شہید راہِ خدا سید عابد حسین نقوی البخاری
تحریر: سید یاور عباس بخاری
ان قتل الحسین حرارۃ فی قلوب المومنین لا تبرد ابداً
سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت نے اہل ایمان کے دلوں میں اک شعلہ پھونک دیا ہے جو کبھی ٹھنڈا نہیں ہوگا
بانی اسلام ﷺ نے فرمایا تھا کہ میرے حسین ؑہدایت کے چراغ اور سفینہ نجات ہیں
روز عاشور 61 ہجری نے حق و باطل کا فیصلہ کر دیا اور اب تاقیامت امام حسین علیہ السلام حق و باطل کی پہچان کے لیے کسوٹی ہیں
تا قیامت قطع استبداد کرد
موج خونِ او چمن ایجاد کرد
تاریخ کے بکھرے ہوئے اوراق گواہ ہیں کہ باطل نے ہر قدم پر حق کو دبانے کی سرتوڑ کوشش کی لیکن ناکام رہا
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی
اہل باطل کی یہ کوششیں آج بھی جاری ہیں مگر اہلِ حق کے مزاج کی سرفرازی باطل کو سرنگوں کیے ہوئے ہے
ہاں باطل کو رسواء کرنے کی خاطر راہیان حق گاہے بگاہے اپنے لہو سے چہرہ حق پر غازہ گری کرتے رہے ہیں کہ یہی تقاضہ مسلمانی ہے۔
یہ شہادت گہہ اُلفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
یہ تذکرہ بھی ایسے شہدائے اسلام کا ہے جو اپنے عمل سے راہ کربلا کے راہی بنے، جنہوں نے گفتار سے پہلے کردار پیش کیا یہ دو ایسے شہداء ہیں جو باپ بیٹا تھے
میری مراد ہیں سید عابد حسین نقوی البخاری اور اُن کے جواں سال فرزند سید حیدر عباس بخاری
ان کے یوم شہادت مورخہ 30 جولائی 1997 کی مناسبت سے چند گزارشات اور یادیں ، افرا د ملت کے سامنے پیش کرنا ہیں
شہداء ملت قومی اثاثہ ہیں جنہیں ایک گھر یا ایک خاندان تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ پوری ملت کو ہر موقع پر اپنے شہیدوں اور محسنوں کو یاد رکھنا چاہیے۔
اس وقت ہم پروردگار کا بہت شکر ادا کرتے ہیں جس نے ہمیں اپنے نفس کی معرفت کروائی اور دل کا اندھا نہیں رہنے دیا
پروردگار کا شکر ہے کہ جس نے ہمیں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتی اور شیعان حیدر کرار میں سے کرار دیا نہ کہ دیگر امتوں میں ۔
تمام تعریفیں اس حالق حقیقی کے لئے زیبا ہیں جس نے ہماری روزی اپنے ہاتھ میں رکھی تمام تر حمد اس پروردگار کے لئے جس نے ہمارے عیبوں پر پردہ ڈالا اور ہمیں مخلوق کے درمیان رسوا نہیں کیا۔
ہم پروردگار کا بے انتہا شکر ادا کرتے ہیں کہ اُس نے شہادت جیسی عظیم نعمت کو ہمارے گھر، خاندان اور ملت میں
رکھا۔
طول تاریخ میں دہشت گردی کا فتنہ بہت پرانا ہے۔ سوچتا ہوں کہ اسے کہاں سے شروع کیا جائے۔ ابتدائے آفرینش سے ہی قابیل کے ظلم و ستم سے تاریخ انسانیت و وقائع ابنیاء میں بہت سی مثالیں ہیں۔۔
انبیاء کی اکثریت نے دین حق کی سر بلندی کے پیغام کو پہنچانے کیلئے بہت سے ظلم و ستم برداشت کئے۔
حضرت ابراہیم، حضرت زکریا ، حضرت یحییٰ ،اور دیگر تمام انبیاء کی مثالیں قرآن پاک میں واضح و اشکار ہیں۔ پیغمبر گرامی قدر خود بھی ظلم وستم کا شکار رہے۔ تاریخ کے اس موڑ پر حضرت یاسر اور حضرت سمیہ خاتون پھر حضرت عمار یاسر ،حضرت بلال رضوان اللہ علیہم اجمعین اور دیگر اصحاب باوفا انتہائی بےدردی سے ظلم کا شکار رہے لیکن انہوں نے کلمہ حق یعنی کلمہ توحید بلند رکھا اور اس طرح قافلہ حق ، قافلہ دین آگے بڑھا، بڑھ رہا ہے اور بڑھتا رہے گا۔ جناب رسالتماب صلى الله عليه وسلم کو کچھ سکون اور استحکام نصیب ہوا۔ گرچہ پیغمبر اسلام نے ایک ابدی منشور و دستور اور قیامت تک کے لیے لائحہ عمل فراہم کیا لیکن شیطنت اور کفر راستے کی رکاوٹ بنے رہے۔
تعلیمات پیغمبر کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ منافقت کے روپ میں اسلامی افکار و کردار و اقدار کی دھجیاں بکھیر دی گئیں۔ اقبال کا یہ شعر بمطابق حالات و تاریخ بالکل موزوں تریں معلوم ہوتا ہے۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی
تاریخ کے سفر میں اقبال کا یہ شعر بھی نمایاں ہے
موسیٰ و فرعون دشبیر و یزید
این دو قوت از حیات آمد پدید
رسول خدا کے دور کے بعد دہشت گردی بڑی عجیب و غریب ہے اس داستان ستم گری کو کہاں سے شروع کیا جائے بعد از نبی دختر رسول بہت جلد اس ظاہری دنیا سے جدا ہوگئیں۔
بی بی کا یہ ایک جملہ ہی کافی ہے کہ مجھ پر اتنے ظلم ہوئے کہ اگر دنوں پر ہوتے تو سیاہ راتیں بن جاتے۔
امیر المومنین 25 سال تک تقریباً تنہائی میں رہے اور بظاہر خاموش رہے۔ اپنی کیفیت خود مولا امیر المومنین علیہ السلام نے بیان کی کہ زمانہ اس طرح بے وفا ہو گیا ہے کہ میں کس کو سلام کرتا تو وہ جواب تک نہ دیتا۔
منبر پر خطبہ میں امیر المومنین پر سب وشتم شروع ہو گیا۔ رشید ہجری اور علی کے باوفا ساتھیوں کو چن چن کر شہید کیا گیا جن کی ایک لمبی فہرست ہے حجر بن عدی علیل بین زید ، جناب قنبر اور ابوذر غفاری جیسے اصحاب اور خود حضرت علی علیہ السلام دہشت گردی کا شکار ہوئے ۔
اس کی ایک ہی وجہ تھی کہ یہ لوگ حضرت علی ؑاور خاندان رسول خدا ﷺسے محبت کرتے تھے۔ اس دور میں امام علی علیہ السلام کو ولی امر حق ماننا جرم تھا۔ یہ ناصبی اور تکفیری گروہ اس وقت بھی موجود تھا اور آج بھی ہے ۔ اموی اور عباس ادوار کا ظلم و ستم مسلمانوں کے رخسار پر تاریخ کا ایک بہت بڑا طمانچہ ہے۔
اب تک 28 بار یا اس سے بھی زیادہ روضہ امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا گیا پھر دوبارہ بنایا گیا۔ جنت البقیع میں آل نبی کے مزاروں کو شہید کر دیا گیا۔ ظلم کی تاریخ بہت بڑی ہے ظالم اور شیطان کے پیروکار بظاہر مسلمان اور اندر سے دشمن اسلام اور تخریب کار حکومتوں کے غلام ہیں۔
یہ ابوجہل کبھی صاحب ایمان بن کر
یہ قل اعوذی کبھی حافظ قرآن بن کر
اور کبھی دینِ محمد کے نگہبان بن کر
حملے اسلام پر کرتے ہیں مسلمان بن کر
گھر بھی آل محمد کا جلا دیتے ہیں
کبھی قرآن کو نیزوں پر چڑھا دیتے ہیں
اسلام کی تاریخ علیحدہ تاریخ ہے اور مسلمانوں کی تاریخ الگ ہے۔ اسلام کے سفر میں شہدا ہیں ۔ صدیقین صالحین ہیں اور مسلمانوں کے سفر میں ناصبی اور تکفیری گروہ ہیں ۔ جگہ جگہ آل محمد صلى الله عليه و آلہ وسلم کے قتل کر نیوالے ان کے مقدس مزارات کو نقصان
پہنچانے والے موجود ہیں۔
شہدا جو ہر دور میں امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا دم بھرتے رہتے ۔ اس جرم میں مصائب کا شکار ہوئے اور شہادت جیسے
عظیم مرتبہ پر فائز ہوئے۔
شہید سید عابد حسین نقوی البخاری میں وہ تمام تر محاسن بدرجہ اولیٰ موجود تھے۔ جو معاشرہ کے کسی بھی اچھے انسان میں موجود ہونے چاہیں۔ اُن کے فرزند سید حیدر عباس بخاری کے بارے میں ایک تعزیت گزار یوں گویا ہوا کہ دشمن بہت مکار ،چالاک اور عیار ہے۔ اُس نے یہ ٹارگٹ لیا ہی اسلئے ہے کہ دس سال بعد آنے والے دوسرے عابد حسین کو بھی شہید کر دیا جائے۔ سید حیدر عباس بخاری بھی اپنے والد کے نقشِ قدم پر چل رہے تھے۔ اُن کی حفاظت اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے۔ تمام دینی امور ذمہ داری سے انجام دیتے تھے۔ میرا یقین ہے کہ والد گرامی قدر کی کوئی نماز بھی قضاء نہیں تھی۔ وہ انفرادی اور اجتماعی اعمال میں بھر پور شرکت کرتے تھے ۔ جلوس عزا اور مجالس میں پورے وفور اور شوق سے شرکت کرتے تھے۔ جہاں پر عالم دین نہ ہوتے یا لیٹ ہوتے وہاں پر نماز ، تقریر اور ذکر اذکار خود ہی بہترین انداز میں کر دیتے تھے۔ نوحہ اور مرثیہ بھی شوق سے پڑھتے جلوس کو ترتیب بھی خود دیتے تھے۔
دشمن اسلام اور دشمن اہل بیت کی طرف سے والد صاحب شہید اور شہید بھائی کی شہادت ٹارگٹ کلنگ کے ساتھ وحشیانہ اور چھپ کر وار کرنے کی بدترین مثال ہے۔
شاہ صاحب قبلہ بہت دلیر اور بے خوف انسان تھے بھائی اس راہ میں اُن کا پیروکار اور پاسبان تھا۔ یہ دونوں شہید میدان عمل کے آدمی تھے یہ خاندان رسالت کے چشم و چراغ تھے۔ یہی لوگ ہیں جنہوں نے خاندان سادات کے افق سے ملت کی نمائندگی اور ترجمانی کی ہے۔
سلام اُن پر جن کے نام ہر زمانے میں
بڑھا دیتے ہیں ٹکڑا سر فروشی کے فسانے میں
شاہ صاحب شہید عزاداری امام حسین علیہ السلام کے فروغ اور پاسبانی میں اپنے علاقے کے اہم ترین ستون تھے ۔ مذہبیات کو بہت سے لوگوں کو بہتر جانتے اور سمجھتے تھے دینی بھائی چارے پر عمل پیرا رہنے کی کوشش کرتے تھے۔
انجمن امامیہ ساہیوال قصر بتول کے 35 سال کے قریب صدر اور متولی رھے تحریک جعفریہ ضلع ساہیوال کہ دو دفعہ صدر رہے۔ ایک بار قبلہ مفتی جعفر حسین مرحوم کے زمانے میں اور دوسرے شہید عارف الحسینی صاحب قبلہ کے زمانے میں اپنے دائرہ کار میں تحریک کو منظم انداز میں آرگنائز کیا۔
صلح و صفائی اور امن کے داعی تھے۔ بزم رضا کے ایک دوست ذکر کرتے ہیں کہ ایک دفعہ چک 90 میں عنائت الہی کالونی کے مذہبی گروپس میں جھگڑا اور Tension چل رہی تھی ڈر تھا کہ لڑائی ہو گئی تو 20 سے اوپر کے افراد قتل ہو جائیں گے۔ کہ اس علاقے میں شاہ صاحب اپنے چند ساتھیوں سمیت آگئے اور معاملہ ٹل گیا۔ علاقہ خون ریزی سے محفوظ رہا۔ یہ شاہ صاحب کی حکمت عملی تھی جو بر وقت کام آگئی۔ علاقے بھر کے اکثر علماء گرامی قدر تشیع اور اہل سنت اپنی اپنی نمائندگی کرتے تھے۔ لیکن والد صاحب قبلہ کی بہت عزت و توقیر کرتے تھے۔ اکثر مسائل اور معاملات میں آپ کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ عام طور پر پورا علاقہ فرقہ واریت سے محفوظ ہی رہا۔ یہ شاہ صاحب قبلہ کا عظیم کردار بھی تھا۔ جس کی بناء پر ساہیوال میں دو عظیم ادارون اور مساجد کی تاسیس رکھی گئی ۔ مسجد محمدیہ فرید ٹاؤن ساہیوال اور سفارت سجادیہ طارق بن زیاد کالونی ساہیوال، ساہیوال کے اطراف میں کئی اداروں اور مساجد کے قیام میں آپ کا کردار بہت اہم رہا۔ جن میں چیچہ وطنی ، اوکاڑہ اور عارف والا میں مسائل کے حل کیلئے انتہائی مناسب اور خاطر خواہ کوششیں کی گئیں۔ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ملت کے مسائل کے حل اور فروغ عزاداری ، مساجد و امام بارگاہ کے قیام، اتحاد بین المسلمین اور مختلف دینی و عملی اقدامات مثلاً سیمینارز، پروگرامز، پریس کانفرنس، جلوس ہائے عزاداری اور مجالس کے جگہ جگہ انعقاد میں سید عابد حسین بخاری کا کردار ایک مکمل ، فعال ادارےا سے کبھی بھی کم نہیں رہا۔ ملت کے مسائل اور شہدائے ملت کی قدردانی اور حوصلہ افزائی ہمیشہ آپ کے پیشِ نظر رہی۔
ذاتی کردار کے حوالے سے آپ کا رول بہت نمایاں تھا۔ جس کو ایک سینئر ایڈوکیٹ ہمیں بتاتے ہیں کہ “ہماری بار کے وکلاء میں سید عابد حسین بخاری ایک انتہائی موثر شخصیت تھے۔ دینی مسائل اور بحث و مباحثہ میں عام طور پر قر آن پاک سے حوالہ جات پیش کرتے تھے۔ تاریخ میں اس طرح کی بڑی مثال جناب فضہ سلام اللہ علیہ کی زندگی کے ایک دور کی ہے۔ جب آپ گفتگو بھی قرآن پاک سے فرماتی تھیں۔شہید شاہ صاحب ایک باعمل انسان تھے۔ فقراء اور غریب مومنین کی قانونی معاملات میں بہت مدد کرتے تھے۔ اور عام طور پر بلا معاوضہ ان میں تحمل اور بردباری بہت ہی زیادہ تھی۔ خاص طور پر ضلعی انتظامیہ اور اہل تسنن کے علما کے ساتھ دورانِ مذاکرات ربیع الاول کی تقریبات میں جلوس اور میلاد کے پروگرامز میں حصہ لیتے تھے۔ ربیع الاول کے تمام پروگراموں میں انتظامیہ اور علماء اہل تسنن کی طرف سے ایک تقریب بعنوان ” انعام برائے کار کردگی” بلدیہ ہال ساہیوال میں رکھی گئی ۔ جس میں حضومی طور پر مجھے باحثیت فرزند شہید انعام برائے امن وصولی کیلئے بلایا گیا۔ اور اس میں ہدیہ عقیدت اور خراج تحسین سید عابد حسین بخاری شہید کو پیش کیا گیا۔ اہل سنت کے علماء نے اور اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر نے بہترین انداز میں عید میلاد کیلئے اور شہر میں امن کی کار کردگی میں بہترین کردار پر شاہ صاحب کو خراج پیش کیا۔
آخر میں ہم دُعا گو ہیں کہ پروردگار عالم اسلام کی نکھری ہوئی تصویر ملت تشیع کو اوصاف حمیدہ سے آراستہ فرمائے اور رہبر معظم کی قیادت میں امام زمانہ عجل اللہ الشریف کے ظہور عالی مرتبت کے راستے ہموار فرمائے۔