میر کاررواں قائداعظم محمد علی جناح
تحریر: سید نثار علی ترمذی
قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی نے بارہا اس جانب متوجہ فرمایا کہ ہماری تین حیثیتیں ہیں۔ شیعہ حوالے سے، پاکستانی ہونے کے ناطے اور عالم اسلام کے حوالے سے۔ شہید کی اس رہنمائی نے ہمارے لئے آسانی پیدا فرما دی کہ ہم اگر کسی شخصیت کا جائزہ لینا چاہیں تو مذکورہ معیار پر پرکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ تشیع کی ایک تاریخ ہے، جس سے نئی نسل کو آگاہ کرنا ہے۔ برصغیر میں تشیع کو پھیلانے میں جن اکابریں و علماء کرام نے طویل و لافانی جدوجہد کی ہے۔ اس کے بارے میں آگاہی ضروری ہے۔ یہ ضرب مثل عام ہوچکی ہے کہ جو قومیں اپنی تاریخ کو فراموش کر بیٹھی ہیں تو تاریخ بھی انہیں فراموش کر دیتی ہے۔ اپنے آباؤ اجداد کے کارناموں پر فخر تو معصومین (ع) نے بھی کیا ہے۔ ایسے گروہوں کی بھی کمی نہیں کہ وہ کوئی تاریخی ورثہ نہ ہونے کے باجود کتروبیونت کرکے اپنا مقام بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حیف ہے ایسی ملت پر جو روشن تاریخ رکھنے کے باوجود بھی اندھیرے کے صحرا میں جا کھڑی ہو۔ تحریک پاکستان میں جتنا حصہ اہل تشیع کا ہے، اس کا کماحقہ اظہار نہ تو مورخ کر پایا اور نہ ہی یہ ملت اسے طشت ازبام کرسکی۔ آج اسی ملک میں جس کی تشکیل میں خود ملت تشیع کا بنیادی کردار تھا، وہی ملت اپنے تحفظ اور دفاع کے مسائل سے دوچار ہے اور وہ طبقات جو تشکیل پاکستان کے ’’جرم‘‘ میں شریک نہ تھے۔ وہ آج اسی ملک کے مالک و مختار ہونے کے دعویدار ہیں۔ اس میں قصور یک طرفہ نہیں ہے، دوطرفہ ہے۔ اس ملت نے شہید عارف حسینی کے فرمان کے مطابق اپنا مکمل کردار ادا نہیں کیا۔ آج کے مسائل اسی کوتاہی کا نتیجہ ہیں۔
برصغیر میں اہل تشیع نے جہاں ہر شعبہ زندگی میں قدآور شخصیات کو پیش کیا ہے، وہیں تحریک تشکیل پاکستان کے کاروان میں بھی انتہائی اہم اور برجستہ شخصیات شامل رہی ہیں۔ ان میں میر کاررواں قائداعظم محمد علی جناح بھی شامل ہیں۔ آج کی تحریر اس عظیم شخصیت کے ایک اہم پہلو سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قائداعظم کا تعلق ملت اسلامیہ کے مکتب شیعہ اثناء عشری سے ہے۔ اس پر ان کی خاندانی دستاویزات، قائداعظم کے اظہارات، مذہبی مخالفین کا اقرار، نماز جنازہ، عدالت میں قائداعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کا وراثت کا دعویٰ اور اس کے علاوہ قائداعظم کا بے داغ کردار۔ گو ایک مضمون میں تمام حوالہ جات پر بحث ممکن نہیں، لیکن ضرورت ہے کہ اس حوالے سے ایک مکمل تحقیق سامنے آئے۔ اس سلسلہ میں یونیورسٹی کے طالب علموں کو پیش رفت کرنی چاہیئے کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کیلئے اس طرح کا موضوع تحقیق کیلئے لیں۔ یہ موضوع کسی قسم کی فرقہ واریت کے حوالے سے نہیں بلکہ حقائق کو سامنے لانے کیلئے ہے۔ اس کا فائدہ جہاں مکتب ہوگا کہ اپنا مقدمہ جرات کے ساتھ پیش کرسکیں گے، وہیں فرقہ وارانہ ذہن کی سازشوں کو بھی ناکام بنا سکتے ہیں کہ فرقہ واریت، تعصب، نفرت اور تکفیریت موجودہ دور کی پیداوار ہے جبکہ تشکیل پاکستان کے وقت ان تعصبات کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔
تمام مورخین اور سوانح نگاروں نے یہ لکھا ہے کہ قائداعظم کا خاندان ’’اسماعیلی‘‘ تھا، مگر قائداعظم نے بعد ازاں اثناء عشری امامیہ اختیار کر لیا تھا۔ پرانے کورس کی کتب میں بھی یہ بات تحریر ہوتی تھی کہ قائداعظم شیعہ مکتب سے تعلق رکھتے تھے، مگر بعدازاں اسے کورس سے نکال دیا گیا۔ اب تو کچھ مورخین ایسے بھی پیدا ہوگئے ہیں کہ جو یہ موقف اختیار کئے ہوئے ہیں کہ قائداعظم تو بس مسلمان تھے۔ دلیل کے طور پر قائداعظم کے ان جوابات کو پیش کرتے ہیں کہ جب قائداعظم سے سوال کیا گیا کہ وہ شیعہ ہیں یا سنی۔ وہ جواباً ارشاد کیا کرتے کہ پہلے یہ بتاؤ کہ رسول خدا شیعہ تھے یا سنی، جسے سن کر سوال کرنے والا لاجواب ہوجاتا۔ مذہب مسلک کا اظہار دو تین مواقع پر ہوتا ہے۔ ایک نکاح کے وقت، دوسرا نماز جنازہ اور تیسرا تقسیم وراثت کے وقت، چوتھا تہوار وغیرہ کے موقع پر ورنہ تو مذہب ذاتی اثاثہ کے طور پر رہتا ہے۔
نکاح
جب قائداعظم کا نکاح ہوا تو اس میں قائداعظم کے نام کے ساتھ محمد علی ولد جینا خوجہ اثناء عشری لکھا گیا اور وکیل راجہ محمود آباد سر محمد علی خان اور غلام علی کے نام کے ساتھ بھی اثناء عشری لکھا گیا۔ قائداعظم کا نکاح حضرت شریعت مدار آقائے شیخ ابوالحسن نجفی نے پڑھایا۔ حسین افسر سینیئر صحافی و کالم نگار لکھنو اپنے مضمون میں لکھتا ہے کہ قائداعظم نے اپنی بیوی رتی کا نام مریم رکھا تھا۔ جسکی قبر آرام باغ قبرستان جو کہ خوجہ شیعہ اثناء عشری ممبئی کا ہے، میں موجود ہے۔ قائداعظم نے اپنی اہلیہ کے قبول اسلام اور نکاح کی تاریخ 7 رجب رکھی، جو کہ حضرت عباس علمدار سے منسوب ہے۔
جنازہ
عقیل جعفری اپنی ضخیم کتاب پاکستان کرانیکل کے صفحہ 27 پر اخباری تراشے کو ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جس کے مطابق 12 ستمبر 1948ء نماز فجر سے پہلے قائداعظم کے جسد خاکی کو حاجی ہدایت اللہ عرف حاجی کلو نے غسل میت دیا۔ نماز فجر کے بعد مولانا انیس الحسنین صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی۔ جس میں سید ہاشم رضا، سید کاظم رضا، یوسف ہارون اور دیگر عمائدین نے شرکت کی۔ سید غلام علی احسن مشہدی اکبر آبادی نے تلقین پڑھائی‘‘۔ مولانا انیس الحسنین کے فرزند کراچی میں موجود ہیں، وہ بھی مذکورہ واقعہ کی تصدیق کرچکے ہیں کہ ان کے والد بزرگوار نے قائداعظم کا جنازہ پڑھایا تھا۔
وراثت
1948ء میں جب قائداعظم کا انتقال ہوا تو ان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو اپنا مسلک ظاہر کرنا پڑا، تاکہ اپنے بھائی کی وصیت کے مطابق ان کی جائیداد حاصل کرسکیں۔ یاد رہے کہ سنی فقہ کے مطابق کلی طور پر اس قسم کی وصیت کی اجازت نہیں، جبکہ شیعہ فقہ میں ایسا ہوسکتا ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح نے ایک اقرار نامہ سندھ ہائی کورٹ میں داخل کیا۔ جس پر وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان کے دستخط تھے کہ جناح خوجہ شیعہ مسلم تھے اور عدالت سے درخواست کی کہ ان کی وصیت کے مطابق شیعہ قانون وراثت پر عمل کیا جائے۔ عدالت نے پٹیشن قبول کرلی۔
محبت حسین (ع)
ایک تاریخی واقعہ ہے، جو قائداعظم کی محبت امام حسین (ع) اور احترام عظمت واقعہ کربلا کا آئینہ دار ہے۔ شہنشاہ جارج ہشتم کے زمانہ میں حکومت برطانیہ کی دعوت پر قائداعظم ہندوستانی مسلمانوں کیلئے مزید اصلاحات حاصل کرنے انگلستان تشریف لے گئے۔ قصر برکھنگم کی طے شدہ دعوت کو عاشور محرم کی وجہ سے مسترد کر دیا۔ آج تک کسی شخصیت نے شاہی دعوت کو مسترد کرنے کی جرات نہیں کی تھی، لیکن قائداعظم نے عاشور کے احترام میں وہ دعوت قبول نہ کی۔ اس کا تذکرہ ڈاکٹر ممتاز حسن کی کتاب ’’قائداعظم کا ایک سفر‘‘ کے صفحہ 65 پر موجود ہے۔
محبت علی (ع)
اسی طرح کا ایک واقعہ ہے کہ جس سے قائداعظم کی حضرت علی (ع) سے عقیدت اور ان کے یوم شہادت پر دنیاوی کاروبار سے لاتعلقی اور اصول پسندی کا اظہار ہوتا ہے۔ جناب صدیق علی خان اپنی کتاب ’’بے تیغ سپاہی‘‘ کے صفحہ 43 پر رقمطراز ہیں کہ ایک مرتبہ گاندھی جی 21 ماہ رمضان کو بات چیت کرنا چاہتے تھے۔ قائداعظم نے بذریعہ اخباری بیان یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ چونکہ اس دن حضرت علی (ع) کا یوم شہادت ہے، اس لئے وہ گفت و شنید نہیں کریں گے۔ قائداعظم کا یہ بیان پڑھ کر مولانا ظفر الملک نے لکھنو سے قائداعظم پر اعتراض کیا کہ شیعہ عقیدہ کو مسلمانوں سے منسوب کرنے کا آپ کو حق حاصل نہیں۔ انہوں نے مولانا کو اپنے روایتی انداز میں مختصر جواب دیا ’’مجھے علم نہیں تھا کہ آپ جیسے کوتاہ نظر مسلمان ہنوز موجود ہیں۔ یہ صرف شیعہ عقیدہ کا سوال نہیں ہے۔ حضرت علی خلیفہ چہارم بھی تھے۔ 21 ماہ رمضان کو بے شمار سنی بلالحاظ عقائد یوم شہادت مناتے ہیں۔
تبلیغی شیعہ
قائداعظم محمد علی جناح نہ صرف یہ کہ اثناء عشری شیعہ تھے بلکہ انہوں نے آغا خان کو یہ ترغیب دینے کی کوشش بھی کی کہ وہ اسماعیلیوں کی سربراہی سے سبکدوش ہوکر اثناء عشری جماعت میں شامل ہو جائیں۔ (شاہراہ پاکستان۔ صفحہ 520)۔ بڑے لوگوں کی مخالفت بھی بڑی ہوتی ہے۔ انہی رویوں کا قائداعظم کو بھی سامنا کرنا پڑا۔ مخالفین قائداعظم کے کردار پر تو انگلی نہ اٹھا سکے، مگر ان کے مکتب کے حوالے سے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ علماء کا ایک وفد قائداعظم سے پاکستان کے حوالے سے گفتگو کرنے آیا۔ آپ نے تفصیلاً پاکستان کے اہداف سے آگاہ کیا اور ان کے سوالوں کا تسلی بخش جواب دیا۔ جب وفد رخصت ہونے لگا، ان کے نمائندے نے قائداعظم سے مخاطب ہوکر کہا کہ ہم آپ کے دلائل سے مطمئن ہیں، ہم آپ کی حمایت کرتے، اگر آپ شیعہ نہ ہوتے۔ قائداعظم نے جواب دیا کہ آپ گاندھی کا ساتھ دیں، وہ آپ کے مسلک کے ہیں۔
علامہ شبیر احمد عثمانی، جو مدرسہ دیوبند کے مدرس تھے، نے مسلم لیگ کی حمایت کا اعلان کیا تو انہیں اپنے مکتب کی طرف سے بہت زیادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان سے اکثر جو سوال کیا گیا کہ قائداعظم تو شیعہ ہیں، مگر آپ نے مسلسل اس دباؤ کو برداشت کیا اور اس حوالے سے قائداعظم کا دفاع کیا۔ آپ نے یہ سب کچھ برداشت کرتے ہوئے آخری دم تک ساتھ نبھایا۔ اس موضوع پر ایک کتاب ’’علامہ شبیر احمد عثمانی کا تحریک پاکستان میں کردار‘‘ جسے پاکستان سٹڈی سنٹر، پنجاب یونیورسٹی لاہور نے 2005ء میں شائع کیا۔ اس میں وہ تمام خط و کتابت جمع ہے، جو علامہ صاحب نے کی۔ ایک سوال جو پوچھا گیا کہ وہ بہت سے حوالوں سے ہے اور اس جواب بھی علامہ شبیر احمد عثمانی کے خلوص کی تائید کرتا ہے۔ (صفحہ 156پر درج ہے) ایک خط کے جواب میں لکھتے ہیں کہ ’’تمام ذمہ داران لیگ کے بہت سے اعلانات اس بارے میں ہوچکے ہیں کہ ہمارا پروگرام قرآن کریم ہے اور خالص شرعی معاملات میں سنیوں کے علماء اور شیعوں کے مجتہدین کا فیصلہ مقدم رکھا جائے گا۔ میں اپنی ذاتی رائے کا پابند کسی کو نہیں کرسکتا۔ اگر وہ خلافی کریں گے تو کانگریس جو کہ عہد و مواعید کی پابندی کرسکتا ہے۔ اس سے کچھ زیادہ ہم مسلمانوں کے وعدوں کا اعتبار کرسکتے ہیں۔
اسی طرح مفتی کفایت اللہ مفتی کتاب ’’کفایت المفتی، مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی جو دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی کے زیر نگرانی شائع ہوئی، کی جلد 9 صفحہ 395 پر ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں کہ ‘‘مجملاً اس قدر معلوم ہے کہ مسٹر محمد علی جناح شیعہ ہیں اور اسلامی فرقوں میں شامل ہیں۔‘‘ کچھ عرصہ قبل نیشنل اسمبلی میں وزیر دفاع خواجہ آصف، ایم کیو ایم رہنما الطاف حسین اور متعدد کالم نگاروں نے قائداعظم کے شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے پر اظہار کیا ہے۔ سیکرٹری شیعہ کانفرنس لکھنو کے ساتھ مراسلات کے دوران قائداعظم نے 26 ستمبر 1945ء کو ایک شیعہ اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا یقین دلاتے ہوئے فرمایا: ’’ہم مسلمانوں کے ہر فرقے اور غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ عدل اور انصاف کے قائل ہیں۔ مسلم لیگ پہلے ہی عہد کرچکی ہے کہ جملہ مذاہب اور فرقوں کیلئے مسلموں اور اقلیتوں کے ایمان، عقیدے میں مداخلت نہیں کرے گی۔‘‘ (قائداعظم اور اقلیتیں، محمد حنیف شاہد، نظریہ پاکستان ٹرسٹ۔ صفحہ 82)
مشہور دانشور ولپرٹ لکھتے ہیں کہ’’کچھ لوگ تاریخ کے دھارے کو تبدیل کر دیتے ہیں، جبکہ ان میں سے بھی کچھ دنیا کے نقشے میں ترمیم کرتے ہیں، ان میں سے بہت ہی کم لوگ نئی قومیت پر ملک تعمیر کرنے کا سہرا سر پہ سجاتے ہیں اور جناح نے یہ تینوں کام کر دکھائے ہیں۔‘‘
قائد کی شخصیت اور کردار اس جانب متوجہ کرتا ہے کہ اس ملک کو اپنا سمجھا جائے اور اس کی تعمیر و ترقی میں آگے
بڑھ کر حصہ ڈالیں۔ قائداعظم جیسا کردار پیش کرکے فرقہ واریت کو اپنی موت آپ مارا جاسکتا ہے۔