کلیاتِ مشیرکاظمی۔۔۔ فراموش کردہ خزینے کی دریافت

تحریر: سید انجم رضا

مشیر کاظمی کا نام اور ان کا کلام اپنے اباجان سے سُننا میرے بچپن کی خوشگوار یادوں میں سے ہے، ابا جی مرحوم (سید غلام مرتضیٰ ترمذی) ایک بہترین مطالعاتی ذوق رکھتے تھے، جس میں ابا کی ابتدائی تعلیم غیر منقسم ہندوستان کے معروف شہر انبالہ میں کا بہت حصہ تھا، اباجان کے بقول ان کے آبائی گاوں راجگڑھ انبالہ سے قریب ہونے کی بنا پہ ابا نےاسکول کی ابتدائی تعلیم انبالہ میں حاصل کی اور تقسیم کے بعد بھی پہلے جھنگ اور کبیروالا میں مقیم ہونے کے بعد لاہور میں اپنے انبالے دوستوں سے رابطہ برقراررکھا۔

مجھے اپنے بچپن میں لاہور میں ابا کے ساتھ کمشنر آفس کے قریب کہیں ان کی ایک بہت سگریٹ پینے والے دوست سے ملاقات آج بھی یاد ہے، جن کا تعارف مشیر کاظمی کے نام سے ہوا۔

ہمارے گھر میں بہت سے ماہانہ بہت سے سیاسی سماجی اور مذہبی رسالے آیا کرتے تھے، جن میں تنظیم السلام، معارفِ اسلام، دُرنجف،ہفت روزہ رضاکار، ہفت روزہ شہابِ ثاقب  وغیرہ باقاعدگی سے آتے تھے، ان سب کے محرم نمبر اور چہلم نمبر بہت ضخیم اور منتخب تحریروں سے مزین ہوتے تھے

اباجی مرحوم اپنے پسندیدہ شعرا جن میں جوش، نجم آفندی، قیصر بارہوی، اور مشیر کاظمی کا کلام بہت ذوق سے تحت اللفظ پڑھتے اور ہم سب بہن بھائیوں کو بھی پڑھنے کی ترغیب دیتےاور ان سب میں مشیر کاظمی کا کلام

حسینؑ سب کا

حسین ؑخاموش کیوں کھڑا ہے

تصوراتِ کربلا

تلہ زینبیہؑ

سجدہ

بہت ذوق شوق سے پڑھا جاتا تھا۔

اس کے ساتھ ساتھ ہمارے مرحوم خالو جان سید راحت حسین راحت جو خود بھی بہت اعلی پائے کے قادر الکلام شاعر تھے، جب مجلس عزامیں مشیر کاظمی کا کلام اپنے مخصوص گھن گھرج لہجے کے ساتھ پڑھتے تھے تو ایک سماں باندھ دیتے تھے

مشیر کاظمی مرحوم کی مسدس تصوراتِ کربلا کے ابتدائی بند سے لیکر آخر تک ایک ایسے عاشقِ مولا حسینؑ کے جذبات محسوس ہوتے ہیں جو کربلا کے منطر نامے میں خود کو اپنے آقا ؑ کی بارگاہ میں موجود سمجھتا ہے

کربلا میں جب محرم کا نظر آتا ہے چاند

ڈوب جاتے ہیں ستارے، کہکشاں پڑتی ہے ماند

جھلملاتے ہیں شہیدوں کے مزاروں پر چراغ

خونِ دل میں ڈوب جاتے ہیں ستاروں کے ایاغ

سرخ ہو جاتی ہے مٹی، زرد پڑ جاتے ہیں پھول

دشت سے اٹھتی ہے آندھی، شہر میں اڑتی ہے دھول

رک کے ملتے ہیں گلے دریائے دجلہ و فرات

بھیگ جاتی ہے شہیدوں کے لہو میں کائنات

۔۔۔۔۔۔ جاری ہے

میں نے جب اپنی زندگی  کی پہلی وائس اوور وڈیو بنائی تو اسی مسدس کو پڑھنے کے لئے منتخب کیا

 اور اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ مسدس میں جب بچپن میں بھی سُنتا تھا تو ایسا لگتا تھا کہ اپنے مولا ؑ کی بارگاہ میں موجود ہوں، اور مولاؑ کی بارگاہ میں اپنے جذبات پیش کررہا ہوں

 اور میں نے خود بھی تحت اللفظ پڑھنے کا سلیقہ مشیر کاظمی مرحوم کے کلاکلام سے سیکھا،

مشیر کاظمی مرحوم نے ملی نغمے بھی بہت اعلی پائے کے لکھے

اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو
 تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں

جیسا پرسوز ملی نغمہ نصف صدی کے بعد آج بھی جب سُنا جائے تو ایک پرسوز کیفیت کے منظر نامے کا اسیر کردیتا ہے

نصف صدی قبل ۱۹۷۵میں انتقال کرجانے والے اس عظیم شاعر اور مدح خوان اہل بیتؑ کا شاعری کا مجموعہ کلام ان کے فرزندِ ارجمند محترم ثقلین کاظمی کی طرف سے جناب شعیب بن عزیز نے مجھے جب ارسال کیا تو ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی کہ وہ مشیر کاظمی جن کے شاعری پڑھ کر ہم نے شعر سمجھنا، شعر پڑھنا اور بیان کرنا سیکھا ، وہ سارا خزینہ محترم ثقلین کاظمی نے ہمیں اور آنے والی نسلوں کے حوالے کردیا،

یقیناً ثقلین کاظمی بہت زیادہ داد و تحسین اور شکریہ کے مستحق ہیں کہ لائق اولاد ہونے کا حق ادا کیا اور کُلیاتِ مشیرکاظمی کا خزینہ ہمارے اور آنے والی نسلوں کے حوالے کردیا  

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں