محرم الحرام کے آداب و آمادگی
عزاداری امام حسین علیہ السلام ایک ایسی عبادت ہے جو مکتبِ اہلبیت ؑ میں اصول دین میں اطاعت امام معصوم ؑ اور فروعی اعتبار سے تولیٰ و تبریٰ کے عظیم شعار کی صورت میں ادا کی جاتی ہیں۔ ملوکیت کےاستبداد ی ادوارمیں جب بھی تشیع اہل بیتؑ کے ماننے والوں کو موقع ملا امام حسین ؑ اور ان کے باوفا اصحاب کی ریگزار کربلا میں اموی حکام کے ہاتھوں مظلومانہ شہادت اور خانوادہ اہل بیتؑ خصوصاً مخدرات عصمت کوفہ و شام کے درباروں اور با زاروں میں دربدری کو بصورت مصائب و عزاداری بیان کیا گیا۔ سید الشہدا اور اہل بیت ؑ کے محبین اور مکتبِ اہل بیت ؑ کے ماننے والے دُنیا میں جہاں جہاں بھی پہنچے انہوں نے عزاو عزاداری جیسی عظیم عبادت کو ایک عوامی جہت عطا کی ۔ عزاداری کی اس عوامی جہت نے عزا و عزاداری کی ایک نئی تہذیب او رثقافت کی بنا رکھ دی ، زندگی کے ہر علمی شعبے ادب و ثقافت، شاعری و مصوری، معاشرتی رہن سہن، سماجی رویے غرض ہر پہلوئے حیات پہ تہذیبِ عزا نے اپنا اثر چھوڑا۔عزاداری بنیادی طور پر حسینیؑ صفات پیدا کرنے کا نام ہے۔ عزاداری ریاضت ہے۔ عزاداری اپنا رنگ گم کرکے حسینیؑ رنگ میں رنگ جانے کا نام ہے۔ دُنیا بھر میں جہاں جہاں اہل بیت ؑکے ماننے والے موجود ہیں یکم محرم سے ہی مراسم عزائے حسین ؑ میں مصروف ہوجاتے ہیں ، اور یہ مراسم اگلے اڑھائی مہینے وسط ربیع الاول تک جاری رہتے ہیں، فی زمانہ جب کہ ہماری معاشرتی و سماجی زندگی جدید سے جدید تر ہوتی جارہی ہے،عزاداری سید الشہداؑ کوادا اور برپا کرنے میں جدت آرہی ہے، علامہ سید روح اللہ رضوی نزیل حوزہ علمیہ قم المقدسہ ایران ایک نوجوان عالم دین ہیں، آپ مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ جدید علوم سے مزین ہیں اور سماجی و معاشرتی موضوعات پہ ایک گہری نظر رکھتے ہیں،آپ کی ایک تحریر” محرم الحرام کے آداب و آمادگی” کے موضوع پہ آپ کے ذوق مطالعہ کی نذر (سید انجم رضا)
” محرم الحرام کے آداب و آمادگی”
تحریر: علامہ سید روح اللہ رضوی نزیل حوزہ علمیہ قم المقدسہ ایران
گزشتہ برس محرم الحرام کے آداب و آمادگی کے عنوان سے چند بنیادی اور اہم مطالب پر مبنی تحریر کیا گیا مختصر سلسلہ:
عزاداری سید الشہداء کی اہمیت:
“اے اللہ! تیرا شکر کہ تو نے مجھے علی (علیہ السلام) کی اولاد پر گریہ کرنے کی توفیق دی جو ایسی بے قراری ہے جس میں سب سے بڑھ کر قرار ہے، ایسا غم ہے کہ جس میں سکون اور روحانیت ہے۔” شہید سردار کی وصیت سے اقتباس
عزاداری امام حسین علیہ السلام در حقیقت تحریک و قیام امام حسین علیہ السلام کا تسلسل ہے، مقصد و ہدف وہی ہے جو امام علیہ السلام کے قیام کا ہدف و مقصد تھا۔ مدینہ سے مکّہ اور مکّہ سے کربلا تک امام عالی مقام علیہ السلام کے کلمات، خطوط و تقاریر ان اہداف و مقاصد کے بیان کے لئے کافی ہیں؛ ان بیانات کا خلاصہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر، معاشرے کی اصلاح، کتاب الہی و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سیرت امیر المومنین علیہ السلام کا احیاء، بدعتوں کا خاتمہ، نااہل حاکمیت کی برطرفی اور حکومت الہیہ کی زمینہ سازی، ظلم اور فسق و فجور کے مدمقابل سکوت اختیار کرنے والوں کی مذمت ہے۔
عزاداری بھی اسی تحریک کا تسلسل ہے جسے یزید (لع) نے ۶۱ھ میں ختم کرنا چاہا لیکن سید سجاد و سیدہ زینب سلام اللہ علیہما کے خطبوں نے اسے گلی گلی، قریہ قریہ پہنچا دیا اور آج ۱۴۴۳ھ کے اختتام تک یہ تحریک؛ عزاداری کی شکل میں ایک چمکتے سورج کی مانند زندہ ہے اور انسانیت کی ہدایت کا سبب ہے۔ آج اس تحریک کا عَلَم ہمارے ہاتھ میں ہے پس یہ ذمہ داری بھی ہماری ہے کہ بالخصوص عزاداری میں ان اہداف کو مد نظر رکھیں جو سید الشہداء علیہ کے مد نظر تھے۔ اور ہر اس عمل سے بیزاری اختیار کریں جو ان اہداف کے مدمقابل قرار پارہا ہو۔
مقصد کربلا سے ہم آہنگی:
کوشش کریں اس ماہ محرم مجالس عزاداری کے ساتھ ساتھ امام حسین علیہ السلام کی تحریک اور انکے کلمات سے زیادہ سے زیادہ آشنائی کے لئے ان موضوعات پر موجود کتب کا مطالعہ کریں۔ اس حوالے سے مناسب ترین کتاب ڈاکٹر صادق نجمی صاحب کی “امام حسین علیہ السلام کے خطبات – مدینہ سے کربلا تک” ہے، جو شہید سعید حیدر زیدی کے ادارے دار الثقلین سے نشر کی گئی ہے۔
بات کتاب کی آگئی تو ذکر کرتا چلوں سالہائے گذشتہ بعض علاقوں میں ایام عزا کے دوران کتابوں کی سبیل یا تبرک میں کتاب کی تقسیم دیکھنے کو ملی جو یقیناً مومنین کی علمی تشنگی کو دور اور انکی روح کے لئے غذا کی فراہمی کا سبب ہے۔ اسی طرح معاشرے میں شجر کاری کی بڑھتی ضرورت و اہمیت کے پیش نظر پودوں کو بھی تبرک میں تقسیم کیا جانا شعور میں اضافے کی علامت ہے۔
البتہ اسکا معنی یہ نہیں کہ مومنین کے لئے پانی و شربت کی سبیلوں اور اطعام کا اہتمام نہ کیا جائے، اسکی اہمیت اپنی جگہ جیسا کہ ہمیں سیرت آئمہ علیہم السلام میں بھی نظر آتا ہے۔ لہذا زیادہ سے زیادہ مومنین کے لئے نذر و نیاز کا اہتمام بھی بہت ضروری ہے اور عزاداری کے ثقافتی ارکان میں سے ہے۔
لیکن ان تبرکات اور سبیلوں میں ایام عزا کے ساتھ ہماہنگی ہونا بھی ضروری ہے یعنی ضرورت کے مطابق ہو فضول خرچی اور اسراف سے پاک ہو، اسی طرح شادی بیاہ و جشن کی محافل اور مجالس عزا کے اطعام و اسکی روش میں فرق ہو۔ افسوس کے ساتھ بعض شیعہ علاقوں میں اس چیز کی رعایت نہیں کی جارہی تبرکات کے نام پر میلا لگا دیا جاتا ہے اور شب عاشورہ تو ایسا منظر ہوتا ہے گویا شب عید غدیر ہو۔ جبکہ ہمارے آباء و اجداد اس حوالے سے بہت حساس تھے، عزاخانہ و عزاداری کی حرمت، عزاداری میں سادگی، ریا و دکھاوے سے پرہیز، غم کی کیفیت کا اظہار یہ سب ہم تک وراثت میں پہنچا ہے، اسکی حفاظت اور آئندہ نسل تک اسے منتقل کرنا ضروری ہے۔
یہ فاطمہ (س) کی امانت ہے اتنا یاد رکھو
غم حسین (ع) نئی نسل کے سپرد کرو
پیغام کربلا کی تبلیغ:
عزاداری دراصل امام حسین علیہ السلام کی تحریک کے پیغام کو گھر گھر، قریہ قریہ پہنچانے کی جد و جہد ہے۔ اگر کوئی کام عوام الناس تک اس پیغام کے پہنچنے میں رکاوٹ بنے تو ہمیں اس سے پرہیز کرنا ہوگا اور ان کاموں کی جانب توجہ کرنی ہوگی جو لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اس تحریک کے نزدیک کرسکیں؛ اسی طرح اس تحریک کو منظم انداز میں چلانا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ اسی پیرائے میں کچھ عرائض پیش خدمت ہیں:
۱۔ لاوڈ اسپیکر کا استعمال: مائک سسٹم اور لاوڈ اسپیکر در اصل لوگوں تک آواز پہنچانے کا وسیلہ ہیں، لیکن اگر یہ وسیلہ لوگوں کی اذیت کا سبب بنے تو نہ صرف اس سے پیغام نہیں پہنچے گا بلکہ یہ لوگوں کی مکتب حقہ سے دوری کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اس حوالے سے کوئی باقاعدہ حدود و مرز معین کرنا سخت ہے کہ کہاں اور کس حد تک لاوڈ اسپیکر کا استعمال کیا جائے۔ لیکن بعض چیزوں کی رعایت پر یقینا اتفاق کیا جاسکتا ہے جیسے Working Days میں دیر رات تک اور مجلس میں شریک افراد کی تعداد سے کئی گنا زیادہ یعنی بے جا لاوڈ اسپیکر کا استعمال یقینا نوکری پیشہ افراد اور طالبعلموں کے لئے مشقت و پریشانی کا سبب ہے۔ بالخصوص آج جب اچھی نوکریوں اور اچھے طالبعلموں کی ویسے ہی کمی ہو تو اس مسئلہ کی جانب خصوصی توجہ کرنا چاہئے۔
۲۔ راستوں کی بندش: عزاداری میں جلوس عزا کا کردار ان لوگوں کو جو عزداری میں شریک نہیں ہوتے شبیہ سازی، نوحہ و ماتم کے ذریعے اس تحریک سے روشناس کرانا ہے لیکن افسوس کہ اداروں کی جانب سے سکیورٹی کے نام پر ٹریفک، حتی پیدل آمد و رفت تک روک دی جاتی ہے، جس سے ان جلوسوں کی افادیت کم ہورہی ہے اس حوالے سے بھی مومنین کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ جلوس کی افادیت دوبارہ بحال ہو، عوام الناس کو کم سے کم پریشانی کا سامنا ہو اور ساتھ جلوس عزاداری کے خلاف بھی کوئی سازش بھی کامیاب نہ ہوپائے۔
دوسری جانب شیعہ علاقوں میں جو گھروں کی مجالس تھیں وہ آہستہ آہستہ گلیوں میں منعقد ہورہی ہیں جو شاید غیر ضروری بلکہ غیر مناسب بھی ہو، اگر شرکاء مجلس کی تعداد اتنی ہے کہ آپ کے گھر میں سما سکیں تو کوشش کریں کہ گھر میں ہی مجلس برپا کریں یا اگر تعداد زیادہ ہوتو امام بارگاہ یا کسی ہال میں مجلس منعقد کی جائے۔ خصوصاً جب ایک ہی محلے میں کئی جگہ شامیانے اور قناتیں لگادی جائی تو پریشانی کا سامنا اہل محلہ مومنین کو ہی ہوتا ہے۔ خاص ایام میں مثلا ۸ سے ۱۰ محرم جب مجالس کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے یقینا اہل محلہ کے ذہن بھی اس حوالے سے آمادہ ہوتے ہیں لیکن عام دنوں میں اس امر کی رعایت کرنی چاہئے تاکہ لوگوں کو کسی پریشانی کا سامنا نہ ہو۔
۳۔ صفائی ستھرائی: ویسے ہی اس معاملے میں ہم دیگر اقوام سے بہت پیچھے ہیں، کراچی جیسے شہر کی بات کرلیں تو گٹر کا پانی اور کچرا جگہ جگہ نظر آئے گا اور بارشوں سے اس گندگی میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ کوشش کریں کہ ایام عزا میں کم از کم اپنے علاقے اور گلیوں کی حد تک صفائی ستھرائی کا خیال رکھیں۔ اس کے لئے مجالس اور سبیلوں کے مقام پر کچرے دان رکھے جائیں اور گلیوں میں مجالس کے بعد صفائی کا اہتمام کیا جائے۔
خداوند متعال ہمیں عزداری کو زیادہ سے زیادہ منظم انداز میں اور پھرپور طریقہ سے برپا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
بیان ہوا کہ کس طرح عزاداری کی مضبوط موثر ثقافت آہستہ آہستہ بے تاثیر عوامل کی جانب جارہی ہے۔
ثقافت یقیناً ایک ثابت شیء نہیں ہے جو گذر زمان کے ساتھ تبدیل نہ ہوسکے یا حتی تبدیل نہ کی جاسکے لیکن ہر تبدیلی مثبت ہو یہ بھی لازمی نہیں اور نہ ہی تیزی سے چیزوں کا تبدیل ہونا مثبت اثر رکھتا ہے؛ ثقافتی تبدیلی ایک وقت کا تقاضہ کرتی ہے۔
لہذا نہ ہی ماضی کی ہر رسم و رواج کو صحیح گردانا جاسکتا ہے اور نہ ہی ہر طور طریقے کو جدت کے نام پر تبدیل کیا جاسکتا ہے، بلکہ کوشش کی جائے کہ چیزوں کو مزید بہتر اور موثر انداز میں برپا کیا جائے۔
ایک ایک مسئلہ اس روح کا باقی رہنا ہے جو ایام عزا میں شیعہ معاشرے پر حاکم تھی۔ ایام عزا کی ایک بنیادی روایت سادگی اور غم کی فضا ایجاد کرنا ہے۔ ماضی میں کھانا پینا، رہن سہن، آنا جانا، لباس و گفتگو سب کچھ محرم آتے ہی سادگی و غم کو نمایاں کیا کرتا تھا جس میں آج کمی محسوس کہ جارہی ہے۔ گھروں اور محلوں کو سیاہ جھنڈوں سے مزین کرنا، سیاہ لباس پہننا، سبیلوں کا اہتمام یہ شعائر حسینی ہیں انکا بھرپور اہتمام کیا جائے۔
گھروں میں ایسا ماحول ہو کہ بچے احساس کریں گویا کسی خاص مہمان کی آمد ہے ایسا مہمان کہ ایک جانب دل اسکی آمد کے لئے بے تاب ہے تو دوسری جانب اداس و غمگین۔ انہیں بچوں کی مجالس عزا برپا کرنے کی ترغیب دیں، عمومی مجالس میں ان سے زیادہ سختی سے پیش نہ آئیں، کوشش کریں کربلا والوں کے فضائل اور ایسی مصیبتیں جو بچوں کے لئے گراں نہ ہوں وہ انکے لئے بیان کریں۔ بچوں کو تفریحی امکانات کا بدلے انکے لئے کربلا اور اہل بیت علیہم السلام سے متعلق فلمیں، انیمیشن اور داستانوں وغیرہ کو مہیا کریں۔
صرف گھر والوں پر مشتمل مختصر مجالس عزا کا اہتمام بھی گھر کی فضا کو منور کرنے کے لئے بہت مفید ہے؛ چند آیات کی تلاوت، آئمہ علیہم السلام بالخصوص امام حسین علیہ السلام کے اقوال، مختصر مصیبت و نوحے کے چند بند۔
اجتماعی افعال میں ایک ہدف دوسروں تک بات پہنچانا اور تبلیغ ہوتی ہے، اسے ریاکاری مت سمجھیں۔ سیاہ لباس، جلوسہائے عزاداری، گلی محلوں کو سیاہ پارچوں سے مزین کرنا یہ سب تحریک کربلا کے پیغام کی تبلیغ کا وسیلہ ہیں۔ روایات میں امام حسین علیہ السلام پر رونے، رلانے حتی رونے جیسے صورت بنانے کا جو حکم دیا گیا ہے وہ اسی سبب ہے۔
خدا وند متعال ہم سب کو عزاداری امام حسین علیہ السلام کے طفیل امام کی تحریک کے حقیقی سپاہیوں میں شمار فرمائے۔ وارث و منتقم کربلا امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور می تعجیل فرمائے، ہمیں انکے اعوان و انصار میں شمار فرمائے۔ آج انقلاب اسلامی اور مقاومتی محاذ کی شکل میں دنیا میں بلند پرچم حسینی کو مزید سربلندی عطا فرمائے؛ بحق الحسین و اولاد الحسین و اصحاب الحسین علیہم السلام
سید محمد روح اللہ رضوی
۲۹ ذی الحجہ ۱۴۴۳
علامہ سید روح اللہ رضوی نزیل حوزہ علمیہ قم المقدسہ ایران ایک نوجوان عالم دین ہیں، آپ مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ جدید علوم سے مزین ہیں اور سماجی و معاشرتی موضوعات پہ ایک گہری نظر رکھتے ہیں،