مسلمان علما کے ساتھ پیچیدہ القاب لگانے کا معاملہ- – – – چند گزارشات

تحریر: عرفی ہاشمی

اس موضوع پر بات کرنے کا ایک نحوی زاویہ_ نگاہ بھی ہے۔ اصل میں الفاظ یا القاب مجرد ہوں یا کسی ترکیب سے عبارت ہوں’ ہمیشہ ایک خاص تناظر یا کونٹیکسٹ میں معنی دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر حضرت یعقوب جیسے بلند پایہ نبی کے لیے سورہ یوسف میں ضلال (یوسف 95) کا لفظ ایا ہے اور یہاں اس کے معنی محبت میں گم ہونے کے لیے گئے ہیں حالانکہ اسی سورہ یوسف کی اٹھویں اور تیسویں ایات میں ضلال کا لفظ یکسر مختلف معنی و مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ اسی طرح ولی کا لفظ مثبت اور منفی (البقرہ 257) معنوں میں ایا ہے’ امام کا لفظ بھی مثبت اور منفی معانی (القصص 41) لیے ہے۔ لہزا کوئ بھی لفظ یا ترکیب پر مبنی لقب ایک خاص تناظر اور کونٹیکسٹ میں پڑھا اور سمجھا جاتا ہے اور جلدی سے اس پر لغوی معنی چسپاں نہیں کیے جاتے۔

آئیے ایک اور زاویے سے اس مسلے کا جائزہ لیں۔ حدیث کی رو سے دیکھا جائے تو بھی الفاظ اور تراکیب پر مبنی القاب کو ایک خاص تناظر یا کونٹیسٹ میں سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کلینی نے الکافی اور صدوق نے التوحید میں عبد من عبید رسول اللہ کی حدیث بیان کی ہے۔ جب امیر المومنین خود کو عبد_ عبید_ رسول اللہ کہتے ہیں (الکافی، التوحید) تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ رسول اللہ کے کسی غلام کے غلام تھے جبکہ واقعتا ایسا نہیں تھا بلکہ جس تناظر میں وہ خود کو رسول اللہ کے غلاموں کا غلام کہہ رہے ہیں وہاں رسول اللہ کی عظمت دکھانا مقصود ہے۔ اسی طرح ایک مختلف تناظر میں رسول خدا کا ہر اچھا لقب ان کی صفات عالیہ کا ائینہ دار ہے لیکن جب رسول اللہ بادشاہوں کو خط لکھتے ہیں تو خود کو محمد’ عبداللہ اور رسول اللہ جیسے لفظوں سے متعارف کرواتے نظر اتے ہیں اور کوئ بھی صفاتی لقب استعمال نہیں کرتے ہیں۔ خود امیر المومنین نہج البلاغہ میں مرقوم خطوط میں خود کو علی ابن ابی طالب کے نام سے متعارف کرواتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ تراکیب پر مبنی یا مفرد و مجرد القاب ایک خاص تناظر یا کانٹیکسٹ میں سمجھنے چاہیے۔

تیسرا زاویہ بھی دیکھیے۔ ساری اچھی صفات اور القاب مطلقا صرف اللہ ہی کے لیے ہیں اور کوئی مخلوق حقیقتا ان القاب کو استعمال کرنے کی سزاوار نہیں ہے۔ جب رسول خدا کو محمود یا مولا پکارا جاتا ہے تو اسے ایک خاص تناظر میں مخلوق کے مجازی لقب سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ تاہم یہاں یہ بات واضح کرنی ضروری ہے کہ جو صفات یا القاب معصومین نے مجازی طور پر بھی استعمال نہ کرنے کا حکم دیا ہے انہیں کسی معصوم مخلوق کے لیے بھی استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ یہی سبب ہے شیخ صدوق نے اعتقادات نامی معرکتہ الارا کتاب میں رب کے لفظ کو مخلوق کے لیے استعمال کرنے والوں سے امام رضا کی بیزاری اور لعنت کے اظہار کے حوالے سے حدیث نقل کی ہے۔ شیخ صدوق کی کتاب التوحید بھی ایسی احادیث ہم تک پہنچاتی ہے۔ اسی طرح متکبر قدیم احد رب صمد اور اس جیسے دیگر القاب کو معصومین کے فرامین اور حکم کے ساتھ کسی مخلوق کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا (اعتقادات، ص 99) ۔

نواب اربعہ سے لے کر خامنائی اور سیستانی صاحب یا دیگر علما کے لیے رہبر معظم یا فقط رہبر کے الفاظ ایک خاص تناظر میں پڑھے اور سمجھے جائیں گے۔ ایسے القاب صرف اسی زمانے میں ان کی رہبری یا عظمت کو ظاہر کرتے ہیں ظاہر ہے ہر دور میں رہبران دین نے دین کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور علمی اور مجاہدانہ شان سے دین کا دفاع کیا ہے۔ کسی کے دیے لقب سے نہ کوئی بڑا ہوتا ہے نہ کوئی چھوٹا ہوتا ہے۔ اصل عزت اللہ کی نگاہ میں ہوتی ہے چاہے سارا جہان آپ کی تذلیل پر تلا ہوا ہو۔ اصل بلندی تو بندگی میں ہے۔

چشم معنی اشنا میں ہے وہی ان کا مقام

سہو_ کاتب سے مقدم ہوں مؤخر سینکڑوں

اس غیر ضروری بحث میں پڑنے سے بہتر ہے کہ انسان بڑے لوگوں کی کنٹریبیوشن کو پڑھے، اپنا محاسبہ کرے اور خود کو بہتر بنائے۔ کمزور لوگ دو شخصیات کے موازنے میں وقت ضائع کرتے ہیں اور عقلمند انکی خصوصیات خود میں پیدا کرنے کے لیے وقت صرف کرتے ہی۔ اس حوالے سے اپنے مطالعے کو بڑھائیے اور خود اپنا قد بلند کرنے کی کوشش کیجیے اور اپنی قربانیوں کو اللہ کی راہ میں بڑھائیں۔

بس آخری میں امام علی رضا علیہ السلام سے مروی ایک روایت ملاحظہ فرمائیں

یا اللہ میں میں ان لوگوں سے اپنی بے زاری کا اظہار کرتا ہوں جو ہمارے بارے میں ایسی باتیں کہتے ہیں جو ہم اپنے اندر نہیں پاتے۔

خدایا خلق و امر تیرے لئے ہے، ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔

خدایا ! تو ہمارا بھی خالق ہے اور ہمارے اولین و آخرین آباء و اجداد کا بھی خالق ہے۔

خدایا مقامِ ربوبیت کے لئے تیرے علاوہ کوئی سزاوار نہیں ہے اور الوہیت تیرے علاوہ کسی کے لئے سزاوار نہیں ہے۔

خدایا ان نصاریٰ پر لعنت فرما جنھوں نے تیری عظمت کو گھٹا دیا اور ایسے ہی تمام عقیدہ والوں پر لعنت فرما۔

خدایا ہم تیرے بندے اورتیرے بندوں کی اولاد ہیں، تیرے بغیر اپنے واسطے نفع، نقصان، موت و حیات اور حشر و نشر کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے ہیں ۔

خدایا ! جس نے یہ خیال کیا کہ ہم “رب” ہیں ہم ان سے بیزار ہیں اور جس نے یہ کہا کہ تخلیق ہمارے ہاتھ میں ہے یا رزق کی ذمہ داری ہمارے اوپر ہے ہم اس سے بھی بیزار ہیں جس طرح عیسیٰ (ع) نصاریٰ سے بیزار تھے۔

خدایا ہم نے انھیں ان خیالات کی دعوت نہیں دی ہے لہذا ان کے مہملات کا ہم سے مواخذہ نہ کرنا اور ہمیں معاف کردینا ۔

خدایا زمین پر ان کافروں کی آبادیوں کو باقی نہ رکھنا کہ اگر یہ رہ گئے تو تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی اولاد بھی فاجر اور کافر ہوگی۔( الاعتقادات:صدوق ص 99)

حوالہ

عبد من عبید رسول الل حدیث

رواه الكلينيّ في الكافي (1/89) ورواه الصدوق في التوحيد (ص‏174وص 109)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں