ایران سعودی عرب دوستی کے اثرات
تحریر: سید منیر حسین گیلانی
ہمارے پڑوسی ملک اسلامی جمہوریہ ایران میں بادشاہت امریکہ کے سہارے زندہ تھی،حالات نے پلٹا کھایا یہاں ایک جید عالم دین اور روحانی شخصیت نے بادشاہ رضا شاہ پہلوی اور اس کے سرپرست امریکہ کو ملک سے نکال باہر کیا۔پھر انہوں نے جمہوری انداز سے عوام کی خواہش پر اسلامی نظام نافذ کر دیا۔یہ روحانی شخصیت اور مجاہد عالم دین آیت اللہ روح اللہ امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ تھے۔ استعماری قوتوں نے اس وقت پراپیگنڈہ شروع کر دیا کہ یہ ایک شیعہ انقلاب ہے جو کہ خطے کے دوسرے ممالک پر اثر انداز ہو کر یہاںکی حکومتوں کو ختم کر کے
اپنا انقلاب لانا چاہتاہے ۔جبکہ اس سوچ کے برعکس امام خمینی رحمة اللہ علیہ نے ۔۔۔”لاشرقیہ لاغربیہ،اسلامیہ اسلامیہ“ ۔۔۔کا نعرہ دے کر اتحاد امت کی نوید سنا دی۔لیکن ایک سازش کے تحت نوزائیدہ انقلاب اسلامی پر عراقی حکمران صدام حسین کے ذریعہ حملہ کروادیا گیا ،جس میں خطے کے دوسرے ممالک جن پر امریکہ کا اثر و رسوخ تھا ،وہ صدام حسین کے حمایتی اورساتھی بن گئے۔قصہ مختصر کم وبیش آٹھ سال تک ایران عراق جنگ جاری رہی۔ جس میںاسلامی جمہوریہ ایران کا شدید جانی اور مالی نقصان ہوا۔ لیکن بانی انقلاب اسلامی کی خواہش اور کوشش تھی کہ جس طرح ایران سے امریکہ کو نکالا گیا ہے، اسی طریقے سے خطے کے دیگر ممالک سے بھی اسلامی جمہوری اچھے سفارتی تعلقات قائم کرکے امریکہ کو نکالے ۔
ایران کی مسلسل کوششوں کی وجہ سے سب سے پہلے عراق سے امریکہ کا اثر ورسوخ کم ہوا۔ عراقی حکومت نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان مفاہمت کرانے کا بیڑا اٹھا لیا۔اس کے بعد اردن میں علاقائی ممالک کی ایک کانفرنس کے موقع پر دونوں ممالک کے سفارتکاروں کا رابطہ ہوا۔ اسی دوران ایران کی خطے میں امن برقرار رکھنے کی کوشش کو سبوتاژ کرنے کے لیے اسرائیلی حکومت نے ایران کو ایٹمی قوت بننے کے خوف سے ڈراتے او راسے اسرائیل اور سنی عرب ممالک کا مشترکہ دشمن قراردیتے ہوئے خصوصاً سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کوناجائز ریاست کو تسلیم کرنے کے حوالے سے کام شروع کر دیا ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورحکومت میں ہی ، اس کے یہودی داماد نے اسرائیل کی سرپرستی کرتے ہوئے بہت سے دفاعی معاہدے کئے۔لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ سعودی عرب کے طاقتور حکمران شاہ سلمان کے بیٹے محمد بن سلمان نے چین سے بھی رابطے شروع کر دیے۔ جبکہ اس سے پہلے چین اور ایران کی سرمایہ کاری کے حوالے سے بہت زیادہ قربت ہوچکی تھی۔
راقم الحروف محسوس کرتا ہے کہ اس وقت کی امریکی حکومت کے انتہائی گمراہ کن دباو ¿ کاشہزادہ محمد بن سلمان نے سامنا کیا۔ امریکی چنگل سے آزاد ہونے کے لئے محمد بن سلمان کے چینی سفارت کاروں سے رابطے ہوئے۔ جس کے نتیجے کے طور پر چینی صدر مملکت جن پنگ نے سعودی عرب کے دورے کا اعلان کیا ۔ دورے کے موقع پر سعودی حکومت نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ چینی سربراہ مملکت کا استقبال کیا ۔اس چار روزہ دورے کے دوران تقریباً 35 معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ محمدبن سلمان کی تیل کے حوالے سے پالیسی تبدیل ہونا شروع ہوئی۔ سعودی عرب کی معیشت کو تیل سے سہارا ملتا تھا، اس کو کم کر کے متبادل ذرائع تلاش کرنا شروع کر دیے گئے۔
محمد بن سلمان نے آج کے جدید دور کو سامنے رکھتے ہوئے سعودی عرب میں کچھ اصلاحات ایسی کیں،جس میںملک کا انتہائی شدت پسند طبقہ دباو ¿ ڈالنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ محمد بن سلمان نے ان کی کوئی بات نہ سنی ،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ سعودی عرب کے شمال مغربی صوبہ تبوک میں نئے شہر’نیوم ‘کی تیار ی جاری ہے ،یہ دنیا کا جدید ترین شہر ہوگا ۔یہاں سیاحت اور سرمایہ کاری کے حوالے سے ہر قسمی سہولیات میسر ہو ں گی۔اندازہ ہے کہ 2039ءتک یہ شہر تکمیل کے مراحل میں پہنچے گا۔
2 ۔جنوری 2016ءکو سعودی عرب کے شیعہ اکثریتی مشرقی صوبے العوامیہ کے عالم دین آیت اللہ باقر النمرکی شہادت کے بعدتہران میں سعودی سفارتخانے کے سامنے مشتعل ایرانی عوام کے احتجاجی مظاہرے میں سفارت خانے کو نقصان پہنچا۔ جس کے بعدایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع ہوگئے ۔ دونوں نے اپنے اپنے سفارت خانے بند کردیے ۔
میں سمجھتا ہوں کہ چینی صدرکے دورے کے بعد چین نے خطے کے دو بڑے موثر مسلم ممالک کے درمیان سات سال بعد سفارتی تعلقات بحال کرکے پوری دنیا کو حیران و ششدر کردیا۔کہ ایک عرصے سے برسر پیکار دونوں متحارب مملکتیں ایک ہوگئیں۔سعودی عرب امریکی اثر سے باہر نکل آیا، جبکہ ایران کا ایک مزید دشمن کم ہوکر دوست بن گیا۔ مملکت سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارت خانے تہران اور ریاض میں کھل چکے ہیں ۔دونوں ممالک کے درمیان شدت پسندی پر مبنی کچھ مسائل کے حل کی بھی توقع کی جارہی ہے۔ جس سے شاید دونوں ممالک میں عرصے سے موجود اختلافات کچھ مزید کم ہوجائیں گے۔
دونوں مسلمان ممالک کے درمیان باہمی محبت کے جذبات میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا ہے۔سوڈان میں بدامنی کے دوران خرطوم میں پھنسے ہوئے ایرانی سفارتکاروں کو سعودی ائر لائن باحفاظت لے کر جدہ ائرپورٹ پر پہنچی تو انہیں بڑی گرمجوشی سے خوش آمدید کہاگیا۔ ایران کے اہلکار جو جہاز لے کر آئے ہوئے تھے۔ جدہ ایئرپورٹ پر سعودی فوج کے کمانڈر نے خرطوم سے آئے ہوئے ایرانیوں کو گلے لگا کر کہا ہم مسلمان بھائی ہیں۔ ہماری طرف سے آپ حج، عمرہ اور زیارات مقدسہ پر آئیں تو ہم آپ کے لیے چشم براہ ہوں گے۔ اگر سعودی شہری ایران میں مقامات مقدسہ کی زیارت پر جانا چاہیں تو وہ بھی جا سکتے ہیں۔
مسجد نبوی میں رمضان المبارک کے آخری جمعہ پر حضرت علی علیہ السلام کی شان میں قرآن و حدیث کے حوالے سے ایک پر مغز اور متاثر کن تقریر کی گئی ۔امیرالمومنین علی علیہ السلام کی ولادت سے لے کر جنگ بدر،احد،خیبر میں آپ کی بہادری کا بھی ذکر کیا گیا۔ میںسمجھتا ہوں کہ سعودی حکومت فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنت البقیع میں اہل بیت رسول کے مزارات مقدسہ کو تعمیر کروائیں یا کروانے کی اجازت دے دیں۔تو ان مزارات کی زیارت کے لئے نہ صرف سعودی عرب بلکہ پاکستان، ہندوستان ،افغانستان ،بنگلہ دیش ،عراق، شام ،یمن سمیت دنیا کے تمام ممالک سے زائرین خاتون جنت دختر رسول حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی قبر پر حاضری دینے کے لئے آئیں گے۔اس سے محمد بن سلمان کی تیل سے ہٹ کرسعودی عرب کی اکانومی کو بہتر کرنے کا موقع ملے گا۔جبکہ اس طرح سعودی عرب سے زائرین ایران میں زیارت کے لیے بھی جا سکیں گے۔ یہ اقدام ایرانی سیاحت کے لیے بہتر ہوگا۔ایران چاہتا ہے کہ کوئی بھی ملک کسی ملک میں مداخلت نہ کرے۔خطے سے امریکہ کو نکالنے کے حوالے سے صرف ایران ہی نہیںچین بھی خواہش مند ہے، جس کے ان شاءاللہ بہت جلد اثرات سامنے آئیںگے۔اسی طرح ایران نے فلسطین میں مزاحمتی گروپوں کی جس اندا ز سے مدد کی ہے۔ اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اسرائیلی بمباری کے جواب میں القدس بریگیڈ نے فی الفور اسرائیل پر گولہ باری کرکے جواب دیا۔ اللہ کرے کہ تمام مسلم ممالک اسرائیل کے خلاف فلسطینی مسلمانوں کی حمایت میں کھڑے ہوجائیں تو شاید وہ دن دور نہیں جب آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ممکن ہوجائے۔۔۔۔۔۔۔۔