ایران کا ممکنہ جوہری پروگرام: ترقی، علاقائی و بین الاقوامی اثرات اور مسقط میں ایران-امریکہ جوہری مذاکرات کے تناظر میں

**تحریر و تجزیہ: سید نوازش رضا**
ایران کا جوہری پروگرام گزشتہ دو دہائیوں سے بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ 2023-24 کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران نے جوہری ٹیکنالوجی میں نمایاں ترقی کی ہے، خاص طور پر یورینیم افزودگی کے شعبے میں۔ اس وقت ایران 60 فیصد تک افزودہ یورینیم تیار کر رہا ہے، جو جوہری ہتھیاروں کے لیے درکار 90 فیصد افزودگی کے قریب ہے۔ اگر یہی رفتار برقرار رہی، تو موجودہ سال 2025 میں ایران کے پاس کئی جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لیے کافی مواد موجود ہوگا۔
امریکہ، اسرائیل اور یورپی ممالک اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ایران تکنیکی طور پر جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن وہ اسے کھلے عام تسلیم کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ اس مضمون میں ایران کے جوہری پروگرام کی موجودہ صورتحال، علاقائی و عالمی اثرات اور مسقط میں ہونے والے ایران-امریکہ مذاکرات کے ممکنہ نتائج کا جائزہ لیا گیا ہے۔
*ایران کا جوہری پروگرام: موجودہ صورتحال*
*1. یورینیم افزودگی کا معیار**
– ایران فی الحال تیزی کے ساتھ 60 فیصد تک یورینیم افزودگی کر رہا ہے۔
“تمام بین الاقوامی ادارے اور معتبر تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ ایران نے جس تسلسل اور برق رفتاری کے ساتھ جوہری ترقی کی راہ پر قدم بڑھائے ہیں، اور اس نے یہ رفتار برقرار رکھی ہوئی ہے تو اب 2025 ایران کے پاس کئی جوہری ہتھیار بنانے کے لیے درکار مواد موجود ہوگا۔”
*2. جوہری معاہدوں کی صورتحال*
– جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (JCPOA) پر مذاکرات امریکہ کے یکطرفہ اس سے نکل جانے کے بعد 2023 سے اب یعنی 2025 تک جامد ہیں
اگر کوئی نیا معاہدہ نہ ہوا، جو ایران کو بھی قابل قبول ہو ، تو۔۔۔ ایران اپنے جوہری پروگرام کو مزید تیز کر سکتا ہے۔
3- آئی اے ای اے International Atomic Energy Agency کی نگرانی کو محدود اجازت۔
ایران نے انٹرنیشنل ایٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) کے انسپکٹرز تک رسائی محدود کر رکھی ہے۔ ایران کو شک ہے کہ ان اداروں کے ذریعے امریکہ اور اسرائیل کے لیے جاسوسی کی جاتی ہے۔
2024 تک ایران نے ان اداروں کی سرگرمیوں کو مزید محدود کر دیا، جس سے ایران کی جوہری سرگرمیوں کا جائزہ لینا مشکل ہو گیا۔
*ایران کے اہم جوہری مراکز:*
*1. نطنز (Natanz) جوہری مرکز*
– زیر زمین جوہری پروگرام یورینیم افزودگی کا سب سے بڑا مرکز ہے جہاں پر حال ہی میں ایران نے جدید IR-6 سینٹرفیوجز کی تنصیب کی ہے
*2. فوردو (Fordow) خفیہ مرکز*
– یہ پہاڑوں کے اندر 20% اور 60% افزودہ یورینیم کی تیاری کی صلاحیت رکھتا ہے اسکی خصوصیت یہ ہے کہ یہ قدرتی طور پر محفوظ مقام پر ہے۔
*3. آراک (Arak) بھاری پانی کا ری ایکٹر*
یہ پلوٹونیم پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے
*4. اصفہان (Esfahan) جوہری تحقیق مرکز*
یورینیم کنورژن اور تجربات کرنے میں اسکا بڑا کردار ہے
اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ جوہری ٹیکنالوجی کی تحقیق میں مہارت رکھتا ہے
*5. بوشہر (Bushehr) جوہری بجلی گھر*
روس کے تعاون سے چلنے والا سول ری ایکٹر 1,000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش اور صلاحیت رکھتا ہے
*6. شیراز جوہری ریسرچ سینٹر*
زیرزمین جوہری مرکز ہے جو طبی تحقیق اور ریڈیو فارماسیوٹیکلز پر کا کررہا ہے
*7. کرج نیوکلیئر ریسرچ سینٹر*
جوہری ایندھن کی تحقیق اور جوہری سائنسدانوں کی تربیت گاہ ہے
*8. لشکرآباد لیبارٹری*
خفیہ جوہری تحقیق مرکز جہاں IAEA کو رسائی نہیں
*9. چابہار جوہری ری ایکٹر منصوبہ*
پاکستان کے قریب چین کے تعاون سے زیر تعمیر ہے
*10. یزد جوہری ریسرچ کمپلیکس*
یہ جوہری فضلے کا انتظام یعنی تابکار مادوں کی ری سائیکلنگ
کرتا ہے
*2025 میں ممکنہ پیش رفت*
– جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا فیصلہ کن مرحلہ:ایران کے پاس تکنیکی صلاحیت موجود ہے، لیکن سیاسی فیصلہ باقی ہے۔ کیونکہ ایران کے رہبر اعلی سید علی خامنہ ای واضح طور پر اعلان کرتے ا رہے ہیں کہ ایٹمی ٹیکنالوجی کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرنا حرام ہے۔
لیکن۔۔۔
اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے حملہ اور اور غیر ضروری دباؤ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے پر مجبور کر سکتا ہے۔
*کیا ایران جوہری ہتھیار بنانے کا اعلان کرے گا؟*
ایران نے ہمیشہ کہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف سول مقاصد کے لیے ہے۔ سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کو حرام قرار دیا ہے۔ تاہم، ایران *”جوہری ابہام”* کی پالیسی اپنا سکتا ہے، جس میں وہ اپنی صلاحیت کا کھلے عام اعلان نہیں کرے گا، لیکن اشاروں میں یہ ظاہر کرے گا کہ اس کے پاس جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔
“ایران کی جوہری سرگرمیوں کا بغور جائزہ لینے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ وہ دانستہ طور پر ایٹمی دھماکہ کرنے سے گریز کر رہا ہے، حالانکہ اس کے پاس ایسی تکنیکی صلاحیت موجود ہے جو اسے یہ اقدام اٹھانے کے قابل بناتی ہے۔ ایران کی حکمتِ عملی دراصل ایک سوچا سمجھا توازن ہے، جس میں وہ ‘جوہری دہلیز’ تک پہنچ کر اپنی طاقت کا اظہار کرتا ہے مگر اس دہلیز کو عبور نہیں کرتا۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی سے بچتے ہوئے، سیاسی اور اسٹریٹیجک فائدہ حاصل کرے۔ یورینیم کو 60 فیصد سے زائد مقدار میں افزودہ کرنا اور جدید ترین سینٹری فیوجز کی تنصیب، ایسے اقدامات ہیں جو دنیا کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ایران کسی بھی وقت اپنی صلاحیت کو مکمل ہتھیار میں بدلنے کی پوزیشن میں ہے، اگر ضرورت پیش آئے۔ اس خاموش مگر واضح پیغام کے ذریعے ایران نہ صرف اپنی باز deterrence policy کو مستحکم کر رہا ہے بلکہ مذاکرات کی میز پر بھی اپنی پوزیشن مضبوط کر رہا ہے۔”
– ہائپرسونک میزائل ٹیسٹ کرنا۔
– جوہری سائنسدانوں کے مبہم بیانات (“ہم ضرورت پڑنے پر تیار ہیں”)۔
ایران کا “جوہری ابہام” برقرار رہنے کا امکان سب سے زیادہ ہے۔ وہ کھلے عام جوہری ہتھیار بنانے کا اعلان نہیں کرے گا، لیکن اپنی صلاحیت کو خفیہ طور پر ترقی دے گا تاکہ دشمنوں کو ڈرا کر اپنی سیکورٹی یقینی بنائی جا سکے۔
*ایران کا “قومی جوہری ٹیکنالوجی ڈے” اور اثرات*
ایران نے 9 اپریل 2025 کو “نیشنل نیوکلیئر ٹیکنالوجی ڈے” کے موقع پر تہران میں واقع ایٹامک انرجی آرگنائزیشن آف ایران (AEOI) کے صدر دفتر میں ایک بڑی نمائش کا انعقاد کیا، جس میں اس نے اپنی جدید ترین جوہری کامیابیوں کو نمایاں کیا۔ جس میں
1. جدید سینٹری فیوجز:
جس میں IR-9 جدید سینٹری فیوج کی نقاب کشائی کی گئی، جو پچھلے ماڈلز سے 50 گنا زیادہ موثر ہے اور بہت تیزی سے یورینیم کو افزودہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
2. خفیہ زیرزمین مرکز:
شیراز کے قریب ایک نئی زیر زمین نیوکلیئر تنصیب کا انکشاف کیا گیا، جسے “ماحولیاتی تحفظ اور سکیورٹی” کے جدید اصولوں کے مطابق ڈیزائن کیا گیا ہے۔
3. طبّی میدان میں پیش رفت:
ایران ساختہ ریڈیو فارماسیوٹیکلز متعارف کرائے گئے جو کینسر کے علاج اور تھراپی میں استعمال ہوں گے۔
پولیو ویکسین کی تیاری میں بھی جوہری ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا۔
4. توانائی کے شعبے میں ترقی:
بوشہر-2 جوہری بجلی گھر کے منصوبے پر پیش رفت دکھائی گئی، جسے روسی تعاون سے 2030 تک مکمل کرنے کا ہدف ہے۔
تھوریم (Thorium) ایک قدرتی طور پر پایا جانے والا تابکار دھات ہے، جو جوہری ایندھن (nuclear fuel) کے طور پر یورینیم کا متبادل بن سکتا ہے۔ پر مبنی توانائی کے منصوبوں پر تحقیق کی جھلک بھی پیش کی گئی۔
5. زرعی و صنعتی کامیابیاں:
جوہری تابکاری کے ذریعے خشک سالی سے بچنے والی گندم کی اقسام متعارف کرائی گئیں، جو کم پانی میں اگ سکتی ہیں۔
نانو ٹیکنالوجی کی مدد سے صنعتی اشیاء کی پائیداری بڑھانے پر کام کا اعلان کیا گیا۔
6. خلائی پروگرام میں معاونت:
ایران نے جوہری توانائی سے چلنے والی بیٹریاں تیار کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جو مستقبل کے سیٹلائٹ مشنز میں استعمال ہوں گی۔
ایران نے دنیا کو پیغام دیا کہ
● ٹیکنالوجی میں خودکفالت — پابندیوں کے باوجود سائنسی ترقی ممکن ہے۔
● ایران کا پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے
● ایران اب وہ صلاحیت حاصل کر چکا ہے کہ جب چاہے ایٹمی ہتھیار بنا سکتا ہے.
● ایران کا جوہری پروگرام اب اس سطح تک پہنچ چکا ہے جہاں سے اب واپسی ممکن نہیں ہے.
● “اگر ایران کے خلاف کسی قسم کی فوجی کارروائی کی گئی، تو ایران کی جانب سے بھی انتہائی سخت ردعمل سامنے آئے گا، جس کے اثرات پوری دنیا پر خطرناک حد تک مرتب ہوں گے۔
اسرائیل کے لیے پیغام:
“ہم ٹیکنالوجی میں اتنے قریب ہیں کہ اگر چاہیں تو جوہری ہتھیار بنا سکتے ہیں، اس لیے حملے کی غلطی نہ کرنا”
اسرائیل کے لیے یہ سٹریٹیجک ڈیٹرنس (Strategic Deterrent) ہے، تاکہ اسرائیل کو باز رکھا جا سکے
امریکہ کے لیے پیغام:
“اگر آپ JCPOA پر واپس نہیں آتے یا پابندیاں نہیں اٹھاتے، تو ہم اپنے راستے پر آگے بڑھتے رہیں گے”
ایران یہ بھی باور کروا رہا ہے کہ وہ اب ٹیکنالوجی میں واپسی کے پوائنٹ سے آگے نکل چکا ہے
*اسرائیل اور امریکہ کا ممکنہ ردعمل کیا ہوگا؟*
*اسرائیل:*
ممکنہ طور پر ایران کے سائنسدانوں، تنصیبات یا سپلائی چین کو ہدف بنا سکتا ہے
لیکن:
امریکہ براہ راست فوجی کارروائی سے اس وقت گریز کرے گا، کیونکہ:
یوکرین کا محاذ ابھی کھلا ہے۔ ایران کا جوابی حملہ مشرق وسطیٰ کو آگ میں جھونک سکتا ہے
*ان تمام صورتحال میں امریکہ کا رد عمل کیا ہو سکتا ہے*
-امریکن صدر ٹرمپ صرف جارحانہ بیانات دے سکتا ہے، لیکن امریکہ فوجی کارروائی سے گریز کریں گا
– امریکی اسٹیبلشمنٹ (سی آئی اے، پینٹاگون) سفارتی حل کو ترجیح دے گی۔
*کیا مغرب تسلیم کرے گا کہ ایران واقعی تکنیکی سطح پر آگے بڑھ چکا ہے؟*
*یورپ اور امریکہ، خاص طور پر ان کی انٹیلیجنس ایجنسیاں (جیسے CIA، MI6) ایران کی جوہری پیش رفت پر مسلسل نظر رکھتی آئی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ:
ایران کے پاس یورینیم کو 60% تک افزودہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے (جبکہ ہتھیار کے لیے 90% درکار ہوتا ہے)
ایران نے جدید IR-6 اور IR-9 سینٹری فیوجز بنائے ہیں
ایران نے ریسرچ ری ایکٹرز اور بھاری پانی کی ٹیکنالوجی میں خاطر خواہ پیش رفت کی ہے
اس لیے مغربی انٹیلیجنس دائرے میں یہ بات اب ایک تسلیم شدہ حقیقت بن چکی ہے کہ ایران جوہری ٹیکنالوجی میں ایک اہم مرحلہ عبور کر چکا ہے۔ البتہ وہ عوامی سطح پر اس کو تسلیم نہیں کرتے تاکہ:
ایران پر دباؤ برقرار رکھا جا سکے اور اپنے لاڈلے بچے اسرائیلی مطالبات سے بچا جا سکے کہ “فوری حملہ کرو”
*مسقط مذاکرات:*
12 اپریل 2025 کو مسقط میں ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری مذاکرات ہونے والے ہیں۔ ایران کی جانب سے یہ پیغام واضح ہے: *”ہم اب جوہری صلاحیت میں پیچھے نہیں ہٹیں گے۔”*
“اب سوال یہ ہے کہ امریکہ کیا کرے گا؟ کیا وہ سفارتی ذرائع کے ذریعے JCPOA جیسے معاہدے کی جانب واپسی کا راستہ اختیار کرے گا، یا پھر اپنی سپر پاور حیثیت کا بھرم قائم رکھنے کے لیے مزید دباؤ، اقتصادی پابندیاں اور خفیہ فوجی اقدامات کا سہارا لے گا؟”
“ظاہراً امریکہ کے پاس سفارتی ذرائع کے ذریعے کسی معاہدے تک پہنچنے کے سوا کوئی مؤثر آپشن نظر نہیں آتا، کیونکہ ماضی میں اقتصادی پابندیوں نے ایران پر خاطرخواہ اثر نہیں ڈالا، اور فوجی اقدام دنیا کو ایک ممکنہ عالمی جنگ کی طرف دھکیل سکتا ہے۔”
*حتمی تجزیہ:*
● ایران نے جو کچھ نیشنل ایٹامک ڈے پر دکھایا، اس نے امریکہ کو مذاکرات میں “زور آور مگر متوازن فریق” بننے پر مجبور کر دیا ہے ۔ ٹرمپ زبان سے سخت ہوں گے، مگر اندر سے رعایت کی گنجائش رکھنا پڑے گی، کیونکہ ایران اب “پریشر سے زیادہ ٹیکنالوجی” کی زبان بول رہا ہے۔
● ایران اب ایک مضبوط پوزیشن میں ہے۔ امریکہ کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑ سکتی ہے، کیونکہ ایران کی جوہری صلاحیت اب رول بیک نہیں ہو سکتی۔
● ایران کا جوہری پروگرام اب صرف تکنیکی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک سیاسی اور علاقائی چیلنج بن چکا ہے۔ آنے والے دنوں میں ایران اور مغرب کے درمیان کشمکش جاری رہے گی، لیکن ایران اپنی جوہری صلاحیت کو برقرار رکھنے پر مصمم نظر آتا ہے۔
“*رواں حالات اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی آراء کے مطابق، ایران مسقط مذاکرات کی میز پر ایک طاقتور اور پراعتماد فریق کی حیثیت سے موجود تھا۔”*