“شہیدِ راہِ قلم شہید سعید حیدر زیدی
۹نومبریوم شہادت شہید راہِ قلم شہید سعید حیدر زیدی جن کو ہم سے بچھڑےگیارہ برس بیت گئےلیکن آج بھی شہید کی یاد اور ان کے افکار ان کے چاہنے والوں کے دلوں میں روشن چراغ کی مانند موجودہیں۔ شہید سعید زیدی اولڈ رضویہ سوسائٹی کراچی کے رہائشی اور معروف دانشور تھے، استاد شہید مطہری کی کئی کتابوں کا ترجمہ بھی آپ نے خود کیا تھا جبکہ بے شمار کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ اس مد میں انہوں نے دینی کتاب کی اشاعت و ترجمہ کے لئے ایک ادارہ دارالثقلین کے نام سے بنایا ہوا تھا ،ان کے فرزند سید محمد صادق رضا کی تحریر(سید انجم رضا)
شہیدِ راہِ قلم شہید سعید حیدر زیدی
تحریر: سید محمد صادق رضا زیدی فرزند شہید سید سعید حیدر زیدی
بہت عرصے سے سوچ رہا تھا کہ اپنے والد کے حوالے سے کچھ تحریر لکھوں، لیکن کبھی وقت یا کبھی پڑھائی اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ لیکن آج بالآخر قلم اٹھا ہی لیا۔
میرے والد (شہید سید سعید حیدر زیدی) کو 9 نومبر 2012 (شب 24 ذی الحجہ) کو کریم آباد پہ شہید کیا گیا۔ اس وقت میں تقریبا 16 سال کا تھا۔ اپنے والد کا جنازہ کس طرح دیکھا، کس طرح وہ وقت گزرا یہ فقط میں اور میرا خدا جانتا ہے، بس اس وقت کے بعد سے دل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ خدا کسی کو بھی اس طرح سے اپنے والد کا جنازہ نہ دکھائے۔
قوم نے ایک عظیم سرمایہ کھو دیا، جس کا آج تک سب کو افسوس بھی ہے۔ لیکن یاد رہے شہادت کی تمنا سب کو ہوتی ہے لیکن سب کا عمل ویسا نہیں ہوتا کہ شہادت خود اس کی تمنا کرے۔
میری نظر میں شاید شہید کے کچھ ایسے کام تھے جس کی وجہ سے شہادت نے خود شہید کا انتخاب کیا۔ ان کاموں میں سب سے پہلا کام شہید کا پابندیِ وقت کے ساتھ نماز کا ادا کرنا تھا۔ مجھے نہیں یاد کہ کبھی ایسا ہوا ہو کہ نماز کا وقت ہو اور شہید مصلائے عبادت پہ نہ ہوں۔ ایک اور عمل جو شہید کی زندگی میں بہت واضح رہا اور جس کی طرف خود ان کے دوستوں نے بھی اشارہ کیا وہ ان کی سادگی تھی۔ شہر کا کوئی بھی علاقہ ہو شہید اسی سادگی سے اپنی موٹرسائیکل پر وہاں حاضر ہو جاتے تھے۔ ایک اور چیز جو مجھ سمیت ہم سب کے لیے بےحد ضروری ہے وہ یہ کہ شہید کا مذہبی اجتماعات میں شرکت کرنا، مجھے نہیں یاد کہ کوئی ایسا جلوس ہو، یا مجلس جہاں شہید حاضر نہ ہوتے ہوں، بلکہ ان پروگراموں میں جانے کے ساتھ ساتھ وہاں پر موجود لوگوں سے گفتگو کرنا اور حقیقت اسلام سے آشنا کرنا شہید کے اصل کاموں میں سے تھا۔
یہ شہید کی زندگی کا ایک مختصر پہلو ہے جو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ایک وہ کام بھی ہے شہید کا جو آج تک نہ فقط چل رہا ہے بلکہ اس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، اور وہ ہے شہید کا ادارہ دارالثقلین، جو اس وقت شہید کی زوجہ یعنی میری والدہ چلا رہی ہیں۔ بلکل اسی عزم کے ساتھ، اسی فکر کے ساتھ، یہ ادارہ دن رات مصروف عمل ہے کہ شہید کا وہ عزم اور فکر زندہ رہے۔
دئیے بہر سو جلا چلے ہم تم ان کو آگے جلائے رکھنا
روایتیں کچھ چلا چلے ہم، تم ان کو آگے چلائے رکھنا’