واقعہ کربلا کی سیکیولر اور لبرل تعبیر قیامِ حسینی ؑ کے اسباب و مقاصد کی روشنی میں!
امام حسینؑ کی تحریک کی آفاقیت و عالمگیریت اور حقانیت یہی ہے کہ ہر حریت پسند تحریک نے جب معاشرے میں ظلم و عدوان کے خلاف جدوجہد کی تو حسینیؑ انداز کو اپنایا کسی بھی غیر مسلم،غیر مذاہب، غیراقوام کا تحریک حسینیؑ سے اثر حاصل کرنا اس بات کا غماز نہیں کہ معاذاللہ حسینی نہضت کسی غیر الٰہی مادی فکر کے زیرِ اثر تھی. اور امام عالی مقامؑ کی تحریک اور اس کے اہداف و مقاصد کو سمجھنے لئے امام عالی مقام کے إرشادات و فرمودات بہت واضح ہیں۔ واقعہ کربلا کے بعد دیگر نو آئمہ کا منہج اور طریق قطعاً الٰہی معاشرتی نظام کی تشکیل تھا جس کی بنا نبی خاتم ص نے رکھی تھی۔ محترم شعیب مذنی دریائے تحریر و تحقیق کے ایسے مایہ ناز شناور ہیں کہ علم وآگہی کے قیمتی موتی چُن کر افادہ عام کے لئے ایک بیش بہا خزانہ عطاکرتے ہیں (سید انجم رضا)
تحریر و تحقیق: شعیب مزنی
حسین ابنِ علیؐ کا شمار ان نفوسِ محترمہ میں ہوتا ہے جن کی لازوال قربانی حق پرستوں کے لیئے عزیمت کی وہ مثال بنی جس کی نظیر چودہ سو سالہ انسانی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے، سینکڑوں برس گذر گئے مگر خونِ حسینؐ کی سرخی افلاکِ عالم کے اُفق سے زائل نہ ہوسکی، حریت کے علمبرداروں کے لیئے امامِ عالی مقام کی مزاحمتی تحریک مانندِ قمر دشتِ ظُلمت میں ہدایت کی سبیل ہے،عصرِ عاشور میں گونجی صدائے حریت آج بھی ایک عالمگیر پیغامِ حق کی صورت میں زندہ ہے، یہ پیغامِ کربلا کی عالمگیر افادیت ہی ہے کہ مظلومینِ جہاں آج بھی دنیا کے مختلف خطوں میں ظلم و استبداد کامردانہ وار سامنا کرتے ہوئے باطل کے سامنے صف آراء ہیں۔
یہ رائے اپنی جگہ صائب ہے کہ امامِ عالی مقام کے پیغام ِ انقلاب کی آفاقیت کو کسی لسانی، قبائلی،قومی، یا مذہبی عصبیت میں محصور کرنا در حقیقت قیامِ حسینی کے عالمگیر پہلو کو خاص زمان و مکان تک محدود کرنے کے مترادف ہے مگر دوسری طرف حسین ابن علیؐ کے قیام کو شخصی آزادی اور لبرل اقدار کا محافظ قرار دینا اور بطورِ استدلال اس میں سیکیولر طرزِ حکمرانی کے لئے جواز تلاش کرنا در اصل تحریکِ کربلا کے بنیادی اسباب و مقاصد سے چشم پوشی کرنے اور انہیں مسخ کرنے کی ایک شعوری کوشش ہے وگرنہ حقیقت یہی ہے کہ امامِ عالی مقام نے از مدینہ تا کربلا اپنے مکتوبات اور خطبات میں جن اسباب کو تحریکِ کربلا کے پسِ پردہ محرکات میں بیان کیا ہے ان عوامل کابراہ راست تعلق ریاستی امور میں دینی انحراف اور حکومتی معاملات میں اسلامی دستور کی خلاف ورزی سے ہے جس سے باآسانی یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ حسین ابن ِ علیؐ ریاست اور دین کو ایک دوسرے سے جدا قرار نہیں دیتے تھے۔
حسین ابن علیؐ کی تحریک کا باضابطہ طور پر آغاز حضرت امیر معاویہ کی وفات کے بعد مدینہ منورہ میں اس وقت ہوا جب حاکمِ مدینہ ولید بن عتبہ نے ان سے یزید کی بیعت کرنے کا مطالبہ کیا جس کے نتیجہ میں امام حسین نے اپنے سوتیلے بھائی محمد ابن حنفیہ سے الوداعی ملاقات میں انہیں مدینہ منورہ سےمکہ مکرمہ کی طرف ہجرت کے فیصلہ سے آگاہ کیا، اپنی تحریک کے دوسرے مرحلہ میں حسین ابن علیؐ نے قیام کی بنیادوں کو مضبوط کرنے اور تحریکی پیغام کو دیگر بلادِ اسلامیہ تک پہنچانے کے لیئے مکہ مکرمہ کو چار ماہ کے لیئے اپنا عارضی مسکن بنایا، اور پھرتیسرے اور آخری مرحلہ میں امامِ عالی مقام نے اپنی تحریک کو ثمر آور بنانے کی غرض سے عراق کا سفر کیا۔
مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کربلا تک مختلف مقامات اور منازل پر قیام کے دوران حسین ابن علی نے اپنی تحریکی جد و جہد کے اہداف و مقاصد کو تحریر و تقریر کے ذریعہ اپنے مکتوبات اور خطبات میں بیان کیا،ان خطوط اور خطبات پر اگر نگاہ ڈالی جائے تو ان کے مندرجات اور اقتباسات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین نے قیام کے مختلف مراحل میں متعدد صحابہ کرام، بزرگانِ بنی ہاشم، حجاز و عراق کے عمائدین، اقرباء و رفقاء، مختلف قبائل کے سرداران ، اور اشراف کوفہ و بصرہ کو نہ صرف قیام کےاغراض سے روشناس کرایا بلکہ ان اسباب اور محرکات کا بھی احاطہ کیا جن کی بناء پر آپ کی تحریک معرضِ وجود میں آئی۔
امام حسین علیہ السلام کےبعض مکتوبات اور خطبات کا تذکرہ۔
مکتوبات اور خطباتِ حسین ابن علیؐ کے باب میں وارد شدہ روایات اور فرمودات میں امام ِ عالی مقام نے حکمرانوں کو اسلامی معاشرے اور نظامِ حکومت میں رونما ہونے والے شرعی و اخلاقی فساد اور حکومتی بگاڑ کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے، ان روایات میں امام حسینؐ کی طرف سے یہ قرار دیا گیا ہے کہ حکمران ریاستی امور اور حکومتی معاملات کے اجراء میں قرآن و سنت کی بالادستی کی آئینی ذمہ داری سے منحرف ہوکر ہوائے نفس کے غلام ہوگئے ہیں، رحمان کی اطاعت کو ترک کرکے شیطان کی اطاعت میں داخل ہوگئے ہیں،حکمران اسلامی تعلیمات اور دینی روایات کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں جس کا نتیجہ کبھی حدودِ اسلامی ا و ر احکام الہٰی کے تعطل کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے تو کبھی سنت پیغمبرسے انحراف اور بدعات سئیہ کے ارتکاب کی صورت میں رونما ہوتا ہے ، ریاستِ اسلامی کا دستور پامال ہوچکا ہے جس کے نتیجہ میں نہ صرف اسلامی شریعت اور قوانین پر عمل نہیں ہورہا بلکہ احکامِ شرع کو مسخ کرتے ہوئے حرامِ خدا کو حلال اور حلالِ خدا کو حرام کیا جارہا ہے۔
حسین ابن علی نے قیام ِ مکہ کے دوران اپنے تحریکی پیغام کی اشاعت کے لیئے جن بلادِ اسلامیہ کے عمائدین اور اکابرین کو خطوط لکھے ان میں اشرافِ بصرہ بھی شامل ہیں، مؤرخ طبری نے ابوعثمان نہدی سے نقل کیا ہے کہ حسین ابن علی نے اپنے قیام کے اسباب و مقاصد بیان کرتے ہوئے اشرافِ بصرہ میں سے مالک بن مسمع ، احنف بن قیس ، منذر بن جارود،مسعود بن عمرو، قیس بن ھیثم ، اور عمرو بن عبيد الله بن معمر کے نام خط لکھا! “وقد بعثت رسولي إليكم بهذا الكتاب، وأنا أدعوكم إلى كتاب الله وسنه نبيه ص، فإن السنة قد أميتت، وإن البدعة قد أحييت، وإن تسمعوا قولي وتطيعوا أمري أهدكم سبيل الرشاد، والسلام عليكم ورحمة الله، امابعد! میں نے اپنا قاصد اس خط کے ساتھ تمہاری طرف بھیج دیا ہے میں تمہیں اللہ کی کتاب اور سنتِ پیغمبر کے احیاء کی طرف دعوت دیتا ہوں بیشک سنتِ نبوی مٹادی گئی ہے اور اس کی جگہ بدعت کو رواج دیا جاچکا ہے ، اگر آپ لوگ میری بات سنوگےاور میری اطاعت کروگے تو میں ہدایت کی راہ کی طرف تمہاری راہنمائی کروں گا، والسلام!۔ (تاریخِ طبری، جلد 5، صفحہ 357، ناشر: دارالتراث بیروت، لبنان)
مذکورہ خط کے ابتدائی حصہ میں امامِ عالی مقام نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد مسئلہ خلافت و حکومت کے باب میں اہلبیتِ رسول کے استحقاق کو بیان کیا جبکہ آخری سطور میں حسین ابن علی ؐ نےمعاشرے میں موجود دینی فساد اور حکومتی بگاڑ کی نشاندہی کرتے ہوئے اہلِ بصرہ کو قرآن وسنت کی بالادستی کی جدوجہد میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے، اشرافِ بصرہ کے نام خط میں امام حسین نے اسلامی معاشرے اور نظامِ مملکت میں موجود جس دینی فساد اور حکومتی بگاڑ کی نشاندہی کی ہے اس کا تعلق انفرادی امور اور اجتماعی معاملات میں ترکِ سنت اور بدعت کے رواج سےہے،جبکہ دیگر مقامات پر اپنے خطبات میں امام حسینؐ نے مذکورہ دینی فساد اور حکومتی بگاڑ کے آئینی ، شرعی، اور اخلاقی پہلؤوں پر روشنی ڈالی ہے۔
مکہ مکرمہ سے کربلا تک دوران سفر حسین ابن علیؐ کی طرف سے دیئے گئے تمام خطبات میں مقامِ بیضہ کے خطبہ کواس لحاظ سے ایک خاص اہمیت حاصل ہے کہ اس خطبے میں امام حسین ؐ نے اسلامی معاشرے اور نظمِ ریاست میں رونما ہونے والے دینی فساد اور حکومتی بگاڑ کی نشاندہی واضح طور پر کی ہے، اس خطبہ میں حسین ابن علیؐ نے حر ابن یزید ریاحی کے لشکر کے سامنے اس زمانہ کے حکومتی بگاڑ اور دینی فساد کو تفصیل سے بیان کیا ہے، مؤرخ طبری کی نقل کردہ روایت میں عقبہ ابن ابی عیزار کہتے ہیں کہ حسین ابن علی نے بیضہ کے مقام پر حر ابن یزید ریاحی کے لشکر کے سامنے خدا کی حمدوثنا کے بیان کے بعد خطبہ دیتے ہوئے کہا! ” أيها الناس، ان رسول الله ص قال: من رأى سلطانا جائرا مستحلا لحرم الله، ناكثا لعهد الله، مخالفا لسنة رسول الله، يعمل في عباد الله بالإثم والعدوان، فلم يغير عليه بفعل ولا قول، كان حقا على الله أن يدخله مدخله ألا وإن هؤلاء قد لزموا طاعة الشيطان، وتركوا طاعة الرحمن، وأظهروا الفساد، وعطلوا الحدود، واستأثروا بالفيء، وأحلوا حرام الله، وحرموا حلاله، اے لوگو! بیشک رسول خدانے فرمایا ہے جو شخص ظالم حکمران کو اس حال میں دیکھے کہ وہ حرامِ الہٰی کو حلال سمجھتا ہو ، خدا کے عہد و پیمان کو توڑتا ہو، سنت پیغمبرکا مخالف ہو، اور بندگانِ خدا کے درمیان ظلم و سرکشی سے پیش آتا ہو، اور پھر عملی یا زبانی طور پر اس حاکم کو نہ روکے تو خدا کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس (خاموشی اختیار کرنے والے) شخص کا حشر بھی اسی حاکم کے ساتھ کرے، آگاہ ہو جاؤکہ ان حکمرانوں نے شیطان کی پیروی کو لازم پکڑ لیا ہے جبکہ رحمان (اللہ) کی اطاعت کو چھوڑ دیا ہےانہوں نے (معاشرے میں) فساد پھیلا رکھا ہے، شرعی حدود کو معطل کردیا ہے، مالِ غنیمت کوغصب کرلیا ہے، اور حرامِ خدا کو حلال اور حلالِ خدا کو حرام کر رکھا ہے”۔ (تاریخِ طبری، جلد 5، صفحہ 403، ناشر: دارالتراث بیروت، لبنان)
خلاصہ کلام!
حسین ابن علیؐ کی طرف سے اشرافِ بصرہ کے نام ارسال کردہ مکتوب ، مقامِ بیضہ اور ذی حسم میں دیئےگئے خطبات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور کے اسلامی معاشرےاور نظامِ مملکت میں جو دینی فساد اور حکومتی بگاڑ رونما ہوا اس کا ذمہ دار امامِ عالی مقام ان مسلم حکمرانوں کو سمجھتے تھے جنہوں نے ریاستی امور اور حکومتی معاملات میں قرآن و سنت کے اسلامی دستور سے انحراف کیا ،اگر امام حسینؐ دین اور ریاست کو جدا سمجھتے تو حکومتی امور اور اجتماعی معاملات میں اسلامی قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کی جدوجہد نہ کرتے؟اگر امام حسینؐ کے قیام کا مطمعِ نظر محض شخصی آزادی اور لبرل اقدار کا تحفظ ہوتا تو امام اپنے خطبات میں بنیادی انسانی حقوق کی تشریح اور ان کی حدبندی قرآن وسنت کی روشنی میں کیوں کرتے؟ ریاست کو دینِ محمدیؐ سے جدا کرنے کے مذموم اقدام پر یزیدی حکومت کو تنقید کا نشانہ کیوں بناتے؟ امام حسینؐ نے احیاءِ حکومتِ اسلامی کی اس تحریک کا منشور اور ہدف اس وصیت نامے میں بیان کیا ہے جسے آپؐ نے محمد بن حنفیہ کے نام لکھا، وہ حسینی وصیت نامہ جس میں أمر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسی خالص دینی اصطلاحات کو اصلاحِ احوال کا ذریعہ قرار دیا گیا، اس وصیت نامہ کے مندرجات سے یہ سوال فطری طور پر جنم لیتا ہے کہ جس اصلاحی تحریک کا نعرہ اور منشور ہی اپنی اساس میں مذہبی ہو اسے سیکیولر طرزِ حکمرانی کے استدلال یا جواز میں کیسے پیش کیا جاسکتا ہے؟
حسین ابن علیؐ کے فرمودات اور مکتوبات سے معلوم ہونے والی حقیقت یہی ہے کہ امامِ عالی مقام مسلم معاشرے میں ظاہر ہونے والے دینی فساد اور نظمِ مملکت میں موجود حکومتی بگاڑ کی اصلاح کو اپنا شرعی وظیفہ اور دینی فریضہ سمجھتے تھے جس پر عمل کرکے آپ ایک de-secularized ریاست کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے جو اپنی اساس اور طرزِ حکمرانی میں اسلامی دستور کی پابند ہو، یہی قیامِ حسینی کا وہ بنیادی ہدف تھا جس کی عظمت اور مقصدیت کی خاطر حسین ابن علیؐ اور ان کے 72 اصحابِ باوفا نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔