قومیات میں عجب کرپشن کی غضب کہانی

شیعہ ملی اداروں کو ذاتی ملکیت میں بدلنے، صاف شفاف ملی مالیاتی نظام کا فقدان اور قومیات میں مالی بدعنوانی وہ موضوعات ہیں، جن کی طرف راقم وقتاً فوقتاً متوجہ کرتا رہا ہے۔ حال ہی میں ایک مرتبہ پھر ملت جعفریہ پاکستان کے متدین و سرکردہ احباب کی طرف سے ایک اہم سوال اٹھایا گیا ہے کہ ملی جماعتوں و اداروں پر چند افراد کی اجارہ داری کیوں ہے؟ ملی جماعتوں اور قومی اداروں پر ملت کے دروازے کیوں بند کر دیے گئے ہیں؟ ملی اداروں کو ذاتی جاگیروں میں کیوں بدل دیا گیا ہے؟

راقم کی نظر میں اس مسلے کی بنیادی وجہ مخصوص گنے چنے افراد ہیں، جن کا روزگار قومیات و ملی اداروں سے وابستہ ہے، انھوں نے ملی جماعتوں و اداروں کو ذاتی ملکیت میں بدل دیا ہے۔ وہ ان ملی تنظیموں و اداروں کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں، اس لیے وہ اپنے مخصوص سرکل سے باہر افراد کو ملی اداروں میں شامل نہیں ہونے دیتے۔ اس کے ساتھ یہ افراد پاکستانی اسٹبلشمنٹ کی طرح قومی جماعتوں میں کنٹرولڈ جمہوریت چاہتے ہیں، جس کے تحت رسمی الیکشن میں پہلے سے طے شدہ افراد کو مخصوص عہدوں پر فائز کر دیا جاتا ہے۔ یہ عناصر ملی تنظیموں و اداروں میں صاف و شفاف مالیاتی نظام بھی قائم نہیں ہونے دیتا۔

تحقیق کے مطابق،، چند افراد نے الگ الگ ذاتی ڈونرز کا ایک نیٹ ورک بنایا ہوا ہے، جن سے یہ ملت کے نام پر فنڈز حاصل کرتے ہیں، خمس کے نام پر بھی بڑے عطیات وصول کیے جاتے ہیں۔ مرکزی صاف و شفاف مالیاتی نظام نہ ہونے کی وجہ سے ان فنڈز کی آمد و خرچ کا کوئی حساب نہیں ہوتا۔ مخصوص افراد مختلف مذہبی، سیاسی، سماجی و تحقیقاتی اداروں کے لیے فنڈز وصول کرتے ہیں، یہ فنڈز یا تو ان کے ذاتی بینک اکاونٹس میں ٹرانسفر ہوتے ہیں، کیش کی صورت فنڈنگ کی جاتی ہے، یا ایسے ٹرسٹوں میں فنڈز ٹرانسفر ہوتے ہیں، جن کے ٹرسٹی ٹرسٹ کے بانی کے بیٹے، بیٹیاں، داماد و دیگر قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں۔

 مرکزی صاف و شفاف مالیاتی نظام کے فقدان کی وجہ سے پیدا ہونے والی مالی بدنظمی نے مالی بدعنوانی کو جنم دیا ہے۔ جس سے پاکستان میں ایک کرپٹ شیعہ اشرافیہ پیدا ہوئی ہے، جو سمندر پار مومنین سے ملت تشیع پاکستان کے نام پر بھاری فنڈز وصول کرتے ہیں اور ان فنڈز کو ذاتی مقاصد و اثاثے بنانے میں استعمال کرتے ہیں۔ ایسے کرپٹ عناصر آپ کو اپنے اردگرد نظر آئیں گے، جن کا کوئی روزگار یا کام کاروبار نہیں، لیکن انھوں نے پچھلی کئی دہائیوں سے ملی وسائل میں خیانت سے بڑے اثاثے بنائے ہیں، جن کی تفصیل اگر عوام کے سامنے رکھی جائے تو لوگ دین سے ہی متنفر ہو جائیں گے۔

 یہ کرپٹ عناصر جن کی طرف تشیع پاکستان مسائل کے حل کے لیے دیکھتے ہیں، دراصل ملت کے مسائل کی بنیادی وجہ ہیں، کیونکہ ذاتی مفادات کی وجہ سے یہ ملت کو منظم و متحرک نہیں ہونے دیتے، یہ ‘اسٹیٹس کو’ برقرار رکھنا اور اس حد تک فعالیت چاہتے ہیں کہ ان کی بنائی ہوئی ذاتی دکانیں چلتی رہیں، ملت کے مسائل سے انھیں غرض نہیں۔ اس لیے فرقہ وارانہ دہشت گردی کے مسائل ہوں، یا دیگر فکری، سیاسی ، سماجی و معاشی مسائل، وہ مقامی سطح پر اپنی مدد آپ کے تحت حل کیے جاتے ہیں، اور ان ملی تنظیموں و اداروں نے بظاہر ان سے لاتعلقی کا اعلان کر رکھا ہے۔

کرپشن کی سیکڑوں کہانیوں میں سے صرف تازہ ترین پر نظر ڈالتے ہیں۔ پچھلے دس پندرہ سال میں گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک مولانا  جو اسلام آباد میں ایک ملی تنظیم میں کافی متحرک رہے۔ اُس وقت وہ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں رہتے تھے، دس پندرہ ہزار کرایہ بھی شاید وہ اپنی جیب سے ادا نہیں کرتے تھے۔ پھر اچانک ان کی قسمت چمک اٹھی، اب وہ مولانا بلستان میں ہیں، درجن بھر لگژری گاڑیوں کی ایک لمبی قطار کے پروٹوکول میں سفر کرتے ہیں، وسائل کی ریل پیل پر جب جی بی کے لوگوں نے سوال اٹھایا کہ پیسہ کہاں سے آیا تو انھوں نے جی بی کے شیعہ عوام کو گالیوں سے نوازا۔ موصوف پر بڑے پیمانے پر مالی ہیر پھیر کا بھی الزام ہے اور درجنوں لوگ دھوکہ دہی اور رقم میں ہیرا پھیری کا الزام بھی عائد کر رہے ہیں۔

پچھلے بیس سال میں بظاہر انتہائی متحرک ایک غیرمعمم تنظیمی فرد نے مبینہ طور پر کروڑوں روپے کے اثاثے بنائے، حالانکہ انھوں نے رزق حلال کی خاطر اپنے پروفیشن میں ایک دن بھی کام نہیں کیا، اور یہ کہ زمانہ طالب علمی اور بعد ازاں ملی تنظیم کے قیام کے ابتدائی دنوں میں، وہ پیدل سفر کیا کرتے تھے۔ کہاں سے آئے یہ وسائل ؟ یہ ملی وسائل ہی ہیں، جن پر چند افراد نے ڈاکہ ڈال کر ذاتی اثاثے بنائے ہیں۔

دو مولانا صاحبان اور ان کے خاندانوں نے پاکستان میں پچھلے چالیس سال میں ملی وسائل سے اپنی اپنی بزنس ایمپائر کھڑی کی ہے۔ ایک اور کیس میں اربوں روپے مالیت کی قومی زمیں پر دو مولانا حضرات کے بیٹوں نے رہائشی منصوبہ شروع کر رکھا ہے۔

افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس کرپشن پر کوئی بات نہیں کرتا، ایسے خائن لوگوں کا سماجی بائیکاٹ کرنے کے بجائے شیعہ سماج میں انھیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ملی وسائل میں غبن کو ایک نارمل عمل کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے، جو کہ ملت کے فکری زوال کا ثبوت ہے۔ عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ بڑے بڑے دین دار حضرات جانتے بوجھتے ذاتی مفادات کی خاطر کرپٹ عناصر کے قریب ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح وہ بھی ان کے جرم میں شریک ہو جاتے ہیں۔ آخر شیعہ سماج ، بلخصوص تنظیمی احباب ان کرپٹ افراد کا سماجی بائیکاٹ کر کے انھیں اپنے سنگین جرم کا احساس کیوں نہیں دلاتے؟

اصلاح کا عمل قومیات میں مالی بدعنوانی کو ایک سنگین جرم تصور کرنے سے شروع ہو گا، اس وقت مالی بدعنوانی و خیانت کو ایک معمول کا عمل سمجھ کر قبول کر لیا گیا ہے۔ قومیات میں مالی بدعنوانی کے خلاف شعور بیدار کرنا ہوگا، آمدن سے زائد اثاثوں اور زرائع آمدن پر سوال اٹھانا ہوگا؟ کرپٹ عناصر کا سماجی بائیکاٹ کرنا ہوگا، تنظیموں و ملی اداروں کو دستور و پروسس کے تحت چلانا ہو گا، مسولین کے لیے جملہ اثاثے عوام کے سامنے ظاہر کرنے کی روایت ڈالنی ہوگی، شخصیات پر مکمل انحصار کرنے والے ملی اداروں و تنظیمات سے پروسس بیسڈ آرگنائزیشنز کی طرف سفر کرنا ہوگا۔ مالیات و آڈٹ کا صاف و شفاف نظام وضع کرنا ہوگا، ہر سطح پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام بنانا ہوگا، اختیارات کو چند ہاتھوں میں مرتکز کرنے کے بجائے، بااختیار ملی اداروں کو سپرد کرنا ہوگا، جو اجتماعی دانش کے تحت اہم ملی امور پر فیصلے کر سکیں۔

مثبت تبدیلی کے لیے سب سے پہلےہمیں بدعنوانی کی حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اسے ایک معمول کا عمل سمجھ کر قومیات میں قبول کرنا پاکستان کی تشیع کے لیے زہرقاتل ثابت ہو رہا ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف مال امام میں خرد برد ہو رہی ہے، بلکہ دینی تربیت یافتہ افراد کو بھی مالی بدعنوانی تیزی سے نگل رہی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں