کیا ح ز ب اللہ ختم ہوجائیگی؟
تحریر: ابنِ حسن
یہ لوگ عرصہ 42 سال سے غاصب رجیم کی جارحیت اور قبضے کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اس دوران ح ز ب کے تین میں سے دو قائد، بیسیوں رہنما اور ہزاروں مزاحمت کار و لبنان کے عام شہری غاصب رجیم کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
16 فروری 1992 کو جب غاصب رجیم کے ہیلی کاپٹروں نے بمباری کرکے ح ز ب کے دوسرے قائد کو ان کے بیوی اور بچوں سمیت شہید کر دیا تو اگلے دن غاصب رجیم کے اخباروں میں یہ شہہ سرخیاں لگی تھیں کہ ح ز ب ا ل ل ہ کے ساتھ جاری آرام دہ جنگ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی ہے یعنی ح ز ب اب ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی ہے۔
سید قائد (رح) نے قیادت سنبھالی تو وہ محض 32 سال کے ایک جوان عالم تھے۔ پھر دنیا نے دیکھا کس طرح ایک چھاپہ مار مختصر سی عسکری طاقت ایک باقاعدہ عسکری معاشی سماجی اور سیاسی طاقت بنی جس نے خطے میں طاقت کے جملہ توازن کو تبدیل کر دیا۔
سنہ 1995 میں ح ز ب کے درجنوں کمانڈرز اکھٹے شہید ہوگئے، سنہ 1997 میں سید قائد (رح) کے جوان سالہ بیٹے غاصب رجیم کے خلاف ایک کاروائی میں شہید ہوگئے جن کی لاش غاصب رجیم کے فوجی اٹھا کر لے گئے تاکہ ح ز ب کی قیادت کو دباؤ میں لاکر کچھ ایسے معاہدے سامنے لائے جاسکیں جن سے غاصب رجیم کے قبضوں اور جارحیت کو جواز مل سکے لیکن وہ اس میں ناکام ہوئے کیونکہ ان کا مقابلہ حسین ابن علی (ع) کے ماننے والوں سے تھا جن کا شعار ہی ذلت ہم سے دور کا ہے۔
سنہ 2000 میں غاصب رجیم کے فوجی دستوں کو لبنانی سرزمینوں پر قبضہ ترک کرکے واپس جانا پڑا اور یہ ح ز ب کی اس وقت تک سب سے بڑی کامیابی اور ح ز ب کی تشکیل کے اہداف میں سے ایک بڑا ہدف تھا کہ اسلامی سرزمین کو غاصب رجیم کے قبضے سے چھڑایا جائے۔ آزادی کے اس سفر میں ح ز ب نے لازوال قربانیاں دیں۔
2006 میں جب غاصب رجیم کی فوج نے چند لبنانی شہری گرفتار کرلیے تو بدلے میں ح زب نے غاصب فوجی پکڑ لیے جس کیوجہ سے دوبارہ جنگ شروع ہو گئی۔ 33 روزہ اس جنگ میں بھی لبنان کی حریم کے دفاع کا ح ز ب نے حق ادا کیا اور ایک وجب بھی دشمن کے قبضے میں نہیں جانے دیا۔ یہاں تک کے لبنان کے تمام قیدی جو غاصب رجیم کی جیلوں میں تھے انہیں رہا کروا لیا بلکہ فلسطینی قیدی بھی رہا کروائے گئے جن میں سمیر قنطار کا قصہ معروف ہے۔ یہ سب ح ز ب ا ل ل ہ کی کامیابیوں کا تسلسل تھا۔
دوسری طرف ح ز ب نے لبنان کی تعمیر و ترقی میں بھی حصہ لینا شروع کیا۔ اس وقت یہ کہنا ہرگز مبالغہ نہیں ہوگا کہ لبنان کے بہترین تعلیمی، طبی، معاشی اور سماجی فلاح و بہبود کے پروجیکٹس ح ز ب ا ل ل ہ کے پروجیکٹس ہیں۔ سید قائد (رح) کی قیادت میں ح ز ب ایک مضبوط سیاسی طاقت بن کر بھی ابھری اور لبنان کی پارلیمان میں خاطر خواہ تعداد ح ز ب کے اراکین کی ہے بلکہ حکومت کے تعین میں سب سے موثر پارلیمانی طاقتوں میں اب ح ز ب بھی ہے۔
اکتوبر 2023 میں فلسطین پر غاصب رجیم نے حملہ کیا تو ح ز ب ا ل ل ہ نے شمالی مقبوضہ فلسطین میں غاصب رجیم کی تنصیبات کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ ان کاروائیوں کا واحد مقصد غزہ پر سے دباؤ کم کرنا تھا اور مذاکرات کی میز پر بیٹھے فلسطینی بھائیوں کے لیے پوائنٹس کسب کرنا تھا۔ اس ایک سال کی کاروائیوں کے دوران کم و بیش 2 لاکھ صہیونی آبادکار شمالی مقبوضہ علاقوں سے بے دخل ہوئے ہیں جن کی وہاں واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ مقبوضہ علاقوں میں غاصب رجیم نے جو انفراسٹرکچر اور دفاعی تنصیبات عرصہ 34 سال میں بنائی تھیں ح ز ب نے ان کا ایک سال میں صفایا کر دیا ہے۔
ان سب چیزوں کی بالاخر ایک قیمت ہے اور وہ بھی اس وقت جب دنیا بھر کی دفاعی و عسکری پیدوار تکنیکی مدد اور سفارتی تعاون آپ کے دشمن کے ساتھ ہو اور آپ کو امت مسلمہ صرف مشورے دینے پر اکتفا کرے تو ایسے میں قیمت زیادہ چکانا پڑتی ہے۔ ح ز ب لبنان کی آزادی اور فلسطین میں جہاد جاری رہنے کی قیمت چکاتی آئی اور چکا رہی ہے۔
افراد کے آنے جانے سے ایسا نہیں ہے کہ فرق نہیں پڑتا اور وہ بھی ایسے افراد اور قیادت کہ جن کی نظیر کئی دہائیوں تک نظر نہ آتی ہو لیکن نظریہ ہو تو شخصیات کے آنے جانے سے مقاصد تبدیل نہیں ہوتے، جدوجہد کے عزم و ارادے میں کمی نہیں آتی، ممکن ہے حکمت عملی تبدیل ہو جائے لیکن اہداف نہیں بدلتے۔ ح ز ب غاصب رجیم کے قبضے اور جارحیت کے سامنے مزاحمت کے لیے وجود میں آئی تھی یہ مزاحمت جاری رہے گی ان شاءاللہ۔
یہ حق و باطل کا معرکہ ہے۔ یہ معرکہ ازل سے ابد تک ہے۔ ہر دور میں حق اور باطل کی نمائندہ قوتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں لیکن معرکہ ہمچنان جاری و ساری ہے۔ اس دور میں حق کی طاقتوں کی نمائندگی اللہ کے یہ صالح اور متقی لوگ کر رہے ہیں اور باطل قوتوں کی نمائندگی غاصب رجیم ریاست ہائے متحدہ اور اس کے دیگر حواری ملکر کر رہے ہیں۔ یہ آپ اور مجھے طے کرنا ہے کہ ازل سے ابد تک جاری اس معرکے میں ہم نے کس طرف کھڑے ہونا ہے یا لاتعلق رہنا ہے ؟۔ یاد رہے حتمی فتح حق کی ہوگی کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے نیک اور مستضف بندوں سے وعدہ ہے کہ حتمی فتح ان کی ہوگی:
وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ۔