مولانا غلام حسین نعیمی شہید
مولانا غلام حسین نعیمی شہید اپنی طرذ خطیب عمدہ بیاں تھے، اردو اور پنجابی کے حسین امتزاج سے جب آپ خطاب کرتے تھے آپ کے ایک ایک جملے سے مودت محمد و آلِ محمد ع کی سچائی ٹپکتی تھی، آپ نے 16 نومبر 1991ء کو سفاک دہشت گردوں کے قاتلانہ حملہ میں جام شہادت نوش کیا، آپ کی برسی کے موقع پر برادر نثار علی ترمذی کی تحریر (سید انجم رضا)
تحریر: سید نثار علی ترمذی
میرے محسن پروفیسر مولانا ظفر حسن ظفر ایم اے راوی ہیں کہ جامعہ المنتظر لاہور میں وفاق العلماء شیعہ پاکستان کا مرکزی کنونشن جاری تھا۔ مولانا غلام حسین نعیمی نے اپنے کالے رنگ کے سفری بیگ میں سے اپنی مجالس کی کتاب ” نعیم الابرار ” کی نئی جلد نکال کر چند علماء کو پیش کی جن میں علامہ محمد حسین ڈھکو صاحب بھی شامل تھے۔ ایک مولانا صاحب ان کے پیچھے پڑ گئے کہ ایک نسخہ نعیم الابرار کا اسے بھی دیا جائے مگر آپ مسلسل انکار و معزرت کرتے رہے۔ آخر تنگ آ کر مانگنے والے مولوی صاحب نے کہا نعیمی صاحب تہاڈی کتاباں پڑھدا ہی کون ہے، اس ویچ ہوندا ہی کیہ ہے۔ مولانا غلام حسین نعیمی نے مسکراتے ہوئے کہا تشیع پاکستان کے سب سے بڑے عالم دین میری کتابیں پڑھتے ہیں اگر شک ہے تو علامہ محمد حسین ڈھکو صاحب کا بیگ کھول کر دیکھ لیں میری کتاب ان کے بیگ میں بھی ہے۔ یہ فی البدیہ جواب سن کر اردگرد بیٹھے ہوئے دیگر علماء مسکراتے رہے اور کتاب مانگنے والا مولوی اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بہت سے خطیب و ذاکرین آپ کی مجالس کی چار، جلدوں پر مشتمل کتاب سے استفادہ کر کے اپنی مجالس تیار کرتے تھے۔
یہ میرے بچپن کی بات ہے کہ ہمارے گاؤں میں ایک سادات گھرانہ آباد تھا جو جالندھر کے علاقے سے تھا۔ جہاں گاؤں میں کسی دور میں ہمارا ڈیرہ ہوا کرتا تھا پیپل والا، اسی جگہ ان کی رہائش تھی۔ انہوں نے دو علماء سے ہمارے گاؤں میں مجالس سے خطاب کروایا تھا جن میں مناظر علامہ محمد اسماعیل فاضل دیوبند اور علامہ غلام حسین نعیمی شہید سے۔ علامہ نعیمی شہید بعد میں بھی متعدد مرتبہ ہمارے گاؤں “.شیخن ” میں خطاب کرنے آئے تھے۔ آپ کی مجلس کا ایک نکتہ ابھی یاد ہے۔ آپ غدیر پڑھ رہے تھے تو پالانوں کا منبر بنانے کی وجہ بتاتے ہوئے کہنے لگے کہ اس میں انفرادیت ہے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا اگر یہاں پر کرسی میز کی جگہ ” گھڑونجی ” رکھی ہوتی اور اس پر چڑھ کر تقریر کرتا، لوگ میرا نام بھول جائیں گے، تقریر بھول جائیں گے مگر میرا گھڑونجی پر کھڑے ہو تقریر کرنا کبھی نہ بھولیں گے۔ انہوں نے صاف سرائیکی زبان میں یہ بات کی جو آج بھی مجھے یاد ہے۔
ولادت۔ 14, دسمبر 1924ء
آپ نے مڈل تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی۔ ابتدائی دینی تعلیم مقامی سطح پر حاصل کی۔پھر جامعہ رشیدیہ، ساہیوال میں داخلہ لے لیا۔ تین سال سندیلوالی، فیصل آباد میں تعلیم حاصل کی۔ یہاں دربار سید قطب علی شاہ میں سید اسرار حسین شاہ کے مرید ہو گئے۔ 21, اگست، 1954ء کو اپنے شیعہ ہونے کا اعلان کیا۔ 1956ء میں ایک سال سے کچھ زیادہ عرصہ جامعہ المنتظر، لاہور میں پڑھتے رہے۔ ساہیوال میں میں پیش امام ہو گئے بعد ازاں عارف والا میں بھی خطیب رہے۔ کچھ عرصہ نجف اشرف، عراق بھی تشریف لے گئے۔ آپ کے اساتذہ میں سے علامہ شیخ اختر عباس مرحوم اور علامہ سید صفدر حسین نجفی مرحوم کے نام نمایاں ہیں۔
آپ نے نے اپنے خاندان کے تقریباً دو سو سے زائد افراد کو مزہب شیعہ قبول کروایا۔ اس کے علاؤہ بہت سے مناظرے بھی کیے اور بہت سو کو مذہب شیعہ سے آشنا کروایا۔ کئی مناظروں میں کامیابی حاصل کی۔ ایک اشتہار شائع کیا جس میں تین سوال پوچھے گئے تھے جس کے جواب بھی لکھے اور شائع کیے گئے۔
1- تحفہ الاخیار از مولانا محمد مہر، گوجرانولہ
2- کشف الاسرار از مولانا محمد صدیق، فیصل آباد
3- ماہنامہ ضیائے حرم از پیر کرم شاہ الازہری بھیروی
4- موثر مدافعت از مولانا نور الحسن شاہ
آپ نے تبلیغ کے تمام ذرائع استعمال کئے، تحریر، تقریر اور تدریس۔ آپ کی آسان سادہ زبان میں کی گئی گفتگو عام لوگوں کے فہم کے مطابق تھی۔ کسی دور میں منبر پر آپ کا نام گونجتا تھا۔ عام ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے۔ علماء کرام سے رابطے میں رہتے اور سیکھتے رہتے۔
16, نومبر، 1996ء کو آپ کی قائم کردہ مسجد میں شہید کردیا گیا۔
آپ کی پہلی نماز جنازہ مولانا غلام شبیر شیرازی، پرنسپل جامعہ فاطمیہ، رینالہ خورد، اوکاڑہ نے بلدیہ گراؤنڈ، ساہیوال میں پڑھائی دوسری نماز جنازہ ان کے مدرسے نعیم الواعظین میں علامہ شیخ محمد رضا غفاری، پرنسپل، جامعہ عزیز المدارس، چیچہ وطنی نے پڑھائی۔ آپ اپنے مدرسے میں ہی آسودہ خاک ہیں۔ حق مغفرت کرے آمین ثم آمین۔
آپ کے دو فرزند عالم دین ہیں جن میں سے ایک شہید ہیں۔ مولانا نزیر احمد عباس نعیمی شہید 19, اکتوبر،2001ء وہاڑی کے گاؤں میں شہید کر دئے گئے۔ آپ جامعہ المنتظر، لاہور کے طالب علم، علامہ صفدر حسین نجفی مرحوم کے شاگرد اور آیت اللہ حافظ بشیر حسین نجفی کے ہم جماعت تھے۔
نوٹ۔ آپ کے حالات زندگی پر ایک تحریر فیس بک پر موجود تھی جسے ذیل میں دیا جا رہا ہے۔
ماخذ۔ 1-تذکرہ علمائے امامیہ از سید حسین عارف نقوی
2- شہدائے محراب و منبر پاکستان از مولانا شہنشاہ حسین نقوی، محمد جعفر خاک بھٹی۔
( بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
وَلَا تَحْسَبَنَّ ٱلَّذِينَ قُتِلُواْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ أَمْوَٰتًۢا ۚ بَلْ أَحْيَآءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ
عہدسازشخصیت
علامہ غلام حسین نعیمی شہید مسجد
روزِ شہادت 16 نومبر 1991ء در مسجد حیدریہ ساہیوال
عالمی شہرت یافتہ, خطیب بے مثال,حجۃ الاسلام والمسلمین, استاذالواعظین, سرکار نعیم الملت علامہ غلام حسین نعیمی شہید ابن چوہدری جان محمد کمبوہ (اعلی اللہ مقامہ و نورمرقدہ)
1924ءتا1991ء(67 سال)
بانی/ادارہ جات
1- اعلان شیعیت سے پہلے قبلہ شہید نے وہاڑی شہر کے وسط(مرکز) میں اک مسجد تعمیر کروائی اور اس کے تا اعلان شیعیت خطیب رہے جوکہ جامع مسجد مولوی خادم حسین کے نام سے مشہور تھی بعدازاں نام تبدیل کیا گیا جامع مسجد باغ والی وہاڑی (واضح رہے کہ علامہ صاحب قبلہ کا پہلے نام خادم حسین تھا جو انہوں نے تبدیل کرکے غلام حسین نعیمی رکھا)
2- محمدیہ ہائی سکول (بنیاد:1965ء) چک 62 وہاڑی تب کچاکھوہ سے وہاڑی تک پورے علاقہ میں سکول نا تھا تب ایک ادارہ عصری تعلیم کیلئے قائم کیا جوکہ بعدازاں 1971ء میں گورنمنٹ سے نیشنلائزڈ کروایا اور ابتک گورنمنٹ محمدیہ ہائی سکول کے نام سے علاقہ میں لوگوں کی علمی پیاس بُجھا رہا ہے
2- مسجدحیدریہ (بنیاد:1962ء) جی ٹی روڈ ساہیوال(اسی مسجد میں 16 نومبر 1991ء کو سفاک دہشت گردوں کے قاتلانہ حملہ میں جام شہادت نوش کیا)
3- جامع مسجد مدرسہ و امامبارگاہ حیدریہ (بنیاد1968ء) چک62 وہاڑی (یہاں باقی برادران مولانا عاشق حسین ثقلین کمبوہ, غلام عباس کمبوہ, غلام شبیرکمبوہ, چوہدری اللہ بخش(المعروف بختاور)کمبوہ اور بعدازاں بابا محمد صدیق کمبوہ شامل رہے)
4- دینی علوم کیلئے
جامعہ علویہ نعیم الواعظین(بنیاد:1987ء) 94/6 آر ساہیوال
5- جامعہ رضویہ عزیز المدارس چیچہ وطنی ضلع ساہیوال کے ممبران بانیان میں بڑے متحرک و سرگرم رہے
6- جامعہ فاطمیہ رینالہ خورد اوکاڑہ کے ممبران بانیان میں پیش پیش تھے
انکی گراں قدر تحقیق و تالیف جو ملت کیلئے اثاثہ ہیں👉
1- نعیم الابرار (4 جلد)
2- اثبات علیٌْ ولی اللہ
3- میں کیوں شیعہ ہوا
4- ہم کیوں شیعہ ہیں
مشہور و معروف چند شاگردان کے اسمائے گرامی
1- فرزند نعیم الملت
مناظراسلام علامہ نذیر احمد عباس شہید ملت جعفریہ- وہاڑی
2- مولانا سید دبیر حسین نقوی صاحب
3- مولانا فداحسین نعیمی صاحب کسووال
4ہیڈ ماسٹر غلام عباس خان بلوچ جھنگ
5مولانا یوسف حیدر ثقلین صاحب بانی و مہتمم جامعہ نورالقرآن اسلام آباد(متعدد کتب کے مصنف)
6- مولانا ماسٹر ملازم حسین صاحب ٹوبہ ٹیک سنگھ
7- مولانا ماسٹر مومن علی صاحب چیچہ وطنی
8- فرزند نعیم الملت مولانا بشیر احمد عابد صاحب ریٹائرڈ سنئیر ایجوکیشن آفیسر ساہیوال
9- مولانا سید شبیر حسین شبر صاحب
10- مولانا سید اقرار حسین صاحب اوکاڑہ
11- مولانا محمود حسین برگ صاحب لاہور
12 مولانا اکبر علی صاحب گگو منڈی