سیاست امیرالمؤمنینؑ کی نگاہ میں
تحریر: عادل مختار
حضرت علی علیہ السلام کے دور خلافت و حکومت کے بیشمار خصویات اسلامی اور انسانی تاریخ میں موجود ہیں۔ جس میں سب سے ممتاز و معروف خصوصیت عدل و انصاف کی فراہمی ہے۔ آپ ؑ کے ظاہری خلافت کا عرصہ اگرچہ صرف چار سال آٹھ ماہ نو دن پر محیط ہے لیکن اس قلیل عرصے میں امیر المومنین ؑ جس طرح نظام ِ حکومت چلایا وہ بے مثل و بے نظیر ہے۔ عادل مختار اعلیٰ پائے کے نوجوان شاعر اور تحریر نگار ہیں، نثری اور شعری ادب میں آپ کمال کے لکھاری ہیں، اس کے علاوہ سماجی و معاشرتی موضوعات پہ بھی لکھتے رہتے ہیں، سیاست امیرالمومنین حضرت علی ؑ کی نگاہ میں قارئین کے ذوقِ مطالعہ کی نذر (سید انجم رضا)
آج سے کچھ عرصہ قبل ایک نعرہ لگایا گیا “سیاستِ فلاں زندہ باد” اور اس کے جواب میں علماء، خطباء اور موجودہ مفکرّین کے بس میں جو تھا وہ انھوں نے فرمایا مگر سیاستِ امیرالمؤمنین علیہ السلام کی بنیاد ، ساخت اور حُسن تو درکنار اس حوالے سے خود امیر المؤمنین علیہ السلام کے فضائل اور مصائب کو اس انداز سے بیان کیا گیا کہ ایسا معلوم ہوا جیسے امیرالمؤمنین علیہ السلام نے نہ کبھی سیاست، حکومت اور ریاست کے حوالے سے اظہار فرمایا اور نہ ہی اپنے سیاسی مثالیوں کو اپنی حکومت میں تحقّق بخشا۔ اس سے تأثر یہ ملا کہ جیسے علی ع ایسے امام کا سیاست سے کیا تعلق؟ یہ مغالطہ کچھ قیامت سے کم نہیں کہ ایک طرف امیرالمؤمنین ع کو امامِ عادل کہا اور مانا جاۓ اور دوسری طرف یہ تأثر دیا جاۓ کہ علی ابن ابی طالب ع کا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں جبکہ عدالتِ اجتماعی، ریاست اور سیاست لازم و ملزوم ہیں۔ سیاست ایک ایسا عمل ہے کہ جس میں معاشرے کے اندر فیصلہ سازی، طاقت کی تقسیم اور وسائل کی تقسیم شامل ہے۔ یہ فطری طور پر طاقت اور اختیار کے استعمال سے منسلک ہے، اور اس میں مختلف گروہوں کی ضروریات اور مفادات کو متوازن کرنا اور ان کے بنیادی حقوق کی حفاظت شامل ہے۔ ایک معاشرے میں مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے سیاسی سرگرمی میں اختلاف اور تعاون دونوں شامل ہو سکتے ہیں۔ سیاست عوامی میدان میں ہوتی ہے جہاں لوگ عوامی گفتگو میں حصہ لے سکتے ہیں اور فیصلہ سازی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
مذکورہ تأثر کے برعکس ریاست اور سیاست کے تعلق پر امیرالمؤمنین ع کی جانے کتنی احادیث موجود ہیں کہ جن سے واضح ہوتا ہے کہ مثالی ریاست کی بنیاد مثالی سیاست ہے۔ میں یہاں ابن ابی الحدید اور غررالحکم کی کچھ احادیث بحوالہ تجلّیاتِ حکمت ص ۲۱۰، ۲۱۱ سے پیش کر رہا ہوں:
من ساس نفسہ بالصبر علی جھل الناس صلح أن یکون سائساً
(ابن ابی الحدید، ۲۰: ۳۱۸)
“جو لوگوں کی جہالت کے مقابل اپنے آپ کو صبر کی عادت ڈال لیتا ہے اس کے اندر سیاسی بننے کی صلاحیت ہوتی ہے “
من قصّر عن السّیاسة صغر عن الرّیاسة
( غررالحکم، ۲: ۱۹۷)
“جو سیاسی امور میں کوتاہی کرتا ہے وہ ریاست کے سامنے کوتاہ ہو جاتا ہے “
آفة الزّعماء ضعف السّیاسة
(غررالحکم، ۱: ۲۷۳)
“(حکومت کے ) نگرانوں کی آفت سیاسی کمزوری ہے۔ “
حُسن السّیاسة یستدیم الرّیاسة
(غررالحکم، ۱: ۳۳۸)
“سیاست کا حُسن، ریاست کو دوام بخشتا ہے “
فضیلة الرّیاسة حُسن السّیاسة
(غررالحکم، ۲: ۵۹)
“ریاست کی فضیلت حُسنِ سیاست ہے”
من حسُنت سیاسته دامت ریاسته
( غررالحکم ۲: ۱۹۲)
“جس کی سیاست اچھی ہوگی اس کی ریاست باقی رہے گی “
اور خالصتاً حکومت کے حوالے سے یہ دو احادیث ملاحظہ ہوں:
انّ الزّھد فی ولایة الظّالم بقدر الرّغبة فی ولایة العدل۔
( غررالحکم، ا:۲۱۷)
“ظالم حکومت سے دوری اتنی ہی ہوگی جتنی انسان کو عادل حکومت کے قیام میں رغبت ہو گی”
شرّ الولاة من یخافہ البریّ
( غررالحکم، ۱: ۴۰۳)
“بدترین حاکم وہ ہوتا ہے جس سے بے گناہ خوف زدہ ہو”
ہمارے یہاں جہاں اور بہت سے پیراڈوکسز ہیں وہاں یہ پیراڈاکس بھی بالعموم موجود ہے کہ بعض دفعہ ہم ایک اسلامی جمہوری ملک میں رہتے ہوۓ خود کو توحیدی، قرآنی اور اسلامی تو کہلانا پسند کرتے ہیں مگر سیاسی کہلانا نامناسب جانتے ہیں اور بعض گروہوں میں اور خاص مواقع پر ہم خود کو سیاسی سمجھ رہے ہوتے ہیں مگر روحِ سیاست سے خالی ہوتے ہیں۔ سیاست اور مذہب دونوں کو جس انداز سے یہاں پہچانا اور پہچنوایا گیا ہے اس کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ ہم اسی قسم کے پیراڈاکسز میں زندہ رہنے کے گمان میں مبتلا رہیں ۔اگر کبھی کوئی تنگ نظر خطیب منبر پر بیٹھ کے سیاست ، سیاسی شعور کو مطعون کرے یا کہیں اور سیاست کی اضافت کسی جابر کے ساتھ استعمال کی جاۓ تو ہم ہر دو صورت میں تحقیق کی زحمت نہ کریں اور سہولت پسندی کا ثبوت دیتے ہوۓ یہی مان لیں کہ ہاں عزاداری ، ذکرِ محمدو آلِ محمد ع اور خود محمد و آلِ محمد ع کا سیاست سے کیا تعلق۔ سیاستِ الہی ، بھلا یہ بھی کوئی شے ہے؟
ایسا شاید آثارِ اہلبیت ع سے ناواقفیت کی بنیاد پر ہے یا حقیقتِ سیاست اور روحِ سیاست سے ناآشنائی کے سبب سے ہے۔
سیاست کی روح ایک ایسی متحرک قوت ہے جو معاشرے کو اس کا مقصد، اس کی اقدار اور اس کی سمت دیتی ہے۔ جب کوئی سیاسی معاشرہ اپنی روح سے غافل رہتا ہے تو وہ زندگی سے بھرپور معاشرہ نہیں بلکہ فقط ایک خول بن کر رہ جاتا ہے۔ آج اگر ہم بطورِ معاشرہ اپنے مقصد کا تعیّن کرنا چاہیں تو کیا کر سکتے ہیں؟ شاید نہیں اور اس کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ ہم میں سیاسی شعور کا فقدان ہے۔
ہمارے یہاں دیگر تصورات کی طرح عملی سیاست بھی اپنا مفہوم کھو رہی ہے۔ سیاستِ عملی ہماری سماجی فطرت، زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اجتماعی عمل کی صلاحیت، اور تہذیبی خوبیوں کی اہمیت پر مبنی ہے۔ سیاسی عمل میں شامل ہو کر، ہم ایک منصفانہ، اور پائیدار دنیا میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔
جو معاشرہ اپنی روح سے بے خبر ہو وہ بامعنی سیاست سے محروم ہو جاتا ہے ۔ اس سے بچنے کے لیے، ایک سیاسی معاشرے کو اپنی روح کو دریافت کرنے کے لیے فلسفیانہ بنیاد پر تحقیقات میں مشغول ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے ان بنیادی اصولوں کو تلاش کرنا چاہیے جو ایک منصفانہ اور مساوی معاشرے کی بنیاد رکھتے ہیں۔اور ایسے اصول کیسے ممکن ہے ہمیں امامِ عادل ع کے کلام اور کردار میں نہ ملیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ نہج البلاغہ اور دیگر آثارِ امیر المؤمنین ع کی مدح میں مضمون آفرینی کے ساتھ ساتھ ان کا دقّت سے مطالعہ کیا جاۓ اور معاشرت ، ثقافت، تہذیب، تمدّن ، ریاست اور سیاست کی روح کو انھی کی بنیاد پر سمجھا جاۓ۔