غلام الثقلین نقوی۔۔۔ پاکستانی ادب کا نمایاں نام
ترتیب و تدوین: سید انجم رضا
غلام الثقلین نقوی ، پاکستان کے نامور افسانہ نگار، ناول نگار اور سفرنامہ نگار تھے، چھ اپریل آپ کا یومِ وفات ہے
غلام الثقلین نقوی 12 مارچ، 1922ء کو چوکی ہنڈن، نوشہرہ، ریاست جموں و کشمیر میں پیدا ہوئے۔
انہوں نے مرے کالج سیالکوٹ سے گریجویشن، سینٹرل کالج لاہورسے بی ٹی کی ڈگریاں حاصل کیں اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہوئے۔
نومبر 1968ء سے اپنی ریٹائرمنٹ تک وہ گورنمنٹ کالج لاہور سے منسلک رہے۔
غلام الثقلین نقوی بیک وقت افسانہ، سفرنامہ، مضامین اور ناول کی صنف میں طبع آزمائی کی لیکن وہ افسانہ نگاری کی وجہ سے زیادہ مشہور ہوئے۔ وہ حلقہ ارباب ذوق سے وابستگی رکھتے تھے۔ ان کی تصانیف میں افسانوں کے مجموعے بند گلی، شفق کے سائے، سرگوشی، نقطے سے نقطے تک اور مضامین کا مجموعہ اک طرفہ تماشا ہے، ناولوں میں بکھری راہیں، میرا گاؤں، ناولٹ چاند پور کی نینا ، شیر زمان اور سفرنامہ چل بابا اگلے شہر کے نام سرفہرست ہیں۔
حالاتِ زندگی:
ان کے والد سید امیر علی شاہ سری نگر میں معلم تھے۔ ان کے مزید ۶ بہن بھائی تھے جن میں ۲ بہنیں اور ۴ بھائی شامل تھے۔ ان کی کم عمری میں شادی کروادی گئی اور شادی کے بعد انھوں نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ ان کے ۴ بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ ان کے تحریری دور میں ان کے سب سے اچھے دوست اور نقاد ان کے چھوٹے بھائی سجاد حسین نقوی تھے ، جو مصنف اور نقاد بھی تھے۔ غلام ثقلین نقوی پاکستانی اردو مصنف تھے۔ جو اپنے افسانوں کے سبب مشہور ہیں۔ ان کے کام نے دیہی زندگی کی تصویر کشی کی ، وہ ہندوستان کے ایک سید خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔
نقوی نے پاکستان کے معروف اداروں سے تعلیم حاصل کی ، انہیں لکھنے کا شوق تھا۔ انہوں نے اپنی پہلی مختصر کہانی “افسانہ” دس سال کی عمر میں لکھی۔ ان کا مختصر مضمون دسویں جماعت کی اردو کتاب کے نصاب میں شامل ہے۔ روزنامہ نوائے وقت میں بہت سے مضامین اور کالم لکھے ، ان کا کام پی ٹی وی پر ڈرامائی انداز میں پیش کیا گیا۔
انہوں نے مرے کالج سیالکوٹ سے گریجویشن، سینٹرل کالج لاہور سے بی ٹی کی ڈگریاں حاصل کیں اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہوئے۔ نومبر ۱۹۶۸ء سے اپنی سبکدوشی تک وہ گورنمنٹ کالج لاہور سے منسلک رہے۔
غلام الثقلین نقوی نے بیک وقت افسانہ، سفرنامہ، مضامین اور ناول کی صنف میں طبع آزمائی کی لیکن وہ افسانہ نگاری کی وجہ سے زیادہ مشہور ہوئے۔ وہ حلقہ احباب ذوق سے وابستگی رکھتے تھے
——
غلام ثقلین نقوی کا ناول ”میرا گاؤں “ فیصل آباد کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی عکاسی کرتا ہے۔ مصنف نے دیہات کو مرکز بنا کر اُس کے ذریعے پاکستانی معاشرے کی عکاسی کی کوشش کی ہے۔ ناول میں غربت، غریبوں کا استحصال اور اور خاص کر ان کی بگڑتی ہوئی زندگی کو اجاگر کیا گیا ہے۔
ان کا ایک مضمون “ایک طرفہ تماشا” مشہور ہے۔ دیہی زندگی کی تصویر کشی کے مصنفین میں پریم چند ، عبد اللہ حسین ، احمد ندیم قاسمی ، قرت العین حیدر ، جمیلہ ہاشمی ، قاضی عبد الستار ، بلونت سنگھ ، غلام اس ثقلین نقوی اور کچھ دوسرے شامل ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اردو ادب بڑی حد تک تحریروں کے شہرت پر زندہ ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے بیشتر لکھنے والوں کا تعلق چھوٹے یا بڑے شہروں سے ہے اور ان کے موضوعات تعلیم یافتہ متوسط طبقے کے بارے میں یا زیادہ سے زیادہ ، شہروں میں رہنے والے نچلے طبقے اور شہری معاشرے کے پچھواڑے پر ہی ہونا چاہئے۔ ان کے پاس لکھنے کے لئے دیہی زندگی کا عملی طور پر کوئی تجربہ نہیں ہے۔
غلام الثقلین نقوی کی تصانیف:
افسانوی مجموعے
دھوپ کا سایہ
سرگوشی
گلی کا گیت
نقطے سے نقطے تک
لمحے کی دیوار
نغمہ اور آگ
بند گلی
شفق کے سائے
ناولٹ
شیرا
شیرزمان
چاند پور کی نینا
ناول
بکھری راہیں
میرا گاؤں
سفرنامے
چل بابا اگلے شہر
ارض ِ تمنا
ٹرمنس سے ٹرمنس تک
مکہ و مدینہ
مضامین
ایک طرفہ تماشا ہے
(اعتراف: اس تحریر کی تیاری میں گوگل اور وکی پیڈیا پہ تحاریر سے مدد لی گئی)
ترتیب و تدوین: سید انجم رضا