سفیر امن محسن جھنگ ”سید ثناء الحق ترمذی”
ملت جعفریہ پاکستان کے حقوق کے حوالے سے سرگرم شخصیات و زعما، علمائے کرام کے حالات زندگی کے بیان کرنے کا سلسلہ “ہفت روزہ رضاکار ویب” نے شروع کیا ہے۔ برادر بزرگ سید نثار علی ترمذی اسے ہمارے لئے مرتب کررہے ہیں مندرجہ ذیل تحریر ضلع جھنگ کی معروف ملی و قومی شخصیت سید ثناالحق ترمذی ایڈووکیٹ مرحوم کے حوالے سے برادر سید نثار علی نے اپنی یاداشتیں بیان کی ہیں، آپ بھی اگر کسی محترم شخصیت کے حالات زندگی تحریر کرنا چاہیں تو ادارہ ہفت روزہ رضاکار (ویب) بخوشی شائع کرے گا۔(انجم رضا)
تحریر: سید نثار علی ترمذی
یہ 1969ء کی بات ہے کہ میرے تایا جان سید ناصر حسین ترمذی مرحوم، اپنی اہلیہ اور بیٹے نصیر حسین کے ساتھ حسب سابق چھ محرم الحرام کو جھنگ چلے گئے جہاں انہوں نے ساتویں محرم کے جلوس میں شرکت کرنی تھی۔ ( ہماری تائی اماں اور برادر ثناء کی والدہ بہنیں تھیں) ہمارے گاؤں سے اور لوگ بھی جاتے تھے۔ ساتویں کی شام کو جب لوگ واپس آئے تو جلوس پر پتھراؤ کی تفصیل بتانے لگے مگر ہر ایک کی خبر علیحدہ کہانی لیے ہوئے تھی۔ آٹھ محرم کو جب تایا جان پلٹے تو انہوں نے زرا تفصیل سے رودادِ سنائی۔ جلوس کے راستے میں ایک دروازہ تعمیر تھا جس پر ” باب عمر” لکھا ہوا تھا۔ جلوس کے شرکاء نے اس دروازے کے نیچے سے گزرنے سے انکار کردیا۔ نعرے بازی ہوئی۔ قریب کی مسجد میں پہلے سے جمع لوگوں نے پتھراؤ کیا جس کی وجہ سے کئی عزادار زخمی ہوئے۔ پولیس نے مداخلت کر کے جلوس مکمل کروایا۔ اس جلوس کی رپورٹنگ بی بی لندن نے تفصیل کے ساتھ کی۔ یہ جلوس جو پہلے ہی کئی لحاظ سے منفرد تھا پوری دنیا میں شہرتِ پا گیا۔
سال یہ پیغام آیا کہ اس مرتبہ سخت پابندی ہے جو لوگ شروع میں جلوس میں شامل ہو گئے وہ ہی رہیں گے بعد میں کوئی شامل نہیں ہو سکے گا۔ چھ محرم الحرام کی صبحِ کو میں اپنے تایا جان کے قافلے میں شامل تھا۔ ایک دن قبل ہی راستے مسدود کر دئے گئے تھے۔ جگہ جگہ فوج اور پولیس کے نوجوان ڈیوٹی پر مامور تھے۔ چنگی سے اتر کر پیدل چلتے ہوئے ” المسلم ” ٹانگہ اڈہ جھنگ پہنچے۔ اگلے دن صبح کی نماز کے بعد جلوس تھا۔ ہمیں تو جلوس میں جانے نہ دیا مگر تفصیل یہ معلوم ہوئی کہ کثیر تعداد میں لوگ جلوس میں شامل تھے۔ جلوس کے شرکاء کے علاؤہ کسی کو بھی گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ ماموں محمد مسلم، جو کہ اس جلوس کے لائسنس دار تھے جو پہلے گرفتار کر لیے گئے تھے۔ آپ مسلم لیگ ساڈھورہ کے سالار اعلیٰ تھے۔ یہ اپنے علاقے کے بڑے زمیندار تھے۔ جھنگ میں بھی آپ کا شمار بڑے زمینداروں میں ہوتا تھا۔ آپ نے اپنی روایات کو یہاں بھی برقرار رکھا جس میں ساڈھورہ مسلم ہائی اسکول جو بعد میں قومی ملکیت میں لے لیا گیا۔ اسی طرح عزاداری کی روایت کو بھی جاری رکھا۔ امام بارگاہ مہاجرین اور ساتویں محرم کا جلوس جبکہ ساڈھورہ میں اعزاداری کے سات جلوس نکلتے تھے۔ ترمذی سادات مشرقی پنجاب میں کئی علاقے میں آباد تھے۔ سادات ساڈھورہ اپنی روایات کے ساتھ منفرد مقام رکھتے تھے۔ سید بدرالدین عرف پیر بدھو نے سکھ مذہب کے آخری گرو گوبند سنگھ کی حکومت وقت کی فوجوں کے مقابلے میں مدد کی جن میں ان کے کئی قریبی عزیز جان سے گئے۔ سکھ مذہب کے لوگ اب تک اسے یاد رکھتے ہیں اور اپنی کتب میں تذکرہ بھی کرتے ہیں۔ سکھوں کی تاریخ پیر بدھو کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ اور ان کی مقدس کتاب میں بھی پیر بدھو کا ذکر ہے۔کسی نے مجھے بتایا کہ جب میں نے ایک سکھ سے اس بات کا تذکرہ کیا تو اس نے نہ احترام دیا بلکہ ان خدمات کو سراہا۔ سکھ نہیں چاہتے کہ یہ لوگ ساڈھورہ چھوڑیں مگر جب سب لوگ ہجرت کر گئے تو یہ بھی ہجرت پر مجبور ہو گئے تو سکھوں نے سپیشل بسوں میں بیٹھا کر عزت و احترام کے ساتھ پاکستان کی سرحد پر پہنچایا۔” مزید تفصیل ” مسند حسین اصغر” جسے قمر عباس ترمزی نے تالیف کیا ہے ہم اس میں دیکھ سکتے ہیں۔”
سید محمد مسلم ترمذی کے تین بیٹے ہیں۔سید ضیاء الحق ترمزی، سید ثناء الحق ترمذی، سید مفتاح الحق ترمذی۔ پہلے دو اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔
سید ضیاء الحق سب سے بڑے بیٹے، وکیل اور صاحب مطالعہ شخص تھے۔ مزاحیہ انداز میں گفتگو کرنے کا انداز انہیں منفرد اور مقبول بنانے میں معاون ثابت ہوتا تھا۔ ان کے پاس تا دیر بیٹھنا بھی بور نہیں کرتا تھا۔ جب 1979ء میں بھکر کنونشن ہوا تو آپ شریک تھے۔ وہاں اعلان ہوا کہ جو وکلاء ہیں وہ قصر زینب میں جمع ہو کر قانونی مشاورت کرنی ہے۔ تعارف کے وقت جب آپ کی باری آئی تو بتانے لگے کہ میں جس کو بھی اپنا نام بتاتا ہوں وہ گالیاں دینے لگ جاتا ہے ۔ لوگ سمجھ گئے۔ کہنے لگے کہ آپ تو ہمارے ضیاء الحق ہیں۔ جب مفتی جعفر حسین مرحوم نے ملک بھر میں ضلعی مقامات پر یوم سیاہ و احتجاجی جلسے کا اعلان کیا تو ہم لوگ گاؤں سے شرکت کے لیے جھنگ اے تو اس جلسے کے اسٹیج سیکرٹری بھی آپ تھے۔ اسی کی دہائی کے اوائل میں بھائی ضیاء الحق ترمذی مرحوم اور بھائی سبط حسن ترمذی مرحوم لاہور تشریف لائے۔ مجھے میزبانی کا شرف بخشا۔ جب مغربین کی نمازیں پڑھ چکے تو کہنے لگے کہ ایبٹ روڈ جانا ہے جہاں سید العلماء علی نقی نقوی المعروف نقن صاحب نے پہلی مجلس سے خطاب کرنا ہے ہم تو وہ سننے آے ہیں۔ میں نے نام سنا ہوا تھا مگر ان کی آمد و خطاب کے بارے میں لا علم تھا۔ جب ہم پہنچے تو خطبہ ہو چکا تھا۔ مجلس سنی تو میں تو حیران رہ گیا ۔ ایسی مجلس میں نے اب تک نہیں سنی تھی۔ موصوف تین سال لاہور تشریف لائے اور ہر سال تیرہ مجالس پڑھتے تھے۔ میں نے ایک بھی مجلس قضا نہیں کی۔ ابھی تک ان مجالس کے سحر میں ہوں۔ یوٹیوب پر یہ مجالس موجود ہیں۔
آپ کے پاس سادات ترمز کا شجرہ نسب نقل بمطابق اصل کے موجود تھا۔ اس کے علاؤہ آپ انساب کے حوالے سے بھی کافی معلومات رکھتے تھے۔ انتہائی تحقیق کے بعد شجرہ میں نام درج کرتے۔ بہت اصرار کے بعد کسی کسی کو شجرہ کی زیارت کرواتے۔ ہمارے سارے بزرگ اس رویے سے نالاں تھے۔ وہ وجہ بتاتے ہوئےکہتے تھے وہ بہت بوسیدہ ہے جو ورق الٹتے ہی پھٹ جاتا ہے۔ میں نے انہیں قائل کیا کہ وہ شجرہ میرے سپرد کر دیں تاکہ اسے حکومت پنجاب سے محفوظ کروا لیا جائے۔ وہ کوئی منظوری کی گھڑی تھی کہ انہوں نے وہ شجرہ انتہائی احتیاطی تدابیر و تاکید کے ساتھ میرے سپرد کردیا۔ میں نے بھی وعدہ کیا کہ پوری حفاظت کروں گا اور ایک لفظ کا بھی اضافہ نہیں کروں گا اور اسے واپس کردوں گا۔ ان دنوں محکمہ دستاویزات میں برادر ضمیر حسین ترمذی صاحب تھے۔ انہوں نے انتہائی احتیاط کے ساتھ اس شجرے کو ایک ہفتہ فیمیگیشن مشین میں رکھا جس سے تمام جراثیم ختم ہو گئے پھر جدید ترین جاپانی کاغذ سے لیمینیشن کیا جو قیمتی دستاویزات کو محفوظ کرنے کے کام آتا ہے۔ اسے خوبصورت جلد سے مزین کر کے پیشِ کر دیا۔ الحمدللہ اب یہ ایک سو سال کے لیے محفوظ ہو گیا۔ انہوں نے جس اعتماد کا اظہار کیا اس پر سب حیران تھے۔ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے آمین ثم آمین۔
سید ثناء الحق ترمذی
آپ بھی وکیل تھے اور اچھی پریکٹس چل رہی تھی۔ جھنگ میں ترمزی سادات کی اچھی خاصی تعداد وکالت سے وابستہ ہے۔ بعض کے نام بطور حوالہ اب بھی لوگ ذکر کرتے ہیں، سید اخلاق الحسن ترمذی مرحوم کا نام بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ آپ کی شہرت ایک سیاستدان کے طور پر بھی تھی۔ ضلع کے بیشتر سیاست دان آپ کے حلقہ احباب میں تھے۔ آپ جھنگ کی سیاسی، سماجی اور مذہبی سرگرمیوں میں نمایاں نظر آتے تھے۔ آپ کا خاندانی پس منظر، وسیع ڈیرہ اور دسترخوان ہونے کی وجہ مذہبی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ علماء کرام کی میزبانی، تنظیمی نشستیں اور تنظیمی برادران کی آمد و رفت غرضیکہ اسے ایک مرکزی حیثیت حاصل تھی۔
قائدین علامہ مفتی جعفر حسین، علامہ علامہ عارف حسین الحسینی اور علامہ ساجد علی نقوی اور ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی یہاں تشریف آوری تو میرے علم میں ہے۔ علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم قائد بننے کے بعد یہاں امام بارگاہ مہاجرین میں مجالس محرم الحرام سے خطاب کر چکے تھے۔
1986ء میں تحریک پنجاب کی دو روزہ صوبائی جعفریہ کونسل کا اجلاس امام بارگاہ مہاجرین جھنگ میں منعقد ہوا جس میں دیگر علماء و تنظیمی عہدیداروں کے علامہ عارف حسین الحسینی شہید نے رونق بخشی۔ اس اجلاس کی رپورٹنگ معروف صحافی حیدر جاوید سید نے ہفت روزہ رضا کار کے لیے کی تھی۔ اس موقع کی ایک تصویر ملی جس میں بندہ ناچیز بھی شہید حسینی اور برادر ثناء کے ساتھ ہے۔یہ اجلاس اپنے نظم و ضبط و انتظامات کے حوالے سے مثالی تھا۔ یہ آئی ایس او اور تحریک کے کارکنوں کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ تھا۔ شہید حسینی یہاں سے اگلے دن بھوانہ تشریف لے گئے جہاں ان کا والہانہ برجوش استقبال ہوا تھا۔
1988ء میں تحریک نے تختی کے نام پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ علامہ افتخار حسین نقوی صاحب دو حلقوں سے انتخاب میں کھڑے ہو گئے جن میں سے ایک جھنگ میں تھا۔ ایک دن دفتر میں بیٹھا تھا کہ برادر اعجاز جعفری نے کہا کہ آپ کے لیے علامہ صاحب کا فون ہے۔ جیسے ہی میں نے السلام علیکم کہا تو علامہ افتخار حسین نقوی صاحب کی گرج دار آواز سنائی دی کہ ” میں تہاڈے علاقے چوں الیکشن تے کھلو گیا ہاں۔ تیرا لاہور ویچ رہون حرام ہے۔ جلدی پہنچو۔” یہ کہ کر فون بند کر دیا۔ میں نے سرکاری دفتر میں بات کی تو انہوں نے سرکلر کی کاپی سامنے رکھ دی کہ تمام چھٹیاں انتخابات تک بند ہیں۔ میں نے اللہ کا نام کے کر اسٹیشن چھوڑنے کی اجازت لی اور جھنگ چلا گیا اور وہاں سے ٹیلی گرام دے کر چھٹی کی درخواست بھجوا دی۔
” المسلم ” ہمارے حلقے کا مرکزی آفس بنا ہوا تھا۔ علامہ جواد ہادی پشاور سے، علامہ اسد رضا بخاری، چیف ایڈیٹر، ہفت روزہ رضا کار اور مولانا اقبال کامرانی صاحبان حمایت و تائید کے لیے آے ہوے تھے۔ میں گاؤں جاتے ہوئے علامہ اسد رضا بخاری اور مولانا اقبال کامرانی کو بھی ساتھ لے گیا تاکہ انتخابی مہم میں حصہ لے سکیں۔ یہ ڈیرہ پوری طرح سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا تھا۔ سید ثناء الحق ترمذی بھی صوبائی اسمبلی کے امیدوار تھے۔
ان دنوں تحریک کے روح رواں جناب سید ذوالفقار علی بخاری ایڈووکیٹ تھے جو بعد ازاں لاہور شفٹ ہوگئے۔ 1990ء میں تحریک جھنگ کی تنظیم نو ہوئی جس میں ثناء الحق ترمذی کو تحریک کا صدر منتخب کر لیا گیا۔
ان کے صدر بنے ابھی کچھ دن ہی گزرے تھے کہ جھنگ میں انجمن سپاہ صحابہ کے سربراہ حق نواز جھنگوی کا قتل ہو گیا۔ اس سے پورا شہر بدترین فرقہ وارانہ دہشت گردی کی لپیٹ میں آ گیا۔ بعض لوگوں نے آپ کو مشورہ بھی دیا کہ اس آگ میں کودنے کے بجائے لاتعلقی میں ہی عافیت ہے مگر اس سید زادے نے کہا میں زمہ داری اٹھا چکا ہوں اب پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ ان کے اس عزم و ہمت و استقلال نے پوری تشیع کو حوصلہ دیا۔ لوگ علی علی کرتے دھشت گردی کا مقابلہ کرنے میدان عمل اتر آئے۔ دشمن کا پروگرام تھا کہ اگر وہ جھنگ میں کامیاب ہو گئے تو پورے پاکستان میں پھیل جائیں گے مگر انہیں تو جھنگ میں منہ کی کھانی پڑی اور اتنی قتل وغارت کرنے کے باوجود وہ کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکے بلکہ غریب عوام کو مشکلات میں مبتلا کردیا اور پورے علاقے کی ترقی کو روک دیا۔ آج جھنگ کی ترقی نہ ہونے میں اسی گروہ کی فرقہ وارانہ دہشت گردی بڑا سبب ہے۔
حکومت نے سید ثناء الحق ترمذی اور دیگر کو ایک مرتبہ زندان میں ڈال دیا۔ فیصل آباد کے کمشنر نے انتظام کیا کہ تحریک کے رہنماؤں کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے۔ ایک ریسٹ ہاؤس میں سید ثناء الحق ترمذی اور مولانا ضیاء الرحمن فاروقی کی ون ٹو ون ملاقات کا بندوست کیا۔ سید ثناء الحق ترمذی اس کی تفصیل بتاتے ہیں کہ میں نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے فاروقی صاحب سے کہا کہ یہ جو اس قدر قتل و غارتگری ہوئی ہے۔ جانی نقصان کے علاؤہ مالی نقصان ہوا۔ کتنے بچے یتیم ہو گئے، کتنی خواتین بیواہ ہوئیں، کتنے والدین اپنے لخت جگر سے محروم ہوئے، اس کے عوض کیا کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ کیا ایک جلوس بھی بند کروا سکے؟ ایک مجلس ختم ہوئی؟ یا کوئی کامیابی حاصل ہوئی ہو تو بتائیں؟
کچھ دیر کے لیے تو فاروقی صاحب خاموش رہے اور پھر اپنی ناکامی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہم کوئی ہدف حاصل نہ کرسکے اور اب ہم عوام کا سامنا کرتے ہوئے خفت محسوس کرتے ہیں۔ اگر اہل تشیع تھوڑا سا تعاون کریں تو عوام کے سامنے سرخ رو ہو کر اس جنجال سے نکل سکتے ہیں۔ سید ثناء الحق ترمذی نے پوچھا کہ اہل تشیع آپ کے ساتھ کیا تعاون کریں کہ امن ہو سکے۔ فاروقی صاحب نے کہا ایسی تمام کتب جن میں گستاخانہ مواد موجود ہے ان پر پابندی لگ جائے تاکہ عوام کو بتا سکیں کہ آپ کی قربانیوں سے ہم نے یہ کامیابی حاصل کی یے۔ ثناء الحق ترمذی نے کہا کہ ہم اس میں آپ سے تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں مگر ایک شرط پر۔ فاروقی صاحب نے جلدی سے پوچھا کہ وہ شرط کیا ہے؟ ترمزی صاحب نے کہا کہ جن کتب میں گستاخانہ مواد ہو اس پر پابندی ہونی چاہیے اور ساتھ ہی یہ گستاخانہ مواد جن ماخذ سے لیا گیا ہو ان پر بھی پابندی عائد ہونی چاہیے۔ فاروقی صاحب نے استفسار کیا کہ وہ آپ کی بات نہیں سمجھا۔ ثناء صاحب نے بتایا آگر کسی کتاب میں گستاخانہ مواد موجود ہے تو اس پر پابندی عائد کردی جائے لیکن اگر یہ مواد مثلاً صحیح بخاری سے لیا گیا ہو تو صحیح بخاری پر پابندی لگا دی جائے تاکہ مسئلہ مستقل طور پر ختم ہو جائے۔ فاروقی صاحب اس پر کافی سٹپٹائے اور آخر میں کہا اس پر عمل نہیں ہو سکتا۔ ثناء الحق ترمذی نے مزید دریافت کیا کہ کوئی اور تجویز ہے تو انہوں نے کہا کہ اگر اہل تشیع اپنے عزاداری کے جلوسوں کے روٹس محدود کر دیں تو بھی ایک کامیابی ہو گی جسے عوام کو بتا کر ان کے جذبات کو ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے۔ ثناء بھائی کہتے ہیں کہ میں نے انہیں بتایا کہ اس مسئلہ میں اگر امام خمینی بھی آ کر کہیں تب بھی پاکستان کے شیعہ ان کی بات نہیں نہیں مانیں گے اور جلوسوں کو ایک انچ کم کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے۔ ہاں ایک جلوس کا میں لائسنس دار ہوں۔ اس کا روٹ طویل بھی ہے اور ان علاقوں سے گزرتا ہے جہاں اب شیعہ ابادی نہیں ہے جس کی وجہ سے سیکورٹی کے مسائل ہیں۔ جھنگ کے امن وامان کی قیمت پر ساتویں محرم الحرام کے جلوس کے روٹ پر بات کرنے کے لیے تیار ہوں مگر وہ تو ملک بھر کے جلوسوں کی بات کر رہے تھے۔
یوں یہ بات بے نتیجہ ثابت ہوئی۔
ایک مرتبہ میں جھنگ میں تھا، رات کا وقت تھا۔ ڈیرہ ” المسلم ” پر ایک اکٹھ تھا۔ ڈیرہ کے نزدیک کی آبادی کے چالیس پچاس لوگ جمع تھے، جنہیں عرف عام میں پانی پتی کہتے تھے۔ ان کے نوجوان دہشت گردی میں جیلوں میں تھے۔ اور وہ تعاون کے لیے آے ہوے تھے۔ برادر ثناء نے ان کی خوب کلاس لی اور ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ آپ ان ہی کی زبان میں ان سے کہہ رہے تھے کہ کہ ہم نے تمہارے ساتھ مدتوں اچھا سلوک کیا۔ ہر غمی خوشی میں شریک ہوئے۔ ہر مشکل میں ساتھ دیا۔ تمہاری عورتیں ہمارے گھروں میں کام کرتی تھیں۔ ان کی عزتیں محفوظ تھیں۔ لیکن تم نے چند شرپسند مولویوں کے پیچھے لگ کے ہمارے گھروں پر فائرنگ کی، ہمارے گھر جلائے، ہماری دوکانیں جلائیں، ہمارے عزیزوں کو قتل کیا۔ کیا یہ ہمارے احسانات کا بدلہ ہے؟ مولویوں کا ساتھ دے کر تمہیں کیا ملا؟ تمہارے لوگ مارے گئے، جوان جیلوں میں ہیں، عزتیں تمہاری لوٹی گئیں۔ دھشت گرد تمہارے گھروں میں گھسے رہتے تھے پولیس کے دن رات ریڈ ہوتے تھے۔اس کے بدلے تمہیں کیا ملا؟ سب شرمندگی سے سر نہیں اٹھا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ہم سے غلطی ہو گئی، ہم مولویوں کے بہکاوے میں آ گئے۔ ہمیں معاف کر دیں۔
ظاہر ہے کہ ان سوالات کا کسی کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ یہ واضح ہے کہ دھشت گردی سے سب سے زیادہ غریب اور مستضعف عوام ہی متاثر ہوتے ہیں۔
اس دھشت گردی کی جنگ میں بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ آپ کے بھانجے کو اغوا کر کے تشدد سے شہید کر دیا گیا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا. لیکن بعد میں تو شہادتوں کا ایک سلسلہ چل نکلا۔ جس میں کئی عزیز و اقارب، دوست، شیعہ علماء و زعماء، وکلاء، تاجر غرضیکہ ہر طبقے سے لوگ اپنی جان سے گئے۔ املاک جلائیں گئیں۔ کاروبار تباہ ہوئے۔ بعض گھرانے جھنگ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ یہ دونوں بھائی جھنگ کے اچھے وکلاء میں تھے ان کی وکالت ختم ہو گئی۔ محمود حسین ترمذی جو ضلعی فنانس سیکرٹری تھے اپنے بیٹے سمیت دھشت گردی کا شکار ہوئے ن آپ کے سسر سید ظہیر الحسن ترمذی اور برادر نسبتی میر فرخ برجیس ترمذی خانیوال میں شہید ہوئے۔
اس پر آ شوب دور میں آپ کا ڈیرہ سرگرمیوں کا مرکز رہا۔ کئی مرتبہ پولیس نے چھاپے مارے۔ آپ اپنی حثیت اور حکمت عملی کی وجہ سے انتطامیہ سے مذاکرات کرنے اور عوام کو ریلیف دلوانے میں اکثر کامیاب رہے۔ مخالف فریق کے لوگ آپ کی موجودگی میں ٹیبل ٹاک سے کتراتے تھے۔ آپ مسلسل ٹارگٹ میں رہے۔ کئی دھشت گردوں نے گرفتاری پر انکشاف کیا یہ بھی ہماری ٹارگٹ لسٹ میں شامل تھے مگر جسے اللہ رکھے۔
ایک جنگ جو کوچہ و بازار میں لڑی گئی اسکا تزکرہ تو شاید کبھی نہ ہو سکے۔ بہت سے گم نام مجاہدین نے دن رات ایک کر کے دفاع کیا۔ اس جدوجہد کے نتیجہ میں سینکڑوں نوجوانوں پر قتل، اقدام قتل اور دھشت گردی کے مقدمات درج ہوئے۔ آپ نے اپنی پوری توجہ سے ایک ایک کر کے ان مقدمات سے جوانوں کی جان چھڑائی۔کہیں دیت دے کر، کہیں صلح کر کے اور کہیں اپنے تعلقات استعمال کر کے تقریباً سب مقدمات ختم کروا دیے۔ یہ خدمت ایسی ہے جس کی نہ تو شہرت ہو سکتی ہے نہ کسی کارکردگی رپورٹ میں شامل ہو سکتی ہے۔ یہ اس میدان کے تنہا مجاھد تھے۔
جب علامہ افتخار حسین نقوی صاحب تحریک پنجاب کے دوبارہ صدر بنے تو آپ مرحوم غلام رسول حسام کی جگہ صوبائی کابینہ میں سیکرٹری جنرل کے طور پر کام کیا۔ تحریک کے سیاسی سیل کے فعال رکن رہے۔ اس کے علاؤہ جعفریہ ٹرسٹ میں بھی خدمات انجام دیتے رہے۔
مجھے وہ پیر جی کے نام سے پکارتے تھے۔ یہ ان کا تکیہ کلام تھا یا مجھ سے محبت تھی۔ ان کا فون آتا کہ پیر جی پنجاب حکومت نے فلاں نوٹیفکیشن جاری کیا ہے وہ تو بھجوا دیں۔ میں ان کوشش کر کے بھجوا دیتا۔ ایک مرتبہ ملے تو کہنے لگے کہ آپ کے بھیجے ہوئے نوٹیفکیشنز بہت کام آتے ہیں۔ کہنے لگے ایک مرتبہ ڈی سی او جھنگ کے ساتھ میٹنگ میں ایک مسئلہ پر بحث کے دوران کہا میں نے کہا حکومت پنجاب نے تو اس پر نوٹیفکیشن جاری کیا ہوا ہے۔ ڈی سی او جھنگ نے کہا ایسا کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں یوا۔ میں نے جب کاپی نکال دکھائی تو حیران رہ گیا اور شکریہ ادا کیا۔
قیادت کے مسئلہ پر ان سے ہماری رائے مختلف ہو گئی تھی مگر اس پر کبھی بحث نہیں ہوئی نہ ہی میل ملاقات میں کمی آئی۔ وہ آخری دم تک تحریک کے ساتھ وابستہ رہے۔
آپ 27 جنوری 1949ء کو پیدا ہوئے۔ ایم اے، ایل ایل بی تعلیم تھی۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی یے۔ 26 دسمبر 2012ء کی شام کو اپنی بیٹی کو فیصل آباد چھوڑنے گئے۔ واپسی پر اپنی گاڑی میں مردہ پائے گئے۔ اس کے تین احتمال دیے گئے۔ آپ کی شوگر کم ہو گئی جس کی وجہ سے غنودگی کے عالم میں گنوں کی ٹرالی سے ٹکرا گئے۔ یا کراسنگ کے دوران گنے کی ٹرالی سے ٹکرا گئے۔ یا ازلی دشمن نے یہ حادثہ ترتیب دیا ہو۔ 27 دسمبر 2012ء کو علامہ ساجد علی نقوی نے نماز جنازہ پڑھائی جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ آپ کا جنازہ شیعہ سنی اتحاد کا مرقع تھا۔ اسی دن تدفین ہوئی۔ برادر نذر عباس شاہ نے ان کے جنازے پر مجھ سے تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ آج تشیع جھنگ یتم ہوگئی ہے۔ ایک مدت کے بعد جھنگ کو لیڈر ملا تھا اب ایک مدت تک ایسے لیڈر کو ترسیں گئے۔
لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں
سید ثناء الحق ترمذی مرحوم ایک انسان تھے۔ خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ تھے۔ مگر ان کی خوبیاں ان کی خامیوں پر حاوی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے آمین ثم آمین۔