ کہ فون کی گھنٹی بجی دوسری طرف ثاقب بھائی کی آواز تھی کہ وہ لاہور کے ملتان روڈ پہ واقع سوڈیوال کوارٹرز کے قرین ایک ہوٹل پہ موجود ہیں اور بلوچستان پولیس نے انہیں پنجاب پولیس کے حوالے کردیا تھا، جوکہ ڈرتے ہوئے ثاقب بھائی سمیت تمام تعزیتی وفد کو ایک ہوٹل کو ایک ہوٹل پہ چھوڑ کر فرار ہوگئی۔
شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی رح نے ثاقب بھائی کی کرشماتی اور ولولہ خیز متحرک شخصیت کو شناخت کرلیا تھا، اور آپ کے لئے ثاقب بھائی پہ تنظیمی پابندیاں بہت ناگوار تھیں ۔ سو قائد محترم علامہ عارف حسین الحسینی کے حکم پہ تمام تنظیموں میں ثاقب بھائی پہ پابندیاں ختم کردی گئیں۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔